پانچ بیماریاں

عدیل منا

محفلین
وہ کئی سال ہمارے ملک میں سفیر رہا، سفیر تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن وہ دانشور اور تجزیہ نگار بھی ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اسکا مشغلہ ہے۔ جب وہ گفتگو کرتا ہے اور دلائل دیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجربوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشگوئی کرتا ہے کہ آنیوالا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔
میری اس سے ملاقات ایک تقریب میں ہوئی اور میں اسکےعلم و دانش کا اسیر ہو کر رہ گیا۔ جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جا رہا ہے اور اپنے فرائض منصبی اب کسی اور ملک میں سر انجام دیگا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے۔
میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے، مشاہدہ کیا! طول و عرض میں گھومے پھرے، شہر قصبے اور قریے دیکھے، عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں، سیاست دان، نوکر شاہی، فوج سب کو قریب سے دیکھا، تم کس نتیجے پر پہنچے اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟
وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا، مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میرے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کریگا تا ہم کچھ دیر کے بعد اس نے میرے طرف مسکرا کر دیکھا۔"میں یہاں آنے سے پہلے بہت سے ملکوں میں رہا، مسلمان ملکوں میں بھی، مغربی ملکوں میں بھی اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھی۔ میری سوچی سمجھی رائے تمہارے ملک کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں بےپناہ ٹیلنٹ ہے، ترقی کے لامحدود امکانات ہیں لیکن تمہارے قومی جسم میں چند بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ٹیلنٹ کو کچھ بھی نہیں کرنے دیتیں۔

1۔ تم لوگوں کی انتہا درجے کی جذباتیت، جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے، تجزیہ کرنے سے اور دعوی کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔ اسکی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل، مجھے نہیں معلوم لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے۔ یہ بات فخر سے یہاں کرتے وقت تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو، ہر جمشید دستی، ہر پیر سپا ہی، ہر نجومی اور ہر تعویذ فروش کو کامیاب کراتے ہیں۔ اس جذباتیت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت، کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں اور کچھ امریکھ کو۔۔۔ ۔۔۔ ۔اور ثبوت دونوں کے پاس نیہں ہیں اور یہ صرف مثال ہے۔

2۔ تم قانون کو فیصلہ نہیں کرنے دیتے، خود فیصلہ کرتے ہو۔ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ جب بھی ٹریفک کا حادثہ ہوتا ہے، ایک منٹ سے کم عرصہ میں لوگ وہاں جمع ہوجاتے ہیں تو مدعی اور مدعا علیہ دونوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ چھوڑیں، کوئی بات نہیں۔ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ کے درمیان پولیس فیصلہ کریگی۔ آپ اس حد تک پولیس سے بھاگتے ہیں کہ اپنے اسلامی قوانین کے مقابلے میں بھی ذاتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کرپشن کرے تو آپکی رائے یہ ہوتی ہے کہ سارے کرپشن کرتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کسی کو قتل کرادے تو آپ کی رائے یہ ہوتی ہےکہ آخر بادشاہ قتل کراتے ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ناجائز زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی قانون کو پس پشت ڈال کر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا گھر ہے، جہاں بھی بن جائے۔
3۔ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔ دنیا میں جتنے ترقی یافتہ قومیں ہیں وہ اس بےحد خطرناک بیماری سے پاک صاف ہیں جس کے ذمے جو کام ہے وہ اسے پورا کرکے متعلہ شخس کو یا ادارے کو مطلع کرتا ہے اور اگر نہیں کرسکتا تب بھی اطلاع دیتا ہے۔ تمہارے معاشرے میں ایک غدر برپا ہے، سائل مسئول کے پیچھے، قرض خواہ مقروض کے پیچھے، آجر مزدور کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ جس نے کسی جگہ پہیچنا ہے وہ وہاں پہینچتا ہے نہ کچھ بتاتا ہے۔ جس نے کام کردیا وہ بھی نہیں بتاتا کہ کام ہوچکا ہے، جسنے کام نہیں کیا وہ بھی خاموش ہے یا غائب ہے۔ یہ جہالت ہے یا غیر ذمہ داری، جو کچھ بھی ہے تمہارے وسائل کو ضائع کررہی ہے۔
4۔ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کی بجائے مالی فائدے کیلئے استعمال کررہی ہے اور تم لوگوں کو اسکا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصد فرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کیلئے تیر بہدف ہیں، انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کررہے ہیں اور مسلمان انہیں رات دن اپنے پیروں تلے روندھ رہے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لوکہ وعدہ خلافی تمہارے معاشرے میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے برا سمجھتا ہو۔ جھوٹ کی وہ کثرت ہے کہ گھر، بازار، دفتر، سیاست، تجارت، مسجد، ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دوسری انتہاء یہ ہے کہ تاجر اپنی اشیا بیچنے کیلئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے تحاشا استحصال کررہے ہیں۔ شہد بیچتے وقت اسے اسلامی شہد کا نام دیا جاتا ہے۔ میں نے کسی ملک میں عیسائی ہندو یا یہودی شہد نہیں دیکھا۔ دکانوں کا نام مدینہ، مکہ، اسلامی اور حرمین رکھا جاتا ہے تاکہ جذبات سے کیھلا جائے۔ لالچ اور سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ نہاری اور پائے تک تم لوگ اپنی رسول صل اللہ علیہ وسلم کے نام سے بیچ رہے ہو اور اس توہین پر کسی کو شرم نہیں آتی نہ افسوس۔ مذہبی رہنماؤں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اور مدرسوں میں پڑھانے والے مفلوک الحال علماء، مدرسوں کے مالکان سے نہیں پوچھتے کہ تمہارا معیار زندگی کروڑپتیوں جیسا کس طرح ہوگیا؟ 5
5۔ جتنے گندے تمہاری مسجدوں کے طہارت خانے ہیں، اتنا گند میں نے کسی مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔ تم لوگوں کو دھول اور گرد سے گھبراہٹ نہیں ہوتی، نہ ٹھرے ہوئے گندے پانی سے گھن آتی ہے۔ مکان تعمیر کرنیوالا تمہاری پوری سڑک پر ریت اور سیمنٹ ڈال دیتا ہے لیکن کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ تمہارے ٹاپ کے شہروں میں لوگ چلتی گاڑیوں سے پھلوں سے چھلکے اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور کسی کو شرم آتی ہے اور نہ اعتراض کرتا ہے۔
کاش! تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ پیماریوں کی فکر کرو جنہوں نے تمہارے جسم کو تعفن میں ڈال رکھا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
1۔ تم لوگوں کی انتہا درجے کی جذباتیت، جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے، تجزیہ کرنے سے اور دعوی کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔
2۔ تم قانون کو فیصلہ نہیں کرنے دیتے، خود فیصلہ کرتے ہو۔ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔
3۔ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔
4۔ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کی بجائے مالی فائدے کیلئے استعمال کررہی ہے اور تم لوگوں کو اسکا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصد فرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کیلئے تیر بہدف ہیں، انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کررہے ہیں اور مسلمان انہیں رات دن اپنے پیروں تلے روندھ رہے ہیں۔
5۔ جتنے گندے تمہاری مسجدوں کے طہارت خانے ہیں، اتنا گند میں نے کسی مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔
کاش! تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ پیماریوں کی فکر کرو جنہوں نے تمہارے جسم کو تعفن میں ڈال رکھا ہے۔
کاش ہم ان بیماریوں کے علاج واسطے متحد و متحرک ہو جائیں ۔
 

میر انیس

لائبریرین
ماشاللہ بہت ہی اچھا تجزیہ پیش کیا ہے آپ نے ہمارے معاشرے کا ۔ مگر ان پانچ بیماریوں کے علاوہ بھی چند اور بیماریاں ہم میں موجود ہیں ۔ ویسے کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے یا کہیں سے اقتباس لیا ہے
 

عدیل منا

محفلین
ماشاللہ بہت ہی اچھا تجزیہ پیش کیا ہے آپ نے ہمارے معاشرے کا ۔ مگر ان پانچ بیماریوں کے علاوہ بھی چند اور بیماریاں ہم میں موجود ہیں ۔ ویسے کیا یہ آپ کی اپنی تحریر ہے یا کہیں سے اقتباس لیا ہے
بہت شکریہ!
کہیں سے اقتباس کی ہے۔ بہت پسند آئی، سوچا کہ دوستوں سے شئیر کی جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عدیل بھائی اگر کہیں سے اقتباس لیا ہے تو اس کا حوالہ یا ربط ضرور دیں۔
 
زبردست دھاگہ ۔ اور ایک زبردست طمانچہ ھم سب کے منہ پر۔ لیکن بات پھر وہی کی وہی۔

امن و امان دنیا میں برباد تو نہ کر
سجدے کے لئے رب نے یہ دھرتی بچھائی ہے
نسل و رنگ زبان تو ہیں حسن زمیں کے
گلشن کے سارے پھولوں میں پنہاں خدائی ہے
مت بھول خلیفہ ہے تُو اللہ کی زمیں پر
تیرے لئے ظہور میں ہر چیز آئی ہے
اے امّتِ مسلم تجھے آخر ہرے ہُوا کیا ؟
نفرت ہے درمیان میں الفت پرائی ہے
اسماعیل اعجاز خیال)
 
Top