ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا - صوفی تبسّم

فرخ منظور

لائبریرین
ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا

اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ انڈے ہیں
یہ انڈے گھر میں رکھے ہیں
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ چوہا ہے
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ بلّی ہے
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ لڑکی ہے
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ بڑھیا ہے
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ کٹیا ہے
کٹیا میں بڑھیا سوتی تھی
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ جنگل ہے
جنگل میں کٹیا ہوتی تھی
کٹیا میں بڑھیا سوتی تھی
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ گاؤں ہے
گاؤں کے باہر جنگل ہے
جنگل میں کٹیا ہوتی تھی
کٹیا میں بڑھیا سوتی تھی
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے

یہ منّا ہے
منّے کا گاؤں ننگل ہے
گاؤں کے باہر جنگل ہے
جنگل میں کٹیا ہوتی تھی
کٹیا میں بڑھیا سوتی تھی
بڑھیا کی لڑکی کالی تھی
لڑکی نے بلّی پالی تھی
بلّی نے چوہا مارا تھا
چوہے نے انڈے چکّھےتھے
یہ انڈے گھر میں رکھے تھے
اس گھر کے باہر جنگلا ہے
یہ ٹوٹ بٹوٹ کا بنگلا ہے


از صوفی غلام مصطفی تبسّم

 
سخنور بھیا اب مجھے ایسی کسی دوائی کے بارے میں جانکاری لینی پڑے گی جو مجھے بڑھاپے سے بچپن کی طرف لوٹا دے۔ آپ نے تو بھر مار کر دی۔ بہت عمدہ :grin:
 

فرخ منظور

لائبریرین
سخنور بھیا اب مجھے ایسی کسی دوائی کے بارے میں جانکاری لینی پڑے گی جو مجھے بڑھاپے سے بچپن کی طرف لوٹا دے۔ آپ نے تو بھر مار کر دی۔ بہت عمدہ :grin:

:) بہت شکریہ سعود بھائی۔ بس آپ میری بزم اطفال والی دوائی لیتے رہا کریں انشااللہ افاقہ ہوگا اور بچوں کی طرح قلقاریاں ماریں گے۔ :) ویسے میرے اوپر بھی دو ہی موسم گزرے ہیں بچپن یا بڑھاپے کا۔ جوانی کمبخت تو کبھی آئی ہی نہیں۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
حسب معمول اچھی نظم ہے۔۔ شکریہ۔۔۔ لیکن ٹوٹ بٹوٹ کے نام سے ایک ہی سلسلے میں ساری نظمیں پوسٹ ہوتیں تو ایک مجموعی کمپایل کیا جا سکتا تھا۔۔ یہ لائبریری کا گوشہ ہے نا۔۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
حسب معمول اچھی نظم ہے۔۔ شکریہ۔۔۔ لیکن ٹوٹ بٹوٹ کے نام سے ایک ہی سلسلے میں ساری نظمیں پوسٹ ہوتیں تو ایک مجموعی کمپایل کیا جا سکتا تھا۔۔ یہ لائبریری کا گوشہ ہے نا۔۔

بہت شکریہ۔ جی آپ نے درست فرمایا لیکن اس طرح نظمیں ایک ہی دھاگے میں گم ہوجاتی ہیں۔ آپ یہ کتاب مکمل ہو لینے دیں مین خود انہیں کمپائل کرکے آپ کو فائل بھجوا دوں گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب ۔ ۔ اسے پڑھ کر تو ٹوٹ بٹوٹ یاد آگیا کہ بہت عرصے سے دکھائی نہیں پڑھنے کو ۔ ۔ ۔

بہت شکریہ امید اور محبت۔ جب یہ نظمیں نئی نئی آئی تھیں تو اکثر بچے صوفی تبسّم صاحب کو ہی ٹوٹ بٹوٹ سمجھتے تھے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ جو خود صوفی صاحب نے اس کتاب میں رقم فرمایا ہے۔

"ایک روز میں لاہور کی مال روڈ کے فٹ پاتھ پہ جا رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔ ایک ننھا بچہ کہہ رہا تھا۔ امی امی! دیکھو وہ ٹوٹ بٹوٹ جا رہا ہے۔ اس کی امی نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی لیکن بچہ پھر بڑے وثوق سے چلایا۔ نہیں امی! آپ نے دیکھا نہیں، وہ ٹوٹ بٹوٹ ہی ہیں۔

میں چلتے چلتے رک گیا۔ بچے سے ملا، اسے پیار کیا وہ بے حد خوش ہوا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی ہو۔
ماں نے مجھ سے معذرت چاہی اور کہا "یہ بچہ عرصے سے آپ کو ملنا چاہتا تھا"
ہاں تو یہ ایک بچے کی بات نہیں۔ بہت سے بچے ہیں جنہیں ٹوٹ بٹوٹ کی تلاش ہے۔ بعض تو اپنے والدین یا بہن بھائیوں کے ساتھ آکر مجھ سے ملتے ہیں اور پوچھتے ہیں۔ یہ ٹوٹ بٹوٹ کون ہے؟
لیکن ٹوٹ بٹوٹ اب کوئی فرضی کردار نہیں رہا۔ اب وہ بچوں کی دنیا کا ایک جیتا جاگتا، چلتا پھرتا کردار ہے۔ بچے اس سے ملتے ہیں۔ باتیں کرتے ہیں اور کھیلتے ہیں۔
 
Top