ٹیلی پیتھی جانیئے سفر کا پہلا زینہ - پہلی مشق

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

لیجئے ساتھیو ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لیئے پہلی مشق حاضر خدمت ہے ۔ یاد رکھئیے کہ ان مشقوں سے لازم نہیں کہ آپ سب ٹیلی پیتھی شروع کر دیں لیکن انشاء اللہ یہ ضرور ہوگا کہ آپ سوچ ۔ مزاج اور شخصیت کے مثبت پہلؤوں سے آشنا ہونا شروع کر دیں گے ۔ ان مشقوں کا ہر شخص پر یکساں اثر ہونا کچھ شرط نہیں ہے لیکن اگر آپ لوگ اپنے تجربات اسی فورم پر شئیر کریں گے تو ہمیں انکی روشنی میں آنے والے معاملات کے لیئے تیاری اور تنفیذ کا موقع مل جائے گا ۔






صبح فجر کی نماز اور اذکار و تلاوت کے بعدخالی پیٹ ۔ اپنا رخ شمال کی طرف کر لیجئے ۔ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیے ۔ آنکھیں بند کر لیجئے اور گہرے گہرے سانس لیجئے ۔ سانس لینے کا طریقہ ایسے ہوگا کہ اپنے ذہن میں پانچ سیکنڈ کا حساب رکھتے ہوئے سانس کھینچیں (پانچ سیکنڈ) اس سانس کو اپنے سینے میں روکیئے (پانچ سیکنڈ) اور آہستہ آہستہ چھوڑئیے ( پانچ سیکنڈ) اس طرح کل پندرہ سیکنڈ کا ایک چکر ہوگا پہلے دن ایسے دس چکر لگائیے ۔

سانس لینے کے دوران دماغ میں جو خیالات بھی آئیں انہیں رد کرنے کی کوشش نہ کیجئے خیالات آتے جاتے رہیں گے ۔

رات کا کھانا عشاء سے کوئی آدھا ایک گھنٹہ پہلے کھا لیجئے اور عشاء کے بعد تھوڑا بہت پیدل چلنے کا معمول بنا لیجئے ۔

غیبت کرنے اور سننے سے حتی الامکان بچیں یہ حرام شے ہے اور ہر حرام کاری روح میں اضطراب پیدا کرتی ہے ۔


یہ مشق فی الحال کے لیئے اتنی ہی ہے کچھ دنوں بعد جب اسکے نتائج سامنے آنے لگیں گے تو اس مشق کو مکمل طور پر تمام جزئیات کے ساتھ دوبارہ بیان کیا جائے گا ۔ کیونکہ پہلی سیڑھی پر پاؤں جمنے کے بعد اگلی سیڑھی پر قدم رکھیں گے تو زیادہ بہتر رہے گا ۔ آگے اللہ مالک ہے۔

ہر نماز کے بعد ایک بار یہ دعا بھی کر دیا کیجئے

اے اللہ تمام مومنین اور مومنات ۔ مسلمین اور مسلمات زندہ اور جو اس دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں سب کی بخشش فرمادے اور ہمیں سیدھے رستے کی ہدایت عطا فرما بے شک تو ہی ہدایت دینے والا ہے ۔ اے ہمارے مالک و مولا ہماری خطاؤں سے صرف نظر فرما اور ہماری نیکیوں کو غالب فرما دے اور ہمیں اس دنیا سے اس ھال میں اٹھا کہ تو ہم سے راضی ہو ۔۔۔آمین


بغیر شرعی سبب کے کوئی نماز ترک نہ کریں اور ہر نماز کو اسکے وقت پر ادا کریں ۔
 

فاتح

لائبریرین
فیصل صاحب! کیا یہ مشقیں دوپہر شام یا رات یعنی صبح کے علاوہ کسی وقت نہیں کی جا سکتیں؟ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لیے مشق کا کیا وقت ہو گا جو گیارہ بجے سو کر اٹھتے ہیں؟
 
خاموشی ۔ تازہ ہوا ۔ نہ زیادہ روشنی ۔ تازہ دماغ ۔ اور زندگی میں ایک نظم و ضبط صرف ان مشقوں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر قدم پر ضروری ہیں ۔ اور نماز تو یقیناََ ہم میں سے ہر کوئی پڑھتا ہے تو فجر کے بعد یہ تمام لوازم اکٹھے مل جاتے ہیں لہذا بہترین وقت فجر کا ہی ہوگا ۔
 
ضرور ہوگا انشاء اللہ مگر آپ کو پابندی کرنا ہوگی نماز کی اور سب کے ساتھ مشقوں کی ۔ اور آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ان مشقوں کے ساتھ ساتھ آپ کو نمازیں بھی نصیب ہو رہی ہیں ۔ بلکہ کہنا یہ چاہیئے کہ نماز کی برکت سے اللہ آپ کو مشقوں کی توفیق بھی دے رہا ہے ۔ ضرورت صرف ایک ارادے کی ہے ۔
 

mfdarvesh

محفلین
شکریہ اس وقت نیند کا غلبہ بہت ہوتا ہے۔ آج کل تو ہو سکتا ہے۔ مگر گرمیوں‌میں مشکل لگتا ہے۔
 
سوال:
وہ تمام دوست جو کہ سچی لگن سے آپ کی بتائی ہوئی مشقوں پر عمل کریں گے اور اسے مکمل اپنائیں گے، ان میں سے کتنے لوگ اسے حاصل کر پائیں گے۔ کیا اس بارے میں کوئی شماریات وغیرہ آپ شئیر کر سکتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فیصل صاحب۔ کیا دوسرے مذاہب کے لوگ ٹیلی پیتھی نہیں سیکھ سکتے؟ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو نماز نہیں پڑھتے تو کیا وہ ٹیلی پیتھی کرنا بھی نہیں جانتے ہوں گے؟
 

arifkarim

معطل
فیصل صاحب۔ کیا دوسرے مذاہب کے لوگ ٹیلی پیتھی نہیں سیکھ سکتے؟ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو نماز نہیں پڑھتے تو کیا وہ ٹیلی پیتھی کرنا بھی نہیں جانتے ہوں گے؟

بدھمت اور یہودیت سے تعلق رکھنے والے ٹیلی پیتھی میں ہم سے آگے ہیں۔ اسلئے آپ بے فکر رہیں۔ یہ علوم اسلام سے بہت پہلے سے رائج ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بدھمت اور یہودیت سے تعلق رکھنے والے ٹیلی پیتھی میں ہم سے آگے ہیں۔ اسلئے آپ بے فکر رہیں۔ یہ علوم اسلام سے بہت پہلے سے رائج ہیں۔

مجھے یہ قیمتی معلومات دینے کا بہت شکریہ۔ آپ مجھے اندھیرے سے نکال کر اجالے میں لے آئے ہیں۔
 
شکریہ اس وقت نیند کا غلبہ بہت ہوتا ہے۔ آج کل تو ہو سکتا ہے۔ مگر گرمیوں‌میں مشکل لگتا ہے۔



مشکل مشقوں یا وقت کی نہیں ارادے کی ہوا کرتی ہے برادر ۔ اور ہر چیز اگر بستر پر پڑے پڑے مل جائے تو محنت کسے کہیں گے ۔۔؟
 
سوال:
وہ تمام دوست جو کہ سچی لگن سے آپ کی بتائی ہوئی مشقوں پر عمل کریں گے اور اسے مکمل اپنائیں گے، ان میں سے کتنے لوگ اسے حاصل کر پائیں گے۔ کیا اس بارے میں کوئی شماریات وغیرہ آپ شئیر کر سکتے ہیں۔


شماریات اسی فورم پر ایک الگ تھریڈ میں چند دنوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گی ۔ سچی لگن اور خلوص نیت سے جو کام بھی کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے رستے کھول دیتا ہے اور ہمارے راستوں کا نگہباں بھی وہی مالک کل ہے ۔
 
فیصل صاحب۔ کیا دوسرے مذاہب کے لوگ ٹیلی پیتھی نہیں سیکھ سکتے؟ میرے کہنے کا مقصد ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ تو نماز نہیں پڑھتے تو کیا وہ ٹیلی پیتھی کرنا بھی نہیں جانتے ہوں گے؟

تعلق کسی بھی مذہب سے ہو ٹیلی پیتھی سیکھنے کے لیئے کسی طریقہ کار کے ماتحت کام کرنا پڑتا ہے ۔ بدھ مت ۔ یہودیت ۔ اور دیگر مذاہب میں جن لوگوں نے ٹیلی پیتھی سیکھی اور سکھائی انہوں نے یا تو اپنے طریقہ کار کے تحت یا پھر کسی کے طریقہ کار کے تحت پہلے اپنی سوچ کو پہچانا ۔ اپنے ارتکاز کو ترقی دی اور پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ خیال خوانی کی طرف بڑھے ۔ شارٹ کٹ کوئی نہیں ہے البتہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق سوچ کی تطہیر کا عمل ہے جس میں ہم مسلمانوں میں سب سے پہلے تعلق باللہ ۔ تزکیہ ذات اور مراقبہ وغیرہ کے ذریعے سوچ کو اس درجہ تک لایا جاتا ہے جس میں انسان اسے پہچاننا شروع کر سکے اور پھر آگے چلا جاتا ہے ۔
 

ijaz1976

محفلین
کیا کسی نے مشقیں شروع نہیں کیں میں تو یہ تھریڈ دیکھا ہی آج ہے، اگر کسی نے مشق کی ہے تو براہ کرم اپنا مشاہدہ و تجربہ شیئر کرے۔
والسلام
اعجاز احمد
 
شماریات اسی فورم پر ایک الگ تھریڈ میں چند دنوں میں نظر آنا شروع ہو جائیں گی ۔ سچی لگن اور خلوص نیت سے جو کام بھی کیا جائے اللہ تعالیٰ اس کے رستے کھول دیتا ہے اور ہمارے راستوں کا نگہباں بھی وہی مالک کل ہے ۔

جی بالکل فیصل صاحب ضرور کیجئے لیکن خیال رہے کہ اس فورم میں صرف متفرقات نام ہی کا سیکشن ہے حالانکہ اس کے لیے تو Occult Sciences کے نام سے ایک الگ سیکشن ہونا چاہیے ہے لیکن شائد انتظامیہ کے پاس وقت نہیں ہے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
ٹیلی پیتھی یا انتقال افکار کی تاریخ کیا ہے ۔ اس کو باقاعدہ علم کی حیثیت کب حاصل ہوئی اور آج کل کتنے ماہرین ایسے ہیں جو ٹیلی پیتھی کے باضابطہ عامل ہیں ۔
کیا یہ ٹیلی پیتھی دیوتا کہانی کے فرہاد علی تیمور والی ہے ۔
:)
 

عثمان

محفلین
ٹیلی پیتھی یا انتقال افکار کی تاریخ کیا ہے ۔ اس کو باقاعدہ علم کی حیثیت کب حاصل ہوئی اور آج کل کتنے ماہرین ایسے ہیں جو ٹیلی پیتھی کے باضابطہ عامل ہیں ۔
کیا یہ ٹیلی پیتھی دیوتا کہانی کے فرہاد علی تیمور والی ہے ۔
:)

آپ کو یہ سن کر بہت خوشی ہو گی کہ ٹیلی پیتھی دیوتا کہانی والی ہے۔ :)
اور آپ کو یہ سن کر بہت مایوسی ہوگی کہ وہ کہانی اور ٹیلی پیتھی دونوں پرلے درجے کا فکشن ہے۔ :(

ماہرین نفسیات اس قسم کی تمام لغویات کو پیرا سائیکالوجی قرار دیتے ہیں۔ جو کہ سائنس نہیں ہے۔ :nailbiting:
لیکن پریشان مت ہوں کہ قیافہ شناسی ، دست شناسی ، زائچہ سازی ، سائیکوکنیسز ، طوطا فال اور جادو ٹوٹکے والوں کو سائنس کی ہرگز ضرورت نہیں۔ کہ وہ اپنی ہی دنیا میں بستے ہیں۔ ;)
اسے ہپناٹزم سے تعبیر نہ کیجئے گا جو کہ بالکل مختلف چیز ہے۔ اور کسی دوسرے کو ٹرانس میں لانے کے لئے سبجیکٹ کو مشقیں کروانا پڑتیں ہیں۔ اور جب تک سبجیکٹ راضی نہ ہو آپ اس کا کچھ نہیں کرسکتے۔ اور سبجیکٹ اپنے منہ سے اپنے بارے میں بتاتا ہے۔ آپ بیٹھے بیٹھے اس کے دل کا حال معلوم نہیں کرسکتے۔ :rolleyes:

جس چیز کی آپ کو تلاش ہے وہ آپ کا نفس ہے۔ صرف نماز ہی میں خشوع پیدا کرلیں تو ساری روحانیت وہیں مل جائے گی۔ :)
 
ٹیلی پیتھی کے حوالہ سے ایک خوش گوار (حاصل مطالعہ ) حاضر ہے ۔۔۔۔۔لنک بھی ساتھ ہے ۔۔

دیوتا
مصنف منیر عباسی • 26/12/2009 • حاصل مطالعہ


دیوتا نے بہت عرصے اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھا. مجھے یاد نہیں کب دیوتا سے میری شناسائی ہوئی اور کب یہ شناسائی آگے بڑھ کر ایک عارضے میں بدل گئی.

میں بات کر رہا ہوں اردو زبان کے سب سے طویل سلسلے دیوتا کی جو ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ میں 1977 سے لگاتار شائع ہوتا رہا اور اب جنوری 2010 کے شمارے میں اس کا آخری باب شائع ہو چکا ہے.

ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ کے مطابق دیوتا 33 سال تک لگاتار شائع ہوتی رہی اور اسے اردو کیا ، دنیا کی کسی بھی زبان میں شائع ہونے والی طویل ترین داستان کا اعزاز حاصل ہے.

ابتداء میں تو میں سمجھتا تھا کہ واقعی فرہاد علی تیمور ہی اس داستان کا راوی ہے اور بڑی دلچسپی سے اس داستان کو پڑھتا تھا. کبھی لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو شاہدرہ پُل کے آس پاس دیکھتا تھا کہ شائد کہیں فرہاد علی تیمور کسی درخت کے نیچے خیال خوانی میں مصروف نظر آجائے، مگر صرف کنکریٹ کی عمارتوں کا جنگل ہی نظر آپاتا تھا. اس خیال سے کہ لوگ مذاق نہ اڑائیں کبھی بھی اس خواہش کا اظہار نہ کیا. مگر پھر، وقت کے ساتھ ساتھ جب آس پاس کی چیزوں کو سمجھنے شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ اور بہت سے کہانیاں بھی تھیں جن کا طرز تحریر بالکل فرہاد علی تیمور کی طرح کا تھا.
پہلے تو یہ گمان ہوا کہ دراصل فرہاد علی تیمور ، محی الدین نواب کے نام سے لکھتا ہے، مگر جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے. یہ محی الدین نواب تھے جنھوں نے فرہاد علی تیمور کی داستان قلم بند کی.

دیوتا 33 برس تک شائع ہوتی رہی.میں اس کو مستقل تو نہ پڑھ سکا، بیچ میں بہت لمبے لمبے وقفے آئے، تعلیمی میدان میں مسابقت کی دوڑ کی وجہ سے دیوتا سے رابطہ منقطع رہا ، مگر بھلا ہو لائیبریریوں کا، اور میرے دوستوں کا، کہ پرانے ڈائجسٹ مل جاتے تھے اور اس داستان میں پائے جا نے والے خلا تھوڑے تھوڑے کم ہوجاتے تھے.
محی الدین نواب صاحب کا بہت زرخیز دماغ ہے، اس لمبے عرصے تک ایک داستان کو چلائے رکھنا اور ایسا چلائے رکھنا کہ ہر باب میں ایک نیا موڑ. ایک بہت کٹھن کام ہے. مجھے یاد ہے، فرہاد علی تیمور کی داستان کے شروع کے حصوں میں سپر ماسٹر اور ماسک مین دو اہم کردار تھے جو کہ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین کی بالادستی کی نمائیندگی کرتے تھے. سوویت یونین کے زوال کے بعد ماسک مین کے کردار کو زوال آیا اور پھر خطے کے حالات کے مطابق کہانی چلنے لگی. کبھی فرہاد کو سوڈان میں بھیجا گیا، تو کبھی طالبان کے درمیان. اکثر بھارتی کالے جادو کے ماہرین خال چاٹتے نظر آتے تھے. فرہاد نے رسونتی کو مسلمان کرا کے آمنہ بنا ڈالا اور یوں کہانی آگے بڑھتی گئی.

دیوتا اور ٹیلی پیتھی نے دماغ پر ایسا اثر ڈالا تھا کہ ایک زمانے میں مَیں نے کتابیات پبلیکیشنز کی ٹیلی پیتھی پر اکثر کتابیں خرید ڈالی تھیں. شمس بینی کے چکر میں صبح اٹھنا اور فلیٹوں کے پانی کے پائپوں کے ذریعے چھت پر چڑھ کر بند آنکھوں سے سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا ، کہ شائد اس سے آنکھوں میں وہ طلسماتی طاقت پید اہو جائے جس سے ہم امتحان میں آنے والے سوالات ٹیچر کو سحر زدہ کر کے معلوم کر سکیں.
رات کو پڑھتے پڑھتے ایک موم بتی لگا کر شمع بینی کی مشقیں کرنا، یا پھر ایک سادہ کاغذ پر ایک سیاہ دائرہ بنا کر اسے دیر تک دیکھنا بھی انھی مشقوں میں شامل تھا.

پھر کافی عرصے تک تو یہ تجسس رہا کہ آخر فرہاد کب اپنی داستان ختم کرے گا؟ وہ دن کب آئے گا جب ہم اس داستان کے اختتامی جملے پڑھیں گے، مگر وہ دن اُس وقت نہ آنا تھا. دیوتا چلتی رہی اور اس عرصے کے دوران بہت سے سلسلے شروع ہو کر ختم ہو بھی گئے مگر فرہاد ہر بار ایک نیا جنم لے کر سامنے آ جاتا تھا. یہ بات مجھے اچھی نہ لگی کہ صرف داستان گوئی کی خاطر آواگون کے فلسفے کو بھی بعض اوقات اسلامی رنگ چڑھایا گیا، مگر جب لوگوں کی عقیدت کو دیکھتا تو سسپنس ڈائجسٹ کی انتظامیہ کو لکھنے کا ارادہ ترک کر دیتا.

اب بھی جب کہ یہ داستان ختم ہو چکی ہے، مجھے بہت سے پہلو تشنہ دکھائی دے رہے ہیں. گزشتہ چھے برس سے اس داستان کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کئی ماہ پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ محی الدین نواب صاحب اب اس داستان کو ختم کرنے کے چکر میں ہیں. بابا فرید واسطی کی کئی پیش گوئیوں کا سہارا لے کر اس داستان کو مصنوعی تنفس فراہم کیا گیا مگر، یہ سب کب تک چلتا؟

اب جب کہ آج میں اس داستان کا آخری باب پڑھ چکا ہوں، مجھے یہی محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ پھر کسی پیش گوئی یا روحانی طاقت کا سہارا لے کر فرہاد علی تیمور میدان میں کھڑا دشمنوں کو للکار رہا ہوگا.

دیوتا
 
ایک کالم پیش خدمت ہے ۔۔۔۔۔

ٹیلی پیتھی کے تجربات
گزشتہ کالم میں جسم مثالی سے متعلق اپنے تجربے کا تذکرہ کیا تھا، یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی کہ اس دوران ہم سایہ بینی کی مشقیں بھی کررہے تھے۔
قارئین کا اصرار ہے کہ ذاتی تجربات پر مشتمل کالم پیش کیے جائیں، مستقل ایک ہی سلسلہ برقرار رکھنا مناسب نہیں کیونکہ یہ کالم نفسیات ومابعد نفسیات کے مختلف پہلوؤں اور معلومات کو قارئین تک پہنچانے کے لیے شروع کیا گیا ہے لیکن اپنے ذاتی تجربات بھی ان کالموں کے ساتھ پیش کرتے رہیں گے۔
یہاں اس تنبیہہ کا بھی خلاصہ کرتے چلیں جو ہم ان مشقوں کے لیے کسی ماہر استاد اور نگران کی موجودگی لازم قرار دیتے ہیں، اپنے ذاتی تجربات کے دوران ہمیں جہاں کچھ محیر العقول واقعات کا سامنا کرنا پڑا وہیں مناسب رہنمائی نہ ہونے کے باعث کچھ نقصانات بھی اٹھانا پڑے جن کا ازالہ برسوں بعد بھی نہیں ہو پایا ہے، جیسا کہ جسم مثالی کی پرواز کے دوران ناسمجھی کے باعث ہم اسے کنٹرول نہ کرسکے اور ایسی گرہ لگ گئی کہ پھر دوبارہ جسم مثالی کو خود سے الگ کرنا ممکن نہ ہوپایا، اسی طرح ٹیلی پیتھی کی کامیاب مشقیں کرنے کے بعد بھی یہ علم ہم سے کوسوں دور رہا۔ آج کے کالم میں ٹیلی پیتھی کی مشقوں کے دوران پیش آمدہ واقعات کا بیان ہے۔
ٹیلی پیتھی سیکھنے کے حوالے سے مختلف مشقوں کا تذکرہ گزشتہ کالموں میں کیا جاچکا ہے۔ ارتکاز توجہ کی مختلف مشقیں ٹیلی پیتھی کے حوالے سے مجرب ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہم نقطہ بینی، ماہ بینی اور شمع بینی کی مشقوں پر کسی حد تک عبور حاصل کرچکے تھے، سورج سے نگاہیں ملانے کی ابھی ابتدا ہی تھی لیکن ذہن کی کشادگی میں اضافہ ہورہا تھا۔
اس دوران ایسے واقعات پیش آرہے تھے کہ ہمیں اپنی کامیابی کا یقین ہوچلا تھا، حتی الامکان کوشش یہی تھی کہ اپنے کامیاب تجربات کو چھپا کر رکھا جائے کیونکہ ہر دور کی طرح عام لوگ ان علوم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہچکچاتے ہیں اور یقین رکھنے والوں کو طرح طرح کے مذاق اور طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ یہ بات ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ ان علوم سے متعلقہ مشقیں ہم نے لڑکپن میں ہی شروع کردی تھیں۔
بچپن میں زود حس اور روحیت پسند طبیعت کے باعث کسی بھی قسم کی مشق کے بغیر ہی عجیب تجربات پیش آئے جیسے خواب میں ان واقعات کو دیکھنا جو پیش آنے والے ہوں، گھر میں کسی مہمان کی آمد سے پہلے اس بات کا ادراک ہوجانا اور ایسے ہی کئی دیگر واقعات۔ گھر کے بڑے اکثر کہا کرتے تھے میرے خواب سچے ہوتے ہیں لیکن جب بڑے ہونے کے بعد تعلیم حاصل کی اور ان ماورائی علوم پر کتابیں پڑھیں تو علم ہوا کہ ہر شخص کے بچپن میں ’’غدہ صنوبری‘‘ ہرا بھرا ہوتا ہے، بچوں میں اس غدہ صنوبری کے باعث ایک تیسری آنکھ کھلی رہتی ہے جو انھیں مستقبل کے واقعات اور خطرات سے آگاہ کردیتی ہے۔
یہ واقعات بسا اوقات خواب کی شکل میں نظر آجاتے ہیں جنھیں ہم سچے خواب کے نام سے پکارتے ہیں لیکن درحقیقت یہ ہمارے غدہ صنوبری والی تیسری آنکھ کی کارستانی ہوتی ہے جو مستقبل میں جھانک کر چپکے سے ہمارے لاشعور کو آگاہ کردیتی ہے۔ وقت گزرنے اور بڑھتی عمر کے ساتھ یہ غدہ صنوبری سوکھنا شروع ہوجاتا ہے یہاں تک کہ نوجوانی کی حدود تک پہنچتے پہنچتے یہ بالکل مرجھا جاتا ہے۔
اگر اس دور میں ماورائی علوم سے متعلقہ مشقیں کی جائیں تو نہ صرف غدہ صنوبری کو مرجھانے سے بچایا جاسکتا ہے بلکہ اس کی قوت میں اضافہ کرکے اپنی مرضی کے مطابق بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ٹیلی پیتھی سے متعلقہ مشقوں کے دوران درون بینی اور ’’ماضی کی آوازیں‘‘ سننے کی بھی کوشش کی۔ کچھ قارئین کے لیے ماضی کی آوازوں کا بیان یقیناً نیا ہوگا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو کچھ اس دنیا میں پیش آچکا ہے وہ یکسر فنا نہیں ہوا بلکہ ان ھی فضاؤں میں مختلف زاویوں میں مقید ہے، اسی طرح دنیا میں جتنی بھی آوازیں گزری ہیں وہ بھی ان ھی ہواؤں، ان ھی فضاؤں میں گردش کررہی ہیں، جنھیں عام سماعت سے نہیں سنا جاسکتا لیکن اپنی اندرونی سماعت کو اس قدر طاقتور بنایا جاسکتا ہے کہ ماضی کی ان گمشدہ آوازوں کو سننا ممکن بنایا جاسکے۔
انشاء اﷲ ماضی کی ان آوازوں کو سننے سے متعلق مشقوں کا بیان بھی آئندہ کسی کالم میں کیا جائے گا۔ ہاں تو تذکرہ تھا ان واقعات کا جو ان مشقوں کے دوران پیش آئے۔ کردار سازی و تعمیر و تنظیم شخصیت سے متعلقہ مشقیں چاہے وہ سانس کی مشقیں ہوں یا ماورائی علوم کے حصول کی مشقیں، تمام نہ صرف آپ کی ظاہری حسوں بلکہ باطنی حس کو بھی توانا و مضبوط بناتی ہیں، اور چھٹی حس کی قوت میں حیرت انگیز اضافہ ہوجاتا ہے جو عموماً ناگہانی وقت میں متحرک ہوتی ہے لیکن ان مشقوں کے دوران (کامیابی کی صورت میں) چھٹی حس مسلسل متحرک رہتی ہے۔
اس دوران چھٹی حس کی قوت کے کئی مظاہر دیکھنے میں آئے، بچپن میں جو سچے خواب سوتے میں آیا کرتے تھے اب ہونے والے واقعات کا احساس جاگتی حالت میں پیشگی ہونے لگا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ گھر والوں یا دوستوں کے ساتھ بیٹھا گفتگو میں مصروف ہوتا اور بولنے سے پہلے اندازہ ہوجاتا کہ سامنے والے کا جواب کیا ہوگا اور بعد ازاں حرف بہ حرف وہی الفاظ مقابل ادا کرتا جو ہمارے ذہن میں ہوتے۔ اپنی بڑی ہمشیرہ سے اس قدر ذہنی ہم آہنگی ہوگئی تھی کہ گفتگو کے لیے الفاظ کی ضرورت نہ پڑتی تھی، صرف چہرہ دیکھ کر احساس ہوجاتا تھا کہ کیا بات ذہن میں ہے اور بعد ازاں اس کی تصدیق بھی ہوجاتی۔
یہی نہیں بلکہ مستقبل قریب کے کچھ واقعات کا اس قدر شدید احساس ہوا کہ وہ سب کچھ دیکھا بھالا لگا، جیسے کچھ مناظر اور واقعات میں یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ پہلے ہوچکا ہے لیکن بعد میں تجزیہ کرنے پر علم ہوا کہ دراصل چند دن پہلے ان ھی واقعات کو خود تنویمی کی غیر ارادی حالت میں دیکھ چکا ہوں جو اس وقت اسی طرح پیش آرہے تھے۔
جو لوگ کردار سازی اور تعمیر و تنظیم شخصیت کے حوالے سے ان مشقوں کی پریکٹس میں مشغول ہیں انھیں اپنے روزمرہ واقعات پر مشتمل ایک ڈائری ضرور ترتیب دینی چاہیے کیونکہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جنھیں ہم غیر ضروری اور غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں وہ ان مشقوں کی کامیابی کی طرف ایک واضح اشارہ ہوتی ہیں، اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ان مشقوں کی کامیابی کے لیے پختہ ارادہ اور مستقل مزاجی ازحد ضروری ہے، ہوسکتا ہے ابتدائی کچھ عرصے میں آپ کو کسی تبدیلی کا احساس نہ ہو لیکن کبھی نہ کبھی یہ مشقیں اپنا اثر ضرور دکھاتی ہیں۔


ٹیلی پیتھی کے تجربات - ایکسپریس اردو
 
Top