وحشت یہ کہہ رہی ہے کہ وحشت کو اب نہ رو !

بے نام لمحوں کے نام اک بلاعنوان سوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے طفل عقل بیٹھ کے فرصت کو اب نہ رو
وحشت یہ کہہ رہی ہے کہ وحشت کو اب نہ رو

حالت یہ بے سبب ہے تو حالت کو اب نہ رو
وہ کھیل تھا سمجھتا تھا تو جس کو کوئی کام

اب بے بسی میں دوڑتا رہ "کیا" سے "کیوں" تلک
حسرت ہے آئینے کی تو حیرت کو اب نہ رو

کر اپنی اپنے ہونے سے بے نسبتی تلاش
نسبت تو اک فریب ہے نسبت کو اب نہ رو

رونے ہی سے ترے اگر آئی تو آئے گی
مژگاں سے اشک پونچھ قیامت کو اب نہ رو
 
Top