وجے کمار مسلمان ہو گیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

S. H. Naqvi

محفلین
زیادہ گہرائی میں کیا جانا مجھ نادان کو یہ سمجھا دیجیئے کہ حدیث میں یہ لکھا ہے کہ مردے کو سلام بھیجو ، مطلب اسکی سلامتی کے طلب گار بنو اور یہ بھی لکھا ہے کہ صدقہ جاریہ بھی کوئی چیز ہے جو ثواب کو جاری رکھتی ہے اور دینے والے کو جب تک استعمال کرنے والے استعمال کرتے رہیں، ثواب ملتا ہے تو قرآن جس کا دیکھنا، پڑھنا، سننا عبادت ہے، اگر اسے پڑھ کر کہا جائے کہ یہ ایصال ثواب ہو گیا تب کیا حرج ہے؟؟؟؟ باقی محفل میں موجود کئی بریلوی بھائی آپکو اس موقف پر کئی احادیث بتا دیں گے۔۔۔۔! جنہیں ہو سکتا ہے ضعیف کہہ دیا جائے۔۔۔۔! بہرحال میں کیا جانوں۔۔۔۔۔۔:cool:
 
اور حدیث میں یہ کہاں لکھا ہے کہ مرنے والے کو قرآن پڑھ کر بھیجو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اصحاب کرام کی زندگی میں ایسا کوئی واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو قرآن خوانی کروا کے ثواب بھیجا ہو؟

تو پھر آپکے خیال میں مرنے والے کو قرآن پڑھ کر ثواب بھیجنا گناہ ہے؟
 
جس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ہم لوگ عموماً ساتویں دن" ساتواں" اور چالیسویں دن "چالیسواں" کرتے ہیں ایسا کم از کم میرے دیکھنے میں تو نہیں آیا یہاں لوگ وفات کے پانچویں ،چھٹے دن کو ساتواں کرتے ہیں اور 2،3 ہفتوں بعد چالیسواں۔
اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کو ثواب پہنچایا جائے چاہے کسی بھی دن۔اور ان دنوں کا اصل مقصد ثواب بھیجنا ہے۔وگرنہ میں نے تو ایسے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جومرحوم کیلیے ہر ماہ قرآن خوانی کرواتے ہیں۔تو کیا اس میں کوئی ہرج ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
یہ fallacious argument ہے۔ حدیث میں تو یہ بھی نہیں ہے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان دے سکتے ہیں۔ تو کیا اس کا مظلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ پچاس سال پہلے مولیوں نے یہ فتوے لگائے تھے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان منع ہے۔

پہلے لوگ اس انتظار میں رہتے تھے کہ نماز کا وقت ہونے والا ہے یا اذان ہونے والی ہے تو مسجد کی طرف جاتے تھے۔ اب لاؤڈ سپیکر کی آواز پر بھی کان لپیٹ کر نکل جاتے ہیں۔ پہلے اپنے افعال کی طرف تو توجہ دیں۔ کتنے لوگ ہیں جو فجر کی جماعت باجماعت پڑھتے ہیں؟
 

عدیل منا

محفلین
جس طرح سمجھا جاتا ہے کہ ہم لوگ عموماً ساتویں دن" ساتواں" اور چالیسویں دن "چالیسواں" کرتے ہیں ایسا کم از کم میرے دیکھنے میں تو نہیں آیا یہاں لوگ وفات کے پانچویں ،چھٹے دن کو ساتواں کرتے ہیں اور 2،3 ہفتوں بعد چالیسواں۔
اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ مرنے والے کو ثواب پہنچایا جائے چاہے کسی بھی دن۔اور ان دنوں کا اصل مقصد ثواب بھیجنا ہے۔وگرنہ میں نے تو ایسے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جومرحوم کیلیے ہر ماہ قرآن خوانی کرواتے ہیں۔تو کیا اس میں کوئی ہرج ہے؟
جوقرآن اور حدیث سے نہ ملے اس پر اجتہاد ہے۔ اور اجتہاد میں یہ ثابت ہے کہ کوئی بھی نیک عمل فوت شدہ کو پہنچتا ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا تو پھر اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ قرآن پڑھنا نیک عمل نہیں ہے۔ (جبکہ اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن پڑھنا نیک عمل ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
جی ہاں، کچھ ایسا ہی ہے۔ اور جب تک آپ بنیاد سے شروع نہیں ہوں گے ایسا ہی ہو گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کام کرنے کو سبھی آگے ہو جاتے ہیں۔ اسی قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم 700 مرتبہ آیا ہے۔ کتنے لوگ ہیں جو اس حکم پر بلا چوں چراں عمل کرتے ہیں۔ نماز کن باتوں سے روکتی ہے اور کن باتوں پر عمل کرنے کو کہتی ہے، اس میں خشو و خضوع کتنا ہونا چاہیے، یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ اگر کبھی نماز پڑھنی شروع کر ہی دیں تو دنیا جہاں کے خیالات اسی نماز میں آئیں گے۔

اسی قرآن میں نماز کے ساتھ ساتھ زکواۃ کا حکم کتنی دفعہ آیا ہے، کتنے لوگ ہیں جو نیک نیتی اور ایمانداری سے زکواۃ دیتے ہیں؟

بات وہیں آ جاتی ہے جو ساجد بھائی نے بتائی تھی کہ ہم حیلے بہانوں سے حرام کو حلال قرار دے کر اپنے اوپر جائز کر لیتے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
پہلے لوگ اس انتظار میں رہتے تھے کہ نماز کا وقت ہونے والا ہے یا اذان ہونے والی ہے تو مسجد کی طرف جاتے تھے۔ اب لاؤڈ سپیکر کی آواز پر بھی کان لپیٹ کر نکل جاتے ہیں۔ پہلے اپنے افعال کی طرف تو توجہ دیں۔ کتنے لوگ ہیں جو فجر کی جماعت باجماعت پڑھتے ہیں؟
:shock:
لیکن میرا سوال تو اس سے متعلق نہیں تھا کہ پہلے لوگ مسجدوں میں جاتے تھے یا نہیں۔ میری عرض تو بڑی سادہ تھی کہ اگر لاوڈ سپیکر پر آذان دینے کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے تو یہ آپکی گزارش کردہ قانون کے تحت جائز کیونکر ہوا؟
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ fallacious argument ہے۔ حدیث میں تو یہ بھی نہیں ہے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان دے سکتے ہیں۔ تو کیا اس کا مظلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا؟
مزے کی بات یہ ہے کہ پچاس سال پہلے مولیوں نے یہ فتوے لگائے تھے کہ لاوڈ سپیکر سے آذان منع ہے۔

ذیشان بھائی ! یہ لاؤڈ اسپیکر والا معاملہ اجتہادی مسئلہ ہے اور اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب کسی چیز کے بارے میں واضح احکامات موجود نہ ہوں۔ پھر لاؤڈ اسپیکر کا شمار 'ذرائع ابلاغ' (medium of communication) میں ہوتا ہے اور اس کا کام صرف ترسیل کا ہی ہے مزید یہ کہ اس کے استعمال سے دین میں کسی نئے عقیدے کا اضافہ نہیں ہوتا۔

جن لوگوں نے جو لاؤڈ اسپیکر کے خلاف فتوے لگائے وہ اپنی تنگ نظری اور کج فہمی کی وجہ سے ہی یہ کام کرنے پر مجبور ہوئے۔ آج حال یہ ہے کہ مولوی حضرات لاؤڈ اسپیکر کی جان چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ہاں جن معاملات میں پہلے سے واضح احکامات موجود ہیں اُن میں کسی ترمیم و اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی بات ہے۔۔۔ فرقوں سے بالاتر ہوکر اگر سوچیں تب بھی یہ ایک دل آزاری پر مبنی پوسٹ تھی۔ میں اپنی مثال دیتا ہوں۔ مجھے آپکی اس پوسٹ سے اس وجہ سے دکھ پہنچا ہے کہ چند سال قبل میری والدہ محترمہ وفات پا گئیں، ہم لوگوں نے انکی وفات کے بعد چند دن کیلئے قرآن خوانی کا اہتمام کیا۔ پہلے لوگ جمعرات کو ایسا کیا کرتے تھے لیکن اب چونکہ پاکستان میں اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے، چنانچہ ہم نے اتوار کے دنوں میں یہ اہتمام کیا۔ اور انکی وفات سے چالیس دن تک ایسا کیا گیا۔۔۔ تھوڑا بہت دین اسلام کا مطالعہ میرا بھی ہے، میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر یہ سمجھتا ہوں کہ ہم لوگوں نے ایسا کرکے شریعت کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، کسی حرام کا ارتکاب نہیں کیا۔۔۔ لیکن آپ نے اپنے مضمون میں کافی تجاھلِ عارفانہ اور سطحی قسم کی ظاہر پرستی سے کام لیتے ہوئے پہلے تو اس وجے کمار کو مسلمان قرار دیا اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ وہ مسلمان لوگ جو ایسا کرتے ہیں، انہیں ہندو قرار دے دیا گیا۔۔اس پر بھی آپ معصومیت سے پوچھ رہے ہیں کہ ایسا کیا کہہ دیا میں نے۔۔۔ ۔
میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ آپ اپنی سوچ میں تھوڑی سی مزید وسعت پیدا کرنے کی کوشش کریں۔۔

یہاں کچھ لوگوں کے اندازِ استدلال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام میں زیرِ بحث رسومات کے سوا مرنے والوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ اُن کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو اپنے ماں باپ اور دیگر فوت شدہ عزیزوں سے نہ تو محبت ہے اور نہ اُن کی آخرت کی بہتری کی خواہش ہے۔بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مرنے والوں کے لئے تین چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے۔

سب سے پہلی چیز دعا ہے کہ مرنے والوں کے لئے دعا کی جائے اور اس کی آخرت کی بہتری کے لئے اللہ سے التجا کی جائے۔
دوسرے نمبر پر مرنے والوں کی طرف سے صدقہ جاریہ (کوئی بھی ایسا کام جو عوام الناس کے لئے نافع ہو، اور جب تک لوگ اُس سے فیضیاب ہوتے رہیں گے، مرنے والے کو اس کا ثواب پہنچے گا)۔
تیسری اور سب سے اہم چیز ہے 'نیک اولاد'۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ماں باپ (اگر وفات پا چکے ہیں یا اُن میں سے کوئی ایک ) کو ثواب پہنچایا جائے تو آپ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بنائیں اور آپ کی ذات لوگوں کی فلاح والے کام کرے تو وہ بھی آپ کے والدین کے لئے بہت بہتر ہے۔

کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جو بھی کچھ کیا جائے وہ 'مسنون' طریقے سے کیا جائے تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ طریقےپر ہی رہیں اور ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
السلام عليكم ورحمة اللہ وبركاتہ
ماشاء اللہ احمد بھائى بہت عمدہ اور فكرانگيز تحرير ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالى آپ كو مزيد توفيق عطا فرمائے۔

بہت شکریہ ۔۔۔!

افسوس اس بات کا ہے كہ غريب لوگ جن كے جسموں پر ہڈیوں پر جلد منڈھی ہے ، قرض اٹھا كر ، ہاتھ پھيلا كر، ادھار لے كر، ان رسوم كو پورا كرتے ہيں اور پھر ہر سال برسى كى فكر ميں مبتلا ہوتے ہيں۔ ہمارى خادمہ ناقص غذا كى وجہ سے گردے كى مريضہ ہے اس كے چہرے پر جھائی نما نشانات بن گئے ہيں ليكن ہر سال تين برسياں آبائى علاقے تك سفر كر كے منانى ضروری ہيں ۔ ان كا ايك بھائى مدرسے ميں پڑھ كر برسى كے خلاف ہو گيا ہے ، گھر ميں بحث چلتى ہے۔ ابھی ان كى ايك عزيزہ فوت ہوئيں ميں نے پوچھا آخر كب تك كتنى مناؤ گے ؟ خاندان ميں زندگی موت تو لگى رہتى ہے ؟ بولى باجى پھر ہم يوں كرتے ہيں كہ جس كى جوان موت ہو اس كى منا لى ، جو بوڑھا ہو كر فوت ہوا اس كى نہ منائى يا جس كى پانچ برسياں منا ليں پھر اس كى منانى بند كر دى ۔ ۔ ۔

ابھی کچھ مہینے پہلے میرے ایک شناسا کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا، اُن کی بہن کا انتقال ہوگیا تھا اور چالیسویں کے انتظام کے لئے اُن کے پاس رقم موجود نہیں تھی۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے دفتر سے بیس ہزار روپے قرض لے رہے ہیں تاکہ چالیسویں کا بندوبست کیا جا سکے۔

میں نے اپنے طور پر اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بات اُن کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میں نے اُنہیں کہا کہ اگر تمھاری گنجائش نہیں ہے تو یہ کرنا ضروری نہیں ہے، جہاں تک ہو سکے اُن کے لئے دعا کرو، اور اگر پھر بھی ایسا کرنا تم ضروری سمجھتے ہو تو محدود پیمانے پر اتنا ہی کرو جتنا تم قرض لئے بغیر کر سکتے ہو۔ کچھ کچھ بات اُن کی سمجھ میں بھی آئی لیکن آخری دلیل اُن کے پاس یہی تھی کہ رشتہ دار باتیں سنائیں گے کہ تم اپنی بہن کے لئے اتنا بھی نہیں کرسکتے۔ سو اُنہوں نے دفتر سے اُدھار لے کر اس کام کو انجام دیا اور اب تک اپنی تنخواہ میں سے کٹوتی کروا رہے ہیں۔

میرا خیال یہی ہے کہ ان تمام باتوں کو اگر دین کا حصہ نہیں بنایا جاتا تو میرے یہ دوست اتنا پریشان نہ ہوتے اور نہ ہی اُنہیں تنگی میں گزارہ کرنا پڑتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے آسانیاں چاہتا ہے، ہم خود معاملات کو اپنے لئے مشکل بنا لیں تو ہم دینِ اسلام کو الزام نہیں دے سکتے۔

۔
 
یہاں کچھ لوگوں کے اندازِ استدلال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام میں زیرِ بحث رسومات کے سوا مرنے والوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ اُن کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو اپنے ماں باپ اور دیگر فوت شدہ عزیزوں سے نہ تو محبت ہے اور نہ اُن کی آخرت کی بہتری کی خواہش ہے۔بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مرنے والوں کے لئے تین چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے۔

سب سے پہلی چیز دعا ہے کہ مرنے والوں کے لئے دعا کی جائے اور اس کی آخرت کی بہتری کے لئے اللہ سے التجا کی جائے۔
دوسرے نمبر پر مرنے والوں کی طرف سے صدقہ جاریہ (کوئی بھی ایسا کام جو عوام الناس کے لئے نافع ہو، اور جب تک لوگ اُس سے فیضیاب ہوتے رہیں گے، مرنے والے کو اس کا ثواب پہنچے گا)۔
تیسری اور سب سے اہم چیز ہے 'نیک اولاد'۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ماں باپ (اگر وفات پا چکے ہیں یا اُن میں سے کوئی ایک ) کو ثواب پہنچایا جائے تو آپ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بنائیں اور آپ کی ذات لوگوں کی فلاح والے کام کرے تو وہ بھی آپ کے والدین کے لئے بہت بہتر ہے۔

کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جو بھی کچھ کیا جائے وہ 'مسنون' طریقے سے کیا جائے تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ طریقےپر ہی رہیں اور ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
تو ادھر ادھر دیکھ کون رہا ہے؟
اور میرے سمجھ سے یہ بات بالکل بالاتر ہے کہ آپ لوگوں کو قرآن خوانی سے اتنی چِڑ کیوں ہے
 
یہاں کچھ لوگوں کے اندازِ استدلال سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلام میں زیرِ بحث رسومات کے سوا مرنے والوں کے کوئی حقوق ہی نہیں ہیں۔ یا یہ کہ اُن کے علاوہ باقی تمام لوگوں کو اپنے ماں باپ اور دیگر فوت شدہ عزیزوں سے نہ تو محبت ہے اور نہ اُن کی آخرت کی بہتری کی خواہش ہے۔بہت معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں مرنے والوں کے لئے تین چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے۔

سب سے پہلی چیز دعا ہے کہ مرنے والوں کے لئے دعا کی جائے اور اس کی آخرت کی بہتری کے لئے اللہ سے التجا کی جائے۔
دوسرے نمبر پر مرنے والوں کی طرف سے صدقہ جاریہ (کوئی بھی ایسا کام جو عوام الناس کے لئے نافع ہو، اور جب تک لوگ اُس سے فیضیاب ہوتے رہیں گے، مرنے والے کو اس کا ثواب پہنچے گا)۔
تیسری اور سب سے اہم چیز ہے 'نیک اولاد'۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ماں باپ (اگر وفات پا چکے ہیں یا اُن میں سے کوئی ایک ) کو ثواب پہنچایا جائے تو آپ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق بنائیں اور آپ کی ذات لوگوں کی فلاح والے کام کرے تو وہ بھی آپ کے والدین کے لئے بہت بہتر ہے۔

کہنے کا مطلب صرف یہی ہے کہ جو بھی کچھ کیا جائے وہ 'مسنون' طریقے سے کیا جائے تاکہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضع کردہ طریقےپر ہی رہیں اور ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
آپ ذرا دعا کی تعریف کر دیں کہ آپ کے مطابق دعا کیا ہے اور اس میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟
 

مقدس

لائبریرین
تو ادھر ادھر دیکھ کون رہا ہے؟
اور میرے سمجھ سے یہ بات بالکل بالاتر ہے کہ آپ لوگوں کو قرآن خوانی سے اتنی چِڑ کیوں ہے
ویسے میرے خیال میں تو کسی کی بات سے یہ تاثر نہیں ملتا کہ کسی کو اس سے چڑ ہے بھائی
آئی تھنک یہاں بات پسیفک ڈیز کی ہو رہی ہے جیسے کہ چالیسواں یا یا کوئی اور دن۔

ویسے جیسے ہم مدرز ڈے اور باقی کے دنوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ماں سے محبت صرف ایک دن نہیں ہونی چاہیے تو پھر مرنے والے کے لیے قرآن خوانی بس ایک یا دو دن کے لیے کیوں ہو؟

آپ جب چاہیں اپنے والدین کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کر سکتے ہیں لیکن اس میں اتنے لوگوں کو بلانا اور پھر ان کی دعوت میں اتنے پیسے خرچنا تو بالکل فضول ہے۔

نیک اولاد کو بھی اسی لیے تو صدقہ جاریہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے والدین کے جانے کے بعد ان کے حق میں دعا کرتی ہے، اپنے اچھے اعمال سے ان کے لیے آسانی پیدا کرتی ہے۔ ان کا ہر ایک اچھا عمل ان کے والدین کے لیے ثواب ہی تو ہے۔

ویسے قرآن خوانی کا ہمارے گھر میں بھی اکثر اہتمام کیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، زیادہ سے زیادہ پانی یا جوس ۔۔ابھی بابا کے جانے کے بعد ہمارے گھر میں مسلسل کتنے دن قرآن خوانی ہوتی رہی۔ اور ابھی بھی امی اور ہم بہن بھائی روز قرآن پڑھ کر بابا کے لیے دعا کرتے ہیں۔ مجھے تو اس میں کچھ غلط نہیں لگتا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top