پاکستانیوں کا کالا دھن

رانا

محفلین
سور اور بکری میں کیا فرق ہے ؟ صرف مذہب کے کہہ دینے سے کچھ نہین ہوتا ۔
میرا اس دھاگے میں بالکل بھی کوئی پوسٹ کرنے کا رادہ نہیں تھا لیکن عسکری بھائی صرف آپ کو ایک مفید بات بتانے کے لئے یہ پوسٹ ہے کہ جس سے ایک دوستانہ لگاؤ ہو اس کی غلط فہمی دور کرنے کو خواہ مخواہ ہی دل کرپڑتا ہے۔ سور اور ہر دوسرے حلال جانور میں بہت فرق ہے۔ اور یہ کیونکہ اسلام نے منع کیا ہے تو اسلام کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی حکم کو زبردستی نہیں مناتا بلکہ اسکی دلیل دیتا ہے۔ تو یہاں فطرت کے مطابق دلیل یہ ہے کہ غذا کا انسان کے اخلاق پر بھی بہت اثر پڑتا ہے۔جس طرح کی غذا انسان کھاتا ہے ویسا ہی اس کے اخلاق پر اثر پڑتا ہے۔ قانون قدرت میں اسکی کچھ مثالیں دیکھیں۔ جو قومیں ہمیشہ گوشت خور ہوتی ہیں ان میں شجاعت کا مادہ بھی بہت ہوتا ہے۔ اور جو ہمیشہ سبزی خور ہوتی ہیں ان میں قوت شجاعت اور بہادری ماری جاتی ہے۔ البتہ جو گوشت اور سبزی توازن سے استعمال کرتی ہیں ان میں بہادری، شجاعت اور حلم اور نرم دلی دونوں اخلاق نمایاں اور توازن کی حالت میں ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گوشت اور سبزی دونوں حلال کرکے یہ بھی تعلیم دی کہ دونوں میں توازن برتو، نا کہ کسی ایک طرف کی کثرت کردو تاکہ دونوں طرح کے اخلاق سے حصہ لو۔ جانوروں میں اسکی بہت عمدہ مثال موجود ہے کہ جتنے سبزی خور جانور ہیں کوئی بھی ان میں سے وہ شجاعت نہیں رکھتا جو ایک گوشت خور جانور رکھتا ہے یہ اتنی واضع مثال ہے کہ جسکی تفصیل کی حاجت نہیں۔ یہاں تک اتنی بات صرف آپ کو یہ سمجھانے کے لئے کی تھی کہ غذا کا انسان کے اخلاق پر بھی واضع اثر ہوتا ہے تو اسی لئے اسلام جو کہ عین دین فطرت ہے اور انسان کو بااخلاق انسان اور پھر باخدا انسان بنانا چاہتا ہے وہ بھلا کیسے اس اہم پہلو کو نظر انداز کردیتا۔ اسلئے قرآن شریف نے انسان کے کھانے پینے کے لئے بھی خاص طور پر ہدایات دی ہیں کہ کیا کھانا چاہئے۔

اب بات کرتے ہیں کہ سور اور بکری میں کیا فرق ہے۔ اس تمہید کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو آگے کی بات کلک کرجائے۔ اللہ کرے۔ ذیل میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کی کتاب "اسلامی اصول کی فلاسفی" سے ایک اقتباس اسی حوالے سے پیش ہے۔
آپ فرماتے ہیں:
"ایک نکتہ اس جگہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ خنزیر جو حرام کیا گیا ہے خدا نے ابتدا سے اس کے نام میں ہی حرمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ خنزیر کا لفظ "خنز" اور "اَر" سے مرکب ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ میں اس کو فاسد اور خراب دیکھتا ہوں۔ "خنز" کے معنے بہت فاسد اور "اَر" کے معنے دیکھتا ہوں۔ پس اس جانور کا نام جو ابتدا سے خداتعالی کی طرف سے اس کو ملا ہے وہی اس کی پلیدی پر دلالت کرتا ہے اور عجیب اتفاق یہ ہے کہ ہندی میں اس جانور کو سور کہتے ہیں۔ یہ لفظ "سوء" اور "اَر" سے مرکب ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ میں اس کو بہت برا دیکھتا ہوں اور اس سے تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ "سوء" کا لفظ عربی کیونکر ہوسکتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی کتاب منن الرحمٰن میں ثابت کیا ہے کہ تمام زبانوں کی ماں عربی زبان ہے اور عربی کے لفظ ہر ایک زبان میں نہ ایک نہ دو بلکہ ہزاروں ملے ہوئے ہیں۔ سو "سوء" عربی لفظ ہے۔ اس لئے ہندی میں "سوء" کا ترجمہ بَد ہے۔ پس اس جانور کو بَد بھی کہتے ہیں۔ اس میں کچھ شک معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جب کہ تمام دنیا کی زبان عربی تھی اس ملک میں یہ نام اس جانور کا عربی میں مشہور تھا جو خنزیر کے نام کے ہم معنی ہے پھر اب تک یادگار باقی رہ گیا۔ ہاں ممکن ہے کہ شاستری میں اس کے قریب قریب یہی لفظ متغیر ہو کر اور کچھ بن گیا ہو۔ مگر صحیح لفظ یہی ہے کیونکہ اپنی وجہ تسمیہ ساتھ رکھتا ہے جس پر لفظ خنزیر گواہ ناطق ہے۔ اور یہ معنے جو اس لفظ کے ہیں یعنی "بہت فاسد" اس کی تشریح کی حاجت نہیں۔ اس بات کا کس کو علم نہیں کہ یہ جانور اول درجہ کا نجاست خور اور نیز بے غیرت اور دیوث ہے۔ اب اس کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ قانون قدرت یہی چاہتا ہے کہ ایسے پلید اور بد جانور کے گوشت کا اثر بھی بدن اور روح پر پلید ہی ہو کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ غذاؤں کا بھی انسان کی روح پر ضرور اثر ہے۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ ایسے بد کا اثر بھی بد ہی پڑے گا۔ جیسا کہ یونانی طبیبوں نے اسلام سے پہلے ہی یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس جانور کا گوشت بالخاصیت حیا کی قوت کو کم کرتا ہے اور دیوثی کو بڑھاتا ہے۔"
(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 28-29)
 
Top