جاسم محمد

محفلین
کرک انفو ویب سائٹ پر لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر کے بارے میں شرمناک آرٹیکل پڑھ کر سر شرمندگی سے جھک گیا۔

سہیل اختر نےکا تعلق ہری پور سے ہے۔ بچپن سے وہ ٹیپ بال کرکٹ کھیلتا آیا، پھر اس نے ہارڈ بال سے پریکٹس شروع کی۔ وہ ایک اچھا ہٹر تھا لیکن وہ اپنے شہر کی مقامی ٹیم سے آگے کبھی نہ نکل سکا کیونکہ اس کے پاس کوئی سفارش یا ریفرنس نہ تھا۔

24 سال کی عمر (2010) میں سہیل اختر کو پی سی بی کی طرف سے انٹر ڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ میں ہری پور کی طرف سے کھیلنے کا موقع ملا۔ اس نے پہلے میچ میں دھماکے دار سینچری بنا کر اپنی انٹری ڈالی اور پانچ میچوں میں 307 رنز بنائے۔ اس پرفارمنس کے بعد امید کی جارہی تھی کہ اسے اگلے سال قائد اعظم ٹرافی میں موقع دیا جائے گا لیکن اسے کسی نے ٹیم میں شامل کرنا تو دور، پریکٹس کیلئے بھی نہ بلایا۔

چند سال بعد اسے فرسٹ کلاس میں موقع ملا لیکن اس وقت تک وہ اپنی پرائم فارم اور مورال کھو بیٹھا تھا۔

سہیل اختر کو کرکٹ کی مقامی ضلعی سیاست لے بیٹھی۔ ہر عہدے دار اپنے واقف کاروں یا بااثر شخصیات کے بچوں کو موقع دیتا ہے، ایسے میں سہیل اختر جیسے غریب اور تعلقات سے عاری شخص کو کون موقع دیتا؟ پھر اس نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد اٹامک انرجی ڈیپارٹمنٹ میں کلرک کی نوکری ڈھونڈ لی۔

اس دوران وہ فاٹا کی جانب سے ٹی 20 کرکٹ کھیلتا رہا۔

دو سال قبل قلندرز نے جب ٹیلنٹ کی تلاش شروع کی تو انہیں کسی نے سہیل اختر کے بارے میں بتایا۔ وہ 2018 میں ابوظہبی میں ٹی 20 ٹورنامنٹ میں اچھی پرفارمنس دے چکا تھا، چنانچہ اسے ٹیم میں جگہ مل گئی۔ اس کیلئے فخر زمان نے عاقب جاوید کو سفارش بھی کی۔

صورتحال یہ ہے کہ آپ نے سہیل اختر کا پرائم ٹائم ضائع کردیا۔ اب 34 سال کی عمر میں اس سے یہ توقع کرنا کہ وہ ویرات کوہلی یا بابر اعظم بن جائے، زیاتی والی بات ہے۔

دوسری طرف آپ معین خان کے گونگلو بیٹے اعظم خان کو دیکھیں، کسی بھی حوالے سے وہ کرکٹر نہیں لگتا، لیکن چونکہ باپ کے پاس عہدہ تھا، اسلئے اسے چانس پر چانس ملتا گیا۔ اسی طرح امام الحق کی مثال لے لیں، انضمام الحق چیف سیلیکٹر بنا تو امام کی جگہ ٹیم میں پکی ہوگئی۔

صرف کرکٹ ہی نہیں، ہر شعبے میں سفارش کا یہی عالم ہے۔ سیاسی جماعتوں میں قیادت ہمیشہ باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی ہے، شوبز میں اداکاروں اور گلوکاروں کو بھی ان کی رشتے داریاں دیکھ کر چانس ملتے ہیں، بڑے بڑے صحافی اور کالم نویسوں نے اپنے بیٹوں کو بھی سفارش پر کالم نگار بنا کر مستقل روزی روٹی کا بندوبست کردیا ہے۔

سفارش کے اس کلچر کی وجہ سے ہی پاکستان ہر شعبے میں پیچھے جارہا ہے، کرکٹ ہو یا شوبز، صحافت ہو یا انڈسٹری، ہر جگہ کچر بھرا جاچکا ہے اور اس کی اہم وجہ سفارش کلچر ہی ہے۔

سہیل اختر جیسے پتہ نہیں کتنے لاکھوں ٹیلنٹڈ لوگ اس کلچر کے باعث اپنا کیرئیر تباہ کر بیٹھے۔ خدا غارت کرے اس نظام کو بنانے اور اسے سہارا دینے والوں کو!!!
بقلم خود باباکوڈا
 
کیا کل کسی نے کراچی اور پشاور کے میچ میں یہ دیکھا؟
میں دوسری اننگ نہیں دیکھ پایا تھا یہ تو شدید غلط بات ہے۔۔۔


FB-IMG-1582358831402.jpg
 

سروش

محفلین
پشاور زلمی کا ٹاس جیت کر بولنگ کا فیصلہ
4 اوورز کے اختتام پر کوئٹہ 33 رنز بغیر کسی نقصان کے ۔
 
Top