سرفراز شاہد يہي وہ کالج ہے جس ميں سلطانہ پڑھتي تھي

وہ اس کالج کي شہزادي تھي وہ شاہانہ پڑھتي تھي
وہ بے باکانہ آتي تھي وہ باکانہ پڑھتي تھي

بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتي تھي
وہ لڑکي تھي مگر مضمون سب مردانہ پڑھتي تھي

يہي کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتي تھي
جماعت ميں ہميشہ دير وہ آيا کرتي تھي

کتابوں کے تلے فلمي رسالے لايا کرتي تھي
وہ جب دوران ليکچر بور سي ہوجايا کرتي تھي

تو چپکے سےکوئي تازہ ترين افسانہ پڑھتي تھي
کتابيں ديکھ کر کڑھتي تھي محو ياس ہوتي تھي

بقول اس کے کتابوں ميں نري بکواس ہوتي تھي
تعجب ہے کہ وہ ہر سال کيسے پاس ہوتي تھي

جو علم، علم اور مولانہ کو ملوانہ پڑھتي تھي
يہي وہ کالج ہے ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتي تھي

يہي کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتي تھي

بڑي مشہور تھي کالج ميں چرچا عام تھا اسکا
جوانوں کے دلوں سے کھيلنا بس کام تھا اس کا

يہاں کالج ميں پڑھنا تو برائے نام تھا اس کا
کہ وہ آزاد لڑکي تھي وہ آزادانہ پڑھتي تھي

يہي کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتي تھي
عجب انداز کے عشاق تھے اس ہير کے مامے

کھڑے رہتے تھے پھاٹک پر کئي ماجھے کئي گامے
وہ اس طوفان ميں رہتي تھي طوفانہ پڑھتي تھي

يہي وہ کالج ہے جس میں سلطانہ پڑھتي تھي
وہ سلطانہ مگر پہلي سي سلطانہ نہيں يارو

سنا ہے کوئي بھي اب اس کا ديوانہ نہيں يارو
کوئي اس شمع خاکستر کا پروانہ نہيں يارو

خود افسانہ بني بيٹھي ہے جو افسانہ پڑھتي تھي
يہي وہ کالج ہے جس ميں سلطانہ پڑھتي تھي
 
سرفراز شاہد کی ایک اور نظم


ظاہر ميں سرد و زرد ہے کاغان کي طرح
ليکن مزاج اس کا ہے ملتان کي طرح

راز و نياز ميں بھي اکڑفوں نہيں گئي
وہ خط بھي لکھتا ہے تو چالان کي طرح

لقمہ حلال کا جو ملا اہلکار کو
اس نے چبا کے تھوک ديا پان کي طرح

ميں مبتلائے قرض رہا چار سال تک
وہ صرف چار دن رہا مہمان کي طرح

جب سے بہو کا راج ہے شوہر کے والدين
گھر ميں پڑے ہيں فالتو سامان کي طرح

گندم ہے سرفراز علاج غم حيات
برگر کي شکل ميں ہو کہ ہو نان کي طرح
 
سينٹ کي کجلے کي اور غازے کي گلکاري کے بعد
وہ حسين لگتي ہے لکين کتني تياري کے بعد

مدتوں کے بعد اس کو ديکھ کر ايسا لگا
جيسے روزہ دار کي حالت ہو افطاري کے بعد

باندھ کر سہرا نظر آيا يوں نوشہ مياں
جس طرح مجرم دکھائي دے گرفتاري کے بعد

ہيروئن پچپن برس کي ہو چکيں تو غم نہيں
اب گلوکاري کريں گي اداکاري کے بعد

قوم کو بيدار کر شکو ميوزک چھيڑ کر
جو بيچاري سو چکي ہے راگ درباري کے بعد

عيد پر مسرور ہيں دونوں مياں بيوي بہت
ايک خريداري سے پہلے اک خريداري کے بعد

عقد ثاني کا مزا پوچھا تو بولے شيخ جي
ايسے لگتا ہے چکن چکھا ہے ترکاري کے بعد

راہ الفت کي ٹريفک ہو کہ موٹر وے کي ہو
حادثے ہوتے ہيں شاہد تيز رفتاري کے بعد
 
سوٹ کو ماضي کا اک افسانہ کہہ
مجھ سے مسٹر کو بھي اب مولانہ کھ

دوستي باہر حسينائوں سے رکھ
گھر ميں بيوي کو چراغ خانہ کہہ

دست پنجہ لے جو مطلب کے لئے
ايسے دست يار کو دستانہ کہہ

جو بيوٹي پارلر ميں خرچ ہو
اس کو اپنے حسن کا فطرانہ کہہ

فيس بابو کو اگر ديني پڑے
اس کو رشوت مت سمجھ نذرانہ کہہ

حسن کي گر ديکھني ہو برہمي
ايک دن نسرين کو رخسانہ کہہ

ہر جواں عورت کو اپني باجي مت بنا
جو معمر ہے انہيں آپا نہ کہہ

صرف اتنا کر کہ مجھ کو مت سنا
بيس غزليں شوق روزانہ کہہ

قول مرداں جان داروں سرفراز
بات سچي ہو تو بے باکانہ کہہ
 
شب غم کے اندھيروں مميں کمي ہونے نہيں ديتے
يہ کيسے بلب ہيں جو روشني ہونے نہيں ديتے

مسلمانوں کي خواہش ہے کہ وہ سب ايک ہو جائيں
مگر ان کو اکھٹا مولوي ہونے نہيں ديتے

ہے نيچے کھردري پتلون اوپر شرٹ مردانہ
مگر ايسا جہاں کے چودہري ہونے نہيں ديتے

مشينوں سے بنا ليتے ہيں ہم کيا کيا سپر انساں
مگر ہم آدمي کو آدمي ہونے نہيں ديتے

بنا رکھا ہے بچے کي ولادت مسئلہ ہم نے
کبھي ہونے پر خوش ہيں اور کبھي ہونے نہيں ديتے

جہاد خانگي ميں کامراں ہوتے ہيں وہ شوہر
جو خود ديو بيوي کو پري ہونے نہيں ديتے

غزل ميں آج بھي شاہد ظرافت ہم سے قائم ہے
ہم اس صنف سخن پھسپھسي ہونے نہيں ديت
 
تو نے ٹھکرا ديا ہميں جاناں
ہم بھي ايسي تري خبر ليں گے

بائيو ٹيکنيک کي مدد سے ہم
اپنا دامن خوشي سے بھر ليں گے

يعني تيرے بدن کے خلئيے سے
اک حسينہ جو خوش ادا ہوگي

زندگي ميں بہار لائے گي
جاناں جاں تيري ہو بہو کاپي

ميرے پہلو ميں مسکرائے گي
وہ ہنسے گي تجھے رلائے گي

پھر تجھے کيسے نيند آئے گي
سوچ لے اب بھي وقت ہے
 
فاخرہ تو پاگل تھي

فيشنيوں کے چکر ميں
يوں فريب کھا بيٹھي

رنگ گورا کرنے کي
ہرا دوا منگا بيٹھي

تھي جو دوا کھانے کي
وہ دوا لگا بيٹھي

جو دوا لگاني تھي
اس دوا کو کھا بيٹھي

اور اس حماقت ميں
اپني جاں گنوا بيٹھي

فاخرہ تو پاگل تھي
 

مون

محفلین
یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

سب دوستوں کی فرمائش پر سرفراز شاہد کا ایک اور شاہکار آپ سب کی نظر ۔۔۔۔:)

وہ اس کالج کی شہزادی تھی اور شاہانہ پڑھتی تھی
وہ بے باکانہ آتی تھی وہ بے باکانہ پڑھتی تھی
بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی
وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

کلاسوں میں ہمیشہ دیر سے وہ آیا کرتی تھی
کتابوں کے تلے فلمی رسالے لایا کرتی تھی
وہ جب دورانِ لیکچر بور سی ہو جایا کرتی تھی
تو چپکے سے کوئی تازہ تریں افسانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

کتابیں دیکھ کر کڑھتی تھی محوِ یاس ہوتی تھی
بقول اس کے کتابوں میں نری بکواس ہوتی تھی
تعجب ہے کہ وہ ہر سال کیسے پاس ہوتی تھی
جو “عِلَم” علم کو، مولانا کو ’’ملوانہ ‘‘ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

بڑی مشہور تھی کالج میں چرچا عام تھا اس کا
جوانوں کے دلوں سے کھیلنا بس کام تھا اس کا
یہاں کالج میں پڑھنا تو برائے نام تھا اس کا
کہ وہ آزاد لڑکی تھی، وہ آزادانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

عجب انداز کے عشاق تھے اس ہیر کے مامے
کھڑے رہتے تھے پھاٹک پر کئی ماجھے کئی گامے
جو اس کے نام پر کرتے تھے جھگڑے اور ہنگامے
وہ اس طوفان میں رہتی تھی طوفانانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

وہ سلطانہ مگر پہلی سی سلطانہ نہیں یارو
سنا ہے کوئی بھی اب اس کا دیوانہ نہیں یارو
کوئی اس شمعِ خاکستر کا پروانہ نہیں یارو
خود افسانہ بنی بیٹھی ہے جو افسانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

(سرفراز شاہد)
 
Top