وزیراعظم نے فواد چوہدری، علی امین و دیگر وزراء سے قلمدان واپس لے لیے

خان صاحب سے کہا گیا کہ آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ کرکٹ کھیل کر دکھائی ہی نہیں بلکہ عالمی کپ گھر لے کر آئے۔
خان صاحب کو کہا گیا کہ آپ پاکستان جیسے ملک میں کینسر کا ہسپتال نہیں بنا سکتے جہاں اکثر مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہو۔ کینسرہسپتال بنایا ہی نہیں بلکہ چلا کر بھی دکھایا۔ یہاں تک کہ نواز شریف کے خون ٹیسٹ شوکت خانم لیبارٹری سے ہونے لگے۔
خان صاحب کا مذاق اڑایا گیا کہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ وہ سیاست میں آگئے۔ پھر کہا سیاست میں آگئے ہیں تو اقتدار میں نہیں آسکتے۔ ان کی جماعت ایک صوبہ میں اقتدار میں آگئی۔ پھر کہا ٹھیک ہے صوبائی حکمرانی ملک گئی ہے لیکن ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ وہ آج ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔۔۔ فلم ابھی باقی ہے :)
پوری دنیا نے کیا دیکھا کی وضاحت بھی کر دیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب سے کہا گیا کہ آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ کرکٹ کھیل کر دکھائی ہی نہیں بلکہ عالمی کپ گھر لے کر آئے۔
خان صاحب کو کہا گیا کہ آپ پاکستان جیسے ملک میں کینسر کا ہسپتال نہیں بنا سکتے جہاں اکثر مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہو۔ کینسرہسپتال بنایا ہی نہیں بلکہ چلا کر بھی دکھایا۔ یہاں تک کہ نواز شریف کے خون ٹیسٹ شوکت خانم لیبارٹری سے ہونے لگے۔
خان صاحب کا مذاق اڑایا گیا کہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ وہ سیاست میں آگئے۔ پھر کہا سیاست میں آگئے ہیں تو اقتدار میں نہیں آسکتے۔ ان کی جماعت ایک صوبہ میں اقتدار میں آگئی۔ پھر کہا ٹھیک ہے صوبائی حکمرانی ملک گئی ہے لیکن ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔۔۔ فلم ابھی باقی ہے :)
عالمی کپ جیتنے کے لیے پوری ٹیم کی کوشش ضروری تھی۔ خان صاحب نے پانچ ورلڈ کپ کھیلے۔ تین ورلڈ کپ مقابلوں میں ٹیم کے کپتان رہے؛ دو ورلڈ کپ بطور کپتان ہارے بھی تھے۔ ایک ورلڈ کپ جس حال میں جیتا گیا، آپ کے سامنے ہے۔ کینسر کا ہسپتال ان کا ایک اہم کارنامہ ہے تاہم یہ جذباتی بیانیہ درست نہیں ہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے ورلڈ کپ جتوایا یا کینسر ہسپتال بنوایا۔ دراصل، انہوں نے سیاست میں لایا گیا تھا۔ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے انہیں باقاعدہ طور پر ہائر کر لیا؛ گو کہ وہ انیس سو نوے کی دہائی سے پر تول رہے تھے کہ انہیں کوئی ہائر کر لے۔ 1999ء میں وہ طاہر القادری صاحب کے ساتھ مشرف کی آمریت کو خوش آمدید کہنے والوں میں شامل تھے۔ 2002ء میں انہوں نے مشرف کے ریفرنڈم میں ان کی حمایت کی؛ جس کی انہوں نے بعدازاں معافی بھی مانگ لی تھی تاہم 2008ء کے بعد انہیں ایک نئے انداز میں باقاعدہ طور پر لانچ کیا گیا تھا۔ وجہ یہ رہی تھی کہ نواز شریف صاحب میثاق جمہوریت کر کے گویا 'اُن'کی کیلکولیشن کے مطابق باقاعدہ طور پر پٹری سے اتر گئے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کا نظام چلانا جس فہم و فراست اور حسنِ تدبیر کا تقاضا کرتا ہے، یہ مظہر خان صاحب میں عنقا معلوم ہوتا ہے جس کی طرف ایاز امیر صاحب اور دیگر لکھنے والے مسلسل اشارہ کر رہے ہیں تاہم عوام کی اکثریت نے انہیں ووٹ دیا ہے اور ان کی ٹوٹی پھوٹی امیدیں اب بھی ان سے جڑی ہوئی ہیں۔ دیکھیے، آگے کیا ہوتا ہے؟
 
آخری تدوین:
Top