وجے کمار مسلمان ہو گیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
تو ادھر ادھر دیکھ کون رہا ہے؟
اور میرے سمجھ سے یہ بات بالکل بالاتر ہے کہ آپ لوگوں کو قرآن خوانی سے اتنی چِڑ کیوں ہے

حسیب بھائی الفاظ کا چناؤ شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ کسی کو چڑ ہے یا نہیں، کوئی کسی کو ڈنڈے کے زور پر نہیں روک رہا اور نہ ہی کرنے کو کہہ رہا ہے۔


اوپر احمد بھائی نے بالکل واضح الفاظ میں لکھا ہے۔ کہ مرنے والے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

قرآن آج سے 1400 سو سال پہلے بھی موجود تھا اور وہ لوگ ہم سے بہت ہی زیادہ پڑھتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ مجھے کوئی ایک واقعہ، کوئی ایک حدیث بتا دیجیے کہ اس وقت مرنے والوں کے لیے کسی نے قرآن خوانی کی ہو یا قرآن پڑھ کر کسی کو بخشا ہو۔
 

سید ذیشان

محفلین
ذیشان بھائی ! یہ لاؤڈ اسپیکر والا معاملہ اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی چیز کے بارے میں واضح احکامات موجود نہ ہوں۔ پھر لاؤڈ اسپیکر کا شمار 'ذرائع ابلاغ' (medium of communication) میں ہوتا ہے اور اس کا کام صرف ترسیل کا ہی ہے مزید یہ کہ اس کے استعمال سے دین میں کسی نئے عقیدے کا اضافہ نہیں ہوتا۔

کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جو بھی کچھ کیا جائے وہ 'مسنون' طریقے سے کیا جائے تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ طریقےپر ہی رہیں اور ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے

یہاں پر کچھ تضاد ہے آپ کی باتوں میں۔ ایک طرف تو لاوڈ سپیکر ذریعہ ترسیل بن جاتا ہے۔ لیکن قرآن پڑھنا جو کہ کلام اللہ ہے بدعت بن جاتی ہے۔
آذان بھی مسنون طریقے سے دینی چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
 
یہاں کچھ لوگوں کے اندازِ استدلال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام میں زیرِ بحث رسومات کے سوا مرنے والوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ اُن کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو اپنے ماں باپ اور دیگر فوت شدہ عزیزوں سے نہ تو محبت ہے اور نہ اُن کی آخرت کی بہتری کی خواہش ہے۔بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔
بہت معزرت کے ساتھ عرض کرں گا کہ جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام صرف ان زیرِ بحث رسومات کا ہی نام ہے، ان میں سرِ فہرست آپ خود ہیں۔۔کیونکہ آپکے اندازٰ ِ استدلال سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ رسومات کرنے والے ہندو ہیں اور نہ کرنے والے مسلمان۔۔۔انّا للہ وانّا الیہ راجعون

سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مرنے والوں کے لئے تین چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے۔

سب سے پہلی چیز دعا ہے کہ مرنے والوں کے لئے دعا کی جائے اور اس کی آخرت کی بہتری کے لئے اللہ سے التجا کی جائے۔
دوسرے نمبر پر مرنے والوں کی طرف سے صدقہ جاریہ (کوئی بھی ایسا کام جو عوام الناس کے لئے نافع ہو، اور جب تک لوگ اُس سے فیضیاب ہوتے رہیں گے، مرنے والے کو اس کا ثواب پہنچے گا)۔
تیسری اور سب سے اہم چیز ہے 'نیک اولاد'۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ماں باپ (اگر وفات پا چکے ہیں یا اُن میں سے کوئی ایک ) کو ثواب پہنچایا جائے تو آپ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بنائیں اور آپ کی ذات لوگوں کی فلاح والے کام کرے تو وہ بھی آپ کے والدین کے لئے بہت بہتر ہے۔
اور وہ جو حدیث شریف میں حجٰ بدل کا ذکر ہے، اور ماں باپ کیلئے روزے رکھنے کا ذکر ہے اسکو کس زمرے میں شمار کریں گے آپ؟ یہ دونوں باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔۔چنانچہ امت کے بہت ہی قابلِ احترام علماء کرام اور فقہاء کا صدیوں سے یہ موقف ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت بھی ان اعمال میں شامل ہے جن سے میت کو ثواب پہنچایا جاسکتا ہے۔۔اگر آپ کواس سے اختلاف ہے تو شوق سے، مت کیجئے ایسا۔۔لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ خود سے اختلاف رکھنے والوں کو ہندو بناتے پھریں، کیونکہ امت محمدیہ کا صدیوں سے اس پر تعامل ہے اور ۔اور آپکا یہ اقدام محض کم علمی بلکہ پرلے درجے کی غباوت کی دلیل ہے۔ اور آپ کو ان لوگوں سے اور اللہ سے معافی مانگنی چاہئیے ایسی بیہودہ تحریر لکھتے وقت۔


کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جو بھی کچھ کیا جائے وہ 'مسنون' طریقے سے کیا جائے تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ طریقےپر ہی رہیں اور ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
اور 'مسنون' بات وہی ہے جو آپکی سمجھ شریف میں آجائے ، اور جوکچھ آپ سمجھے نہیں یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ وہ ٹھہرا بدعت:rolleyes:
 

محمداحمد

لائبریرین
یہاں پر کچھ تضاد ہے آپ کی باتوں میں۔ ایک طرف تو لاوڈ سپیکر ذریعہ ترسیل بن جاتا ہے۔ لیکن قرآن پڑھنا جو کہ کلام اللہ ہے بدعت بن جاتی ہے۔
آذان بھی مسنون طریقے سے دینی چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ کا؟

قران کس طرح پڑھا جانا چاہیے اس کے لئے کسی اجتہاد کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس کے تفصیل اسوہء حسنہ میں موجود ہے اور وہی طریقہ مناسب ہے جو سنت سے ثابت ہے ۔ رہا لاؤڈ اسپیکر تو وہ بعد کی ایجاد ہے جسے کے لئے اجتہاد کی ضرورت تھی اور ایک عرصے کے بعد ہی سب ہی طبقات اس کے استعمال پر متفق ہوگئے۔
 
ویسے میرے خیال میں تو کسی کی بات سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ کسی کو اس سے چڑ ہے بھائی
آئی تھنک یہاں بات پسیفک ڈیز کی ہو رہی ہے جیسے کہ چالیسواں یا یا کوئی اور دن۔

ویسے جیسے ہم مدرز ڈے اور باقی کے دنوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ماں سے محبت صرف ایک دن نہیں ہونی چاہیے تو پھر مرنے والے کے لیے قرآن خوانی بس ایک یا دو دن کے لیے کیوں ہو؟

آپ جب چاہیں اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کر سکتے ہیں لیکن اس میں اتنے لوگوں کو بلانا اور پھر ان کی دعوت میں اتنے پیسے خرچنا تو بالکل فضول ہے۔

نیک اولاد کو بھی اسی لیے تو صدقہ جاریہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے جانے کے بعد ان کے حق میں دعا کرتی ہے، اپنے اچھے اعمال سے ان کے لیے آسانی پیدا کرتی ہے۔ ان کا ہر ایک اچھا عمل ان کے والدین کے لیے ثواب ہی تو ہے۔

ویسے قرآن خوانی کا ہمارے گھر میں بھی اکثر اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ پانی یا جوس ۔۔ابھی بابا کے جانے کے بعد ہمارے گھر میں مسلسل کتنے دن قرآن خوانی ہوتی رہی۔ اور ابھی بھی امی اور ہم بہن بھائی روز قرآن پڑھ کر بابا کے لیے دعا کرتے ہیں۔ مجھے تو اس میں کچھ غلط نہیں لگتا
اپیا میں نے یہی بات اوپر کی ہے شاید آپ نے پڑھی نہیں
جس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ہم لوگ عموماً ساتویں دن" ساتواں" اور چالیسویں دن "چالیسواں" کرتے ہیں ایسا کم از کم میرے دیکھنے میں تو نہیں آیا یہاں لوگ وفات کے پانچویں ،چھٹے دن کو ساتواں کرتے ہیں اور 2،3 ہفتوں بعد چالیسواں۔
اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کو ثواب پہنچایا جائے چاہے کسی بھی دن۔اور ان دنوں کا اصل مقصد ثواب بھیجنا ہے۔وگرنہ میں نے تو ایسے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جومرحوم کیلیے ہر ماہ قرآن خوانی کرواتے ہیں۔تو کیا اس میں کوئی ہرج ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
اور وہ جو حدیث شریف میں حجٰ بدل کا ذکر ہے، اور ماں باپ کیلئے روزے رکھنے کا ذکر ہے اسکو کس زمرے میں شمار کریں گے آپ؟ یہ دونوں باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔

ایسی تمام باتیں جو قران اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں مجھے اُنہیں ماننے میں ذرا بھی عار نہیں ہے۔ نہ ہی میں کسی قسم کی اندھی تقلید میں مبتلا ہوں کہ کسی عالم ، مسلک یا فرقے کی محبت مجھے قران اور احادیثِ صحیحہ میں موجود احکامِ شریعت ماننے سے روک سکے۔

آپ کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ میں نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے ملا دیا، لیکن آپ نے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ قدرِ مشترک کہاں سے آگئی۔ جبکہ ہندو بے شمار ہستیوں کو پوجنے والے لوگ ہیں اور مسلمان صرف اللہ ہی کو معبود تسلیم کرتے ہیں۔پھر ہندوؤں کی تہذیب بھی مسلم تہذیب سے پرانی ہے۔ کیا آپ نے یہ سوچا کہ یہ سب چیزیں برِ صغیر کے مسلمانوں میں ہی کیوں نظر آتی ہیں، دیگر ممالک کے مسلمانوں میں یہ رسومات نایاب کیوں ہیں؟ کیا آپ نے کسی ہندو سے اس بات کی تصدیق یا تردید کی کوشش کی۔ لیکن نہیں آپ کو تو ان باتوں سے کچھ سروکار ہی نہیں ہے، آپ کے ذہن میں تو صرف یہی بسا ہے کہ جس مسلک پر آپ پیدا ہوئے ہیں وہی ٹھیک ہے باقی سب غلط ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ اہلِ قریش کی سوچ کا انداز بھی یہی تھا اور وہ بھی اپنے پیدائشی مذہب پر ہی قانع تھے۔ پھر اس انداز میں سوچنے والوں کے ساتھ اس قسم کی بحث کارِ عبث ہی ہے۔
 
ایک بات تضمینا عرض کر رہا ہوں، ادھر کچھ عرصے کے تجربے کے بعد گویا اب یہ بات ناچیز کے لیے مثبتہ ہو چکی ہے کہ دیوبندی و بریلوی اختلافات کی حیثیت محض بارہ مصالحہ کی چاٹ کی ہے جو بہت سوں کے منہ کو لگی ہوئی ہے کبھی ایک پارٹی کا مصالحہ دوسرے کو ایسیڈیٹی(تیزابیت) میں مبتلا کردیتا ہے کبھی یہی حالت پہلے کی ہوتی ہے، لیکن مزے کے ساتھ چونکہ کاروبار حیات بھی یہی ہے لہذا کوئی اس سے منہ موڑنے کو تیار نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ واقعی حق کے طالب ہیں وہ صرف دو کام کریں ایک تو قرآن ترجمے کے ساتھ پڑھیں اور دن کے کچھ اوقات قرآنی آیات پر غور و فکر کے لیے رکھ چھوڑیں اور اس معمول میں ناغہ نہ کریں، دوسرا شمائل نبوی سے متعلق کوئی کتاب جیسا کہ شمائل ترمذی وغیرہ ہے جس میں نبی کریم ﷺ کے معمولات زندگی بیان کیے گئے ہیں آپﷺ کا اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا تعلقات نبھانا معمولات و رسومات زندگی کی ادائیگی وغیرہ تو اس ایسی کسی کتاب کو (شرط یہ کہ وہ صحیح مجموعہ احادیث جیسے کتب ستہ وغیرہ کی احادیث پر مشتمل ہو) کو اپنے معمولات و وظائف زندگی کا جزو بنا لیں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کے اس معمول کے بعد توہمات، اشکالات ختم ہوجاتے ہیں تذبذب کی کیفیت سے انسان باہر نکل جاتا ہے اور اسلام اپنی حقیقی شکل میں واضح ہوجاتا ہے، اور ہاں اس دوران اللہ سے راہ ہدایت طلب کرتے رہیں انتہائی اخلاص و آہ و زاری کے ساتھ۔ اور فرائض سے ہر گز غفلت نہ برتیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کام میں کوئی بارہ مصالحہ تو ہے نہیں اور مشقت زیادہ ہے، اور یہاں زبان کو عادت ہی اس کی ہے لہذا عموما حلقہ یاراں میں ایسی تجاویز کو پذیرائی مشکل سے ہی ملتی ہے، بہر کیف راہ کا انتخاب تو آپ نے ہی کرنا ہے اور جزا شاید اب وہ کچھ زیادہ دور بھی نہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
قران کس طرح پڑھا جانا چاہیے اس کے لئے کسی اجتہاد کی ضرورت ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس کے تفصیل اسوہء حسنہ میں موجود ہے اور وہی طریقہ مناسب ہے جو سنت سے ثابت ہے ۔ رہا لاؤڈ اسپیکر تو وہ بعد کی ایجاد ہے جسے کے لئے اجتہاد کی ضرورت تھی اور ایک عرصے کے بعد ہی سب ہی طبقات اس کے استعمال پر متفق ہوگئے۔
میں اس بحث کو آگے نہیں بڑھانا چاہوں گا کیونکہ مفت میں بدمزگی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن آخری بات کہوں گا۔ لوگ اس زمانے میں بھی مرتے تھے اور آذان بھی اس زمانے میں ہوتی تھی۔ یہ دونوں چیزیں آج بھی ہوتی ہیں۔ اگر کوئی ایک چیز میں تبدیلی کو برا سمجھتا ہے تو اس کو دوسری چیزوں میں تبدیلی کو بھی اتنا ہی برا سمجھنا چاہئے۔
 

ابو کاشان

محفلین
برادر محترم عبدالرزاق قادری صاحب، آپ کا ایک اور مراسلہ مجھے حذف کرنا پڑا۔ اور مجھے افسوس ہے کہ آپ جیسے دیندار لوگ دینی اور مسلکی معاملات پر بولتے وقت بات چیت کے اسلامی و شرعی قواعد کا پاس نہیں کریں گے تو دوسروں کو کیوں کر تعلیمات نبوی کی تلقین کر سکتے ہیں۔
وطیرہ
 

ابو کاشان

محفلین
اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مرنے والے کو قرآن پڑھ کر بھیجو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب کرام کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو قرآن خوانی کروا کے ثواب بھیجا ہو؟
مزید یہ بتایا جائے، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا انتقال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہوا تھا۔ ان کے لیے کون کون سی رسومات ادا کی گئی تھیں۔
میں بھی تو کچھ علم حاصل کروں۔
 
ایسی تمام باتیں جو قران اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں مجھے اُنہیں ماننے میں ذرا بھی عار نہیں ہے۔ نہ ہی میں کسی قسم کی اندھی تقلید میں مبتلا ہوں کہ کسی عالم ، مسلک یا فرقے کی محبت مجھے قران اور احادیثِ صحیحہ میں موجود احکامِ شریعت ماننے سے روک سکے۔
بحث یہ نہیں ہے کہ یہ یا اور کوئی رسوم کرنی چاہئیں یا نہیں کرنی چاہئیں۔۔۔اگر آپ ان رسومات پر مناسب انداز سے تنقید کرتے تو شائد کسی کو بھی اس پر اعتراض نہ ہوتا۔۔لیکن آپ نے تو ماشاء اللہ اسے کفر و اسلام کا معیار ہی بنادیا اور ان رسومات کو انجام دینے والے تمام مسلمان خواہ وہ ان پر عمل علیٰ وجہ البصیرت کرتے ہوں خواہ تقلیداّ کرتے ہوں، ان سب کو بیک جنبشِ قلم ہندو قرار دے دیا تو اس ناچیز نے بھی ضروری سمجھا کہ آپ کو آپکی تحریر کی خامی سے آگاہ کیا جائے۔۔۔دیکھئے کہ یہ مسائل ایسے ہیں کہ ان پر دو سو سال سے مسلمان بحث میں مشغول ہیں لیکن آپ جیسے شاعرانہ مزاج کے آدمی سے مجھے اس قسم کی تحریر کی توقع نہیں تھی، کیونکہ شاعر عام افراد کی نسبت زیادہ نازک خیال اور حسّاس ہوتا ہے۔۔آپکی اپروچ مناسب نہیں لگی تو اپنا نقطہ نظر بیان کردیا۔۔اگر آپ متفق ہوتے ہیں تو الحمدللہ اور اگر نہیں، تب بھی الحمد للہ علیٰ کل حال۔۔لیکن میں محض اختلاف کی بناء پر کسی مسلمان کو ہندو کہنے سے یقیناّ گریز ہی کروں گا۔۔۔

آپ کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ میں نے مسلمانوں کو ہندوؤں سے ملا دیا، لیکن آپ نے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں یہ قدرِ مشترک کہاں سے آگئی۔ جبکہ ہندو بے شمار ہستیوں کو پوجنے والے لوگ ہیں اور مسلمان صرف اللہ ہی کو معبود تسلیم کرتے ہیں۔پھر ہندوؤں کی تہذیب بھی مسلم تہذیب سے پرانی ہے۔ کیا آپ نے یہ سوچا کہ یہ سب چیزیں برِ صغیر کے مسلمانوں میں ہی کیوں نظر آتی ہیں، دیگر ممالک کے مسلمانوں میں یہ رسومات نایاب کیوں ہیں؟ کیا آپ نے کسی ہندو سے اس بات کی تصدیق یا تردید کی کوشش کی۔ لیکن نہیں آپ کو تو ان باتوں سے کچھ سروکار ہی نہیں ہے، آپ کے ذہن میں تو صرف یہی بسا ہے کہ جس مسلک پر آپ پیدا ہوئے ہیں وہی ٹھیک ہے باقی سب غلط ہے۔ بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ اہلِ قریش کی سوچ کا انداز بھی یہی تھا اور وہ بھی اپنے پیدائشی مذہب پر ہی قانع تھے۔ پھر اس انداز میں سوچنے والوں کے ساتھ اس قسم کی بحث کارِ عبث ہی ہے۔
مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ برصغیر پر اثر انداز رہے ہیں اور دونوں قومیں ایک دوسرے کے کلچر پر یقیناّ اثر انداز ہوئی ہیں۔۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہندوؤں نے یہ رسومات مسلمانوں سے لی ہوں۔۔۔چنانچہ بہت سی اقدار اس طرح مشترک ہوجاتی ہیں۔۔۔ ہندو یقیناّ بیشمار ہستیوں کو پوجتے ہیں لیکن مذکورہ رسومات سے اس بات کا کیا تعلق ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد ایصال ثواب کی نیت سے قرآن خوانی کی محافل کا اہتمام کرنا صرف برصغیر کے مسلمانوں سے ہی مخصوص نہیں ہے پوری مسلمان دنیا میں یہ رسومات کسی نہ کسی انداز سے اور مختلف ناموں سے جاری و ساری ہیں تو کیا وہ سب لوگ کافر ہوگئے۔۔معاف کیجئے آپ کی سوچ بہت متعصبانہ اور انتہاپسندانہ لگ رہی ہے۔۔اب آپ نے ہندوؤں سے تجاوز کرکے اپنی سوچ سے اختلاف رکھنے والوں کو کفارِ مکہ سے ملادیا:)۔۔۔
تھوڑی سی ذہن میں وسعت پیدا کیجئے تو آپکو محسوس ہوجائے گا کہ سوچ کی یہ کجی اس وجہ سے ہے کہ آپ کے نزدیک بدعت کا مفہوم کچھ اور ہے اور میرے نزدیک کچھ اور۔۔۔لیکن میں اپنے مفہوم سے اختلاف رکھنے والوں کو بھی مسلمان ہی سمجھتا ہوں لیکن آپ کو لگتا ہے سات خون معاف ہیں اور اندھا دھند لاٹھی گھما رہے ہیں۔۔۔کچھ خدا کا خوف ہونا چاہئیے اس معاملے میں۔
باقی جہاں تک آپکے اس الزام کا تعلق ہے کہ گویا میرے نزدیک جس مسلک پر میں پیدا ہوا ہوں وہی درست ہو اور باقی سب غلط، تو یہ بھی ہوا میں تیر ہی چلایا ہے۔۔میں نے تو کسی مسلک کو متعین طور پر درست اور دوسرے کو غلط کہیں بھی قرار نہیں دیا۔۔۔پورا دھاگہ شروع سے آخر تک پڑھ لیجئے۔۔یہ کام تو آپ خود کر رہے ہیں
 

ساجد

محفلین
ماشاءاللہ ، یہاں بہت سی دینی و علمی شخصیات موجود ہیں جن کے پر مغز تبصروں سے ایک سوال ذہن میں ابھرا ہے ۔سوال یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لئے کم سے کم مطلوب اعتقادی اہلیت کیا ہے؟۔
 
ماشاءاللہ ، یہاں بہت سی دینی و علمی شخصیات موجود ہیں جن کے پر مغز تبصروں سے ایک سوال ذہن میں ابھرا ہے ۔سوال یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لئے کم سے کم مطلوب اعتقادی اہلیت کیا ہے؟۔
میرے خیال میں تو یہی ہے کہ:
لا الہ الا الله محمد رسول الله
باقی دلوں کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے
واللہ اعلم بالصّواب
 

ساجد

محفلین
میرے خیال میں تو یہی ہے کہ:
لا الہ الا الله محمد رسول الله
باقی دلوں کے حال تو اللہ بہتر جانتا ہے
واللہ اعلم بالصّواب
شکریہ محمود احمد غزنوی بھائی۔ دیگر برادران و خواہران بھی رہنمائی فرمائیں۔
-----------------------------
سوال یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لئے کم سے کم مطلوب اعتقادی اہلیت کیا ہے؟۔
 

نایاب

لائبریرین
ماشاءاللہ ، یہاں بہت سی دینی و علمی شخصیات موجود ہیں جن کے پر مغز تبصروں سے ایک سوال ذہن میں ابھرا ہے ۔سوال یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لئے کم سے کم مطلوب اعتقادی اہلیت کیا ہے؟۔

میرے محترم بھائی
نہ تو میں بہت زیادہ دینی ہوں اور نہ ہی بہت زیادہ علم کا حامل
اس محفل اردو سے خصوصا اور دوسرے اردو فورمز سے عمومی استفادہ حاصل کیا ہے ۔
یہ " اعتقادی " اہلیت کیا ہے اور کس صورت مسلم ہونے کے لیئے لازم ہے اس کی سمجھ نہیں آئی ۔
میرے ناقص علم کے مطابق تو
مسلمان ہونے کی بنیادی شرط اِقرار بِاللّسان ہے یعنی زبان سے کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اقرار و اعلان کرنا تاکہ دوسرے لوگ اسے مسلمان سمجھیں، اس کے ساتھ اہل اسلام کا سا سلوک کریں اور وہ بحیثیت مسلم اسلام کی طرف سے عطا ہونے والے حقوق سے متمتع ہو سکے۔ اور اس اقرار کا حامل اس اقرار کے بعد اللہ تعالی کے نازل کردہ فرامین الہی (جو کہ قران پاک کی صورت ابد تا ازل تک محفوظ رہنے والے ہیں اور جنہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے کچھ ایسی صورت بخشی کہ آپ کے قول و عمل " اسوہ حسنہ " قرار پائے ۔ اور اللہ تعالی نے آپ کے ان اوصاف کا اپنی زبان پاک سے بیان فرمایا) کی متابعت کا پابند ہوتا ہے ۔
اور عام روزمرہ کے معمولات میں ان کا ظاہری اتباع کرتے اک مسلمان کا تشخص پاتا ہے ۔
باطنی طور پر اس کی نیت و اعمال اس کے اور اللہ کے درمیان ہوتے ہیں ۔ اور جب تک ظاہری طور پر اس کی شخصیت سے سلامتی کا ظہور ہوتا ہے اک مسلمان ہی کہلاتا ہے ۔ اور جب اس کے قول و فعل سے انتشار پھیلتا ہے تو اسے (کافر) بمعنی جھٹلانے والا قرار دیا جاتا ہے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بہت خوب! اگر آپ کی مسلم ساز اور ہندو ساز فیکٹری میں اس طرح مسلمان اور ہندو بنتے گئے تو ایک دن ہوگا کہ دنیا میں مسلمانوں کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔۔ اگر تہذیب ثقافت، رسومات، حتی کہ بدعات کی بنا پر مسلمانوں کو کافر بنایا جاتا رہا تو یقین کیجئے کہ اس کافر سازی کی زد سے کوئی بھی نہ بچ سکے گا ۔۔۔۔ اگر بدعت ۔۔۔ باعث کفر۔ ۔ ۔ ہے تو پھر ہمیں پہلی بدعت اور پہلے کافر کو تلاش کرنا ہوگا اور پھر اگر کسی کی دل آزاری ہوئی تو شاید اس کا ذمہ دار میں نہیں ہونگا۔ ۔ ۔ ۔ کیا کوئی ہے ذمہ داری قبول کرنے والا؟
اگر ہے تو کیا شروع کیا جائے بدعات اور ان کے ائجاد کنندگان کی تلاش کا سلسلہ؟
 

نایاب

لائبریرین
شکریہ محمود احمد غزنوی بھائی۔ دیگر برادران و خواہران بھی رہنمائی فرمائیں۔
-----------------------------
سوال یہ ہے کہ قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ فرمائیں کہ کسی انسان کے مسلمان ہونے کے لئے کم سے کم مطلوب اعتقادی اہلیت کیا ہے؟۔
اعتقادی اہلیت ؟؟؟؟؟؟؟
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی اپنی بہن کے اسلام لے آنے کی خبر پاک کر غضب ناک ہوتے ان کو قتل کرنے کے ارادے سے بہن کے گھر تشریف لاتے ہیں ۔ اور قران پاک کی کچھ آیتیں جو کہ غصے کے عالم میں ان کے کانوں میں پڑتی ہیں ۔ وہ بنا کسی احتیاج حدیث و قول آپ کے دل پر اثر کر جاتی ہیں ۔ اور آپ جو کہ اک قاتل بننے کے ارادے سے آئے تھے نہ صرف اک سچے مسلمان بنتے ہیں بلکہ امت مسلمہ کے جلیل القدر خلیفہ ہونے کا بھی اعزاز پاتے ہیں ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top