وہی اک شخص انکاری بہت ہے( غزل از خاور چودھری)

خاورچودھری

محفلین
حسیں مورت مجھے پیاری بہت ہے
بدن شعلہ وہی ناری بہت ہے

جسے دل کی مرادیں جانتا ہوں
وہی اک شخص انکاری بہت ہے

تجھے کیا واسطہ عشق و وفا سے
تجھے تو رسمِ عیاری بہت ہے

مناظر سے تجھے کیا واسطہ ہے
تجھے آئینہ زنگاری بہت ہے

تجھے کیا واسطہ گردِ سفر سے
تجھے تو لمحہِ جاری بہت ہے

تجھے کیا واسطہ دار و رسن سے
تجھے تو طعنہ کاری بہت ہے

تجھے کیا واسطہ شعر و ادب سے
تجھے تو راگ درباری بہت ہے

یہاں ہر شخص مرنا چاہتا ہے
یہاں تو تیز رفتاری بہت ہے

سنبھل خاور سنبھل ! مت ٹھوکریں کھا
محبت کا نشہ بھاری بہت ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے مسلسل قسم کی۔ لیکن ایک جگہ ’تو‘ کا اضافہ کر گئے ہیں، یقینا ً ٹائپو ہے۔
تجھے تو آئینہ زنگاری بہت ہے
 
تجھے کیا واسطہ شعر و ادب سے
تجھے تو راگ درباری بہت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
:)عجیب سی بات ہے۔ ویسے اسی راگ میں کچھ اسی طرز کا شعر:
دلِ مضطر کو سمجھایا بہت ہے
مگر اس دل نے تڑپایا بہت ہے
 

مغزل

محفلین
رسید حاضر ہے خاور صاحب۔، انشا اللہ حسب ِ توفیق اپنی رائے سے آگاہ کرتا ہوں ۔ کچھ مہلت
 
تجھے کیا واسطہ شعر و ادب سے
تجھے تو راگ درباری بہت ہے
ایک پر لطف مزاح ۔۔۔۔۔۔
لیکن پھر اگلا شعر
یہاں ہر شخص مرنا چاہتا ہے
یہاں تو تیز رفتاری بہت ہے
ایک سنجیدہ حقیقت ۔۔۔
ایک شعر میں ہنسی چھوٹ پڑتی ہے تو اگلے میں فورا غور کربا پڑتا ہے۔
بہت خوب ۔۔
 
Top