وہی رہروی، وہی بے خودی، وہی بندگی میں جنون سا - جمال سویدا

رانا

محفلین
وہی رہروی، وہی بے خودی، وہی بندگی میں جنون سا
کوئی سنگِ راہ جہاں ملا، وہیں بڑھ کے سر کو جھکا دیا

یونہی بے ارادہ جو اٹھ گئی، کسی شاخِ گل کی طرف نظر
تو فضا میں شعلے بھڑک اٹھے، ابھی آشیان بنا نہ تھا

وہی زہرغم وہی تلخیاں، وہی ظلمتیں، وہی سختیاں
وہی اک شرارہ امید کا، کبھی جل اٹھا، کبھی بجھ گیا

ترے وحشیوں کے یہ مرتبے، وہ قدم جدھر سے گزرگئے
وہیں ایسے گہرے نشاں پڑے، وہی جادہ بنتا چلا گیا

نہ وہ قافلے، نہ وہ رہگزر، نہ وہ منزلیں، نہ وہ راہبر
وہی اک تحیر جستجو، وہ غبار بن کے اڑا کیا

یہ جمال تیری تلاش میں کہ فراز سے تھی فراز تک
جو گرا تو گرتا چلا گیا، نہ قدم جمے، نہ سنبھل سکا

(جمال سویدا)
 
Top