وزیراعظم نے فواد چوہدری، علی امین و دیگر وزراء سے قلمدان واپس لے لیے

کل لیگی میڈیا سیل کے بھرپور وار کی وجہ سے صورت حال واضح نہیں تھی۔ اب مطلع صاف ہے اور اس اچھاڑ پچھاڑ کا پس منظر سامنے آرہا ہے۔
پہلے خیال تھا کہ یہ تبدیلیاں اسٹیبلشمنٹ نے اوپر ڈنڈا رکھ کر جبرا کروائی ہیں۔ جبکہ نئی اطلاعات کے مطابق ان کا فیصلہ ایک ماہ قبل ہی عمران خان نے کاکردگی کی بنیاد پر لے لیا تھا۔ چند ماہ بعد ناقص کاکردگی دکھانے والے مزید وزرا اڑا دئے جائیں گے۔
کپتان اپنے کرتوتوں کا الزام اپنے ساتھیوں پر دھرکے خود بری الزمہ تو نہیں ہوسکتا؟ آٹھ ماہ تک سوتے رہے اور اب سارا الزام اپنی ٹیم پر!!!!
 
کل لیگی میڈیا سیل کے بھرپور وار کی وجہ سے صورت حال واضح نہیں تھی۔ اب مطلع صاف ہے اور اس اچھاڑ پچھاڑ کا پس منظر سامنے آرہا ہے۔
پہلے خیال تھا کہ یہ تبدیلیاں اسٹیبلشمنٹ نے اوپر ڈنڈا رکھ کر جبرا کروائی ہیں۔ جبکہ نئی اطلاعات کے مطابق ان کا فیصلہ ایک ماہ قبل ہی عمران خان نے کاکردگی کی بنیاد پر لے لیا تھا۔ چند ماہ بعد ناقص کاکردگی دکھانے والے مزید وزرا اڑا دئے جائیں گے۔
پائین، کرکٹ کے اصول وضوابط پتا ہیں ! کھلاڑی کپتان کے اشارے پر نہیں ایمپائر کے اشارے پر آؤٹ ہوتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کپتان اپنے کرتوتوں کا الزام اپنے ساتھیوں پر دھرکے خود بری الزمہ تو نہیں ہوسکتا؟ آٹھ ماہ تک سوتے رہے اور اب سارا الزام اپنی ٹیم پر!!!!
عمران خان اسد عمر کو خود پارٹی میں لے کر آئے تھے۔ انہیں وزیر خزانہ لگانے کا خواب8 سال سے قوم کو دکھایا جا رہا تھا۔ اور جب وہ بن گئے تو 8 ماہ کے اندر اندر ہٹا دئے گئے۔ اس تبدیلی کے ساتھ کپتان نے اپنی نااہلی تسلیم کر لی ہے۔ اسی لئے اب کسی اور کو موقع دیا گیا ہے :)
 

جاسم محمد

محفلین
کھلاڑی کپتان کے اشارے پر نہیں ایمپائر کے اشارے پر آؤٹ ہوتا ہے۔
پائن! اسٹیبلیشیہ سیاسی کھیل سے سیدھا آؤٹ کرتی ہے۔ کھلاڑیوں کی جگہ تبدیل نہیں کرتی۔ کپتان نے وزیر خزانہ کو ایک اور وزارت کی پیشکش کی تھی جو شائد ان کے شعبہ سے غیرمتعلقہ ہونے کے سبب انہوں نے قبول نہیں کی۔ وہ آج بھی تحریک انصاف کے سرگرم رکن اور اپنے علاقہ سے ایم این اے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پی ٹی آئی حکومت کے 8 ماہ میں تبدیلیاں، استعفے اور اکھاڑ پچھاڑ
199175_6075594_updates.jpg

عہدوں سے ہٹائی جانے والی شخصیات
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں حکومت کو 8 ماہ میں کئی بحران کا سامنا رہا جس کے باعث انتظامی تبدیلیاں، وزراء کی اکھاڑ پچھاڑ اور استعفے طلب کیے گئے۔

حکومت نے 8 ماہ میں جہاں پولیس افسران کو تبدیل کیا وہیں اسے وزرا ءسے استعفے بھی لینے پڑے جب کہ سیاسی دباؤ کے سبب حکومت کو اپنے کئی فیصلوں سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

وفاقی حکومت کی 8 ماہ کی مدت میں ہونے والی انتظامی تبدیلیوں اور اکھاڑ پچھاڑ میں ذیل میں دی گئی شخصیات کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

وہ شخصیات جن سے استعفیٰ لیا گیا یا انہیں دباؤ کے تحت ہٹایا گیا:

اسد عمر، وزارت خزانہ

فیاض الحسن چوہان، وزارت اطلاعات پنجاب

عاطف میاں، رکن قومی اقتصادی کونسل

ڈاکٹر عمر سیف، چیئرمین انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ پنجاب

محمد طاہر، انسپیکٹر جنرل (آئی جی ) پنجاب پولیس

امجد جاوید سلیمی، انسپیکٹر جنرل (آئی جی ) پنجاب پولیس

رضوان گوندل، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) پاکپتن

امجد لطیف، مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) سوئی ناردرن گیس کمپنی

امین راجپوت، مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) سوئی سدرن گیس کمپنی

انجینیئر ایم اے جبا، چیئرمین پاکستان اسٹیل ملز

ارشد خان، مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم ڈی) پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی)

عہدوں سے استعفیٰ دینے والی شخصیات:
سابق آئی جی کےپی کے ناصر خان درانی، چیئرمین کمیشن پولیس ریفارمز پنجاب

بابر اعوان، وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور

نجم سیٹھی، چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ

صاحبزادہ عامر جہانگیر، معاون خصوصی برائے وزیراعظم

ڈاکٹر عمران رسول اور عاصم اعجاز خواجہ، اراکین قومی اقتصادی کونسل

علیم خان، وزیر بلدیات پنجاب

میر غضنفر علی خان، گورنر گلگت بلتستان

اعظم سواتی، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ( اعظم سواتی کو کابینہ میں ردو بدل کے بعد دوبارہ وزیر پارلیمانی امور کے طور پر شامل کرلیا گیا ہے)۔

جان محمد، انسپیکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد

قلمدان تبدیل کرنے والے وزراء:
فواد چوہدری، وزیر اطلاعات سے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی

شہریار خان آفریدی، وزیر مملکت برائے داخلہ سے وزیر مملکت سیفران

غلام سرور خان، وزیر پیٹرولیم سے وزیر ایوی ایشن

بریگیڈئیر (ر) اعجاز شا، وزیر پارلیمانی امور سے وفاقی وزیر داخلہ
 

جاسم محمد

محفلین
عوام کا احساس نہ کرنے والا وزیر کابینہ میں نہیں رہے گا، وزیراعظم
199219_5687589_updates.jpg

وزیراعظم عمران خان بنی گالہ میں ہونے والے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں — فوٹو: عمران خان فیس بک پیج
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر عثمان بزدار اور محمود خان پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ مہذب اور شریف ہیں، دونوں پر اعتماد ہے، ان کی ٹیم کو بھی ان کا بھرپور ساتھ دینا چاہیئے۔

بنی گالہ میں پارٹی اجلاس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وفاقی و صوبائی وزراء کی کارکردگی کی نگرانی جاری رہے گی، کسی کا قلمدان مستقل نہیں، وزیر، مشیر اپنی تشہیر کے بجائے عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دیں۔

اجلاس میں معاون خصوصی برائے خزانہ حفیظ شیخ کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات کا اختیار اور وفاقی وزیر توانائی عمرایوب کو وزارت پیٹرولیم کا اضافی چارج دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

199219_9681842_updates.jpg

وفاقی و صوبائی وزراء کی کارکردگی کی نگرانی جاری رہے گی، کسی کا قلمدان مستقل نہیں، وزیر، مشیر اپنی تشہیر کے بجائے عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دیں، وزیراعظم کی ہدایت— فوٹو: عمران خان فیس بک پیج

وزیراعظم عمران خان نے واضح کردیا کہ چاہے کوئی نیا ہو یا پرانا عوام کا احساس نہ کرنے والا کابینہ میں نہیں رہے گا، کسی کو وزارتوں کے مستقل قلمدان نہیں دیے، لوگوں کو اعتراض تھا کہ اسد عمر ماہر اقتصادیات نہیں،اب حفیظ شیخ کو لائے ہیں، انہوں نے گزشتہ ادوار میں معاشی بحران سے ملک کو نکالا تھا۔

وزیراعظم نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو محمود خان کو مہذب اور شریف قرار دے دیا اور کہا کہ ان دونوں پراعتماد ہے، ٹیم کو بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔

وزراء کو ہٹانے کی وجوہات بتاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ معاشی بحران بہت بڑا ہے، لوگوں کو اعتراض تھا کہ اسد عمر بڑے ماہر اقتصادیات نہیں، صحت اور تعلیم میں عملی طور پر انقلاب لانا چاہتا ہوں، اسی لیے عامر کیانی سے وزارت واپس لے لی۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اسحاق ڈار نے اپنے 4 سال معاشی بحران کے سوا کچھ نہ دیا لیکن انہیں نہیں ہٹایا گیا، اب حفیظ شیخ کو لائے ہیں جو ملکی معیشت اور عالمی مالیاتی امور پر دسترس رکھتے ہیں، حفیظ شیخ نے گزشتہ ادوار حکومت میں معاشی بحران سے ملک کو نکالا تھا۔


اجلاس کے اختتام میں وزیراعظم نے کہا کہ ہم سب عوام کو جواب دہ ہیں، پانچ سال بعد مجھے بھی عوام کو جواب دینا ہے۔

وفاقی کابینہ میں ردوبدل
خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 18 اپریل کو وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کرتے ہوئے متعدد وزیروں کے قلمدان تبدیل کردیے تھے۔

عمران خان کی خواہش تھی کہ اسد عمر وزارت خزانہ چھوڑ کر توانائی کی وزارت لے لیں تاہم اسد عمر نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے ساتھ ہی انہوں نے مزید کابینہ کا حصہ نہ رہنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔

فواد چوہدری سے وزارت اطلاعات واپس لے کر وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا قلمدان دے دیا گیا۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وفاقی وزیر داخلہ بنادیا گیا۔

اس کے علاوہ غلام سرور خان سے وزارت پیٹرولیم لے کر وزارت ایوی ایشن دے دی گئی، شہریار آفریدی اب وزیر مملکت برائے داخلہ نہیں بلکہ وزیر مملکت برائے ریاستی و سرحدی امور‎ (سیفران) ہوں گے۔

محمد میاں سومرو سے ایوی ایشن کی وزارت لے لی گئی ہے جبکہ وزارت نجکاری کا قلمدان ان کے پاس ہی رہے گا۔

ظفراللہ مرزا کو وزیراعظم کا مشیر برائے نیشنل ہیلتھ بنادیا گیا جبکہ فردوس عاشق اعوان کو معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر کردیا گیا۔

عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ بنا دیا گیا ہے اور فی الحال وزیر خزانہ کے نام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اعظم سواتی کو وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور بنا دیا گیا ہے۔

ندیم بابر کو وزیر اعظم کا معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ڈویژن تعینات کردیا گیا ہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
ایک وزیر خزانہ تھا. اس سے معیشت نھیں چلی. کرپشن بھی کی. ملک سے بھاگ بھی گیا. اشتہاری بھی قرار دے دیا گیا. پھر انگلینڈ میں بیٹھ کر پاکستانی وزیر خزانہ کے عہدہ پہ قابض رہا اور اس عہدے کی تنخواہ اور مراعات لیتا رہا.
دوسرے سے معیشت نھیں چلی تو چند ماہ میں استعفیٰ دے کر راستے سے ہٹ گیا تاکہ کوئی اور آ کر بہتر کام کر سکے.
(کاپی پیسٹ)
2011 میں جس فنانس منسٹر کے خلاف ملک دیوالیہ ہونے کے نعرے لگاتے رہے جعلی وزیر اعظم آج اسی کو فنانس میں لے آئے ہیں۔ جس کو لانے کا مطلب زرداری کے منتخب کردہ معیشت دان پر اعتبار کرنا ہے۔ سیاست آتی تو کب کا کنٹینر والا رویہ تبدیل کر کے ملک کی بہتری کی ہوتی۔
پہلے کہاں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔
لیکن گئے
پھر کہا کہ ٹیکس نہیں لگائیں گے
ٹیکس لگائے
پھر کہا کہ ایمنسٹی سکیم نہیں لائیں گے
لائے
کہا کہ جب مہنگائی آجائے تو سمجھ لینا حکمران چور ہے
پھر بھی اپنی چوری پر چپ اور دوسروں کی چوری پر چپڑ چپڑ چیخ رہا ہے

تھوک چاٹ کا سلسلہ جون کے بجٹ تک جاری رہے گا اور آخر کار اسمبلی تحلیل کرنے کا آخری اپشن استعمال کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کر لے گا۔

ویسے اسٹیبلشمنٹ کو ابھی بھی اس سے صدارتی نظام بارے کام لینا ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ کو اب تک اندازا ہوجانا چاہیئے کہ ان کا یہ گھوڑا لنگڑا ہے جو بلکل کام کا نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ابھی 2019 میں خیبرپختونخواہ میں ختم نبوت سے متعلق مواد اسلامیات سے حذف کیا گیا ہے۔ یعنی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے لئے اب بھی نیازی ہی صحیح ہے جو آئے روز قادیانی اور یہودی نواز ایجنڈوں کی تکمیل میں لگا ہوا ہے چاہے وہ شراب پر پابندی کے بل کی مخالفت کا ہو ، یا پنجاب میں اسلامیات کی آسامیوں میں اقلیتی کوٹے کا ہو ۔ یا خیبرپختونخوا میں مدارس میں پڑھنے والی بچیوں کے خلاف Society registration & amendment bill ہو، یا مدرسوں مساجد کے خلاف security of vulnerable sensitive & establishment bill ہو۔ یا فروری 2018 کی قائمہ کمیٹی جو سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں بھی تھی اس میں تحریک انصاف کی ثمینہ سعید نے گستاخ رسول کی سزائے موت کو ختم کرنے کی حمایت کی ان تمام کاموں سے انٹرنیشنل لابی بہت ہی مطمئن ہے اور اسی جعلی وزیر اعظم کو صدارتی یا جمہوری دونوں نظام میں فٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائیگی۔
 

جاسم محمد

محفلین
فرقان احمد یہ صاحب آپ کے جڑواں بھائی تو نہیں؟ :)
اسد عمر یا عمران خان نہیں، پس پردہ سیاسی کھیل ناکام ہوا ہے
20/04/2019 عماد ظفر



سیاست کی روایت یہی ہے کہ یہاں پلک جھپکنے میں بساط الٹ جایا کرتی ہے۔ چند ماہ قبل “مقتدر حلقوں” کی راج دلاری تحریک انصاف کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نوشتہ دیوار پڑھنے کی بجائے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر کے خود کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور جو بھی ہو وہ اور مقتدر حلقے “ایک صفحے” پر موجود ہیں۔ حال ہی میں اسد عمر کی بلی چڑھا کر اور کابینہ میں ردو بدل کر کے پرویز مشرف کی ساری کابینہ حکومت میں واپس لانے کے بعد عمران خان کا خیال ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔ یہ خیال اس سے قبل کئی وزرائے اعظم کے ذہن میں آتا رہا اور وہ اپنے ساتھیوں کی بلی چڑھا کر سوچتے رہے کہ وہ بچ جائیں گے لیکن آخر میں ہونی ہو کر ہی رہی اور ان وزرائے اعظم کو بھی گھر جانا پڑ گیا۔

قصہ مختصر پاکستان واپس پرویز مشرف کے دور میں پہنچ چکا ہے اور دگرگوں معاشی حالات رفتہ رفتہ مقتدر قوتوں کے بس سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے زر مبادلہ کے ذخائی ر ساڑھے چھ (6.5) ارب ڈالر رہ گئئے ہیں۔ افراط زر اس وقت اس دہائی کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں جن قوتوں نے پنجاب کے عوامی مینڈیٹ کی جیب کاٹ کر مصنوعی سیاسی منظر تخلیق کیا تھا وہ شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کو واشنگٹن سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کے لئے جن شرائط کا مطالبہ کرنے کو کہا گیا ہے وہ پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کو چین کے ساتھ تمام معاہدوں کی تفصیل بتانا ہو گی اور یہ ضمانت دینی ہو گی کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ چین کو قرضوں کی واپسی میں استعمال نہیں ہو گا۔ بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنا کر مقتدر قوتوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کلین چٹ ملنے کے امکانات کو بھی معدوم کر دیا ہے کیونکہ اعجاز شاہ شدت پسندوں کے ساتھ اپنے روابط کے باعث کچھ اچھی ساکھ نہیں رکھتے۔ عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ تعینات کر کے پرویز مشرف کی ساری ٹیم واپس لآئی گئی ہے اور عمران خان کو ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ سر جھکا کر ڈکٹیشن لیتے جآئیں۔ طاقت کی بساط پر سجی یہ بساط مقتدر قوتوں کی منشا کے مطابق نتائج دینے میں ناکام رہی ہے اور رفتہ رفتہ مقتدر قوتیں اپنے ہی داؤ میں الجھتی جا رہی ہیں۔

اپوزیشن نے خاموش رہ کر اور عدالتوں میں مقدمات بھگتا کر اس حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر کے تحریک انصاف یا مقتدر قوتوں کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا جسے استعمال کر کے تحریک انصاف یا مقتدر حلقے کوئی راہ فرار اختیار کر پاتے۔ عمران خان اس بساط پر ایک معمولی سا مہرہ تھے اور رہیں گے اور جلد ہی ان کی قربانی دے کر ناکامیوں کا ملبہ تحریک انصاف اور پارلیمانی نظام پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جبکہ ملک کو بدترین معاشی و سیاسی بحران سے دوچار کرنے والی قوتیں ہمیشہ کی مانند ایک نئی بساط سجانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ “اگر مہرے کھیلنے سے انکار کر دیں تو شطرنج کی بساط بچھآئی ہی نہیں جا سکتی”۔ پاکستان کی جمہوری قیادت کا فی الحال اس بات پر اتفاق رائے ہے اور ان میں سے کوئی بھی اب مہرہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانستہ صدارتی نظام کی بحث چھیڑی گئی ہے۔ حالانکہ ایوب خان کے صدارتی نظام سے لیکر مشرف کی صدارت تک پاکستان کو سیاسی ،سماجی اور معاشی بحرانوں سے دوچار کروانے والا نظام یہی صدارتی نظام تھا۔

اسد عمر کی ناکامی سے ایک بات تو طے ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار درست تھا اور اسے محض مقتدرہ کو مطلوبہ وسائل مختص نہ کرنے کی پاداش میں عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ آٹھ سال تک قوم کو بیوقوف بنا کر اسد عمر نے فرضی اعداد و شمار پیش کئے اور جھوٹ پر مبنی بلند و بانگ دعوے کئے جبکہ عملی میدان میں روپے کی قدر میں کمی کے ناکام فیصلے سے لیکر آئی ایم ایف سے ناکام مذاکرات کا طوق گلے پر سجا کر معیشت کا ستیاناس کر کے چلتے بنے۔

تعجب اس بات پر ہے کہ اسد عمر دراصل وہی کر رہا تھا جو عمران خان اسے کہتا تھا۔ محترم عمران خان کی ضد تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا بلکہ اپنے فین کلب سے چندہ اکھٹا کر کے اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی مانند اپوزیشن اور بڑے بڑے کاروباری شخصیات پر مقدمات قائم کر کے انہیں قیدو بند میں رکھ کر ان سے پیسہ نکلوا کر خزانے کو بھر دینا ہے۔ اب چونکہ نہ تو ریاستیں چندے اور خیرات پر چلا کرتی ہیں اور نہ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی مانند بادشاہت کا نظام قائم ہے اس لئے کوئی بھی ذی شعور شخص ان اقدامات سے یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ ان کے بل پر معیثت پنپنے پائے گی۔ اس لئے اسد عمر کی ناکامی دراصل عمران خان کی ناکامی ہے اور عمران خان کو کوئی بھی سیاسی ٹیم دے دی جائے وہ اپنی اس سوچ کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدر قوتیں نئی بساط سجانے کی خواہش مند ہیں ۔ اگر عمران خان ان دیکھی بیساکھیاں استعمال کر کے اور پنجاب کا مینڈیٹ چرا کر اقتدار میں نہ آتے تو انہیں وہ سیاسی حمایت مل سکتی تھی جس کی کمی کا وہ روز اوّل سے شکار ہیں۔ عمران خان نے کٹھ پتلی بن کے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ کو ختم کر ڈالا بلکہ جمہوری نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر مقتدر قوتیں کچھ عرصے بعد کوئی قومی حکومت قائم کرتی ہیں یا صدارتی نظام متعارف کراتی ہیں تو تاریخ عمران خان کو اکیسویں صدی کے اصغر خان کے طور پر یاد رکھے گی۔

مقتدر قوتوں کو بھی ادراک کرنا چاہیے کہ مصنوعی سیاسی عمل معلومات اور ابلاغ کے اس دور میں زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گا۔ اب بھلے ون یونٹ بنایا جائے یا صدارتی نظام لایا جائے وقت کا ریلا بہت آگے جا چکا ہے اور معلومات تک رسائی نے اب سادہ لوح افراد پر بھی یہ بھید کھول دیا ہے کہ دراصل مسئلہ جمہوریت یا جمہوری نظام میں نہیں بلکہ جمہوری نظام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا ہے۔ گزشتہ حکومت سے انا کی جنگ اور اختیارات چھیننے کی خواہش نے ملک کو جن بحرانوں سے دو چار کیا ہے ان سے نکلنے کیلئے اب ایک طویل عرصہ درکار ہو گا جو کہ کسی بھی مصنوعی سیاسی عمل سے ہو کر نہیں گزرتا۔ عمران خان یا اسد عمر کی ناکامی جمہوری نظام کی ناکامی نہیں بلکہ پس پردہ سیاسی کھیل کی ناکامی ہے۔ مشرف اگر برہنہ آمریت کے سہارے بھی زیادہ دیر نہیں ٹک پایا تو کوئی اور بھی نہیں ٹک پائے گا۔ مقتدر قوتیں نئے مہرے سجا کر کچھ مزید وقت تو حاصل کر سکتی ہیں لیکن حسب منشا نتائج حاصل نہیں کر سکتیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
فرقان احمد یہ صاحب آپ کے جڑواں بھائی تو نہیں؟ :)
اسد عمر یا عمران خان نہیں، پس پردہ سیاسی کھیل ناکام ہوا ہے
20/04/2019 عماد ظفر



سیاست کی روایت یہی ہے کہ یہاں پلک جھپکنے میں بساط الٹ جایا کرتی ہے۔ چند ماہ قبل “مقتدر حلقوں” کی راج دلاری تحریک انصاف کے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نوشتہ دیوار پڑھنے کی بجائے کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر کے خود کو اس خوش فہمی میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور جو بھی ہو وہ اور مقتدر حلقے “ایک صفحے” پر موجود ہیں۔ حال ہی میں اسد عمر کی بلی چڑھا کر اور کابینہ میں ردو بدل کر کے پرویز مشرف کی ساری کابینہ حکومت میں واپس لانے کے بعد عمران خان کا خیال ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔ یہ خیال اس سے قبل کئی وزرائے اعظم کے ذہن میں آتا رہا اور وہ اپنے ساتھیوں کی بلی چڑھا کر سوچتے رہے کہ وہ بچ جائیں گے لیکن آخر میں ہونی ہو کر ہی رہی اور ان وزرائے اعظم کو بھی گھر جانا پڑ گیا۔

قصہ مختصر پاکستان واپس پرویز مشرف کے دور میں پہنچ چکا ہے اور دگرگوں معاشی حالات رفتہ رفتہ مقتدر قوتوں کے بس سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ سٹیٹ بنک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک کے زر مبادلہ کے ذخائی ر ساڑھے چھ (6.5) ارب ڈالر رہ گئئے ہیں۔ افراط زر اس وقت اس دہائی کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ ایسے میں جن قوتوں نے پنجاب کے عوامی مینڈیٹ کی جیب کاٹ کر مصنوعی سیاسی منظر تخلیق کیا تھا وہ شدید دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کو واشنگٹن سے پاکستان کو قرضے کی فراہمی کے لئے جن شرائط کا مطالبہ کرنے کو کہا گیا ہے وہ پاکستان کے لئے ناقابل قبول ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کو چین کے ساتھ تمام معاہدوں کی تفصیل بتانا ہو گی اور یہ ضمانت دینی ہو گی کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ چین کو قرضوں کی واپسی میں استعمال نہیں ہو گا۔ بریگیڈئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ کو وزیر داخلہ بنا کر مقتدر قوتوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے کلین چٹ ملنے کے امکانات کو بھی معدوم کر دیا ہے کیونکہ اعجاز شاہ شدت پسندوں کے ساتھ اپنے روابط کے باعث کچھ اچھی ساکھ نہیں رکھتے۔ عبدالحفیظ شیخ کو مشیر خزانہ تعینات کر کے پرویز مشرف کی ساری ٹیم واپس لآئی گئی ہے اور عمران خان کو ایک طرح سے مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ سر جھکا کر ڈکٹیشن لیتے جآئیں۔ طاقت کی بساط پر سجی یہ بساط مقتدر قوتوں کی منشا کے مطابق نتائج دینے میں ناکام رہی ہے اور رفتہ رفتہ مقتدر قوتیں اپنے ہی داؤ میں الجھتی جا رہی ہیں۔

اپوزیشن نے خاموش رہ کر اور عدالتوں میں مقدمات بھگتا کر اس حکومت کے خلاف احتجاج نہ کر کے تحریک انصاف یا مقتدر قوتوں کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا جسے استعمال کر کے تحریک انصاف یا مقتدر حلقے کوئی راہ فرار اختیار کر پاتے۔ عمران خان اس بساط پر ایک معمولی سا مہرہ تھے اور رہیں گے اور جلد ہی ان کی قربانی دے کر ناکامیوں کا ملبہ تحریک انصاف اور پارلیمانی نظام پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ جبکہ ملک کو بدترین معاشی و سیاسی بحران سے دوچار کرنے والی قوتیں ہمیشہ کی مانند ایک نئی بساط سجانے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ انگریزی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ “اگر مہرے کھیلنے سے انکار کر دیں تو شطرنج کی بساط بچھآئی ہی نہیں جا سکتی”۔ پاکستان کی جمہوری قیادت کا فی الحال اس بات پر اتفاق رائے ہے اور ان میں سے کوئی بھی اب مہرہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانستہ صدارتی نظام کی بحث چھیڑی گئی ہے۔ حالانکہ ایوب خان کے صدارتی نظام سے لیکر مشرف کی صدارت تک پاکستان کو سیاسی ،سماجی اور معاشی بحرانوں سے دوچار کروانے والا نظام یہی صدارتی نظام تھا۔

اسد عمر کی ناکامی سے ایک بات تو طے ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار درست تھا اور اسے محض مقتدرہ کو مطلوبہ وسائل مختص نہ کرنے کی پاداش میں عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔ آٹھ سال تک قوم کو بیوقوف بنا کر اسد عمر نے فرضی اعداد و شمار پیش کئے اور جھوٹ پر مبنی بلند و بانگ دعوے کئے جبکہ عملی میدان میں روپے کی قدر میں کمی کے ناکام فیصلے سے لیکر آئی ایم ایف سے ناکام مذاکرات کا طوق گلے پر سجا کر معیشت کا ستیاناس کر کے چلتے بنے۔

تعجب اس بات پر ہے کہ اسد عمر دراصل وہی کر رہا تھا جو عمران خان اسے کہتا تھا۔ محترم عمران خان کی ضد تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لینا بلکہ اپنے فین کلب سے چندہ اکھٹا کر کے اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی مانند اپوزیشن اور بڑے بڑے کاروباری شخصیات پر مقدمات قائم کر کے انہیں قیدو بند میں رکھ کر ان سے پیسہ نکلوا کر خزانے کو بھر دینا ہے۔ اب چونکہ نہ تو ریاستیں چندے اور خیرات پر چلا کرتی ہیں اور نہ ہی پاکستان میں سعودی عرب کی مانند بادشاہت کا نظام قائم ہے اس لئے کوئی بھی ذی شعور شخص ان اقدامات سے یہ توقع نہیں کر سکتا تھا کہ ان کے بل پر معیثت پنپنے پائے گی۔ اس لئے اسد عمر کی ناکامی دراصل عمران خان کی ناکامی ہے اور عمران خان کو کوئی بھی سیاسی ٹیم دے دی جائے وہ اپنی اس سوچ کے ساتھ ملک کو بحرانوں سے نہیں نکال پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مقتدر قوتیں نئی بساط سجانے کی خواہش مند ہیں ۔ اگر عمران خان ان دیکھی بیساکھیاں استعمال کر کے اور پنجاب کا مینڈیٹ چرا کر اقتدار میں نہ آتے تو انہیں وہ سیاسی حمایت مل سکتی تھی جس کی کمی کا وہ روز اوّل سے شکار ہیں۔ عمران خان نے کٹھ پتلی بن کے نہ صرف اپنی سیاسی ساکھ کو ختم کر ڈالا بلکہ جمہوری نظام کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اب اگر مقتدر قوتیں کچھ عرصے بعد کوئی قومی حکومت قائم کرتی ہیں یا صدارتی نظام متعارف کراتی ہیں تو تاریخ عمران خان کو اکیسویں صدی کے اصغر خان کے طور پر یاد رکھے گی۔

مقتدر قوتوں کو بھی ادراک کرنا چاہیے کہ مصنوعی سیاسی عمل معلومات اور ابلاغ کے اس دور میں زیادہ عرصے تک نہیں چل پائے گا۔ اب بھلے ون یونٹ بنایا جائے یا صدارتی نظام لایا جائے وقت کا ریلا بہت آگے جا چکا ہے اور معلومات تک رسائی نے اب سادہ لوح افراد پر بھی یہ بھید کھول دیا ہے کہ دراصل مسئلہ جمہوریت یا جمہوری نظام میں نہیں بلکہ جمہوری نظام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا ہے۔ گزشتہ حکومت سے انا کی جنگ اور اختیارات چھیننے کی خواہش نے ملک کو جن بحرانوں سے دو چار کیا ہے ان سے نکلنے کیلئے اب ایک طویل عرصہ درکار ہو گا جو کہ کسی بھی مصنوعی سیاسی عمل سے ہو کر نہیں گزرتا۔ عمران خان یا اسد عمر کی ناکامی جمہوری نظام کی ناکامی نہیں بلکہ پس پردہ سیاسی کھیل کی ناکامی ہے۔ مشرف اگر برہنہ آمریت کے سہارے بھی زیادہ دیر نہیں ٹک پایا تو کوئی اور بھی نہیں ٹک پائے گا۔ مقتدر قوتیں نئے مہرے سجا کر کچھ مزید وقت تو حاصل کر سکتی ہیں لیکن حسب منشا نتائج حاصل نہیں کر سکتیں۔
نہیں بھیا! ہمارا ان سے تو کوئی تعلق نہیں مگر ہم بھی چھپے رستم ہیں۔ مشرف دور میں ہمارے کالم کہیں نہ کہیں چھپتے تھے، آہ وہ بھی کیا دن تھے ۔۔۔! خیر، اب ہم خلائی مخلوق سے چھپتے پھرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بوجوہ خوب اچھی طرح سے توبہ کروائی گئی تھی۔ :) اور اب، رسی جل گئی مگر بل نہ گیا والا معاملہ ہے ۔۔۔! :)
 

جان

محفلین
نہیں بھیا! ہمارا ان سے تو کوئی تعلق نہیں مگر ہم بھی چھپے رستم ہیں۔ مشرف دور میں ہمارے کالم کہیں نہ کہیں چھپتے تھے، آہ وہ بھی کیا دن تھے ۔۔۔! خیر، اب ہم خلائی مخلوق سے چھپتے پھرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری بوجوہ خوب اچھی طرح سے توبہ کروائی گئی تھی۔ :) اور اب، رسی جل گئی مگر بل نہ گیا والا معاملہ ہے ۔۔۔! :)
فرقان بھیا! اپنے تجربات کبھی کہیں پہ شیئر ضرور کریں تاکہ میں عبرت پکڑتے ہوئے اپنی تنقیدی آراء سے باز آ جاؤں اور سب اچھا ہے کہ گُن گاؤں۔ :dont-know:
 
فرقان بھیا! اپنے تجربات کبھی کہیں پہ شیئر ضرور کریں تاکہ میں عبرت پکڑتے ہوئے اپنی تنقیدی آراء سے باز آ جاؤں اور سب اچھا ہے کہ گُن گاؤں۔ :dont-know:
محفل پہ کی جانی والی اصطبلیہ مخالف گفتگو کا اثر بہت ہی محدود ہے سو ابھی سب اچھے کی ضرورت نہیں۔ البتہ دونوں بڑے پبلک میڈیمز پر انتہائی احتیاط کیجیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
انصاف والوں کی ناسمجھی قوم کو مہنگی نہ پڑے
20/04/2019 ایاز امیر



اسد عمر کوویسے ہی قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اصل بات اوپر کی ہے۔ دانش اورافکار کی کمی ٹیم کے لیڈر کی ہے۔ اسدعمر میں کس نے وہ صلاحیتیں دیکھی تھیں، جو اُن کی شخصیت کا حصہ تھیں ہی نہیں؟ عامر کیانی کو کس نے وزارتِ صحت کا قلمدان تھما یاتھا؟ عثمان بزدار کن ہاتھوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہوئے؟ اوروہ جو کے پی کے وزیراعلیٰ ہیں ان کا نام تو نہ لینا ہی بہتر ہے۔ وہ کسی گنتی میں آتے ہی نہیں، لیکن پھر بھی وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ یہ سب کس کے فیصلے تھے؟

عمرا ن خان میں بہت سی خوبیاں ہوں گی، لیکن ان آٹھ ماہ نے بتایا ہے کہ حکمرانی کا فن ان کے بس کے با ت نہیں۔ بنی گالہ میں اُن کے دفتر جانے کا ایک دو بار اتفاق ہوا۔ یہ اُن کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ وہاں ماحول ہی ایسا نہ پایا، جس سے انسان متاثر ہوسکے۔ بس سطحی قسم کی گفتگو اورکوئی ایسا آدمی قریب نظر نہ آیا جس سے کسی قسم کی گہرائی کی توقع کی جاسکے، تو پھر کمی ٹیم کے ممبران کی ہے یا ٹیم کے کپتان کی؟

اسد عمر میں وہ جوہر دیکھے گئے، جو ان میں تھے ہی نہیں۔ غلطی پھر کس کی بنتی ہے؟ لیکن ہم جواز اوربہانے ڈھونڈ رہے ہیں، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا، اُن کی بھی سمجھ مکمل نہ تھی۔ انہوں نے بھی عمران خان میں وہ چیزیں دیکھیں، جو اُن میں نہیں تھیں۔ 2014 ء کے دھرنے کی تقریریں کوئی پھر سے سن لے۔ سن کے یہ گمان کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ ایسا شخص ملک کی حکمرانی کے قابل ہے۔

چلیں وہ تو پرانی بات ہوئی، لیکن جو شخص اقتدارمیں آئے اوراس کے ذہن میں ایسی باتیں ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس کی چھ بھینسوں کی نیلامی ہونی چاہیے اوریہ کہ وزیراعظم ہاؤس کو کسی اورچیز میں تبدیل کرنا چاہیے اس کی ذہنی سطح کے بارے میں آدمی کیا کہے گا؟ بیس بائیس سالہ نام نہاد جدوجہد اورکون سا سقراط کا خزانہ اس میں سے نکلتاہے، سوائے بھینسوں اوروزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی کے۔ وہ جو کہا جاتاتھا کہ سوچ اورویژن کی کمی ہے وہ اتنا غلط نہ تھا، لیکن پتا نہیں کیا بیماری ہماری مملکت کو لاحق ہے کہ حکمرانی کا معیار ہی یہی دستیاب ہے۔ اگر ہماری سیاست کی زرخیزی سے ہمیں زرداری اورشریف ہی ملے تو اُن کا متبادل کون ہاتھ آیا؟ سربراہ ِ تحریک انصاف۔

ہم کہتے تھکتے نہیں کہ یہ سرزمین وسائل سے مالامال ہے۔ ڈھنگ کی حکمرانی کے لئے ہمیں کوئی ملتا نہیں تو وسائل سے مالا مال ہم کیسے ہوگئے؟ بیس بائیس کروڑ کی آبادی ہے اورجو حکمران طبقہ ہے وہ ڈھونڈے بھی کسی اور سرزمین پہ نہ ملے۔ سوال تو یہ بنتاہے کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے؟ سیاست دان تو جیسے ہیں وہ ہیں ہی، لیکن نہ کوئی سلیقے کے معاشی ماہرین نہ کوئی بیوروکریٹ۔ حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ لایاجاتاہے۔ حفیظ شیخ پہلے بھی ایسی پوزیشن میں رہ چکے ہیں۔ وہی چند گھسے پٹے نام ہیں۔ اگر یہ پہلے کچھ نہیں کرسکے تو اب کون سے کارنامے سرانجام دینے کی ا ن سے توقع ہے؟

خطرہ یہ ہے کہ جمہوریت اوراس نظام سے ہی عوام کا اعتماد نہ اُٹھ جائے۔ پیپلزپارٹی کو آزما لیا اوراُن کی اصلیت ہم جا ن چکے۔ شریفوں کو آزمایا ایک لمبے عرصے تک اورانہوں نے جو قوم کی درگت بنائی وہ ہمارے سامنے ہے۔ بڑی امیدوں کے ساتھ انصاف والوں کو لایا گیا۔ کچھ عوام کی کوشش تھی اورکچھ سیڑھیاں لگانے والوں کی، لیکن یہ کتنے پانی میں ہیں، وہ حقیقت بھی آشکار ہوچکی ہے۔ تو پھر کیابنے گا؟ ہمارے ہاں فیصلے عوام کے نہیں ہوتے۔

کلیدی فیصلے سایوں کے پیچھے سے ہوتے ہیں۔ جب حکمرانی کی شکست وریخت سایوں میں رہنے والوں کو نظر آرہی ہو تو ان کی سوچ کیا ہوگی؟ ایک یہ کہ کسی اورمتبادل کی تلاش ہو۔ یہ آسان راستہ نہیں، کیونکہ جیسا ہم دیکھ چکے ہیں سیاسی میدان میں متبادل ڈھونڈا گیا تو نکلے نیچے سے انصاف والے ہی۔ سیاسی افق پر مزید کوئی چرچل تو نظر آنہیں رہا۔ متبادل کہاں سے آئے گا؟ دوسرا یہ کہ سایے میں رہنے والے سمجھیں کہ ان نالائقوں سے توپھر ہم ہی بہتر ہیں۔ یہی سوچ ایوب خان کی تھی اوران کے بعد آنے والے شاہسواروں کی۔ کہیں اس طرف تو حالات ہمیں نہیں لے کے جارہے؟ اصل خطرہ یہ ہے اوراس خطرے کی راہ انصاف والے ہموار کررہے ہیں۔

عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کے کارنامے دیکھ کر۔ پہلا اوراصل کام اس وقت معیشت کو سنبھالا دینے کا ہے، لیکن یہ بقراط کبھی سستے گھروں کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ کبھی اِکا دُکا شیلٹر ہوم بنا کر کہتے ہیں بے گھروں کی امداد ہورہی ہے اور کبھی احساس نامی پروگرام دے کر کہتے ہیں کہ فلاحی ریاست کے قیام کی یہ پہلی منز ل ہے۔ آنکھوں میں دھول ڈالنے کی بھی کچھ صلاحیت ہونی چاہیے۔

مڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات کے اپنے مسائل رہے ہیں۔ نجی محفلوں میں ان طبقات کے لوگ بیٹھتے تھے تونعرہ لگتاتھا کہ کرپشن اس ملک کو کھا گئی اورجب تک یہ ناسور ختم نہ ہو اورصحیح طورپر احتساب نہ ہو ا، اس ملک کا کچھ نہیں بن سکتا۔ یہ نعرہ عمران خان نے اپنا یا اورمڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات نے ان کا عَلم تھاما۔ اقتدار میں بھی آ گئے، لیکن ان کی کچھ سمجھ ہی نہ تھی کہ ان کو کرنا کیاہے۔ اسی لیے صرف حکومت مخمصے میں نہیں ہے۔

بحران کا سامنا قوم اورملک کو ہے۔ بحران صرف سیاسی اورمعاشی نہیں اصل میں ذہنی اورفکری بحران ہے کہ پاکستان کی سمت کیا ہے اورکیا ہونی چاہیے۔ اورکون سے ہاتھ اوردماغ اس سمت میں ملک کو لے جاسکتے ہیں۔ یہ کیا لایعنی قسم کی بحث ہے کہ صدارتی نظام لایاجائے یا نہیں۔ کوئی ڈھنگ کی قیادت تو آئے جو معاملات ٹھیک کرسکے۔ ایسی قیادت ہمارے پاس نہیں ہے۔ جو ہے انہی پہ امیدیں لگائی گئی تھیں اوراُن کی کیا صلاحیتیں ہیں وہ ظاہر ہو چکی ہیں۔

ڈراؤنا خواب مصر کا آتاہے۔ ایک پرانی اورفرسودہ آمریت کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی اوربغاوت کی پاداش میں انتخابات ہوئے اور عوام نے ایک جماعت اورحکومت چنی۔ پھر اُس حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اورفیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے اقتدار پہ قبضہ کیا۔ ملک کے آئین میں ایسی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں کہ وہ 2030 ء تک اگر چاہیں توصدر رہ سکتے ہیں۔ ملک پہ گرفت انہوں نے ایسی جمائی ہے کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک اُن کے مقابلے میں نرم اورملائم نظر آتے ہیں۔

کبھی تو لگتاہے کہ مسئلہ کسی ایک مسلم ریاست کا نہیں، بلکہ اسلامی دنیا کا ہے۔ پتا نہیں معاملات ہم سے ٹھیک کیوں نہیں چلتے۔ دنیا کی صفوں میں اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ یورپ اورامریکہ تو آگے تھے ہی، جاپان پھر اگلی صفوں میں جا پہنچا اوراب ترقی کی دوڑ میں چین بھی آگے جا چکا ہے، لیکن ہم جو ہیں وہ پیچھے کے پیچھے۔ ایک دو اسلامی ممالک ہی ہیں ترکی اورملائیشیا جیسے، جو کہ کچھ کریڈٹ لے سکتے ہیں۔

نہیں تو باقی ہم وہی محتاجی کی صفوں میں کھڑے ہیں۔ اصل غلامی یہی ہے۔ اوررونا یہ کہ کوئی جستجو بھی نہیں کہ ان حالات کو بدلاجائے۔ پوری اسلامی دنیا میں ایک ہی حقیقی انقلاب برپا ہوا ہے اوریہ وہ جو اَتا ترُک ترکی میں لایا۔ جس کی بدولت ترکی اپنا مقام دنیا کی صفوں میں بنا سکاہے۔ ہمارے حالات ہی ایسے لگتے ہیں کہ کسی فکری اوردوسری قسم کے انقلاب کے لئے ساز گار ہی نہیں۔ ہمارے سوچ ہی پیچھے کی صفوں میں رہنے والی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بیٹھیں تو مشکل، اتریں تو مشکل
20/04/2019 وسعت اللہ خان



شاید آپ کو بھی یاد ہو جب گزشتہ برس عام انتخابات سے چند ماہ قبل تحریکِ انصاف کی چھت پر پھیلے دانے دنکے کو دیکھ کر الیکٹ ایبلز پرندے دھڑا دھڑ اترنے لگے۔ کوئی پرندہ آ آ آ کرنے والے عمران خان کے کندھوں پر، کوئی ہاتھوں پر، کوئی سر پے اور کوئی قدموں میں بیٹھ گیا اور آس پاس کی چھتوں پر کھڑے آزمودہ پرندے بازوں کے ہاتھوں میں ترغیبی باجرا دھرے کا دھرا رہ گیا۔

کسی نے خان صاحب سے پوچھا آپ تو الیکٹ ایبلز اور پرانے چہروں سے اس قوم کو نجات دلا کر ایک تازہ دم قیادت کی مدد سے نیا پاکستان بنانا چاہ رہے تھے یہ کیا ہو رہا ہے؟ تس پر خان نے بہت بے بسی کے ساتھ جو کہا اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں، نئے لوگ کہاں سے لاؤں۔ مگر آپ فکر نہ کریں میری قیادت انھی پرانوں کو نئے ڈسپلن میں رکھتے ہوئے اپنے وعدوں اور پروگرام کو عملی جامہ پہنائے گی۔ بس حوصلہ نہیں ہارنا، مایوس نہیں ہونا۔ حاسدوں کے نزدیک الیکٹ ایبلز کا اس طرح پارٹی کی چھت پر اترنا عمران کے خوابوں کی پہلی ہار تھی مگر عشاق کے نزدیک یہ ایک بیدار مغز آدرشی کپتان کی حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی تھی۔

سب سے بڑا چیلنج معیشت ہی تھا۔ انتخابات سے پہلے خان صاحب اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ اگر تمام مقتدر ادارے باہم دست و گریباں ہونے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے منتخب حکومت کے پیچھے کھڑے ہوں تو معیشت کو سیدھا کرنا مسئلہ نہیں ہوگا۔

بس کرپٹ لوگوں کو الٹا کر کے احتساب کی ٹکٹکی پر باندھنا ہوگا اور وہ اپنے صندوقوں کی چابیاں دے دیں گے۔ نیب ان کے بیڈ رومز کی الماریاں کھولے گا اور گدے پھاڑ کے نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہو جائیں گی۔ تمام پاکستانی کاروباری، سٹے باز، سرمایہ کار خود انکم ٹیکس کے دفتروں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں باندھے نہ صرف ٹیکس نمبر حاصل کریں گے بلکہ فخریہ گردن تانے پوچھیں گے کہ بتائیے ججمان جی ہم پر کتنا ٹیکس واجب الادا ہے؟ حب الوطنی کے جام پیے سمندر پار پاکستانی ایک ایک ہزار ڈالر چندہ بھیجیں گے۔ ہم سوئٹزرلینڈ سمیت آف شور بینکوں اور کمپنیوں میں ٹیمیں بھیجیں گے اور دنیا خود بتا دے گی کہ کس پاکستانی لٹیرے اور چور کا اکاؤنٹ نمبر کیا ہے اور اس میں کتنا پیسہ پڑا ہے۔ باقی کسر سی پیک نامی گیم چینجر نکال دے گا۔

اس کے بعد کون سا آئی ایم ایف، کون سعودی عرب، کون امارات، کون سا کشکول؟ یوں ترقی کا عظیم الشان سفر شروع ہو جائے گا اور جب پانچ سال پورے ہوں گے تو یہ ملک اتنا بدل چکا ہوگا کہ روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی باشندے بھی پاکستان میں ملازمتیں لینے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے۔

خواب کا سحر اتنا مکمل تھا کہ مراد سعید کی قبل از انتخابات یہ تقریر بھی بچے بچے کے موبائل پر وائرل ہو گئی کہ حکومت بنتے ہی ہم گزشتہ روز سارے قرضے واپس منہ پر مار دیں گے اور ایک ہفتے میں آف شور پڑے اربوں چوری شدہ ڈالر واپس لا کر دکھائیں گے۔

ایک ڈریم ٹیم نظر آ رہی تھی۔ جہانگیر ترین نا اہل ہوگئے توکیا ہوا؟ پنجاب کو علیم خان دیکھیں گے، خزانے کے نگراں اوپننگ بیٹسمین اسد عمر ہوں گے، خارجہ پالیسی تو بنی ہی شاہ محمود قریشی کے لیے ہے۔ منہ زور فرعون صفت بیورو کریسی خان کے انتھک جواں سال و گرم خون وزرا کی بٹالین دیکھ کر خود بخود تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ نیب کرپٹوں سے نمٹ لے گا۔ فوجی قیادت بہت عرصے بعد اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنی پوری توجہ جغرافیائی تحفظ پر مرکوز کر پائے گی اور عوام بنی گالا کی کفایت شعاریاں دیکھیں گے اور وزیرِ اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے کھلے دروازوں سے بے دھڑک اندر جا کر ماضی کے اللے تللے دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں گے کہ پاکستان اب تک کن لٹیروں کے سبب معاشی و سیاسی اعتبار سے نیچے ہی نیچے جا رہا تھا۔

اس ماحول میں جب پہلے سو دن میں ہر محکمے کی ٹاسک فورس نے اپنے اپنے ترقیاتی پلان اور حکمتِ عملی وضع کر لی۔ پانچ برس میں ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کی ڈرائنگ مکمل ہو گئی۔ پرانے نا اہل حکمرانوں کی فالتو سرکاری گاڑیاں اور بھینسیں نیلام ہو گئیں۔ تو پھر بارات کی رخصتی کے بعد شادی کے اخراجات و آمدنی کا حساب کتاب شروع ہوا۔ تنبو کے اتنے دینے ہیں، باورچی کے اتنے پیسے بنے، ہار پھول والے کو اتنا ایّڈوانس دیا گیا۔ کل ملا کے پچاس لاکھ بنے اور کھیسے میں دس لاکھ ہیں۔

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا ( غالب)

جہانگیر ترین پہلے ہی بندھ چکے تھے، کابینہ میں آدھے پرانے اور آدھے نئے چہرے۔ معاشی خواب کو تعبیر پہنانے کے لیے جس اکنامک ایڈوائزری کونسل کا سوچا گیا تھا وہ عاطف میاں کو رکھنے نہ رکھنے کی نذر ہو گئی۔ باقی بچ گئے اسد عمر اور ان کے ہمراہ آزمودہ کار پرانے گرگانِ باران دیدہ رزاق داؤد اور عشرت حسین وغیرہ۔ محکمہ داخلہ خان صاحب نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا۔

پارلیمنٹ میں پرائم منسٹر کا ہفتہ وار گھنٹہ متعارف ہونا تھا تاکہ سب مل کر نئے پاکستان کی پارلیمانی تعمیر میں ہاتھ بٹا سکیں۔ قانون سازی ہو سکے، ووٹر اور بازار کو یہ پیغام پہنچ سکے کہ ہمارے مابین کیسا ہی اختلاف سہی مگر پاکستان کو معاشی، سیاسی و سماجی بحران سے نکالنے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں ہم سنجیدہ ہیں۔

آج تک قائدِ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار میں ایک باضابطہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ آج تک قائدِ اقتدار ایک کھلی پریس کانفرنس نہیں کر پائے۔ اگرچہ کچھ وزیر آج بھی اگلے ہفتے تیل کے فوارے چھوٹتے دیکھ رہے ہیں اور ایک مہینے بعد اس تیل کی دھار پر معیشت کو بلند ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر نیا پاکستان پرانے چہروں کو نئے عزمِ حکمرانی کے ساتھ آتا دیکھ رہا ہے۔ کابینہ پھر سے پرانے اور نئے پرزوں کو جوڑ کر اسمبل کی جا رہی ہے۔ استقبال کے لیے ازقسمِ آئی ایم ایف اور فیٹف راہ میں ہار لیے کھڑے ہیں۔

چلیے چھوڑئیے ان فضول باتوں کو۔ پاکستان تو جب بدلے گا تب بدلے گا۔ فی الحال موڈ بدلنے کے لیے وہ کہانی پھر سن لیجیے جو آپ ایک سو ستائیس بار پہلے بھی سن چکے ہیں۔

ایک کمہار اور اس کا بیٹا نیا گدھا خرید کے میلے سے پیدل واپس لوٹ رہے تھے۔ ایک راہ گیر بڑبڑایا کتنے مورکھ ہیں، گدھا ہوتے ہوئے بھی پیدل جا رہے ہیں۔ یہ سن کر کمہار اور بیٹا گدھے پر بیٹھ گئے۔ کچھ دور بعد ایک اور آواز آئی ہائے ہائے جانور پر کیا ظلم ہے دو ہٹے کٹے آدمی ایک گدھے پر بیٹھے جا رہے ہیں اور گدھا ہلکان ہوا جا رہا۔ یہ سن کے کمہار گدھے سے اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک عورت چلائی کیسا بدتمیز لڑکا ہے خود گدھے پر بیٹھا ہے اور باپ کو پیدل چلا رہا ہے۔ یہ سن کر بیٹا نیچے اتر آیا اور باپ گدھے پر سوار ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور آواز آئی کیسا ظالم ہے خود تو گدھے پر بیٹھا ہے اور بچے کو پیدل چلا رہا ہے۔ یہ بات دونوں کی سمجھ میں آ گئی اور دونوں گدھے کو الٹا کر کے بانس سے باندھ کر گاؤں پہنچے۔ پورا گاؤں ہنسنے لگا۔ ایک بزرگ نے کہا گدھا سواری کے لیے ہوتا ہے اور الٹا تم اس کی سواری بنے ہوئے ہو۔ اس پر کمہار نے راستے بھر جو جو ہوا کہہ سنایا۔ بزرگ نے کہا اپنی عقل استعمال کرنے کے بجائے لوگوں کے کہنے پر چلو گے تو یہی ہوگا اور پھر وہی لوگ تم پر ہنسیں گے۔
بشکریہ ایکسپریس۔
 

فرقان احمد

محفلین
انصاف والوں کی ناسمجھی قوم کو مہنگی نہ پڑے
20/04/2019 ایاز امیر



اسد عمر کوویسے ہی قصوروار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اصل بات اوپر کی ہے۔ دانش اورافکار کی کمی ٹیم کے لیڈر کی ہے۔ اسدعمر میں کس نے وہ صلاحیتیں دیکھی تھیں، جو اُن کی شخصیت کا حصہ تھیں ہی نہیں؟ عامر کیانی کو کس نے وزارتِ صحت کا قلمدان تھما یاتھا؟ عثمان بزدار کن ہاتھوں سے وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد ہوئے؟ اوروہ جو کے پی کے وزیراعلیٰ ہیں ان کا نام تو نہ لینا ہی بہتر ہے۔ وہ کسی گنتی میں آتے ہی نہیں، لیکن پھر بھی وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔ یہ سب کس کے فیصلے تھے؟

عمرا ن خان میں بہت سی خوبیاں ہوں گی، لیکن ان آٹھ ماہ نے بتایا ہے کہ حکمرانی کا فن ان کے بس کے با ت نہیں۔ بنی گالہ میں اُن کے دفتر جانے کا ایک دو بار اتفاق ہوا۔ یہ اُن کے اقتدار میں آنے سے پہلے کی بات ہے۔ وہاں ماحول ہی ایسا نہ پایا، جس سے انسان متاثر ہوسکے۔ بس سطحی قسم کی گفتگو اورکوئی ایسا آدمی قریب نظر نہ آیا جس سے کسی قسم کی گہرائی کی توقع کی جاسکے، تو پھر کمی ٹیم کے ممبران کی ہے یا ٹیم کے کپتان کی؟

اسد عمر میں وہ جوہر دیکھے گئے، جو ان میں تھے ہی نہیں۔ غلطی پھر کس کی بنتی ہے؟ لیکن ہم جواز اوربہانے ڈھونڈ رہے ہیں، جبکہ اصل بات یہ ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو وزیراعظم بنایا، اُن کی بھی سمجھ مکمل نہ تھی۔ انہوں نے بھی عمران خان میں وہ چیزیں دیکھیں، جو اُن میں نہیں تھیں۔ 2014 ء کے دھرنے کی تقریریں کوئی پھر سے سن لے۔ سن کے یہ گمان کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ ایسا شخص ملک کی حکمرانی کے قابل ہے۔

چلیں وہ تو پرانی بات ہوئی، لیکن جو شخص اقتدارمیں آئے اوراس کے ذہن میں ایسی باتیں ہوں کہ وزیراعظم ہاؤس کی چھ بھینسوں کی نیلامی ہونی چاہیے اوریہ کہ وزیراعظم ہاؤس کو کسی اورچیز میں تبدیل کرنا چاہیے اس کی ذہنی سطح کے بارے میں آدمی کیا کہے گا؟ بیس بائیس سالہ نام نہاد جدوجہد اورکون سا سقراط کا خزانہ اس میں سے نکلتاہے، سوائے بھینسوں اوروزیراعظم ہاؤس کی گاڑیوں کی نیلامی کے۔ وہ جو کہا جاتاتھا کہ سوچ اورویژن کی کمی ہے وہ اتنا غلط نہ تھا، لیکن پتا نہیں کیا بیماری ہماری مملکت کو لاحق ہے کہ حکمرانی کا معیار ہی یہی دستیاب ہے۔ اگر ہماری سیاست کی زرخیزی سے ہمیں زرداری اورشریف ہی ملے تو اُن کا متبادل کون ہاتھ آیا؟ سربراہ ِ تحریک انصاف۔

ہم کہتے تھکتے نہیں کہ یہ سرزمین وسائل سے مالامال ہے۔ ڈھنگ کی حکمرانی کے لئے ہمیں کوئی ملتا نہیں تو وسائل سے مالا مال ہم کیسے ہوگئے؟ بیس بائیس کروڑ کی آبادی ہے اورجو حکمران طبقہ ہے وہ ڈھونڈے بھی کسی اور سرزمین پہ نہ ملے۔ سوال تو یہ بنتاہے کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے؟ سیاست دان تو جیسے ہیں وہ ہیں ہی، لیکن نہ کوئی سلیقے کے معاشی ماہرین نہ کوئی بیوروکریٹ۔ حفیظ شیخ کو اسد عمر کی جگہ لایاجاتاہے۔ حفیظ شیخ پہلے بھی ایسی پوزیشن میں رہ چکے ہیں۔ وہی چند گھسے پٹے نام ہیں۔ اگر یہ پہلے کچھ نہیں کرسکے تو اب کون سے کارنامے سرانجام دینے کی ا ن سے توقع ہے؟

خطرہ یہ ہے کہ جمہوریت اوراس نظام سے ہی عوام کا اعتماد نہ اُٹھ جائے۔ پیپلزپارٹی کو آزما لیا اوراُن کی اصلیت ہم جا ن چکے۔ شریفوں کو آزمایا ایک لمبے عرصے تک اورانہوں نے جو قوم کی درگت بنائی وہ ہمارے سامنے ہے۔ بڑی امیدوں کے ساتھ انصاف والوں کو لایا گیا۔ کچھ عوام کی کوشش تھی اورکچھ سیڑھیاں لگانے والوں کی، لیکن یہ کتنے پانی میں ہیں، وہ حقیقت بھی آشکار ہوچکی ہے۔ تو پھر کیابنے گا؟ ہمارے ہاں فیصلے عوام کے نہیں ہوتے۔

کلیدی فیصلے سایوں کے پیچھے سے ہوتے ہیں۔ جب حکمرانی کی شکست وریخت سایوں میں رہنے والوں کو نظر آرہی ہو تو ان کی سوچ کیا ہوگی؟ ایک یہ کہ کسی اورمتبادل کی تلاش ہو۔ یہ آسان راستہ نہیں، کیونکہ جیسا ہم دیکھ چکے ہیں سیاسی میدان میں متبادل ڈھونڈا گیا تو نکلے نیچے سے انصاف والے ہی۔ سیاسی افق پر مزید کوئی چرچل تو نظر آنہیں رہا۔ متبادل کہاں سے آئے گا؟ دوسرا یہ کہ سایے میں رہنے والے سمجھیں کہ ان نالائقوں سے توپھر ہم ہی بہتر ہیں۔ یہی سوچ ایوب خان کی تھی اوران کے بعد آنے والے شاہسواروں کی۔ کہیں اس طرف تو حالات ہمیں نہیں لے کے جارہے؟ اصل خطرہ یہ ہے اوراس خطرے کی راہ انصاف والے ہموار کررہے ہیں۔

عقل دنگ رہ جاتی ہے ان کے کارنامے دیکھ کر۔ پہلا اوراصل کام اس وقت معیشت کو سنبھالا دینے کا ہے، لیکن یہ بقراط کبھی سستے گھروں کی باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں۔ کبھی اِکا دُکا شیلٹر ہوم بنا کر کہتے ہیں بے گھروں کی امداد ہورہی ہے اور کبھی احساس نامی پروگرام دے کر کہتے ہیں کہ فلاحی ریاست کے قیام کی یہ پہلی منز ل ہے۔ آنکھوں میں دھول ڈالنے کی بھی کچھ صلاحیت ہونی چاہیے۔

مڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات کے اپنے مسائل رہے ہیں۔ نجی محفلوں میں ان طبقات کے لوگ بیٹھتے تھے تونعرہ لگتاتھا کہ کرپشن اس ملک کو کھا گئی اورجب تک یہ ناسور ختم نہ ہو اورصحیح طورپر احتساب نہ ہو ا، اس ملک کا کچھ نہیں بن سکتا۔ یہ نعرہ عمران خان نے اپنا یا اورمڈل کلاس اورپروفیشنلز طبقات نے ان کا عَلم تھاما۔ اقتدار میں بھی آ گئے، لیکن ان کی کچھ سمجھ ہی نہ تھی کہ ان کو کرنا کیاہے۔ اسی لیے صرف حکومت مخمصے میں نہیں ہے۔

بحران کا سامنا قوم اورملک کو ہے۔ بحران صرف سیاسی اورمعاشی نہیں اصل میں ذہنی اورفکری بحران ہے کہ پاکستان کی سمت کیا ہے اورکیا ہونی چاہیے۔ اورکون سے ہاتھ اوردماغ اس سمت میں ملک کو لے جاسکتے ہیں۔ یہ کیا لایعنی قسم کی بحث ہے کہ صدارتی نظام لایاجائے یا نہیں۔ کوئی ڈھنگ کی قیادت تو آئے جو معاملات ٹھیک کرسکے۔ ایسی قیادت ہمارے پاس نہیں ہے۔ جو ہے انہی پہ امیدیں لگائی گئی تھیں اوراُن کی کیا صلاحیتیں ہیں وہ ظاہر ہو چکی ہیں۔

ڈراؤنا خواب مصر کا آتاہے۔ ایک پرانی اورفرسودہ آمریت کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی اوربغاوت کی پاداش میں انتخابات ہوئے اور عوام نے ایک جماعت اورحکومت چنی۔ پھر اُس حکومت کے خلاف بغاوت ہوئی اورفیلڈ مارشل عبدالفتح السیسی نے اقتدار پہ قبضہ کیا۔ ملک کے آئین میں ایسی تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں کہ وہ 2030 ء تک اگر چاہیں توصدر رہ سکتے ہیں۔ ملک پہ گرفت انہوں نے ایسی جمائی ہے کہ سابق مصری صدر حسنی مبارک اُن کے مقابلے میں نرم اورملائم نظر آتے ہیں۔

کبھی تو لگتاہے کہ مسئلہ کسی ایک مسلم ریاست کا نہیں، بلکہ اسلامی دنیا کا ہے۔ پتا نہیں معاملات ہم سے ٹھیک کیوں نہیں چلتے۔ دنیا کی صفوں میں اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی کوئی وجہ تو ہو گی۔ یورپ اورامریکہ تو آگے تھے ہی، جاپان پھر اگلی صفوں میں جا پہنچا اوراب ترقی کی دوڑ میں چین بھی آگے جا چکا ہے، لیکن ہم جو ہیں وہ پیچھے کے پیچھے۔ ایک دو اسلامی ممالک ہی ہیں ترکی اورملائیشیا جیسے، جو کہ کچھ کریڈٹ لے سکتے ہیں۔

نہیں تو باقی ہم وہی محتاجی کی صفوں میں کھڑے ہیں۔ اصل غلامی یہی ہے۔ اوررونا یہ کہ کوئی جستجو بھی نہیں کہ ان حالات کو بدلاجائے۔ پوری اسلامی دنیا میں ایک ہی حقیقی انقلاب برپا ہوا ہے اوریہ وہ جو اَتا ترُک ترکی میں لایا۔ جس کی بدولت ترکی اپنا مقام دنیا کی صفوں میں بنا سکاہے۔ ہمارے حالات ہی ایسے لگتے ہیں کہ کسی فکری اوردوسری قسم کے انقلاب کے لئے ساز گار ہی نہیں۔ ہمارے سوچ ہی پیچھے کی صفوں میں رہنے والی ہے۔
یعنی کہ ایاز امیر صاحب نے تو اعلان ہی کر دیا کہ رومان کی موت واقع ہو چکی۔ بہت جلد ہمت ہار بیٹھے۔ خان صاحب تو ابھی پرامید ہیں۔ دیکھیے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
بہت جلد ہمت ہار بیٹھے۔ خان صاحب تو ابھی پرامید ہیں۔ دیکھیے ۔۔۔!
خان صاحب سے کہا گیا کہ آپ کرکٹ نہیں کھیل سکتے۔ کرکٹ کھیل کر دکھائی ہی نہیں بلکہ عالمی کپ گھر لے کر آئے۔
خان صاحب کو کہا گیا کہ آپ پاکستان جیسے ملک میں کینسر کا ہسپتال نہیں بنا سکتے جہاں اکثر مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہو۔ کینسرہسپتال بنایا ہی نہیں بلکہ چلا کر بھی دکھایا۔ یہاں تک کہ نواز شریف کے خون ٹیسٹ شوکت خانم لیبارٹری سے ہونے لگے۔
خان صاحب کا مذاق اڑایا گیا کہ ان کو سیاست نہیں آتی۔ وہ سیاست میں آگئے۔ پھر کہا سیاست میں آگئے ہیں تو اقتدار میں نہیں آسکتے۔ ان کی جماعت ایک صوبہ میں اقتدار میں آگئی۔ پھر کہا ٹھیک ہے صوبائی حکمرانی ملک گئی ہے لیکن ملک کا وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ مگر پوری دنیا نے دیکھا کہ وہ آج ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم بن گئے ہیں لیکن ملک کو ٹھیک نہیں کر سکتے۔۔۔ فلم ابھی باقی ہے :)
 
Top