واہ کینٹ میں خود کش حملہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
آپ کا حافظہ شاید کچھ زیادہ ہی کمزور ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ کفار 800 نہیں بلکہ 1000 کے لگ بھگ تھے۔ دوسری بات یہ کہ مجاہدین کے پاس نہ صرف افرادی قوت، بلکہ اچھے ہتھیاروں کی بھی کمی تھی۔ لیکن چونکہ اللہ پر یقین تھا، مادی وسائل پر نہیں، اسی لیے انہیں اپنے آپ سے 3 گنا بڑے لشکر پر فتح حاصل ہوئی۔
اب آتے ہیں موجودہ دور کی طرف۔ پہلے پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے آج پاکستان حربی ٹیکنالوجی کے معاملے میں اس حد تک خود کفیل ہو چکا ہے کہ بحری جہاز سے لے کر آبدوز تک، بکتربند اور ٹینک سے لے کر لڑاکا طیارے تک، عام راکٹ سے کروز میزائیل تک اور بندوق سے لے کر ایٹم بم تک یہاں مقامی طور پر تیار ہو رہے ہیں۔ کیا اس کے باوجود آپ کہیں گی کہ ہمارا امریکہ کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں؟
یہ تو ہو گیا ایک زاویے سے جائزہ، اب دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حربی حکمتِ عملی ان کے دور کے لحاظ سے بہترین تھی۔ آج کل کے حالات قدرے مختلف ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ ایک مسلمان ملک کو تباہ کرنے کے بعد دوسرے کا رخ کرتا ہے۔ آج وہ افغانستان پر لشکرکشی کیے ہوئے ہے تو کل کے لیے پاکستان پر اس کی نظر ہے۔ ایسے حالات میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بہترین حکمتِ عملی یہ ہے کہ وہ آپس میں متحد ہو جائیں اور مل کر امریکہ کا مقابلہ کریں۔ ورنہ بصورتِ دیگر آج کل کرتے کرتے دنیا بھر میں گنتی کے ہی چند مسلمان رہ جائیں گے۔
اس سے مجھے ایک بات یاد آئی کہ آج مسلمانوں کی تعداد دنیا کی کل آبادی کا شاید پانچواں حصہ ہے۔ پتا نہیں آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہم سب متحد ہو کر بھی، جب ہماری کل تعداد امریکہ کی کل آبادی سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گی، امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے؟ اسے میں کیا نام دوں۔ یہ تو احساسِ کمتری سے بھی زیادہ عجیب سوچ ہے۔

بھائی جی روایات مختلف مختلف ہیں اور بذات خود آپکی اپنی کتابوں میں کہیں کفار کی تعداد ہزار ہے تو کہیں 950 اور اسی طرح مسلمانوں کی تعداد کوئی 313 بتلاتا ہے تو کوئی روایت اسے 300 بتاتی ہے۔
بھائی جی، یہاں پر کیا کوئی جنگ بدر پر کوئی تحقیقی مقالہ لکھا جا رہا تھا جو لفظ بہ لفظ بالکل صحیح اعداد و شمار پیش جاتے ورنہ آپکے لیے ناممکن ہوتا کہ 800 اور ہزار کے فرق سے اصل پیغام سمجھ نہ پائیں؟
/////////////////////////////////
پھر آپ جنگ بدر سے سیدھی چھلانگ لگا کر پاکستان پر آ جاتے ہیں جبکہ جنگ بدر کے بعد اصل سوال مکہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد فرض ہو جانے کے باوجود رسول ص کا مکہ جہاد کے لیے روانہ نہ ہونا تھا۔
////////////////////////////
اور پھر پاکستان کی فوجی قوت کے متعلق آپ کو بہت غلط فہمی ہے۔ آپ چاہیں مجھے ہزار یا لاکھ بزدلی کے الزامات و طعنے دیں مگر میرا فرض یہ ہے کہ میں اللہ کے نام پر اپنے ہموطنوں کو اصل صورتحال سے آگاہ رکھوں تاکہ کوئی ان ڈینگیں مارنے والوں کی بڑکوں میں آ کر بہک نہ جائے۔
اے میرے وطن کے لوگو، کیا تمہیں وہ بڑکیں یاد ہیں جو جنرل حمید مارتا تھا کہ افغانستان میں کسی نے افغآنوں کو پچھلے 5 ہزار سال کی تاریخ میں شکست نہیں دی ہے اور یہ پہاڑ امریکہ کی قبر بننے والے ہیں۔ مگر ان پہاڑوں پر امریکہ کی قبر کیا بنتی الٹا طالبان انہیں پہاڑوں پر فرار ہوتے پھر رہے تھے۔
پھر وہ وقت بھی یاد کرو جب یہی طبقہ ڈینگیں مار رہا تھا کہ عراق دنیا کی چوتھی بڑی طاقت ہے اور امریکہ نے عراق پر اسکے گھر آ کر حملہ کیا تو اسے عبرتناک شکست ہو گی۔ مگر ان ڈینگیں مارنے والوں سے "آج" یہ سوال تو پوچھو کہ عراق اپنے 600 ہوائی جہازوں، کیمیکل بموں، کئی ہزار ٹینکوں اور دس لاکھ فوج کے ساتھ جب امریکہ سے لڑا تو شکست کھانے سے قبل اس نے کتنے امریکی طیارے گرائے تھے اور کتنے امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گئے تھے؟
پاکستان اس فوجی تحقیق پر سال میں بمشکل شاید ہی 0٫5 بلین ڈالر خرچ کرتا ہو جبکہ امریکہ تحقیق پر ہر سال کئی سو بلین ڈالر خرچ کرتا ہے۔
اگر آپ لوگوں نے مزید اپنی آنکھیں کھولنی ہے تو پاک ڈیفنس فورم پر آپ کو خوش آمدید۔ اس فورم پر تحقیق کرنے کے بعد آپ پر حقیقت واضح ہو گی اور کوئی ڈینگیں مار کر آپ کو گمراہ نہیں کر سکے گا۔
///////////////////////////////////////////

ویسے عراق اور پاکستان کی افواج اور اسلحہ کا ذکر محمد سعد برادر کی طرف سے غیر ضروری ہی ہے۔ اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے اسلحے کے بل بوتے پر امریکہ سے ٹکرانے کی بات کر رہے ہیں، جبکہ اس طالبانی طبقہ فکر کو جہاد بالشعور سے اتنی نفرت ہے کہ اپنے شعور کو کبھی بیدار کیا اور نہ قوم کے شعور کو بیدار کیا اور جس پاکستانی اسلحہ کے بل بوتے پر لڑنا چاہ رہے تھے، تو فی الحال تو اپنی اس جہاد بالشعور نہ کرنے کے جرم میں یہ اسلحہ ان کے اپنے ہی خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ اور اپنے شعور کی حالت یہ ہے کہ طالبان کے وجود میں آنے کے وقت سے لیکر ابتک کئی لاکھ مسلمانوں کا خون بہہ چکا ہے اور اسی طرح مستقبل میں بھی بہتا دکھائی دے رہا ہے۔
تو سعد صاحب، بغیر جہاد بالشعور کے وہ کون سے ایک ارب مسلمان ہیں اور وہ کونسا پاکستانی اسلحہ ہے جس کے آپ خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ اسلحہ بھی طالبان کے خلاف ہی استعمال ہو رہا ہے اور یہ ایک ارب مسلمانوں کی ایک ایک بڑی اکثریت طالبان کو ان خود کش حملوں کی وجہ سے دہشت گرد اور فتنہ سمجھتی ہے۔

/////////////////////////////////////
 

ساجداقبال

محفلین
اے میرے وطن کے لوگو، کیا تمہیں وہ بڑکیں یاد ہیں جو جنرل حمید مارتا تھا کہ افغانستان میں کسی نے افغآنوں کو پچھلے 5 ہزار سال کی تاریخ میں شکست نہیں دی ہے اور یہ پہاڑ امریکہ کی قبر بننے والے ہیں۔ مگر ان پہاڑوں پر امریکہ کی قبر کیا بنتی الٹا طالبان انہیں پہاڑوں پر فرار ہوتے پھر رہے تھے۔
وطن کے لوگوں کا جواب:
آجکل تلوار والی جنگیں تو ہے نہیں کہ ایک ماہ یا ایک سال میں فیصلہ ہو جائے۔ صبر کریں، جنگ کا نتیجہ آنے تک۔
 

ساجداقبال

محفلین
تو سعد صاحب، بغیر جہاد بالشعور کے وہ کون سے ایک ارب مسلمان ہیں اور وہ کونسا پاکستانی اسلحہ ہے جس کے آپ خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ یہ اسلحہ بھی طالبان کے خلاف ہی استعمال ہو رہا ہے اور یہ ایک ارب مسلمانوں کی ایک ایک بڑی اکثریت طالبان کو ان خود کش حملوں کی وجہ سے دہشت گرد اور فتنہ سمجھتی ہے۔
سعد صاحب شاید جواب دینے نہ آئیں، وہ اوپر اپنا استعفٰی دینے کا کہہ چکے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
صابرہ و شتیلا اور قیام اسرائیل کے زمانے میں غالبا خودکش حملے نہیں ہوتے تھے۔ آپکی معاملہ فہمی جائز مزاحمت کو بھی شاید دہشتگردی شمار کرتی ہے۔

آجکل کے حالات کے مطابق Uno کے چارٹر میں یہ گنجائش ہے کہ کون سا گروہ دہشت گرد ہے اور دوسرے ممالک میں دہشت گردی کر رہا ہے اور کونسا گروہ ہے جو اپنی آزادی کے لیے جائز جنگ لڑ رہا ہے۔
بھائی جی، جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں تو ہمیں انتہائی ہوشیاری اور احتیاط کے ساتھ اقدامات یوں اٹھانے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ ۔۔۔۔ یعنی یو این او کے چارٹر میں رہتے ہوئے اپنی کاروائیاں کرنی ہیں ورنہ اگر دشمن طاقتور ہوا اور پروپیگنڈا کا میدان بھی اسکے حق میں ہوا تو پھر ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔

مثلا اسرائیل نے جب تک لبنان پر قبضہ کر رکھا تھا اُس وقت تک حزب اللہ نے کامیابی سے اسرائیل کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا اور مسلسل اسرائیلی فوج کے خلاف کاروائیاں کیں اور اسے اپنی آزادی کی جنگ کہا٫ یوں حزب اللہ یو این او کے چارٹر میں رہتے ہوئے اس چیز میں کامیاب رہا کہ امریکہ اور پورا یورپ اسرائیل کا حامی ہونے کے باوجود اس پورے وقت میں حزب اللہ کو "دہشت گرد" تنظیموں کی فہرست میں نہیں ڈال سکے۔ [ابھی بھی حزب اللہ بہت سے یورپی ممالک میں دہشت گرد تنظیموں میں نہیں ہے مگر لبنان سے اسرائیلی افواج کی واپسی کے بعد امریکہ اور کینیڈا وغیرہ پہلی مرتبہ اس قابل ہو سکے کہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال سکیں]

حزب اللہ کا یو این او کے چارٹر میں رہنے کی ایک اور بات یہ تھی کہ انہوں نے کبھی اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے کی بات نہیں کی، بلکہ صرف اسرائیلی افواج پر حملے کیے۔

حماس سے [اور دیگر فلسطینی تنظیموں] سے غلطی یہ ہوئی ہے کہ ان کی قیادت نے اسرائیلی شہریوں پر خود کش حملوں کو فلسطین کی آزادی کے لیے ضروری سمجھا اور یوں وہ یو این او کے چارٹر سے باہر ہو گئے اور پھر امریکہ اور اسرائیل کے لیے انہیں تباہ کرنا چنداں مشکل نہ رہا [بلکہ ان خود کش حملوں کی وجہ سے پوری دنیا انکے خلاف ہو گئی]
ان خود کش حملوں والے انتفادہ سے قبل جو پہلی مزاحمتی تحریک فلسطینیوں نے شروع کی تھی جس میں فلسطینی بچے پتھر لے کر اسرائیلی ٹینکوں پر پھینکتے تھے، وہ مزاحمتی تحریک آجکل کے حالات کے مطابق کہیں زیادہ کامیاب ثابت ہوئی تھی۔ کیوں؟
اس سوال کا جواب بہت اہم ہے اور ہمیں اس پر مزید سوچنا چاہیے۔ صرف اسی کے بعد ہم ایسا لائحہ عمل طے کر سکیں گے جو موجودہ حالات کے مطابق ہمارے لیے سب سے بہتر ثابت ہو سکے گا۔
/////////////////////////////////////////////
دوسری بات خدارا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی کو ہمارے حکمرانوں‌ کی حکمت بے عملی سے نہ ملایا کریں۔ ورنہ آپ یہ ثابت کریں کہ مدینہ والوں نے اتنے درہم دیکر اپنے بندے مکہ کے مشرکین کو بیچے تھے اور اس رقم کا ذکر بڑے فخر سے روایات میں کیا۔
بھائی جی، میں نے معاذ اللہ کب موجودہ حکمرانوں کو رسول اللہ ص سے ملایا ہے؟
ابھی تک ہماری بات صرف حالات کے مطابق جہاد کی جگہ صبر کرنے کی ہے تاوقتیکہ اتنی طاقت حاصل نہ کر لی جائے کہ دشمن سے ٹکر لی جا سکے۔

میں بذات خود اس چیز کے خلاف ہوں کہ کسی پاکستانی شہری کو کسی دوسری حکومت کے حوالے کیا جائے۔

مگر یون این او کے جس چارٹر پر ہم نے دستخط کیے ہوئے ہیں وہ اس چیز کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہماری سرزمین سے کسی دوسرے ملک کے خلاف کوئی گروہ کسی قسم کی دہشت گرد کاروائیاں نہیں کر سکتا۔
اور یاد رکھئیے کہ انسانی فطرت اور انسانی تاریخ ہمیں ایک عالمگیر اصول یہ بھی دیتی ہے کہ انصاف بہت اچھی چیز ہے مگر جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا اصول بھی پوری انسانی تاریخ میں اپنی جگہ بناتا آیا ہے اور بناتا چلا جائے گا۔
اور جب غلطی بھی اپنی ہو اور اس غلطی کی وجہ سے اپنی ہی سرزمین پر ایسے گروہ دوسروں کے خلاف دہشت گرد کاروائیاں کر رہے ہوں تو جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو گی، وہ ہمارے ہی سر پر آ کر براہ راست کھڑا ہو جائے گا اور پوری دنیا بھی اسکے ساتھ ہو گی اور ہم کچھ نہ کر پائیں گے۔
ان دہشت گردوں کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ انہیں عالمی عدالت کے حوالے ہونا چاہیے۔ اور یو این او کو بذات خود اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ امریکہ دنیا میں اپنے فیصلے نہ کر رہا ہو بلکہ یو این او فیصلے کر رہا ہو۔
بہرحال، تاریخ کا عالمگیر سبق ہے:"ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات"
امریکہ ہمارے سر پر جب ڈنڈا لے کر کھڑا ہوا اور پوری دنیا اسکے ساتھ کھڑی ہوئی تو پھر ان دہشت گردی کی اس جنگ کے نام پر ہمیں تمام ملزم امریکہ کے ہی حوالے کرنا پڑے۔ بلکہ جنرل مشرف کی جگہ کوئی بھی حکمران ہوتا، اسے ایسا ہی کرنا پڑتا۔

بہرحال، ہم لوگ جو اس وقت ضعف میں مبتلا ہیں، تو ہمیں تو بہت محتاط ہو کر قدم اٹھانے چاہیے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بڑک میں آ کر دوسرے ممالک میں دہشت گرد کاروائیاں کرتا ہے اور دوسرے ممالک کے شہریوں کے خون کو اس بہانے حلال کرتا ہے کہ اپنی حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں، تو پھر یہ " آ بیل مجھے مار" والی بے وقوفی ہے۔
////////////////////////

اور آخر میں، بھائی جی مجھے آپ اس بات کی وجہ بتائیں کہ وہ کونسے حالات اور مجبوریاں تھیں کہ جس کے تحت سن 7 ہجری میں کہ جبکہ مسلمان مدینے میں بہت مضبوط بھی ہو چکے ہیں تب بھی رسول ص کو مکہ سے آئے ایک مسلمان کو کفار مکہ کے ہاتھوں واپس کرنا پڑ رہا ہے؟

میں تو تاریخ کے اس ورق سے یہ ہی سمجھ پائی ہوں کہ رسول اللہ ص ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ:
1۔ پہلا یہ کہ جو وعدہ اور معاہدہ کرو اسے ہر صورت میں اپنی طرف سے لازما پورا کرو۔
2۔ دوسرا یہ کہ حالات کبھی انسان کو اتنا بے بس اور مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسی غیر منصفانہ باتیں ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

بہرحال، یقین کیجئیے میں نے یہاں یہ ذکر ڈرتے ڈرتے کیا ہے کیونکہ یہاں ایسے مہربان ہیں جو اب اندھا دھند مجھے الزام دینا شروع کر دیں کہ میں معاذ اللہ معاذ اللہ تاریخ بیان کرنے میں غلط بیانی کر رہی ہوں اور اسے توڑ مروڑ کر رسول ص کو معاذ اللہ بزدل کہہ رہی ہوں، حالانکہ انکا دو رخا رویہ یہ ہو گا جب یہ اس واقعے کو خود بیان کریں گے تو بعینہ اسی طریقے سے بیان کریں گے اور تمام وہی باتیں کہیں گے جو میں نے کہیں ہوں گی کہ حالات کے تحت رسول ص نے ایسا کیا۔ بہرحال یہ چیز اپنے لیے تو یہ حلال رکھتے ہیں جبکہ میرے لیے انہوں نے حرام قرار دے دی ہے اور میرے خلاف ہر طرح کے فتوے موجود ہیں۔اور میں تو ہر قسم کے شر سے بس اللہ ہی کی پناہ ڈھونڈتی ہوں۔ امین۔
 

ساجداقبال

محفلین
اور آخر میں، بھائی جی مجھے آپ اس بات کی وجہ بتائیں کہ وہ کونسے حالات اور مجبوریاں تھیں کہ جس کے تحت سن 7 ہجری میں کہ جبکہ مسلمان مدینے میں بہت مضبوط بھی ہو چکے ہیں تب بھی رسول ص کو جناب سہیل کو کفار مکہ کے ہاتھوں واپس کرنا پڑ رہا ہے؟

میں تو تاریخ کے اس ورق سے یہ ہی سمجھ پائی ہوں کہ رسول اللہ ص ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ:
1۔ پہلا یہ کہ جو وعدہ اور معاہدہ کرو اسے ہر صورت میں اپنی طرف سے لازما پورا کرو۔
2۔ دوسرا یہ کہ حالات کبھی انسان کو اتنا بے بس اور مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ ایسی غیر منصفانہ باتیں ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کا امریکہ سے کوئی ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہیں، سو رسول اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہاں لاگو نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ یو این کا کام ہے کہ ایسے قوانین وضع کرے جو مطلقاً دو ممالک کے آپس کا معاملہ ہو۔ یہاں مجبوری بھی نہیں کہ بڑے فخر سے ذکر کیا گیا کہ اپنے لوگوں کو اتنے ڈالر کے عوض بیچا گیا۔ فخر اور مجبوری میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کا امریکہ سے کوئی ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہیں، سو رسول اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہاں لاگو نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ یو این کا کام ہے کہ ایسے قوانین وضع کرے جو مطلقاً دو ممالک کے آپس کا معاملہ ہو۔ یہاں مجبوری بھی نہیں کہ بڑے فخر سے ذکر کیا گیا کہ اپنے لوگوں کو اتنے ڈالر کے عوض بیچا گیا۔ فخر اور مجبوری میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ القاعدہ و طالبان کے خلاف صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بشمول مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے میں شدید نفرت پائی جاتی ہے کیونکہ انکی انتہا پسندی اور خود کش حملوں کی وجہ سے نہ صرف امریکی بلکہ لاکھوں کی تعداد خود مسلمان قتل ہو چکے ہیں۔
اسی وجہ سے طالبان و القاعدہ کے خلاف اس جنگ کو ایک طبقہ امریکہ کی جنگ نہیں بلکہ پاکستان کی اپنی جنگ کہتا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک یہ القاعدہ اور طالبان کے دہشت گرد ہیں جو کہ مجرم ہیں۔ اس لیے ان میں سے طالبان سے پاکستان نپٹے اور القاعدہ سے امریکہ نپٹے کیونکہ القاعدہ کے یہ اراکین امریکہ میں دہشت گرد کاروائیاں کر رہے ہیں۔ چنانچہ ان دہشت گرد مجرموں کا پکڑے جانا انکے نزدیک انسانیت پر احسان کے برابر ہے اور اسی لیے یہ اس پر مجبوری کی بجائے فخر بھی کرتے ہیں۔
///////////////////////////
امریکہ کے غلط کاموں کے خلاف آپ بھی ہیں اور میں بھی۔ بلکہ آپ اسی طبقے کے لوگوں سے پوچھ لیں اور انکی اپنی بہت بڑی اکثریت امریکہ کے بھی خلاف ہے۔ مگر پھر بھی القاعدہ کے دہشت گردوں کو مجرم مانتے ہوئے انکے پکڑے جانے پر فخر کرتے ہیں۔
چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ کے غلط کاموں کے خلاف احتجاج و جنگ تو ٹھیک ہے، مگر اسکا پلیٹ فارم طالبان اور القاعدہ جیسی تنظیمیں نہیں ہو سکتیں بلکہ پلیٹ فارم ایسا ہو جس پر سب متفق ہو سکیں اور جس کی بنیاد جہالت و دہشت گردی کی بجائے علم و فراست و ہوشمندی پر ہو۔
 
گو کہ دن رات ہجو ظلم کی ک۔۔۔۔۔رنا لازم
سر کو دیوار پہ مارو گے تو م۔۔۔۔۔رنا لازم
جن کو ظلمت پہ سدا نور کا دھوکہ ہوگا
اس جہالت سے چلے علم کا جھ۔۔رنا لازم
 

خرم

محفلین
میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کا امریکہ سے کوئی ملزمان کے تبادلے کا معاہدہ نہیں، سو رسول اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہاں لاگو نہیں ہوتا۔ نہ ہی یہ یو این کا کام ہے کہ ایسے قوانین وضع کرے جو مطلقاً دو ممالک کے آپس کا معاملہ ہو۔ یہاں مجبوری بھی نہیں کہ بڑے فخر سے ذکر کیا گیا کہ اپنے لوگوں کو اتنے ڈالر کے عوض بیچا گیا۔ فخر اور مجبوری میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔
بھیا اگر کوئی مطلوب ہے کہیں کسی جرم میں تو اسکی حوالگی سے کیوں اور کس قانون کے تحت انکار کیا جائے؟ اور ڈالروں کے عوض بیچا جانے کا دعوٰی تو ایک عمومی استعارہ ہے جو حقیقت نہیں ہوتا لیکن جذبات کو بھڑکانے میں خوب کام آتا ہے۔ آپ یقیناَ کسی سے تعاون کرتے ہیں تو جوابی تعاون بھی ہوتا ہے لیکن یہ تعاون ضروری نہیں کہ کرنسی میں ہی ہو۔ اور ایک ذمہ دار قوم ہونا اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا ایک ذمہ دار اور قانون پسند شہری ہونا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top