پاکستان میں صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر واویلا کیوں مچایا جاتا ہے؟ جب کہ یہاں ایک معمول


پاکستان میں صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر واویلا کیوں مچایا جاتا ہے؟ جب کہ یہاں ایک معمولی پھل فروش بھی کرپٹ ہے۔۔۔
پاکستان کی عوام اور پاکستان کے حکمران دونوں کرپٹ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا آئینہ ہیں، جس میں ’میں‘، آپ، حکمران اور ہم سب برابر کے سزاوار ہیں۔​
389241_365106730218599_118341311561810_983450_188557069_n.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
مثال مشہور ہے کہ رشوت اس نے نہیں لی جسے ملی نہیں۔

اس حمام میں سب کے سب ہی ننگے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
پاکستان میں صرف حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کرپشن پر واویلا کیوں مچایا جاتا ہے؟ جب کہ یہاں ایک معمولی پھل فروش بھی کرپٹ ہے۔۔۔
پاکستان کی عوام اور پاکستان کے حکمران دونوں کرپٹ ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا آئینہ ہیں، جس میں ’میں‘، آپ، حکمران اور ہم سب برابر کے سزاوار ہیں۔

389241_365106730218599_118341311561810_983450_188557069_n.jpg
ان کو پکڑنا بھی حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ جب حکمران خود کرپشن کے گند میں لتھڑے ہوں تو ان پہ کون ہاتھ ڈالے؟۔
 

نایاب

لائبریرین
میں ہی " عوام "
میں ہی " حکمران "
سیاں بھئے کوتوال پھر ڈر کاہے کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
کیا وہ معاشرہ کبھی سدھر سکتا ہے ۔؟
جس کی اچھائیوں برائیوں پر عام عوام کی زبان سے نکلنے والی ہر بات " مختار اعلی " کی منظوری کی منتظر رہے ۔
جو تم کو ہو پسند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی بات کریں ہم
 

عدیل منا

محفلین
مثال مشہور ہے کہ رشوت اس نے نہیں لی جسے ملی نہیں۔

اس حمام میں سب کے سب ہی ننگے ہیں۔
اللہ نے مسلمان کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اورمصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور یہ اعلان کر دیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے تو اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔
 

ساجد

محفلین
یہ عوام کے منتخب کردہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں بنیادی جمہوریت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے تو انتخاب میں کیسی عوامی شراکت؟۔
 

سید ذیشان

محفلین
اور جو بے ایمان نہیں ہوتے ان کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔

میرے والد کو میرے میٹرک کے استاد نے شکایت لگائی کہ یہ نقل نہیں کرتا تو اس کے نمبر کم آ جائیں گے۔ اس سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ حالات کیا ہیں۔
 

سید زبیر

محفلین
آج کل بد عنوانی دھوکہ، منافقت ، رشوت جس طرح پھیلی ہوئی ہے اس میں تو معاشرے کا ہر فرد شامل ہے خواہ وہ خاموش تماشئی ہی کیوں نہ ہو لیکن میرا سوال یہ ہے کہ میں جب سرکاری محمکمہ میں کام کرتا ہوں تو میں کام چور بھی ہوتا ہوں جائز ناجائز مراعات بھی حاصل کرتا ہوں میں ہی اگرپاکستان ہی میں کسی بین الاقوامی ادارے میں ملازمت کرتا ہوں تو مجھے محنتی ، با صلاحیت ایمان دار کا خطاب ملتا ہے وہاں دفتر سے مین ایک پین تک نہیں گھر لاتا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسئلہ میرے باس کا ہے سرکاری دفاتر میں خوشامدی کو پسند کیا جاتا ہے جبکہ نجی اداروں میں محنتی اور با صلاحیت افراد کو ۔ ہمارے عملمیں یہ تضا دکیوں ہے ؟​
ہمارے رویے ماحول کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ چھپر ہوٹل میں ہم چارپائی پر بیتھ کر کلی کر لیتے ہیں فائیو سٹار ہوٹل میں ہمارا رویہ بالکل مختلف ہوتا ہے سچی بات یہ ہے ہم بغیر نگراں کے صحیح عمل نہیں کرتے اس کی وجہ ہمارے معاشرے میں صدیوں کا قائم جاگیردارانہ نظام ہے۔ بر صغیر کا واحد معاشرہ ہے جو ذات پات میں تقسیم ہے ہر طبقہ اپنے سے نچلے طبقے کا انسانیت سے بھی نیچے گردانتا ہے ۔ بر صغیرمیں چھوتی بڑی جاگیروں پر مشتمل بے شمار ریاستیں تھیں ھر کوئی کسی نہ کسی کا باجگذار تھا ،سالانہ خراج کے نام پر بھتہ دیتا تھا ۔ محکوم طبقہ صرف مٹھی بھر غلہ کے لیے جاگیرداروں اور ان کے گماشتوں کے کام کیا کرتا تھا۔جاگیردار،یا ریاستی حکمرانوں نے جو کام کرانا ہوت وہ اپنے گماشتوں سے کہتے جو اپنے علاقے سے ضرورت کے مطابق افراد کو بیگار کے لیا لے آتے اور صرف ایک وقت کے کھانے کے عوض بیگار لی جاتی اور یہ افراد بھی جبتک ان کے سر پر نگران موجود نہ ہوتا صحیح طور پر کام نہ کرتے۔گماشتے محکوم رعایا کے لیے آمر اور ظالم ہوتے مگر اپنے آقا کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوتے اسی طرح یہ سلسہ اوپر تک چلتا ۔​
آج دیکھیں ہم اس شخس کو جس کو ہم سے نفع نقصان پہنچ سکتا ہے ہم آمر اور ظالم بن جاتے ہیں خواہ ہمارا ظاہری مرتبہ ایک چپڑاسی کا کیوں نہ ہو جبکہ اس فرد کے آگے جس سے ہمارا مفاد وابستہ ہو اور ہم خواہ انتہائی اعلیٰ عہدے پر یا مالی لحاظ سے انہائی مستحکم ہی کیوں نہ ہوں ، ہم خوشامدی بن جاتے دنیا جہاں کی عاجزی ، اعلیٰ اخلاق ہم میں آجاتا ہے۔​
یہ ہے ہمارا کردار ۔۔۔۔۔ برصغیر کے عوام کی یہی نفسیات ہے امیری غریبی لازم و ملزوم ہے مگر انسانیت ذیات پات سے آزاد ہوتی ہے گو کہ یہی سبق ہمارے آقا صلعم نے بتایا تھا مگر یہی ہم نے نہ سیکھا جب تک ہم بغیر نگراں کے اچھا انسان نہیں بن جاتے ہمارا یہی حال رہے گا​
 

سید زبیر

محفلین
اللہ نے مسلمان کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اورمصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور یہ اعلان کر دیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے تو اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔

دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہے​
 

محمداحمد

لائبریرین
دراصل ہمارے ہاں تربیت کا فقدان ہے اور تربیت میں گھر، تعلیمی ادارے اور دینی مکاتبِ فکر سب بری طرح ناکام ہیں۔

اب جب کہ اس خراب تربیت کے پروردہ لوگوں کے ہاتھ میں ہی سب کچھ ہے تو پھر بہتری کی توقع کس سے اور کیوں کر رکھی جائے۔

رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا پوری کر رہا ہے۔ اس پر دن رات حادثات اور واقعات کو دوبارہ سے فلم بند کرکے دکھایا جا رہا ہے۔ جس میں کسی کا قتل، کسی کی آبروریزی، کسی پر تیزاب پھینکنا، خود کشی اور خود سوزی دکھائی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک خبر دیکھی کہ ایک اسکول کے طالبِ علم نے استاد سے ڈانٹ پڑنے پر خود کو آگ لگا لی۔ یہ سب فسادی خیالات میڈیا ہمارے اور ہمارے بچوں کے ذہن میں ٹھونس رہا ہے اور ہم نادانستگی میں نہ جانے کہاں سے کہاں جا رہے ہیں۔

نصیحت کوئی سننے کو تیار نہیں کہ ہم سب اپنی دانست میں حکیم لقمان سے کم نہیں ہیں، اخلاقی قدروں کی ترویج کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ کوئی بھی سچ بول کر، ایفائے عہد کرکے، بے ایمانی سے بچ کر خود کو بے وقوف کہلوانے پر تیار نہیں ہے۔ رہے ہم ، تو بقول اقبال:
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں سے موہ لیتا ہے
گفتار کا وہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
:dont-know:
 
پاکستان میں ایسا صرف آڑؤں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا ۔ چیکو پر رنگ چڑھایا جاتا ہے، ادرک پر چمک پالش لگائی جاتی ہے اور خربوزوں میں شکرین کا انجیکشن لگایا جاتا ہے۔
 
اللہ نے مسلمان کی اصلاح کا جتنا موقع جمعہ کے دن وعظ کرنےوالے عالم دین اور محلے کی مسجد کے امام کو دیا ہے‘ کسی کو بھی نہیں دیا۔ آج اگر ہمارے مولوی صاحبان خوف اورمصلحت سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو ظاہری حلیہ بدلنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتانا شروع کر دیں کہ جھوٹ بولنا‘ جھوٹی گواہی دینا‘ کم تولنا‘ حرام کھانا بھی اسی طرح غلط ہے جس طرح حجاب نہ کرنا غلط ہے تو اس معاشرے کا رنگ ہی بدل جائے۔ آج اگر وہ یہ طے کر لیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو ہم اہل محلہ کے سامنے ذلیل کرکے رہیں گے‘ آج اگر وہ منبر پر کھڑے ہو کر کم تولنے والے اور جعلی دوائیں بنانے اور بیچنے والے کے سماجی بائیکاٹ کا حکم دے دیں اور یہ اعلان کر دیں کہ رشوت دینے اور لینے والے کو مسجد کے دروازے پر جوتے مارے جائیں گے تو اس ملک کے سیاستدان بھی تیر کی طرح سیدھے ہو جائیں۔

عدیل بھائی آپ کی بات سے اتفاق کروں گا اور نہیں بھی۔ ھماری قوم معذرت کے ساتھ لاتوں کی بھوت بن چکی ھے۔ جب تک کچھ لوگوں کو سر عام پھانسی پر نہیں لٹکایا جاے گا۔ ھم سدھرنے والے نہیں۔ ایک ہٹلر یا خمینی جیسا حکمرآن ھم پر مسلط ہونا چاہیے۔
 

سید زبیر

محفلین
لیکن مسئلہ یہ ھے کہ ہماری جمہوریت کو پانی دینے والے انسانی حقوق کی اّڑ میں انہی مجرموں ہی کو تو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ہٹلر یا خمینی سے نمٹنے کے لیے اغیار کا پروردہ میڈیا ہی کافی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ صام عراق لیبیا مصر میں جمہوریت کو خطرہ ہے
 
لیکن مسئلہ یہ ھے کہ ہماری جمہوریت کو پانی دینے والے انسانی حقوق کی اّڑ میں انہی مجرموں ہی کو تو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ہٹلر یا خمینی سے نمٹنے کے لیے اغیار کا پروردہ میڈیا ہی کافی ہے جو ثابت کرتا ہے کہ صام عراق لیبیا مصر میں جمہوریت کو خطرہ ہے


جمہوریت ۔۔ جمہوریت،،، جمہوریت۔۔۔ کیا اسلام میں جمہوریت کا کوئی نام و نشان پایا جاتا ھے۔ کیا خلفاے راشدین نے بھی جمہوریت کا نعرہ لگا کر حکومتیں کیں تھیں۔ جمہوریت کی آڑ میں ھم مسلمانوں کو قید کر کے چاراطراف سے مارا جارھا ھے۔ اور ھم بھی ویسے بیوقوف ۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
اسلام میں انسانی حقوق اور مساوات کی مثال شائد ہی تاریخ دے سکے کہ اّپ پیدل ہیں سواری پر غلام اّتا ہے ۔۔۔۔۔۔ عام بدو سربراہ مملکت سے انکی قمیض کے بارے میں جواب طلبی کرتا ہے ۔ ہائے حیف گنوا دی اسلاف سے جو میراث پائی تھی
 
Top