ایک جملے میں پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو بے نقاب کرنے والے چک ہیگل 27 فروری 2013ء کو امریکی وزیرِ دفاع کے عہدے پر متمکن ہو چکے ہیں۔ وہ امریکا کے 24 ویں ڈیفنس سیکریٹری بنے ہیں۔ اُن کا تقرر آسان نہیں تھا۔ اسرائیل کے بارے میں اُن کے جو نظریات ہیں، غالباً اِس پس منظر میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے تقرر میں سات ہفتے لگا دیے۔ ممتاز ترین امریکی اخبار ’’دی کرسچین سائنس مانیٹر‘‘ کے واشنگٹن میں متعین ایڈیٹر پیٹر گرائر نے 27 فروری کو چیک ہیگل کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’چک نے امریکی وزیرِ دفاع کا حلف تو اٹھا لیا ہے لیکن کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایک امریکی یونیورسٹی کے خطاب میں بھارت کے بارے میں جن منفی خیالات کا اظہار کیا تھا، کیا اب وہ اِس بارے میں معذرت کریں گے؟‘‘ افسوس پیٹر گرائر ایسا منجھا ہوا اور خود کو غیر جانب دار اخبار نویس کہلوانے والا شخص اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور نہ ہی امریکا میں بھارتی لابی کے اثرو رسوخ سے خود کو نجات دلا سکا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ چک ہیگل کے وزیرِ دفاع بننے پر اسرائیل اور بھارت (جن کے باہمی تعلقات اور پاکستان کے خلاف ایکا کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے) میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، تو یہ کہنا شاید بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان اور افغانستان میں امریکا کو جن حالات کا سامنا ہے اور امریکا عزت و احترام سے جس انداز میں افغانستان سے نکلنے کا متمنی ہے، اِس پیش منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ بارک اوباما صاحب نے کچھ سوچ کر ہی چک ہیگل کو وزارتِ دفاع کا قلمدان سونپا ہے۔ بارک صاحب بڑے سہج کے ساتھ قدم آگے بڑھا رہے ہیں کہ اُنھیں بھی تاریخ میں اپنا مقام بنانا اور خود کو زندہ رکھنا ہے۔
چک ہیگل جو باپ کی طرف سے جرمن اور والدہ کی طرف سے پولش ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ منہ پر بات کرنے میں بہت شہرت یافتہ ہیں۔ یہ وہی چک ہیگل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب America: our next Chapter میں واضح الفاظ میں لکھا: ’’عراق کے خلاف امریکی جنگ امریکی تاریخ کی پانچ بڑی غلطیوں میں سے ایک ہے۔‘‘ ایسے میں چک ہیگل کا بطور وزیرِ دفاع تقرر آسان کیسے رہتا؟ پاکستان، اسرائیل اور افغانستان کے بارے میں اُن کے جو نظریات ہیں، امریکی میڈیا نے اِسے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ’’ٹائم‘‘ میگزین کے کالم نگار برنیڈن فریڈمین نے اپنے آرٹیکل میں لکھا: ’’کتنی حیرت کی بات ہے کہ بطور سینیٹر چک ہیگل نے جتنی تقاریر کیں، اُن میں اسرائیل کا ذکر (تنقید کے معنوں میں) تو 106 مرتبہ کیا گیا، افغانستان کا 24 مرتبہ لیکن ایٹم بم رکھنے والے پاکستان کا ذکر سرے سے گول کر گئے۔‘‘
بی بی سی نے نئے امریکی وزیرِ دفاع کے پس منظر، اُن کے ذہنی میلانات اور اُن کی سیاسی سوچ کا تجزیہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: ’’چھیاسٹھ سالہ ہیگل کو کانگریس میں تلخ بحث کے بعد لیون پینٹا کی جگہ تعینات کیا گیا ہے۔ اُن کا فوجی تجربہ ان کے نئے عہدے میں ان کی مدد کرے گا۔ انھوں نے ویت نام کی جنگ میں بطور اسکواڈرن لیڈر خدمات انجام دی تھیں، جہاں انھیں دو ’پرپل ہرٹس‘‘ نامی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ ان میں سے ایک انھوں نے اپنے بھائی کی زندگی بچانے کے لیے حاصل کیا تھا۔ ان کے سینے میں اب بھی کچھ گولوں کے ٹکڑے موجود ہیں۔
جنگ کی ہولناکیوں نے ان کے اس خیال کو تقویت دی ہے کہ فوجی کارروائی آخری حربے کے طور پر استعمال کی جانی چاہیے لیکن صرف اُس وقت جب سفارتی راستے ختم ہو جائیں۔ نیبراسکا کے شمالی پلیٹ کے علاقے میں پیدا ہونے والے چک ہیگل نے ایک غریب خاندان میں پرورش پائی اور نو سال کی عمر سے ہی گزر اوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنا شروع کر دیے۔ ویت نام سے واپسی کے بعد انھوں نے مختلف ملازمتیں اختیار کیں، جن میں بطور ریڈیو رپورٹر کام بھی شامل ہے۔ ایک مدت گزارنے کے بعد انھوں نے نوخیز موبائل فون کی صنعت میں اپنی قسمت آزمائی۔ نیبراسکا واپس منتقل ہونے کے بعد وہ 1996ء اور بعد میں 2002ء میں سینیٹر منتخب ہو گئے، جہاں وہ خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایک پینل کے چیئرمین مقرر ہوئے۔ قانون سازوں کو اس بات پر تشویش ہے کہ چک ہیگل نے کھل کر ایران کے خلاف امریکا یا اسرائیل کی قیادت میں فوجی حملے کی تجویز کو چیلنج کیا تھا۔ افغانستان کے امن مذاکرات میں ان کی ایران کو شامل کرنے کی تجویز کو بھی پسند نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
اِس تبصرے اور پس منظر کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ چک ہیگل صاحب کے دماغ پر ویت نام کی جنگ نے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اِسی وجہ سے وہ عراق کے خلاف امریکی جنگ کے بھی مخالف رہے اور وہ ایران پر امریکی و اسرائیلی مجوزہ حملے کے بھی شدید ناقد رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایران کو تہس نہس کرنے کے بھی حامی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ایران سے مکالمہ کرنے کے مخالف ہیں۔ اُن کا بیک گرائونڈ بتاتا ہے کہ وہ ہر کام ڈنڈے سے لینے کے حق میں قطعی نہیں ہیں۔ ایسے میں یہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ چک ہیگل ایران سے سلسلہ جنبانی قائم کرتے ہوئے عالمی امن کو درپیش خطرات کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔ اُن کی کوششوں سے ممکن ہے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی بھی آسان ہو جائے۔ روایات کے برعکس چک ہیگل ایسے امریکی وزیرِ دفاع آئے ہیں جو اسرائیل کے دوست ہیں نہ اُسے بے جا مراعات دینے کے حق میں ہیں۔ یوں بھارت اور اسرائیل کو وہ بیک وقت ’’وارا‘‘ نہیں کھا رہے۔
بھارت میں چک ہیگل کی تقرری کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے جب کہ پاکستان کے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پاکستان چک ہیگل کے بیان کو بنیاد بناتے ہوئے اقوام متحدہ میں جا سکتا ہے جس میں چک ہیگل نے کہا تھا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ چک ہیگل کے اِس بیان سے یقیناً پاکستان کے اِس موقف کو تقویت ملی ہے کہ بھارت شرارت کر کے افغانستان کے راستے بلوچستان میں پاکستان کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اِس پر وزیرِ داخلہ رحمن ملک بھی بار بار بیان دے چکے ہیں۔
بھارت کو امریکی وزیرِ دفاع کے اِس بیان سے بہت تکلیف پہنچی ہے اور اس نے ہیگل کے ’’الزامات‘‘ کا انکار بھی کیا ہے۔ بھارتی شکوک کی وجہ چک ہیگل کی ایک پرانی تقریر ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف ’’دوسرے محاذ‘‘ کے طور پر استعمال کرتا ہے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے وہاں پیسہ خرچ کرتا ہے۔ چک ہیگل نے یہ بات دو ہزار گیارہ میں امریکا کی ایک یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی لیکن تقریر رواں ہفتے منظر عام پر آئی ہے۔ بھارت کے وزیرِ خارجہ سلمان خورشید نے محتاط ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اس بیان کا جائزہ لینے کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ بات کس تناظر میں کہی گئی تھی اور اس کا سیاق و سباق کیا تھا۔‘‘ امریکا میں بھارتی سفارت خانہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما یشونت سنہا نے بھی چک ہیگل کے بارے میں مایوس کن بیانات دیے ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ چک ہیگل نے ایک واقعاتی بیان دے کر بھارت کو انگاروں پر لوٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اِسے ہم عالمی سطح پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی فتح بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اِس کا ایک مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں فروکش بلوچستان کے بعض ناراض نوجوان جس طرح خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، اُنھیں معاشی اعتبار سے بھی بھارت کی طرف سے ہر ممکن اعانت فراہم کی جا رہی ہے۔ چک ہیگل نے دراصل بھارت کو ننگا کر دیا ہے۔ اِس سے دنیا بھر میں بھارت کے باطنی عزائم کو شکست ہوئی ہے۔ اِس سے یہ بھی آشکار ہوا ہے کہ بھارت ہر فورم اور ہر سطح پر پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ یہ ہمارے ’’بھولے پاکستانی حکمران‘‘ ہیں جو بھارت کی ہر بات پر یقین کر لیتے ہیں اور یہ پاکستان کی بعض این جی اوز ہیں جو پاکستان کے خلاف بھارتی جرائم پر ہمہ وقت پردہ ڈالنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو برطانوی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کے تجزیہ کار ڈین نیلسن نے بھی گزشتہ روز جس جرأت سے بے نقاب کیا ہے، اِس کی بھی تحسین کی جانی چاہیے۔ ہم چک ہیگل کے خصوصی طور پر شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے بھارت کے بارے میں پاکستان کے خدشات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔
بشکریہ:ایکسپریس
 
بھارت کے عزائم پر پہلے کسی کو شبہ تھا کیا:confused:
ویسے ہمیں "عالمی سازشوں" کا رونا رونے کی بجائے اپنے آپ کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے:thinking:
کیونکہ اپنا دفاع "صرف اور صرف" آپ کی اپنی ذمہ داری ہے:)
 
Top