الشفاء

لائبریرین
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍO
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہےo
سورۃ القمر ، آیت نمبر 17 ۔​

خاتم الانبیاء ﷺ کا فرمان جنت نشان ہے
" خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ "
تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔۔۔
( صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)
اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منیر پر نازل فرمایا ، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ صحیفہ بیک وقت کتاب بھی ہے اور علم و معرفت کا آفتاب جہاں تاب بھی۔ جس میں زندگی کی حرارت اور ہدایت کا نور دونوں یکجاں ہیں۔ اس کا فیض ہر پیاسے کو اس کی پیاس کے مطابق سیراب کرتا ہے۔
اگرچہ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہر شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے "یا ایھا الذین آمنو " کہہ کر بڑے پیار بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے۔ اور" اے ایمان والو" کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں پر ہمارے رب عزوجل نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فرمایا ہے۔ بعید نہیں کہ اللہ عزوجل اس کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس پر کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرما دے۔۔۔
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب تم قرآن کریم میں يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ سنو تو کان لگا دو اور دل سے متوجہ ہو جایا کرو۔ کیونکہ یا تو کسی بھلائی کا حکم ہو گا یا کسی برائی سے ممانعت ہوگی۔ حضرت خیثلہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ توراۃ میں بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالٰی نے یا ایھا المساکین فرمایا ہے لیکن امت محمدیہ کو يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ کے معزز خطاب سے یاد فرمایا ہے" (تفسیر ابن کثیر)۔
ایک مرتبہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام اصحاب صفّہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :" تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ صبح کو وادی بطحان یا عقیق جائے اور وہاں سے موٹی تازی خوبصورت دو اونٹنیاں لے آئے اور اس میں کسی گناہ وقطع رحمی کا مرتکب بھی نہ ہو ؟" صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہم سب یہ چاہتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :" تمہارا ہر روز مسجد جاکر دو آیتیں سیکھ لینا دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور تین آیتیں سیکھ لینا تین اونٹنیوں سے بہتر ہے اسی طرح جتنی آیتیں سیکھو گے اتنی اونٹنیوں سے بہتر ہے"
{ صحیح مسلم و ابو داود }
قرآن مجید میں تقریباً ۸۹ آیات " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ" کے الفاظ کے ساتھ شروع ہو رہی ہیں۔ کوشش کریں گے کہ ان تمام آیات کو افادہ عامہ کے لیے عام فہم اردو ترجمہ اور مختصر تفسیر کے ساتھ پیش کر دیا جائے۔ ان شاء اللہ العزیز اس حوالے سے مختلف کتب و تفاسیر سے خوشہ چینی کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ وباللہ التوفیق۔۔۔
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
اس سلسلے کی پہلی آیت سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۰۴ ہے۔ جس میں خالق کائنات مسلمانوں کو اپنے پیارے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ بے کس پناہ کا ادب سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۰۴۔​
"راعنا" ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیے اور صحابہ کرام جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ارشاد گرامی کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ۔ ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ہماری رعایت فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھا دیجیئے۔ لیکن یہود کی عبرانی زبان میں یہی لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا جس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب کی عزت و تعظیم کا یہاں تک پاس ہے کہ ایسے لفظ کا استعمال بھی ممنوع فرما دیا جس میں گستاخی کا شائبہ تک بھی ہو۔ چنانچہ علماء کرام نے تصریح کی ہے "فیھا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعریض للتنقیص والغض" (قرطبی)۔ یعنی اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال تک ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو حد قذف لگانے کا حکم دیا ہے۔
"راعنا کی جگہ انظرنا" (یعنی ہماری طرف نگاہ لطف فرمائیے) کہا کرو۔ کیونکہ یہ لفظ ہر طرح کے احتمالات فاسدہ سے پاک ہے۔ اور "واسمعو" کا حکم دے کر یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جب میرا رسول تمہیں کچھ سنا رہا ہو تو ہمہ تن گوش ہو کر سنو۔ تاکہ انظرنا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ بھی تو شان نبوت کے مناسب نہیں کہ ایک ایک بات تم بار بار پوچھتے رہو۔
یہ کمال ادب اور انتہائے تعظیم ہے جس کی تعلیم عرش و فرش کے مالک نے غلامان مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام کو دی ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اس آیت مبارکہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے اور اس کی برکت سے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے ادب اور تعظیم کو ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
کہ اس آسماں کے نیچے عرش عظیم سے بھی نازک تر جگہ بارگاہ رسالت ﷺ ہے کہ جہاں جنید بغدادی و بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہما جیسی بزرگ ہستیاں بھی دم بخود حاضر ہوتی ہیں۔۔۔

۔۔۔​
 
اس سلسلے کی پہلی آیت سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۰۴ ہے۔ جس میں خالق کائنات مسلمانوں کو اپنے پیارے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ بے کس پناہ کا ادب سکھا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ اُنْظُرْنَا (ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت ۱۰۴۔​
"راعنا" ذومعنی لفظ ہے۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ ہماری رعایت فرمائیے اور صحابہ کرام جب بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ارشاد گرامی کو اچھی طرح سمجھ نہ سکتے تو عرض کرتے راعنا یا رسول اللہ۔ ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔ ہماری رعایت فرماتے ہوئے دوبارہ سمجھا دیجیئے۔ لیکن یہود کی عبرانی زبان میں یہی لفظ ایسے معنی میں استعمال ہوتا جس میں گستاخی اور بے ادبی پائی جاتی۔ اللہ تعالٰی کو اپنے محبوب کی عزت و تعظیم کا یہاں تک پاس ہے کہ ایسے لفظ کا استعمال بھی ممنوع فرما دیا جس میں گستاخی کا شائبہ تک بھی ہو۔ چنانچہ علماء کرام نے تصریح کی ہے "فیھا دلیل علی تجنب الالفاظ المحتملۃ التی فیھا التعریض للتنقیص والغض" (قرطبی)۔ یعنی اس آیت سے ثابت ہوا کہ ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال تک ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے شخص کو حد قذف لگانے کا حکم دیا ہے۔
"راعنا کی جگہ انظرنا" (یعنی ہماری طرف نگاہ لطف فرمائیے) کہا کرو۔ کیونکہ یہ لفظ ہر طرح کے احتمالات فاسدہ سے پاک ہے۔ اور "واسمعو" کا حکم دے کر یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ جب میرا رسول تمہیں کچھ سنا رہا ہو تو ہمہ تن گوش ہو کر سنو۔ تاکہ انظرنا کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کیونکہ یہ بھی تو شان نبوت کے مناسب نہیں کہ ایک ایک بات تم بار بار پوچھتے رہو۔
یہ کمال ادب اور انتہائے تعظیم ہے جس کی تعلیم عرش و فرش کے مالک نے غلامان مصطفٰے علیہ الصلاۃ والسلام کو دی ہے۔ اللہ عزوجل ہمیں اس آیت مبارکہ کے فیضان سے بہرہ مند فرمائے اور اس کی برکت سے اپنے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کے ادب اور تعظیم کو ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں"۔

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و با یزید ایں جا
کہ اس آسماں کے نیچے عرش عظیم سے بھی نازک تر جگہ بارگاہ رسالت ﷺ ہے کہ جہاں جنید بغدادی و بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہما جیسی بزرگ ہستیاں بھی دم بخود حاضر ہوتی ہیں۔۔۔

۔۔۔​
ماشاء اللہ ،
کیا خوب تحریر فرمایا ،
بے شک ،باادب بانصیب بے ادب بد نصیب۔
 

الشفاء

لائبریرین
۲۔ اس سلسلے کی دوسری آیت سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۵۳ ہے۔ جس میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو اپنی مدد پانے اور اپنی معیت حاصل کرنے کا راز بتا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 153۔

اس سے پہلے کی آیت میں شکر کی تلقین کی گئی ہے اور اب اس کے ساتھ صبر اور نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کو حکم ہو رہا ہے۔حدیث میں ہے کہ مومن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام اس کے لیے سراسر بھلائی ہے۔ اسے راحت ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔اور اگر رنج پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔
صبر اور نماز ۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی ، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستہ پر لگاتار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنے اندر یہ قوت پیدا کر لے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کے ذریعے اپنا رشتہ عبدیت اپنے رب حقیقی سے محکم کر لے تو پھر کوئی مشکل اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ حضور کریم ﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی مشکل کام آ پڑتا تو فوراً نماز پڑھنے لگتے۔
صبر ، حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے، اطاعت اور نیکی کے کاموں کو انجام دینے، دکھ درد اور مصیبت کے پہنچنے پر کیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں پر استقلال سے جمے رہنا ، چاہے انسان پر شاق گزرے اور طبیعت کے خلاف ہو، یہ بھی صبر میں داخل ہے۔ اسی طرح اللہ عزوجل کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا بھی صبر ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو اور خواہش نفس اکسا رہی ہو۔

امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں ، اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں چلے جائیں۔ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے۔ فرشتے کہیں گے ، کہاں جارہے ہو؟ یہ کہیں گے جنت میں۔ وہ کہیں گے، ابھی تو حساب بھی نہیں ہوا۔ کہیں گے کہ ہاں حساب سے بھی پہلے۔ پوچھا جائے گا کہ آخر آپ کون لوگ ہیں۔جواب دیں گے کہ ہم صابر لوگ ہیں، اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کرتے رہے اس کی نافرمانی سے بچتے رہے اور آخر تک اس پر جمے رہے۔ فرشتے کہیں گے ، پھر تو ٹھیک ہے۔ بے شک تمہارا یہی بدلہ ہے اور تم لوگ اسی لائق ہو۔۔۔
اللہ عزجل کی معیت سے مراد یہاں خصوصی معیت ہے، یعنی تائید و نصرت کی معیت۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں۔ "بل معیہ غیر متکیفہ یتضح علی العارفین" ۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل ہمیں اس میں سے حصہ وافر عطا فرمائے۔آمین۔۔۔

۔۔۔​
 

فاخر رضا

محفلین
۲۔ اس سلسلے کی دوسری آیت سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۵۳ ہے۔ جس میں اللہ عزوجل اپنے اہل ایمان بندوں کو اپنی مدد پانے اور اپنی معیت حاصل کرنے کا راز بتا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہےo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 153۔

اس سے پہلے کی آیت میں شکر کی تلقین کی گئی ہے اور اب اس کے ساتھ صبر اور نماز کا ذکر کر کے ان بڑے بڑے نیک کاموں کو ذریعہ نجات بنانے کو حکم ہو رہا ہے۔حدیث میں ہے کہ مومن کی کیا ہی اچھی حالت ہے کہ ہر کام اس کے لیے سراسر بھلائی ہے۔ اسے راحت ملتی ہے تو شکر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔اور اگر رنج پہنچتا ہے تو صبر کرتا ہے اور اجر پاتا ہے۔
صبر اور نماز ۔ صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں۔ اور اس سے مراد ارادے کی وہ مضبوطی ، عزم کی وہ پختگی اور خواہشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلہ میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستہ پر لگاتار بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اگر انسان اپنے اندر یہ قوت پیدا کر لے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کے ذریعے اپنا رشتہ عبدیت اپنے رب حقیقی سے محکم کر لے تو پھر کوئی مشکل اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ حضور کریم ﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب کوئی مشکل کام آ پڑتا تو فوراً نماز پڑھنے لگتے۔
صبر ، حرام اور گناہ کے کاموں کے ترک کرنے، اطاعت اور نیکی کے کاموں کو انجام دینے، دکھ درد اور مصیبت کے پہنچنے پر کیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں پر استقلال سے جمے رہنا ، چاہے انسان پر شاق گزرے اور طبیعت کے خلاف ہو، یہ بھی صبر میں داخل ہے۔ اسی طرح اللہ عزوجل کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جانا بھی صبر ہے چاہے طبعی میلان اس طرف ہو اور خواہش نفس اکسا رہی ہو۔

امام زین العابدین فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا کہ صبر کرنے والے کہاں ہیں؟ اٹھیں ، اور بغیر حساب و کتاب کے جنت میں چلے جائیں۔ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اور جنت کی طرف بڑھیں گے۔ فرشتے کہیں گے ، کہاں جارہے ہو؟ یہ کہیں گے جنت میں۔ وہ کہیں گے، ابھی تو حساب بھی نہیں ہوا۔ کہیں گے کہ ہاں حساب سے بھی پہلے۔ پوچھا جائے گا کہ آخر آپ کون لوگ ہیں۔جواب دیں گے کہ ہم صابر لوگ ہیں، اللہ عزوجل کی فرمانبرداری کرتے رہے اس کی نافرمانی سے بچتے رہے اور آخر تک اس پر جمے رہے۔ فرشتے کہیں گے ، پھر تو ٹھیک ہے۔ بے شک تمہارا یہی بدلہ ہے اور تم لوگ اسی لائق ہو۔۔۔
اللہ عزجل کی معیت سے مراد یہاں خصوصی معیت ہے، یعنی تائید و نصرت کی معیت۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں۔ "بل معیہ غیر متکیفہ یتضح علی العارفین" ۔ یعنی اس سنگت سے وہ خاص سنگت مراد ہے جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ صرف عارف ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ اللہ عزوجل ہمیں اس میں سے حصہ وافر عطا فرمائے۔آمین۔۔۔

۔۔۔​
صبر اور نماز سے مدد
صبر کا ایک مصداق روزہ بھی ہے

يقول تعالى آمرا عبيده ، فيما يؤملون من خير الدنيا والآخرة ، بالاستعانة بالصبر والصلاة ، كما قال مقاتل بن حيان في تفسير هذه الآية : استعينوا على طلب الآخرة بالصبر على الفرائض ، والصلاة .
فأما الصبر فقيل : إنه الصيام ، نص عليه مجاهد .
[ قال القرطبي وغيره : ولهذا سمي رمضان شهر الصبر كما نطق به الحديث ] .
وقال سفيان الثوري ، عن أبي إسحاق ، عن جري بن كليب ، عن رجل من بني سليم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : الصوم نصف الصبر
میں نے پوری تفسیر cut paste نہیں کی ہے
القرآن الكريم - تفسير ابن كثير - تفسير سورة البقرة - الآية 45
 

الشفاء

لائبریرین
۳۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں اللہ عزوجل اہل ایمان کو حلال و حرام کی تمیز سکھاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُواْ لِلّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَO إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْ۔زِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّهِ ۔

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہوo اس نے تم پر مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 173-172۔

حلال و حرام ۔ ان آیات میں اللہ عزوجل اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو۔ اور میری شکر گزاری کرو۔ لقمہ حلال دعا اور عبادت کی قبولیت کا سبب ہے، اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا۔ دعا کی قبولیت کا حلال کھانے سے گہرا تعلق ہے۔ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرے لیے دعا فرمائیں کہ میری دعائیں قبول ہو جایا کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا ، اے سعد اپنا کھانا پاک بنا لو ، مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے ، بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر (کر کے حج یا عمرے کے لئے ) آتاہے، (سفر کی وجہ سے)اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، (اور اس حالت میں )وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھاکر کہتا ہے: ’’اے میرے رب!اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام ہوتا ہے ، اس کا پینا حرام ہوتا ہے، اس کا لباس حرام ہوتا ہے اور حرام ہی سے اس کی پرورش ہوئی ہوتی ہے۔ تو(ایسے میں) اُس کی دعا کیسے قبول ہوسکتی ہے؟‘‘
حلال و طیب سے مراد یہ ہے کہ کسی حرام ذریعے سے کمایا ہوا نہ ہو مثلاً ڈاکہ زنی، چوری، سود، رشوت، دھوکا بازی اور دیگر حرام معاملات۔ اسی طرح پاکیزہ سے مراد یہ ہے کہ ناپاک نہ ہو مثلاً مردار، خنزیر کا گوشت، شراب اور دیگر ناپاک اشیاء۔ انسان جو غذائیں استعمال کرتا ہے اُن کا اُس کے جسم کے علاوہ اس کی عادات و اطوار پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ چنانچہ جیسی غذا سے جسم کی نشوونما ہوتی ہے جسم کے اندر اُسی طرح کی خصوصیات و صفات پیدا ہوتی ہیں۔ اس لئے اگر انسان کی غذا پاک اور حلال ہو تو اس میں اچھی صفات پیدا ہو تی ہیں۔ دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اطاعت و بندگی کا شوق بڑھ جاتا ہے۔لیکن اگرانسان کا کھانا پینا حرام اور خبیث ہو تو اس سے انسان کے دل کی سختی اور تاریکی بڑھ جاتی ہے اور خوف ِخدانکل جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ایسے انسان سے نیک اعمال بجا لانے کی قوّت سلب ہو جاتی ہے۔۔۔

اللٰھم اکفنا بحلالک عن حرامک واغننا بفضلک عمن سواک۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۴۔ سورۃ البقرۃ ہی کی آیت نمبر ۱۷۸ میں خالق ارض و سماوات نے معاشرے میں ظلم و نا انصافی کے خاتمے ، اپنے مظلوم و مجبور بندوں کی داد رسی اور حفاظت اور معاشرے میں امن و سکون کو قائم رکھنے کے لئے نہایت ہی اہم قوانین عطا فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO
اے ایمان والو! تم پر اُن کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۱۷۸۔​

شان نزول : اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ اگر طاقتور قبیلے کا کوئی شخص قتل کر دیا جاتا تو وہ صرف قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے بلکہ قاتل کے قبیلہ کے دس دس بیس بیس آدمی قتل کرنا اپنا حق سمجھتے۔ اگر کسی آزاد کو غلام قتل کر دیتا تو غلام کے بدلے غیر قاتل آزاد کا سر قلم کیا جاتا اور اگر عورت قتل کرتی تو مرد کو قتل کیا جاتا۔ اسی ظالمانہ اور غیر اسلامی دستور پر صدیوں عمل ہوتا رہا ۔ اور عرب اپنی نسلی نخوت اور قبائلی برتری کی تسکین بے گناہوں کا خون بہا بہا کر کرتے رہے۔ قرآن کریم نے اس دستور کو یک قلم منسوخ کر دیا اور حکم دیا کہ مقتول کا قاتل ہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام۔ قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی جگہ بیان ہوا ہے۔ اس آیت میں قصاص اور عفو دونوں کے مسائل ہیں۔ اور اس احسان کا بیان ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو قصاص و عفو میں مختار کیا، چاہیں قصاص لیں چاہیں تو معاف کر دیں۔
دیت یا خوں بہا: قانون قصاص میں ایک اہم تبدیلی یہ ہوئی کہ اگر مقتول کے وارث قاتل سے صلح کرنا چاہیں تو وہ خوں بہا لے کر صلح کر سکتے ہیں۔ کیونکہ قتل کا جرم صلح کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، اسلام نے ان خرابیوں کا احساس کرتے ہوئے صلح کی اجازت دے دی۔
من اخیہ کا لفظ بڑی شان رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں کہ جب قاتل قتل کا ارتکاب کر چکا ہے، محبت ، پیار ، رحم اور شفقت کے تمام رشتے ٹوٹ چکے ہیں۔ عداوت اور انتقام کی آگ بھڑکنے لگی ہے۔ قرآن مقتول کے غضب ناک وارثوں کو یاد دلاتا ہے کہ قاتل مجرم ہے، قصور وار ہے اور تمہارا غصہ بے جا بھی نہیں، تاہم تمہارا اسلامی بھائی تو ہے۔ اخوت ایمانی کا رشتہ تو ابھی بھی قائم ہے۔ اگر بخش دو، معاف کر دو تو کوئی بڑی بات نہیں۔مقصد یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل پھر جڑ جائیں۔ اور اسلامی معاشرے کے دامن میں جو چاک پڑ گیا ہے اسے پھر سی دیا جائے۔ اس میں خوارج کا ابطال بھی ہے کہ جو مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔ اللہ تعالٰی کے پاک کلام کی یہی لطافتیں تھیں جنہوں نے عرب کے سرکشوں مطیع بنا دیا تھا۔
فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ: یہاں مقتول کے وارثوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ جس بھائی پر تم نے اتنا احسان کیا کہ اس کی جاں بخشی کر کے دیت قبول کر لی تو اب اس سے خوں بہا اس احسن طریقہ سے طلب کرو کہ اسے تکلیف نہ ہو۔ اور دوسری طرف قاتل کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ احسان فراموش نہ بنے بلکہ خوشی خوشی جلدی جلدی خون بہا ادا کر دے۔ اور آ گے یہ بھی فرما دیا کہ یہ محض تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے رعایت و مہربانی ہے کہ اس نے قتل کی سزا صرف قتل ہی مقرر نہیں فرمائی بلکہ خوں بہا ادا کرنے کی بھی گنجائش رکھی ہے۔
فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ: اب تصفیہ ہو جانے کے بعد جو بھی زیادتی کرے ، قاتل ہو یا مقتول کے رشتہ دار، اسے درد ناک سزا دی جائے۔ ہر ایک کو قانون کا احترام اور اس کی پابندی کرنی چاہیئے۔ اسی لئے شریعت اسلامیہ نے قصاص لینے، حد قائم کرنے اور تعزیرات لگانے کا حق افراد کو نہیں دیا بلکہ صرف حکومت وقت کو دیا ہے کیونکہ عدل و انصاف قائم رکھنے کی صرف یہی صورت ہے۔ اگر افراد کو یہ حق مل جائے تو وہ افراتفری پیدا ہو کہ الامان۔۔۔

اگلی آیت مبارکہ میں قانون قصاص کی علت اور حکمت بیان کی جا رہی ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس کو بھی ساتھ ہی بیان کر دیا جائے۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاْ أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچوo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 179۔

یعنی اگر ناحق قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی تو اس کا حوصلہ بڑھے گا۔ اور مجرمانہ ذہنیت کے دوسرے لوگ بھی نڈر ہو کر قتل و غارت کا بازار گرم کر دیں گے۔ لیکن اگر قاتل کو اس کے جرم کے بدلے قتل کر دیا گیا تو دوسرے مجرم بھی اپنا بھیانک انجام دیکھ کر باز آ جائیں گے۔ اس طرح ایک قاتل کے قتل کرنے سے بے شمار معصوم جانیں قتل و غارت سے بچ جائیں گی۔ آج بعض ملکوں میں قتل کی سزا منسوخ کر دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سزا ظالمانہ ہے ۔ مقتول تو قتل ہو چکا، اب اس کے عوض ایک دوسرے آدمی کو تختہ دار پر لٹکانا بے رحمی نہیں تو کیا ہے۔ یہ لوگ خوف ناک حقائق کو دلکش عبارتوں سے حسین تو بنا سکتے ہیں لیکن نہ ان کی حقیقت کو بدل سکتے ہیں اور نہ ان کے برے نتائج کو رو پذیر ہونے سے روک سکتے ہیں۔ جس ملک کے قانون کی آنکھیں ظالم کے گلے میں پھانسی کا پھندا دیکھ کر پر نم ہو جائیں وہاں مظلوم و بے کس کا خدا ہی حافظ۔ وہ ملک اپنی آغوش میں ایسے مجرموں کو ناز و نعم سے پال رہا ہے جو اس کے چمنستان کے شگفتہ پھولوں کو مسل کر رکھ دیں گے۔ وہ دین جو دین فطرت ہے، جو ہر قیمت پر عدل و انصاف کا ترازو برابر رکھنے کا مدعی ہے اس سے ایسی بے جا بلکہ نازیبا ناز برداری کی توقع عبث ہے۔۔۔ اللہ عزوجل اہل ایمان کے ایمان کی حفاظت فرمائے اور اپنی اطاعت و بندگی میں جینا اور مرنا نصیب فرمائے۔ آمین۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۵۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۸۳ میں اہل ایمان پر روزوں کی فرضیت اور اس کے مقصد کا بیان ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo
سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۸۳
اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ " شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہمبستری سے بچا جائے"۔ (تفسیر خازن)

روزہ ایک قدیم عبادت: اس آیت میں فرمایا گیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر تمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے دس شعبان ۲ ہجری میں فرض ہوئے تھے۔

روزے کا مقصد: آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے۔ جس سے ضبط نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور یہی ضبط نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے۔ روزے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ انسان کھانے پینے اور عمل زوجیت سے رکا رہے بلکہ اس کا مقصد تمام اخلاق رذیلہ اور اعمال بد سے مکمل طور پر دست کش ہو جائے۔ قرآن پاک میں ہے ، واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ ۔فان الجنتہ ھی الماویٰ۔ اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔(نازعات ، ۴۰۔۴۱)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے۔ اور جس کو نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑتا ہے۔ (صحیح بخاری)۔
 

الشفاء

لائبریرین
۶۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۰۸ میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌO
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۰۸۔
شان نزول : اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب تاجدار رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد شریعت موسوی کے بعض احکام پر قائم رہے۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے ، اس روز شکار سے لازماً اجتناب جانتے، اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مباح یعنی جائز ہیں، ان کا کرنا ضروری تو نہیں۔ جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے۔ تو ان کے ترک کرنے سے اسلام کی مخالفت بھی نہیں اور شریعت موسوی پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہو گئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔ (تفسیر خازن)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہر و باطن ، عبادات و معاملات، رہن سہن، میل برتاؤ ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں لیکن یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا سخت جرم ہے۔ (صراط الجنان) وعلیٰ ہٰذ القیاس۔
۔۔۔
 

ابو ہاشم

محفلین
۶۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۰۸ میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌO
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۰۸۔
شان نزول : اہل کتاب میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب تاجدار رسالت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد شریعت موسوی کے بعض احکام پر قائم رہے۔ ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے ، اس روز شکار سے لازماً اجتناب جانتے، اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے بھی پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں صرف مباح یعنی جائز ہیں، ان کا کرنا ضروری تو نہیں۔ جبکہ توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے۔ تو ان کے ترک کرنے سے اسلام کی مخالفت بھی نہیں اور شریعت موسوی پر عمل بھی ہو جاتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہو گئے اب ان کی طرف توجہ نہ دو۔ (تفسیر خازن)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب مسلمان ہو گئے تو سیرت و صورت، ظاہر و باطن ، عبادات و معاملات، رہن سہن، میل برتاؤ ، زندگی موت، تجارت و ملازمت سب میں اپنے دین پر عمل کرو۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کا دوسرے مذاہب یا دوسرے دین والوں کی رعایت کرنا شیطانی دھوکے میں آنا ہے۔ اونٹ کا گوشت کھانا اسلام میں فرض نہیں لیکن یہودیت کی رعایت کے لئے نہ کھانا سخت جرم ہے۔ (صراط الجنان) وعلیٰ ہٰذ القیاس۔
۔۔۔
یہ جو ہم لوگ مسلمان بھی ہو گئے اور یہاں کی اقدار سے بھی وابستہ رہے (خصوصاً وہ جو اسلام کے اصولوں کے خلاف ہیں جیسے ذات پات ، جاہلانہ غیرت وغیرہ) اس پر بھی یہی بات صادق آتی ہے
 

سروش

محفلین
صبر اور نماز سے مدد
صبر کا ایک مصداق روزہ بھی ہے
اردو میں یہاں ملاحظہ فرمائیں:
تفسیر ابن کثیر
جبکہ
وقال سفيان الثوري ، عن أبي إسحاق ، عن جري بن كليب ، عن رجل من بني سليم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : الصوم نصف الصبر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے - (سنن ترمذي:3519، قال الشيخ الألباني:ضعیف)
ضعیف ہے
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
۷۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۵۴ میں اللہ عزوجل کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب بیان ہو رہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لاَّ بَيْعٌ فِيهِ وَلاَ خُلَّةٌ وَلاَ شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَO
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیںo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۵۴۔
اس آیت میں مسلمانوں کو یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ یہ مال و دولت جو تمہیں تمہارے رب نے عطا فرمایا ہے اور جس طرح چاہو اس کو خرچ کرنے کی مہلت دی ہے۔ یاد رکھو کہ یہ مہلت صرف اس وقت تک کے لیے ہے جب تک تمہاری زندگی کا یہ چراغ ٹمٹما رہا ہے۔ جس دن یہ بجھ گیا مہلت ختم۔ جس نے اس اختیار اور مہلت سے فائدہ نہ اٹھایا قیامت کے دن وہ حرماں نصیب کیا کرے گا۔ اس روز نہ تو خرید و فروخت ہو سکے گی اور نہ وہاں کوئی دنیاوی بھائی چارہ کام آئے گا اور نہ کسی کی (بغیر اذن الٰہی) سفارش ہو گی۔ اس آیت سے بعض لوگ جلد بازی میں حضور کریم علیہ الصلاۃ والسلام اور اولیاء کرام کی شفاعت اور ان کی محبت اور غلامی کی برکات کا انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن کریم میں صراحۃً موجود ہے۔ الْأَخِلَّاءُ يَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ ۔ سب دوست اس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے متقین کے۔ سورۃ الزخرف، آیت ۶۷۔ یعنی مردان خدا کی دوستی اس روز بھی قائم رہے گی اور کام آئے گی۔ اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا شفیع المذنبین ہونا تو قرآن کی متعدد آیات اور کثیر احادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے اور عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محمودا میں تو رحمۃ اللعالمین کو مقام محمود (یعنی شفاعت کبریٰ) پر سرفراز ہونے کی بشارت دی جا رہی ہے (ضیاء القرآن)۔
اذن الٰہی سے اللہ عزوجل کے بندے اس کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیت الکرسی میں بیان کیا گیا ہے۔ بلکہ قرآن پاک بھی اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان جنت نشان ہے کہ جس سے ہو سکے کہ مدینہ منورہ میں مرے ، تو وہ مدینہ میں ہی مرے کہ میں مدینہ میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا ۔ (جامع ترمذی)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند
سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۸ ۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۶۴ میں اہل ایمان کو صدقات میں اخلاص اختیار کرنے اور ریاکاری سے بچنے کا حکم فرما کر مثال دے کر سمجھایا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لاَّ يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَO
اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتاo
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر ۲۶۴۔
صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات چیت نہ کرے گا، نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا۔ ان میں سے ایک (کسی کو کچھ) دے کر احسان جتانے والا ہے۔۔۔۔۔سنن نسائی میں ہے، تین شخصوں کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دیکھے گا بھی نہیں، ماں باپ کا نافرمان، شراب کا عادی اور دے کر احسان جتانے والا۔(ابن کثیر)

اپنے صدقے برباد نہ کرو: ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پر خرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اپنی واہ واہ کروانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہو جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھو جیسے کہ ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو ، اگر اس پر زور دار بارش ہو جائے تو پتھر بالکل صاف ہو جاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے لیکن روز قیامت وہ تمام اعمال باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کر دینا چاہیئے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیئے۔ افسوس کہ ہمارے ہاں ریا کاری، احسان جتلانا اور ایذا دینا تینوں بد اعمال کی بھر مار ہے۔ مال دار جب اپنا پیسہ خرچ کرتا ہے تو جب تک اپنے نام کے بینر نہ لگوا لے یا اخبار میں تصویر یا خبر نہ چھپوا لے ، اسے چین نہیں آتا۔ خاندان میں کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو زندگی بھر اسے دباتا رہتا ہے، جب دل کرتا ہے سب لوگوں کے سامنے اسے رسوا کر دیتا ہے۔(صراط الجنان) اللہ عزوجل ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین۔۔۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یا الٰہی۔

۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۹ ۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۶۷ میں ارشاد ربانی ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَلاَ تَيَمَّمُواْ الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِيهِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌO
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۶۷۔​

طیبات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو عمدہ بھی ہوں، حلال بھی ہوں اور حلال طریقہ سے کمائی بھی گئی ہوں۔ کیونکہ اس طرح خرچ کرنے کے تین مقاصد ہیں۔ غریب کا فائدہ ، اپنے نفس کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی رضا۔ اور یہ مقاصد تبھی حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ عمدہ اور پاکیزہ چیز خرچ کی جائے۔ اگر ردی چیز خرچ کی تو نہ غریب کو کچھ فائدہ پہنچا، نہ بخل کی آلودگی سے نفس کی صفائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ ذات جو اپنے بہتر سے بہتر انعامات کی بارش تم پر فرما رہی ہے جب اس کے نام پر دینے کا وقت آیا تو سب سے ناکارہ چیز تم نے اس کی راہ میں دے دی تو وہ کیونکر راضی ہو گا۔ نیز زمین کی پیداوار میں سے بھی راہ خدا میں خرچ کیا کرو۔
غور کرو کہ جس طرح کا گھٹیا مال تم راہ خدا میں دیتے ہو اگر وہی مال تمہیں دیا جائے تو کیا تم قبول کرو گے۔ پہلے تو قبول ہی نہ کرو گے اور اگر قبول کر بھی لو تو کبھی خوشدلی سے نہ لوگے بلکہ دل میں برا مناتے ہوئے لو گے۔ تو جب اپنے لیے اچھا لینے کا سوچتے ہو تو راہ خدا میں خرچ کئے جانے والے کے بارے میں بھی اچھا ہی سوچو۔
اگر کوئی چیز فی نفسہ تو اچھی ہے لیکن آدمی کو خود پسند نہیں تو اس کے دینے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ حرج وہاں ہے جہاں چیز اچھی نہ ہونے کی وجہ سے نا پسند ہو۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۰۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۷۸ اور ۲۷۹ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سود کے متعلق اہم احکامات بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُواْ بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَO
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائےo
سورۃ البقرۃ، آیت ۲۷۸ ، ۲۷۹۔
اس سے پہلے والی آیات میں سود کو حرام قرار دینے کے بعد اس آیت میں باقی ماندہ سود کو بھی چھوڑ دینے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اللہ عزوجل نے اہل ایمان کو مخاطب کرنے کے بعد ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا ، پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ سود کے حرام ہونے کا حکم آ گیا تو اب آئندہ باقی ماندہ سود نہ لیا جائے گا۔
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ : سود کی حرمت کا حکم نازل ہو چکا ، اس کے بعد بھی جو سودی لین دین جاری رکھے گا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا یقین کر لے۔ یہ شدید ترین وعید ہے۔ کس کی مجال کہ اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ سے لڑائی کا تصور بھی کرے۔ چنانچہ جن اصحاب کا سودی معاملہ تھا انہوں نے اپنے سودی مطالبات چھوڑ دیے اور تائب ہو گئے۔۔۔
دو گناہوں پر اعلان جنگ دیا گیا : خیال رہے کہ دو گناہوں پر اعلان جنگ دیا گیا ہے۔ ایک تو سود لینے پر جیسا کہ یہاں آیت میں بیان ہوا۔ دوسرا اللہ تعالیٰ کے ولی سے عداوت رکھنے پر۔ جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار رسالت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے تو میں نے اس سے جنگ کا اعلان کر دیا۔
اور اگر تم توبہ کرو تو جو تمہارا اصل دیا ہوا قرض ہے وہ لینا تمہارے لیے جائز ہے۔اور اس کا مطالبہ کر سکتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ سود حرام ہونے سے پہلے جو سود لیا گیا، وہ حلال تھا ۔ وہ رقم اصل قرض سے نہ کٹے گی۔بلکہ اب پورا قرض لینا جائز ہو گا۔ پھر فرمایا کہ نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہیں نقصان ہو۔ یعنی نہ تو مقروض سے زیادہ لے کر اس پر تم ظلم کرو اور نہ اصل قرض کی رقم سے محروم ہو کر خود مظلوم بنو۔۔۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
۱۱ ۔ آج کی آیت سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۸۲ ہے۔ ہمارے اس سلسلے کے حوالے سے یہ اس سورۃ کی آخری آیت ہے۔ اس آیت کو قرآن پاک کی سب سے طویل آیت بھی کہا جاتا ہے جس میں لین دین ، کتابت اور گواہی وغیرہ کے معاملات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلاَ يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللّهَ رَبَّهُ وَلاَ يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لاَ يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى وَلاَ يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُواْ وَلاَ تَسْأَمُوْاْ أَن تَكْتُبُوْهُ صَغِيرًا أَو كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللّهِ وَأَقْومُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلاَّ تَرْتَابُواْ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلاَّ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلاَ يُضَآرَّ كَاتِبٌ وَلاَ شَهِيدٌ وَإِن تَفْعَلُواْ فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّهُ وَاللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO
اے ایمان والو! جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان جو لکھنے والا ہو اسے چاہئے کہ انصاف کے ساتھ لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے جیسا کہ اسے اﷲ نے لکھنا سکھایا ہے، پس وہ لکھ دے (یعنی شرع اور ملکی دستور کے مطابق وثیقہ نویسی کا حق پوری دیانت سے ادا کرے)، اور مضمون وہ شخص لکھوائے جس کے ذمہ حق (یعنی قرض) ہو اور اسے چاہئے کہ اﷲ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (زرِ قرض) میں سے (لکھواتے وقت) کچھ بھی کمی نہ کرے، پھر اگر وہ شخص جس کے ذمہ حق واجب ہوا ہے ناسمجھ یا ناتواں ہو یا خود مضمون لکھوانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس کے ولی (سرپرست یا کارندے) کو چاہئے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں، اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو، اور نہ لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ گواہ کو، اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ تمہاری حکم شکنی ہوگی، اور اﷲ سے ڈرتے رہو، اور اﷲ تمہیں (معاملات کی) تعلیم دیتا ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہےo
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر ۲۸۲۔​

سبحان اللہ۔۔۔ یہ ہے ہمارا رب ، جو کتنے دل نشیں اور محبت بھرے انداز سے اپنے اہل ایمان بندوں کی آپس کے معاملات میں تعلیم و تربیت فرما رہا ہے۔ سبحان اللہ۔ اللہ عزوجل ہمیں اپنے تمام احکامات پر کما حقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔۔۔
امید ہے کہ اوپر دیے گئے ترجمہ سے ہی آیت کی تفہیم ہو جائے گی۔ اگر احباب کو کسی پوائنٹ کی مزید وضاحت درکار ہوئی تو مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جزاکم اللہ خیر۔۔۔
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
۱۲ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۱۰۰ میں مسلمانوں کو اہل کتاب کی ریشہ دوانیوں سے چوکنا رہنے کی ہدایت فرمائی جا رہی ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تُطِيعُواْ فَرِيقًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَO
اے ایمان والو! اگر تم اہلِ کتاب میں سے کسی گروہ کا بھی کہنا مانو گے تو وہ تمہارے ایمان (لانے) کے بعد پھر تمہیں کفر کی طرف لوٹا دیں گےo
سورۃ آل عمران ، آیت نمبر ۱۰۰۔
یثرب کے دو قبیلوں اوس اور خزرج میں عرصہ قدیم سے دشمنی چلی آتی تھی۔ بارہا یہ ایک دوسرے سے جنگ کر چکے تھے۔ حضور سراپا نور علیہ الصلاۃ والسلام نے جب یثرب کی سرزمین کو اپنے مبارک قدموں سے نوازا تو آپ کی تعلیم کی برکت سے ان کی دیرینہ عداوت اور خاندانی دشمنی اخوت و محبت میں بدل گئی۔ وہ چاک جن کے رفو ہونے کا امکان نہ تھا، وہ گہرے زخم جن کے مندمل ہونے کی کوئی صورت نہ تھی ، حضور ﷺ کی محبت کی اکسیر نے ان سب کا درماں کر دیا۔ اوس وخزرج کی باہمی مصالحت اور دوستی یہود کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ ایک روز شاس بن قیس یہودی کا گزر ایک ایسی مجلس پر ہوا جس میں اوس و خزرج پیار و محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر مصروف گفتگو تھے۔ اس کو ان کے اتفاق سے بڑی تکلیف ہوئی چنانچہ اس نے ایک نوجوان یہودی سے کہا کہ تم ان کی گزشتہ جنگیں یاد دلا کر انہیں لڑا دو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ قصیدے پڑھے جن میں ان کی گزشتہ جنگوں کا ذکر تھا۔ ان قصائد کو سن کر انصار کو اپنی گزشتہ جنگیں یاد آ گئیں اور وہ آپس میں لڑ پڑے۔ قریب تھا کہ خون ریزی ہو جائے کہ مدینے کے تاجدار ﷺ موقع پر تشریف لا کر ان کی صفوں کے درمیان کھڑے ہو گئے اور فرمایا ، اے اوس وخزرج ! تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ میری موجودگی میں تم عہد جاہلیت کی رسم کو تازہ کر رہے ہو۔ وہ عداوت و دشمنی جس کے شعلوں کو اسلام کے ابر رحمت نے بجھا دیا ، کیا تم پھر انھیں بھڑکانا چاہتے ہو۔ یہ شیطان کی وسوسہ اندازی اور تمہارے دشمن کی سازش ہے۔ حضور ﷺ کا یہ فرمان سن کر ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ انہوں نے ہتھیار پھینک دیے اور اشک بار آنکھوں سے دوڑ دوڑ کر ایک دوسرے کو گلے لگانے لگے۔ اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس آیت میں وہ ابدی حقیقت پیش کی گئی ہے جس پر زمانہ کی ہر کروٹ نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ مسلمانوں نے جب بھی اغیار پر اندھا اعتماد کیا انہیں ان روح فرسا حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ اسلام نے کسی کے ساتھ کار خیر میں تعاون سے منع نہیں کیا۔ لیکن اس نے دوسروں سے فریب اور دھوکا کھانے سے ضرور روکا ہے۔۔۔ اللہ عزوجل امت مسلمہ کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے محفوظ فرما کر اتحاد و یک جہتی کی دولت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین۔۔۔
۔۔۔​
 
Top