وفاقی حکومت نے دیامیر بھاشا ڈیم اپنے وسائل سے تعمیر کرنیکا فیصلہ کر لیا

ورلڈ بینک سے فنڈز ملنے سے انکار کے بعد وفاقی حکومت نے دیامیر بھاشا ڈیم اپنے وسائل سے تعمیر کرنیکا فیصلہ کر لیا

لاہور (نیوز رپورٹر) وفاقی حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم اپنے وسائل سے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت پانی و بجلی اور وزارت پلاننگ کمشن نے متعدد ہنگامی اقدامات کئے ہیں جس کے تحت واپڈا ہائوس میں قائم جنرل منیجر بھاشا ڈیم کا سارا عملہ اور دفتر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے اقدامات کے تحت 45سو میگاواٹ کا دیامیر بھاشا ڈیم اپنے وسائل سے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کے اجلاس سے خطاب میں وفاقی وزیر پلاننگ کمشن احسن اقبال نے دیامیر بھاشا ڈیم سمیت پانی و بجلی کے دیگر منصوبے تیز کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تمام مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔ دوسری طرف چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے دیامیر بھاشا ڈیم کے اردگرد زمین حاصل کرنے کیلئے لینڈ ایکوزیشن اینڈ ری سیٹلمنٹ سیل (LRSC)کا دفتر چلاس میں قائم کر دیا ہے۔ جنرل منیجر دیامیر بھاشا ڈیم کا دفتر اور اس کے 67افسروں و اہلکاروں کا دفتر اسلام آباد (راول ریسٹ ہائوس) میں عارضی قائم کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہ دفتر واپڈا ہائوس لاہور میں تھا۔ واضح رہے کہ حکومت کی طرف سے دیامیر بھاشا ڈیم اپنے وسائل کے تحت قائم کرنے کا اعلان، ورلڈ بنک کی طرف سے اس کے لئے فنڈز نہ دینے اور اس کا این او سی بھارت سے لینے کے بعد کیا ہے۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے فنڈز روکنا اور این او سی بھارت سے مشروط کرنا ایک سازش ہے جسے بے نقاب کیا جائے گا۔
 
ورلڈ بینک میں سب سے زیادہ دخل اندازی امریکہ کی ہے۔ پہلے ورلڈ بینک تھرکول پراجیکٹ کے لئے بھی قرضہ دینے سے انکار کرتا رہا ہے۔ بظاہر دوست بن کر امداد کا احسان جتانے والے ٹانگیں کھینچنے سے بھی باز نہیں آتے۔
 

arifkarim

معطل
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے فنڈز روکنا اور این او سی بھارت سے مشروط کرنا ایک سازش ہے جسے بے نقاب کیا جائے گا۔


یہ کیسا ملک ہے جہاں آزادی کے 67 سال بعد بھی تعمیراتی منصوبے کشکول کے ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے! 60 کی دہائی میں تربیلا ڈیم بیرونی طاقتوں کی مدد سے بنانے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ اسوقت ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ لیکن آج 60 سال سے زائد عرصہ بیتنے کے بعد جہاں ہمارے ہمسایہ ملک ایران اور بھارت ڈیمز کی تعمیرات میں خود کفیل ہوں، وہاں پاکستان کا ورلڈ بینک سے امداد کا منتظر ہونا خود ایک بہت بڑی قومی سازش ہے۔ پہلے اس قومی سازش کو بے نقاب کریں اسکے بعد بھارت او ر ورلڈ بینک کی سازش کی خبر لیں۔
 
یہ کیسا ملک ہے جہاں آزادی کے 67 سال بعد بھی تعمیراتی منصوبے کشکول کے ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے! 60 کی دہائی میں تربیلا ڈیم بیرونی طاقتوں کی مدد سے بنانے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ اسوقت ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ لیکن آج 60 سال سے زائد عرصہ بیتنے کے بعد جہاں ہمارے ہمسایہ ملک ایران اور بھارت ڈیمز کی تعمیرات میں خود کفیل ہوں، وہاں پاکستان کا ورلڈ بینک سے امداد کا منتظر ہونا خود ایک بہت بڑی قومی سازش ہے۔ پہلے اس قومی سازش کو بے نقاب کریں اسکے بعد بھارت او ر ورلڈ بینک کی سازش کی خبر لیں۔
جب اپنا گھر کمزور ہو تب ہی دشمنوں کو سازشوں کا موقع ملتا ہے۔
 
یہ کیسا ملک ہے جہاں آزادی کے 67 سال بعد بھی تعمیراتی منصوبے کشکول کے ذریعہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے! 60 کی دہائی میں تربیلا ڈیم بیرونی طاقتوں کی مدد سے بنانے کی سمجھ آتی ہے کیونکہ اسوقت ملک نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ لیکن آج 60 سال سے زائد عرصہ بیتنے کے بعد جہاں ہمارے ہمسایہ ملک ایران اور بھارت ڈیمز کی تعمیرات میں خود کفیل ہوں، وہاں پاکستان کا ورلڈ بینک سے امداد کا منتظر ہونا خود ایک بہت بڑی قومی سازش ہے۔ پہلے اس قومی سازش کو بے نقاب کریں اسکے بعد بھارت او ر ورلڈ بینک کی سازش کی خبر لیں۔
جب آپ بینک سے قرض لیتے ہیں تو اسے سود سمیت واپس لوٹاتے ہیں۔۔یہ بینک کا کاروبار ہے اور آپ اسکے کسٹمر نا کہ کشکول بردار۔۔۔
 

زیک

مسافر
گلگت بلتستان ایک disputed علاقہ ہے لہذا ورلڈ بینک سے فنانسنگ ملنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ہاں پاکستان کو ضرور ڈیم بنانا چاہیئے
 

arifkarim

معطل
جب آپ بینک سے قرض لیتے ہیں تو اسے سود سمیت واپس لوٹاتے ہیں۔۔یہ بینک کا کاروبار ہے اور آپ اسکے کسٹمر نا کہ کشکول بردار۔۔۔

اسلام نے سود کیساتھ قرض لینے کی سختی سے پابندی لگائی ہے۔ کم از کم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ کام نہیں کرنا چاہئے۔
 

arifkarim

معطل
گلگت بلتستان ایک disputed علاقہ ہے لہذا ورلڈ بینک سے فنانسنگ ملنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ہاں پاکستان کو ضرور ڈیم بنانا چاہیئے
بھارت اپنے وسائل سے مقبوضہ کشمیر میں کئی ڈیمز کھڑے کر چکا ہے۔ پاکستان بھی اگر اپنے وسائل سے یہ کر سکتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اسکے لئے ورلڈ بینک کی محتاجی درست نہیں۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس بات کا حتمی اختيار امريکی حکومت يا يو ايس ايڈ کے پاس نہيں ہوتا کہ ميزبان ملک کون سے ترقياتی منصوبے کو ترجيح دينا چاہتا ہے۔ يہ يو ايس ايڈ کے دائرہ اختيار اور مقاصد سے بالا ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں حتمی ذمہ داری اور فيصلہ سازی منتخب حکومتوں، متعلقہ مقامی انتظاميہ اور منصوبوں کے روح رواں ماہرين کے ہاتھوں ميں ہوتی ہے۔

ہم کالا باغ ڈيم کے حوالے سے کئ دہائيوں پرانی سياسی پيچيدگيوں اور ہم آہنگی کے فقدان سے اچھی طرح واقف ہيں۔ کالا باغ ڈيم کے متنازعہ ہونے کی کئ وجوہات ہيں۔ اس سارے عمل ميں سياسی جمود اور فيصلہ سازی کے حوالے سے بے شمار مشکلات موجود ہيں۔ امريکی حکومت اور يو ايس ايڈ کی جانب سے اس منصوبے ميں کسی قسم کی بھی مدد فراہم کرنے سے قبل يہ ضروری ہے کہ پاکستانی قائدين اس معاملے کے حوالے سے موجود پيچيدگيوں کو از خود دور کريں۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ سال 1962 ميں ورلڈ بنک کے روح رواں سر وليم ايلف، يو ايس ايڈ کے ساتھ کالا باغ ڈيم کے حق ميں تھے ليکن حکومت پاکستان اور متعلقہ حکام نے تربيلہ ڈيم کے حق ميں فيصلہ کيا جو بالآخر امريکی حکومت کے تعاون اور تکنيکی معاونت کے سبب حقيقت کا روپ دھار گيا۔ حتمی تجزيے ميں يہ فيصلہ کہ کونسا منصوبہ پايہ تکميل تک پہنچانا چاہيے، حکومت پاکستان کے ہاتھ ميں ہے۔ ساٹھ کی دہائ ميں جب کالا باغ ڈيم کی بجائے تربيلہ ڈيم کے حق ميں فيصلہ ہوا تھا، اس وقت بھی يہی اصول کارفرما تھا اور آج بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔

جہاں تک بھاشا ڈيم کا تعلق ہے تو اس ضمن میں امريکی حکومت پہلے ہی 500 ملين ڈالرز کی امداد مختص کر چکی ہے۔

http://dawn.com/2011/04/04/us-pledges-500m-for-bhasha-dam/

بلکہ دسمبر 2011 ميں واپڈا کے اہلکاروں اور ايشين ڈيويلمپمنٹ بنک کے مشاورتی مشن کے مابين اس حوالے سے جو ميٹنگ ہوئ تھی، اس ميں يو ايس ايڈ کے اراکين بھی موجود تھے۔

http://www.nation.com.pk/pakistan-n...a-seeks-ADBs-cooperation-for-DiamerBhasha-Dam

اس منصوبے کے علاوہ يو ايس ايڈ فاٹا ميں گومل ذيم ڈيم کی تعمير کے ضمن ميں حکومت پاکستان کو 40 ملين ڈالرز کی گرانٹ کے ذريعے مدد فراہم کر رہا ہے۔ امريکہ ڈيم کی تکميل، بجلی کی ترسيل کے نظام اور ہائيڈرو پاور پلانٹ کی مد ميں امداد فراہم کر رہا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

x boy

محفلین
نواز شریف ذندہ باد
happy-smiley-checkmark-signs-eyes-6710297.jpg
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس بات کا حتمی اختيار امريکی حکومت يا يو ايس ايڈ کے پاس نہيں ہوتا کہ ميزبان ملک کون سے ترقياتی منصوبے کو ترجيح دينا چاہتا ہے۔ يہ يو ايس ايڈ کے دائرہ اختيار اور مقاصد سے بالا ہوتا ہے۔ اس ضمن ميں حتمی ذمہ داری اور فيصلہ سازی منتخب حکومتوں، متعلقہ مقامی انتظاميہ اور منصوبوں کے روح رواں ماہرين کے ہاتھوں ميں ہوتی ہے۔

ہم کالا باغ ڈيم کے حوالے سے کئ دہائيوں پرانی سياسی پيچيدگيوں اور ہم آہنگی کے فقدان سے اچھی طرح واقف ہيں۔ کالا باغ ڈيم کے متنازعہ ہونے کی کئ وجوہات ہيں۔ اس سارے عمل ميں سياسی جمود اور فيصلہ سازی کے حوالے سے بے شمار مشکلات موجود ہيں۔ امريکی حکومت اور يو ايس ايڈ کی جانب سے اس منصوبے ميں کسی قسم کی بھی مدد فراہم کرنے سے قبل يہ ضروری ہے کہ پاکستانی قائدين اس معاملے کے حوالے سے موجود پيچيدگيوں کو از خود دور کريں۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ سال 1962 ميں ورلڈ بنک کے روح رواں سر وليم ايلف، يو ايس ايڈ کے ساتھ کالا باغ ڈيم کے حق ميں تھے ليکن حکومت پاکستان اور متعلقہ حکام نے تربيلہ ڈيم کے حق ميں فيصلہ کيا جو بالآخر امريکی حکومت کے تعاون اور تکنيکی معاونت کے سبب حقيقت کا روپ دھار گيا۔ حتمی تجزيے ميں يہ فيصلہ کہ کونسا منصوبہ پايہ تکميل تک پہنچانا چاہيے، حکومت پاکستان کے ہاتھ ميں ہے۔ ساٹھ کی دہائ ميں جب کالا باغ ڈيم کی بجائے تربيلہ ڈيم کے حق ميں فيصلہ ہوا تھا، اس وقت بھی يہی اصول کارفرما تھا اور آج بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔

جہاں تک بھاشا ڈيم کا تعلق ہے تو اس ضمن میں امريکی حکومت پہلے ہی 500 ملين ڈالرز کی امداد مختص کر چکی ہے۔

http://dawn.com/2011/04/04/us-pledges-500m-for-bhasha-dam/

بلکہ دسمبر 2011 ميں واپڈا کے اہلکاروں اور ايشين ڈيويلمپمنٹ بنک کے مشاورتی مشن کے مابين اس حوالے سے جو ميٹنگ ہوئ تھی، اس ميں يو ايس ايڈ کے اراکين بھی موجود تھے۔

http://www.nation.com.pk/pakistan-n...a-seeks-ADBs-cooperation-for-DiamerBhasha-Dam

اس منصوبے کے علاوہ يو ايس ايڈ فاٹا ميں گومل ذيم ڈيم کی تعمير کے ضمن ميں حکومت پاکستان کو 40 ملين ڈالرز کی گرانٹ کے ذريعے مدد فراہم کر رہا ہے۔ امريکہ ڈيم کی تکميل، بجلی کی ترسيل کے نظام اور ہائيڈرو پاور پلانٹ کی مد ميں امداد فراہم کر رہا ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
یہاں بھاشا ڈیم کی بات ہورہی ہے۔
 

Fawad -

محفلین
یہاں بھاشا ڈیم کی بات ہورہی ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
محترم،

ميری پوسٹ ميں بھاشا ڈيم کا ذکر بھی موجود ہے۔ موضوع کی مناسبت سے ميں نے توانائ کے شعبے ميں امريکی تعاون کے حوالے سے کچھ اہم معاہدوں کا ذکر کيا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

صرف علی

محفلین
گلگت بلتستان ایک disputed علاقہ ہے لہذا ورلڈ بینک سے فنانسنگ ملنے کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ ہاں پاکستان کو ضرور ڈیم بنانا چاہیئے
اپ کو کس نے کہا یہ متنازعہ علاقہ اس کو گلگت بلتستان کی عوام نے 1948 میں ڈوگرا راج سے آزاد کرایا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی وکی پیڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ 12 اعشاریہ 6 ارب ڈالر کی لاگت ہے 2008 کے اندازے کے مطابق
 

قیصرانی

لائبریرین
اور آج کے مطابق کتنا خرج ہوگا
میرا ذاتی خیال ہے کہ آج کے اندازے میں 20 ارب سے زیادہ ہونا چاہیئے، اگر کرپشن کا انڈیکس اتنا ہی رکھیں جتنا 2008 میں تھا۔ ویسے اس طرح کے ڈیم عام طور پر اصل اندازے سے بہت زیادہ مہنگے جا پڑتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت کا فرق، درآمد کردہ مشینری، ماہرین وغیرہ سب مہنگے جا پڑتے ہیں۔ اگر کوئی ملک خود سے بنائے تو میرے خیال میں اصل سے شاید ڈیڑھ گنا زیادہ خرچہ ہو
 
Top