اسلام آباد: پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینلز کی مانیٹرنگ، مقبولیت کا تعین اور انہیں سرکاری اشتہارات جاری کرنے کے عمل کو باضابطہ بنانے کے لیے حکومت علیحدہ ادارہ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
اس مقصد کے لیے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف نے ‘ڈپارٹمنٹ آف الیکٹرانک میڈیا’ یعنی ‘ڈیم’ قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
مجوزہ ادارہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ماتحت ہوگا جو نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشنز کے لیے مخصوص ہوگا۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سیکریٹری اطلاعات چوہدری راشد کا کہنا تھا کہ ‘ڈیم، الیکٹرانک میڈیا کے لیے سہولت کار کے فرائض انجام دے گا۔’
وزارتِ اطلاعات کے ایک اور افسر نے بتایا کہ ‘ڈائریکٹوریٹ قائم ہونے کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز اور ایف ایم ریڈیو کو ان کی مقبولیت یا ریٹنگ کے حساب سے سرکاری اشتہارات جاری کیے جائیں گے۔’
اس حوالے سے ستر ملین روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ جس کے تحت پورے ملک کے مختلف علاقوں میں پانچ ہزار میٹرز لگائے جائیں گے۔ ان سے نجی ٹی وی چینلز اور ان کے مخصوص پروگراموں کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکے گا۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ ‘یہ میٹر ٹی وی سیٹ کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں لگائے جائیں گے۔ جس سے پتا چل سکے گا کہ دیکھنے والے نے کون سا چینل لگایا اور دن میں کتنی بار اس نے کون کون سے چینلز دیکھے۔’
پاکستان میں نجی ٹیلی وژن چینلز کے درمیان ریٹنگ میں خود کو سب سے آگے ظاہر کرنے کی دوڑ ہے اور حکومت کے پاس سرکاری سطح پرایسا کوئی نظام موجود نہیں جس سے ان کی مقبولیت کا تعین کیا جاسکتا ہو۔
اس وقت ایک نجی ادارہ حکومت کے لیے ٹیلی وژن چینلز کی ریٹنگ کا تعین کررہا ہے، تاہم مقبولیت کے اعداد و شمارکوغیر مصدقہ سمجھا جاتا ہے۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا دعویٰ تھا کہ ‘نجی ٹی وی چینلز خصوصاً ٹاک شوز میں اکثر اوقات صرف اس لیے صحافتی اخلاق کی حدود پار کرجاتے ہیں کہ ان کی ریٹنگ بہتر ہو۔’
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ایسا کوئی نظام موجود نہیں، جس سے ان کی مقبولیت کا تعین ہوسکے۔ جس کی وجہ سے اکثر چینلز خود کو ایک دوسرے سے زیادہ مقبول ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کے مطابق ‘خیال کیا جاتا ہے کہ جب سرکاری سطح پر نجی ٹی وی چینلز کی مقبولیت کے اعدادو شمار جاری ہونا شروع ہوں گے تو رفتہ رفتہ عوامی آرا کی روشنی میں ‘غیر اخلاقی’ پروگرام خود بخود بند ہونا شروع ہوجائیں گے۔’
اس وقت سرکاری سطح پر ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر نجی ٹیلی وژن چینلز یا ایف ایم ریڈیو کے لیے سرکاری اشتہارات ان کی مقبولیت کی بنیاد پر جاری ہوسکیں۔
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کو ایک سال میں اُنیس ارب روپے کے اشتہارات ملے۔ ان میں سے پانچ ارب روپے کے اشتہارات پبلک سیکٹر جب کہ بقایا پرائیوٹ سیکٹر کی طرف سے دیے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجموعی اشتہارات میں پبلک سیکٹر کا حجم تقریباً ایک تہائی ہے مگر کم ہونے کے باوجود الیکٹرانک میڈیا کو سرکاری اشتہارات سے حاصل منافع کی شرح پبلک سیکٹر سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘الیکٹرانک میڈیا کے لیے سرکاری اشتہارات کا ریٹ دو سے ڈھائی لاکھ روپے فی منٹ ہے جب کہ پرائیوٹ سیکٹر کے اشتہار کا ریٹ فی منٹ پانچ سو سے لے کر زیادہ سے زیادہ اُنتیس ہزار روپے تک ہے۔
پاکستان میں سن دو ہزار کے بعد نجی ٹیلی وژن چینلز کو نشریات شروع کرنے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت درجنوں نیوز چینلز اپنی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا صرف سرکاری کنٹرول میں کام کررہا تھا۔ ان میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان شامل ہے۔
پاکستان سے نشریات کرنے والے بعض نجی ٹی وی چینلز صرف تفریحی مقاصد اورکھیلوں کے لیے بھی مخصوص ہیں۔
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے پہلے ہی ایک سرکاری ادارہ پیمرا کے نام سے کام کررہا ہے۔
بشکریہ:ڈان نیوز
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وزارتِ اطلاعات کے افسر کا کہنا تھا کہ ‘یہ میٹر ٹی وی سیٹ کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں لگائے جائیں گے۔ جس سے پتا چل سکے گا کہ دیکھنے والے نے کون سا چینل لگایا اور دن میں کتنی بار اس نے کون کون سے چینلز دیکھے۔
پس پردہ حقائق تو کوئی اور ہی کہانی سنائیں گے۔ مجھے تو یہ اک اشارہ لگتا ہے۔ جیسا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ گوگل ہر چیز کی آگہی رکھتا ہے کہ کونسی سائٹ دیکھیں کونسی سرچ کیں اور آئندہ آپ کے آنے پر متعلقہ سرچ پہلے سے دکھا رہا ہوتا ہے کہ لاسٹ ٹائم یہ یہ سرچ ہوا تھا۔ YouTube پر یہی ڈیٹا بیس Recommended Videos کے نام سے منسوب ہے۔ آخر گوگل، یو ٹیوب وغیرہ کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ یاد رکھیں نیرنگ کو کیا کیا پسند ہے۔ مجھے تو کوفت ہوتی ہے کہ مجھ پر نظر رکھی جائے۔
بعینہ اسی طرح مجھے گمان ہے کہ اب عوام کے متعلق ریکارڈ تیار ہوگا۔ کہ کس ایریا کے لوگ کس طرح کے چینل دیکھتے ہیں اور کس وقت کیا کیا چیز دیکھی جاتی ہے۔ عوام اور لوگوں کو باندھ کر رکھنے کا اس سے بہتر طریقہ ممکن ہی نہیں تھا۔
 

ساجد

محفلین
یعنی نئی بوتل میں میڈیا کا بازو مروڑنے کی پرانی شراب۔ الیکشن سر پر ہیں اب میڈیا پچھلے کم و بیش 5 سال کا کچا چٹھا کھولے گا تو کیوں نہ "اشتہاری بلیک میلنگ" کے لئے ایک ادارے کا گورکھ دھندہ کھڑا کر کے اسے گدھی گیڑے میں دال دیا جائے ،حکومت پرانے طریقے سے یہ کام کرتی تو بدنام ہو جاتی یا پھر عدالت میں چیلنج کر دی جاتی۔ اب بندر کی بلا طویلے کے سر ڈال کر یہی کام کیا جائے گا۔ ویسے اس فیصلے میں راجہ فار لوڈ شیڈنگ کی سوچ صاف نظر آتی ہے کیونکہ ویسی ہے کاریگری دیکھی جا سکتی ہے جیسی خط لکھنے کے معاملے میں سپریم کورٹ میں کی گئی تھی۔
ریٹنگ کی بنیاد پر اشتہار دینے کی بات فضول اور ریٹنگ کا تعین ایک بہت پیچیدہ عمل ہے ہماری موجودہ حکومت اس کی قطعی اہلیت نہیں رکھتی۔
 

محمدصابر

محفلین
میڈیا لاجک کے سلمان دانش سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا جانے والا سوال اور ان کا جواب

س: لوگ اثرانداز ہونے کی کوشش تو ضرور کرتے ہوں گے؟
سلمان: ایسی کوششیں ہوتی ہیں مگر ہمارا نظام ایسا عمدہ ہے کہ پتا چل جاتا ہے۔ ایک تو یہ کسی کو نہیں پتا ہوتا کہ وہ گھر کون سا ہے جہاں سے ریٹنگ جارہی ہے۔ اس گھر کی ریٹنگ کا ایک ٹرینڈ ہوتا ہے۔ ایک آدھ بار جب کسی گھر پر اثرانداز ہوا گیا تو اس کی پسند ایک دم سے بدل گئی، یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اس پر ہم نے فوری طور پر چیک کرلیا۔ جس بندے نے یہ حرکت کی تھی اس کو بھی سزا ملی اور اس کے ادارے کو بھی مطلع کردیا گیا
گورنمنٹ تو پھر اپنی مرضی کی ریٹنگ باآسانی لے سکتی ہے۔
 
Top