ن۔م۔راشد کے ’کریا کرم‘ کی کہانی ۔ساقی فاروقی کی زبانی

الف عین

لائبریرین
ن۔م۔راشد کے ’کریا کرم‘ کی کہانی
ساقی فاروقی کی زبانی

میری خوش قسمتی ہے کہ جدید اردو شاعری کے دو بڑوں سے خاصے گہرے تعلقات رہے ۔ ہر چند کہ یہ دونوں عمر میں مجھ سے بیس پچیس سال بڑے تھے اور شاعری میں اپنا مستقبل بنا چکے تھے مگر ہماری محبتیں سرعت سے اس لیے بھی بڑھیں کہ اردو کی قدیم و جدید شاعری ایک طرح سے قدرِ مشترک تھی۔ وہ دونوں مجھ سے زیادہ جانتے تھے مگر بیس انیس ہی والا فرق تھا۔ پینسٹھ پینتیس والا نہیں ۔ پھر لندن میں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت ہم نے اس لیے بھی گزارا کہ یہاں تخلیقی تنہائی تھی۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ہفتے میں تین بار ضرور ملیں یعنی راشد صاحب اور میں یا فیض صاحب اور میں ۔ فیض صاحب سے آخری دنوں میں اکیلی والی ملاقاتیں ختم ہو گئیں ۔ ہم زیادہ تر دوسرے ادیبوں کے گھروں میں یا محفلوں میں ہی ملتے کہ کئی دوسرے بھی آن بسے تھے ۔
(محمد حسین آواز۔ ۔ ۔ ’’آبِ حیات ‘‘ کے دیباچے سے )
وہ 9/اکتوبر 1975ء کا ایک منحوس دن تھا۔ میں دفتر میں نہیں ملا تو راشد صاحب نے گھر پر فون کیا اور میری بیوی کو بتایا کہ شیلا ( ان کی بیوی ) کے اکلوتے بھائی کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں اور وہ اٹلی چلی گئی ہیں ۔ یہ بھی کہ وہ چلٹنہم سے بینسٹڈ جا رہے ہیں تا کہ اپنی ساس کو لے کر، جنازے میں شریک ہونے کے لیے ، 11/اکتوبر کو اٹلی پہنچ جائیں ۔ پھر یہ پیغام دیا کہ میں 10/اکتوبر کی شام کو فون کروں اور پہلے ان کی ساس مسز انجیلی کو بیٹے کی موت کا پرسا دوں پھر ان سے بات کروں کہ وہ بینسٹڈ ہی میں رہیں گے ۔
دس کی شام کو جب میں گھر پہنچا تو میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ مسز انجلینی کو فون کریں اور پرسا دیں کہ مجھے پرسا دینا نہیں آتا۔ پھر میں راشد صاحب سے بات کروں گا۔ مسز انجلینی نے ٹیلی فون اٹھایا تو میری بیوی نے کہا کہ کیا قیامت ہے کہ شوہر کی موت کو ابھی پانچ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور جوان بیٹا یوں ڈھہ گیا۔ میں مارننگ روم میں بیٹھا کافی پی رہا تھا اور اخبار پڑھ رہا تھا اور ٹیلی فون پر کان تھے کہ بیوی کی چیخ سن کر ایک دم سے ٹیلی فون کی طرف لپکا۔ میری بیوی کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔ میں نے رسیور اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرش پر بیٹھ گیا اور مسز انجلینی سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ وہ ستر سالہ خاتون ڈہک ڈہک کر رونے لگیں اور مجھے ہچکیوں میں بتایا کہ راشد صاحب کا انتقال ہو گیا۔ میرا دل بیٹھ گیا۔بیوی کی چیخ سے میرے ذہن میں حادثہ، دل کا دورہ اور ہسپتال ابھرے تھے ۔ اس لمحے تک موت کا لفظ میرے ذہن میں نہیں جاگا تھا۔ ایک لمحے کو میرے اعصاب سو گئے ۔ پھر میں نے اپنے آپ کو سمیٹا اور تفصیل طلب ہوا۔ پتا چلا کہ وہ بینسٹڈ سات بجے شام کو پہنچے اور پیدل چل کر کوئی بیس منٹ میں مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ، ان کا مکان خاصی بلندی پر واقع ہے ۔ راستے ہی میں انھیں دل کی تکلیف محسوس ہوئی ہو گی کہ خاصے پژمردہ تھے ۔ مسز انجلینی سے کہا کہ کیسے دکھ کی بات ہے کہ ان کا بیٹا کار کے حادثے سے جانبر نہ ہو سکا۔پھر صوفے پر بیٹھ گئے ۔ مسز انجلینی نے کہا کہ وسکی کا ایک گلاس مناسب رہے گا۔کہنے لگے ، ’’ نہیں ابھی دل پر دباؤ کم کرنے والی دو گولیاں کھائی ہیں ۔‘‘ پھر مسز انجلینی نے پوچھا، سفر کیسا رہا؟ انھوں نے کوئی جواب نہ دیا کہ وہ سوال اور جواب کی منزل سے آگے نکل گئے تھے ۔ اتنی پر سکون موت کم لوگوں کا نصیبہ ہے ۔ جیسے کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔
’’مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں ‘‘(ن۔م۔راشد)
اسی دن پتا چلا کہ درد کی تقسیم مقصود ہو تو پرسا دینا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ۔میں آدھ گھنٹے تک مسز انجلینی سے بات کرتا رہا۔ انھوں نے بتایا کہ شیلا نے تار پا کر فون کیا تھا اور وہ 12!اکتوبر کی شام کو پہنچیں گی۔ اور یہ کہ برسلز سے راشد صاحب کے بیٹے شہر یار لندن پہنچ گئے ہیں ۔ وہ شیلا اور شہر یار مل کر کفن دفن کا دن طے کریں گے ۔یہ بھی معلوم ہوا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد راشد صاحب کی لاش مردہ خانہ میں رکھی ہوئی ہے ۔
ان سے گفتگو ختم کر کے میں نے بی بی سی کی انٹرنیشنل نیوز سروس میں یہ خبر دے دی۔ پھر ایک ایک کر کے راشد صاحب کے تمام ملنے والوں کو فون کر دیا۔ اور عبد اللہ حسین اور علی باقر سے کہہ دیا کہ جن لوگوں تک یہ خبریں نہیں پہنچی ہیں ، پہنچا دیں ۔11!اکتوبر کو میں گھر ہی پر تھا۔ راشد پرستوں کے فون آتے رہے ۔ عبداللہ حسین میرے یہاں شام کو آ گئے ۔ وہ سخت غیر جذباتی آدمی ہیں مگر اس دن جذباتی ہو رہے تھے ۔ہم صبح کے تین بجے تک راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے اور شراب پیتے رہے ۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ عبداللہ اور ان کی بیوی فرحت میرے یہاں دوپہر کے کھانے پر آئے ہوئے تھے کہ دو بجے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ یہ شیلا تھیں ۔ رو رہی تھیں ۔ کہنے لگیں ، ابھی پہنچی ہوں ۔ یہ کیا ہو گیا؟ میں ان کے دہرے غم کے بارے میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں جانے کیا کچھ کہتا رہا۔ جب طوفان تھما تو میں نے پوچھا راشد صاحب کب اور کہا ں دفن ہوں گے ؟ کہنے لگیں ان کی خواہش تھی کہ انھیں نذر خاک نہیں نذر آتش کیا جائے ، تم کیا کہتے ہو؟ ظاہر ہے میں ، شہر یار سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کروں گی اور شہر یار ایک گھنٹے تک پہنچیں گے ۔ عبداللہ حسین میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہماری گفتگو سن رہے تھے ۔ہم دونوں کو ایک دھچکا سا لگا کہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے ۔ میں نے کہا ، اگر مرحوم کی خواہش یہی تھی تو اس خواہش کو پورا کیا جائے گا۔ ظاہر ہے میں کیا کر سکتا ہوں ۔آپ اور شہر یار وارث ہیں ۔آپ دونوں طے کیجیے اور مجھے فون کر دیجیے ۔ میں انتظار کروں گا۔یہ گفتگو ختم ہوئی تو عبداللہ اور میں کمرے میں آ گئے ۔ میں اس دھچکے کے بعد سنبھل رہا تھا۔ مگر عبداللہ کے نیم آزاد ذہن میں خوابیدہ پاکستانی مسلمان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔کہنے لگے ، شیلا کے کہنے سے کیا ہوتا ے جب تک شہر یار راضی نہیں ہو جاتے کوئی بات حتمی نہیں ہے کہ قانونی طور پر بیوی اور بیٹے دونوں کی رضامندی ضروری ہے ۔اور اگر دونوں میں کوئی اختلاف پیدا ہو جائے تو لاش کو اس مذہب کے رسوم کے تحت دفنایا یا جلایا جائے گا جس مذہب میں مرنے والا پیدا ہوا تھا۔اور یہ کہ شہر یار ظاہر ہے جلانے پر اعتراض کریں گے ۔ میں نے کہا ، کمال کیا راشد صاحب نے بھی، مرتے مرتے ڈراما کر گئے ۔ عجب آزاد ذہن تھا ان کا کہ زندگی اور موت کا گراف ایک خطِ مستقیم کے طور پر بنا گئے جس طرح سارتر کے فلسفے کا منطقی نتیجہ وہ خط تھا جو انہوں نے ہوچی منہ کے نام لکھا تھا( جس میں جنگِ آزادی میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا)اسی طرح راشد کی زندگی اور شاعری کا نقطۂ عروج یہCremationہے ۔ جب ایک آدمی ساری عمر زنجیریں ہی توڑتا رہا تو یہ زنجیر بھی کیوں بچے ۔ہم چاروں بہت دیر تک دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے ۔ پھر فرحت اور عبداللہ چلے گئے ۔رات کے 9!بجے شہر یار کا ٹیلی فون آیا کہ چھ مہینے پہلے جب راشد صاحب ان سے ملنے بیلجیم گئے تھے تو انھوں نے ان سے بھی مرنے کے بعد سپرد آتش ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اور انھوں نے اور شیلا نے طے کیا ہو کہ مرحوم کی خواہش کو پورا کیا جائے ۔ میں نے کہا، بہت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ کہنے لگے ، ہم دونوں

نے بہت سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے اور ہمیں کسی کی پروا نہیں ہے ۔ آپ ابا کے تمام جاننے والوں کو اطلاع دے دیں ۔ جس کا دل چاہے آئے جس کا دل چاہے نہ آئے ۔ یہ رسم 14!اکتوبر کو ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں ادا ہو گی۔ اور نمازِ جنازہ اس لیے نہیں ہو گی کہ لاش کو سپردِ آتش کیا جا رہا ہے ۔ پھر انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں 15!اکتوبر کی شام کو اپنے یہاں ایک نشست کا انتظام کروں جس میں راشد صاحب کے دوست احباب راشد صاحب کا تذکرہ کریں اور انھیں یاد کیا جائے ۔ وہ چوں کہ 16!اکتوبر کی صبح کو واپس جا رہے ہیں اس لیے 15!اکتوبر کے علاوہ کسی اور دن نہیں آ پائیں گے ۔
میں نے اسی وقت فون کر کے آصف جیلانی کو اطلاع دی کہ وہ ’’ جنگ‘‘ میں یہ خبر دے دیں اور پاکستان میں بھی ٹرانسمٹ کر ا دیں ۔ پھر میں نے تمام لوگوں کو صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ پھر ممتاز دولتانہ کو گھر پر فون کیا۔ میاں صاحب موجود تھے ۔ میں نے راشد صاحب کی خواہش سے مطلع کیا۔ کہنے لگے ’’اچھا؟’’ میں نے کہا، پتا لکھ لیجیے ۔ کہنے لگے سیکرٹری نہیں ہے ۔ بہرحال ، لکھا دیجیے ۔ میں نے کریمیٹوریم کا پتا لکھا دیا اور فون بند کر دیا۔
دوسرے دن دفتر میں اور گھر پر لوگوں کے فون آتے رہے ۔ سب کو صدمہ تھا مگر موت کے صدمے پر مذہب کا صدمہ غالب تھا۔ میں سب سے یہی کہتا رہا کہ میں راشد صاحب کا ایک ادنیٰ دوست ہوں ۔ ان کی لاش کی وراثت پر میرا کوئی حق نہیں ہے ۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آپ حضرات اس نمبر پر شیلا اور شہریار کو فون کریں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھے اپنے محترم دوست کی آخری خواہش کا پورا احترام ہے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے سخت وحشت تھی کہ کریمیٹوریم میں کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہو جائے ۔ میں نے شیلا کو فون کیا۔ پتا چلا کہ سحاب قز لباش اور کرنل اسحٰق ان سے بحثے تھے ۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں ۔
دوسرے دن 4بج کر 10 منٹ پر راشد صاحب کی میت کو سپردِ آتش ہونا تھا۔ 3 بج کر 50منٹ پر میں اپنی بیوی کے ساتھ کریمیٹوریم پہنچ گیا۔ ابھی میت نہیں پہنچی تھی۔ عبد اللہ حسین اور عاقل ہوشیار پوری ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے ۔ مسز انجلینی کے ہمسائے کینتھ راکپن بھی آ چکے تھے ۔4 بجے ایک لمبی سیاہ میت گاڑی میں میت کے ہمراہ شیلا، مسز الیسیا انجلینی اور شیلا کی ایک دوست ایجلا بھی پہنچ گئیں ۔پھر علی باقر، راشد صاحب کے ایک پرانے دوست محمد افضل اور وقار لطیف آ گئے ۔ شیلا نے کریمیٹوریم کا ہال 15منٹ کے لیے بک کرایا تھا۔ وقت گزر رہا تھا مگر راشد صاحب کے بیٹے شہر یار اب تک نہیں پہنچے تھے ۔ شیلا میرے شانے پر سر رکھے رو رہی تھیں ۔ یکایک کہنے گلیں ، ہم مزید انتظار نہیں کر سکتے ۔ میں نے کہا، میں نگہبان افسر سے بات کرتا ہوں ۔ میں اس افسر کو ایک کونے میں لے گیا اور تاخیر کی معافی چاہی اور صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ اور مزید 15منٹ کی مہلت طلب کی۔15 منٹ گزر گئے مگر شہر یار نہیں پہنچے تو میں نے کہا، حضرات اور خواتین ہال میں چلیے ۔ مجھے اس خوش خصال افسر نے مختصراً بتایا کہ اس طرح کی رسمِ مرگ کے کیا آداب ہیں یعنی یہ کہ سب لوگ خوشی سے ہال میں داخل ہو کر، سر جھکا کر دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ سامنے ‘ کو فن‘ میں میت رکھی رہتی ہے اور پس منظر میں آرگن بجتا رہتا ہے ۔ جب یہ سوگوار دھن ختم ہو جاتی ہے تو کوفن کے چاروں طرف پردہ کھینچ جاتا ہے ۔ اور کوفن کے نیچے کا تختہ فرش سرک جاتا ہے اور لاش نیچے ، تہ خانے میں ، بجلی کی بھٹی میں جلنے کے لیے چلی جاتی ہے اور لوگ ہال سے باہر آ جاتے ہیں ۔ اس سارے عمل میں مشکل سے دس منٹ لگتے ہیں ۔ میں نے موت کے آداب و ضوابط سے سب کو آگاہ کر دیا تھا۔ جب آرگن خاموش ہوا اور پردہ کھینچا اور فرش کا دروازہ کھلا تو راشد صاحب آگ کے شعلوں میں نہانے کے لیے چلے گئے ۔ انھی کے الفاظ ہیں :
آگ آزادی کا، دلشادی کا نام
آگ پیدائش کا افزائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھل جاتے ہیں
جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند
اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
ہم چار پاکستانی، دو ہندوستانی اور پانچ یورپی خاموشی سے اٹھ کر باہر چلے آئے ۔ دروازہ بند ہو گیا۔ باہر لان میں چند سرخ گلابوں کا ایک معمولی سا گلدستہ اپنے حجم اور اپنی تنہائی پر شرمندہ تھا۔ پاس ہی ایک کارڈ پر لکھا ہوا تھا۔۔۔۔’’بہت ہی پیارے نذر راشد کے لیے ، اس کی چہیتی بیوی کی طرف سے ۔‘‘
شیلا کی خواہش تھی کہ کوئی پھول نہ لائے ۔ یہ خبر اخباروں میں چھپ چکی تھی۔ ہم اس گلدستے کے پاس پانچ سات منٹ تک کھڑے رہے ۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ ہم سب ایک طرح سے سہمے ہوئے تھے اور خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔پھر شیلا نے کہا ، اگر ہم مناسب سمجھیں تو ان کی ماں کے پاس چلیں اور چائے کی ایک ایک پیالی پی کر رخصت ہوں ۔ علی باقر، وقار لطیف اور کینتھ راکپن مصروف تھے ، وہ اپنے اپنے دفتروں کو چلے گئے ۔ باقی لوگ ساتھ چلنے لگے ۔ابھی ہم گیٹ ہی پر تھے کہ شہر یار اپنے ایک دوست کے ہمراہ پہنچ گئے ۔ انھیں معلوم ہوا کہ آخری رسم ختم ہو چکی ہے ۔ انھوں نے کچھ زیادہ پیشمانی کا اظہار نہیں کیا اور کہا تو یہ کہا کہ چلیے یہ بھی ہونا تھا۔ کوئی بات نہیں ۔ میں اپنی کار میں اکیلا تھا۔ شہر یار گلی کار میں بیٹھی شیلا کو بتا رہے تھے کہ وہ کس طرح راستہ بھٹک گئے اور ادھر ادھر مارے مارے پھرتے رہے ۔ میں نیچے اترا اور میں نے کہا، چلیے اس لان میں گلدستے کے پاس کھڑے ہو کر اپنے ابا کے لیے کچھ دعا کر لیجیے ۔وہ میرے ساتھ ہو لیے اور پھولوں کے پاس
کھڑے ہو کر دعا کرتے رہے ۔ پھر ہم سب تین کاروں اور ایک وین میں بھر کر مسز انجلینی کے یہاں پہنچے ۔ا ن کا مکان کمال بلندی پر ہے ۔ مجھے اپنی کار کی گرفتار گرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ دل کے مریض کے لیے یہ راستہ یقیناً مہلک ہے ۔
شیلا او ر مسز انجلینی اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرتی رہیں ۔ گھر میں ماتم کی فضا کم اور پارٹی کا ہنگامہ زیادہ نظر آیا۔ غموں کی پردہ پوشی تھی اور ’آداب‘ او ر ’رکھ کھاؤ‘ کا دور دورہ تھا۔ ہم سب راشد صاحب کی باتیں کرتے رہے ۔ میں نے راشد صاحب کی ایک نظم پڑھی۔ عبد اللہ نے ترجمہ کیا۔ شہر یار، فیض اور راشد مرحوم کی ما سکو والی ملاقات کا تذکرہ کرتے رہے ۔ میں نے شیلا اور شہر یار سے مخاطب ہو کر پوچھا، میں اپنی اور اپنے جیسے دوسرے لوگوں کی تسلی کے لیے ، سب کے سامنے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں ۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ راشد صاحب نے تحریر اپنی موت کے بارے میں کوئی وصیت نہیں چھوڑی ہے ، مگر ہم سب کو آپ دونوں تفصیلاً بتائیں کہ کب اور کن حالات میں راشد صاحب نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا؟ جہاں تک میرا تعلق ہے ، مجھ سے انھوں نے کبھی سنجیدگی سے اپنی موت کے بارے میں تبادلۂ خیال نہیں کیا۔ اس کے اسباب تھے ، اوّل تو یہی کہ وہ زندگی کے اتنی سختی سے قائل تھے کہ موت کا ذکر کم کرتے تھے ۔ دوسرے یہ کہ میں جان بوجھ کر یہ موضوع درمیان میں نہیں لاتا تھا کہ کہیں انھیں صدمہ نہ پہنچے اور اگر لاتا بھی تھا تو یوں کہ راشد صاحب اگر میں پہلے مر جاؤں

تو میری ساری اردو کی کتابیں اور اردو کے کاغذات اپنے یہاں لے جائیے گا، اور جب تک آپ زندہ رہیں یاد کرتے رہیے گا۔ اس پر وہ کہتے کہ ساقی میں مرنے ورنے کی فکر نہیں کرتا۔ مجھے اس کی بھی پرواہ نہیں کہ میری لاش ہسپتال میں چیر پھاڑ کے کام آئے گی یا جلادی جائے گی یا غرق دریا ہو جائے گی۔ ایک بات میں جانتا ہوں ۔میں چلے پھرتے مرنا چاہتا ہوں ۔ میں بستر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ میں ہلنے جلنے سے معذور ہو جاؤں تو گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کر لوں گا۔ ان کی طبیعت میں اتنا اضطرار تھا کہ اس موضوع پر وہ زیادہ دیر تک ٹکتے ہی نہیں تھے ۔ اسی لیے میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا حالات تھے جن میں انھوں نے نہایت سنجیدگی سے آپ دونوں سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا؟
میں اپنی گفتگو ختم کر کے ، جو ایک طرح کی چھوٹی سی تقریر کی شکل اختیار کر گئی تھی، شیلا کی طرف دیکھنے لگا تو شیلا نے بتایا کہ دو بار انھوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ پہلی بار جب شیلا کے والد مسٹر انجلینی کا انتقال ہوا راشد صاحب بھی میت کے ساتھ اسی ساؤتھ لندن کریمیٹوریم میں گئے تھے اور جب لاش تہ خانے کی بھٹی میں جلنے کے لیے نیچے اتر گئی اور لوگ ہال سے باہر نکل کر لان کے پاس کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے تو یکایک پتا چلا کہ راشد صاحب لا پتا ہیں ۔ کوئی دس منٹ کے بعد آئے ۔ معلوم ہوا کہ تختہ سرکنے اور لاش کے یکایک غائب ہونے کا کچھ ایسا اثر حضرت پر ہوا کہ سراغ لگانے اور چھان بین کرنے کے لیے عمارت کے عقب میں چلے گئے اور سنتری سے کہہ سن، سیڑھیاں اتر، تہ خانے میں پہنچ گئے اور اپنی آنکھوں سے لاش کو جلتا ہوا دیکھا۔ اور راستے بھر اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے رہے اور کہتے رہے ، ’’میں بھی ایسی ہی صاف موت چاہتا ہوں ۔ میں مرنے کے بعد Cremateہونا چاہتا ہوں ۔مجھے یہ طریقہ بہت اچھا لگا۔‘‘ اس واقعے سے ان کے تجسس اور ہر بات کی تہ تک پہنچنے کی تمنا پر بھی گہری روشنی پڑتی ہے ۔ پھر شیلا نے بتایا کہ دوسری بار اپنی اس خواہش کا ذکر انھوں نے مرنے سے دو مہینے پہلے کیا تھا۔ جب کھانے کی میز پر وہ دونوں وصیت پر گفتگو کر رہے تھے ۔ انھوں نے کہا، ’’ مجھے یہ طریقہ بہت پسند ہے اور میں مرنے کے بعد cremateہونا چاہتا ہوں ۔‘‘ پھر شہر یار راشد نے بتایا کہ جب چھ سات مہینے پہلے راشد صاحب ان سے ملنے برسلز گئے تھے تو ایک رات کھانے کے بعد کہنے لگے کہ مرنے کے بعد میں cremateہونا چاہتا ہوں اور وہ اپنی اس خواہش کے اظہار میں سنجیدہ تھے ۔
کوئی 9 بجے یہ مجلس برہم ہوئی۔ چلتے چلتے شہر یار نے کہا کہ وہ اگلے دن میرے یہاں آنے سے قاصر ہیں کہ انھیں واپس بیلجیم پہنچنا ہے ۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ ان کے کہنے سے تو میں نے یہ محفل رکھی ہے اور اب یہی نہیں آ رہے مگر میں نے اصرار نہیں کیا۔ عبد اللہ حسین اپنی وین میں اور میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی کار میں اور بقیہ حضرات شہر یار صاحب کی کار میں لد کر لندن چلے گئے ۔ شہر یار کی کار تو کسی اور راستے سے چلی گئی مگر ہم اور عبداللہ آگے پیچھے ہائڈ پارک تک ساتھ آئے ۔ہائڈ پارک کارنر پر عبداللہ نے سگنل دیا تو میں نے کار روک لی اور اتر کر ان کی وین تک پہنچا اور ہم دونوں دیر تک اس عظیم شاعر کی موت کی آخری رسومات کی کس مپرسی اور بے حالی، شیلا کی بد سلیقگی اور شہر یار کی اجنبیت پر کڑھتے رہے ۔ جی چاہتا تھا کہ ہمارے ساتھ لندن کے ایک کروڑ لوگ گریہ کریں کہ ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔‘‘ مگر ہم دونوں راشد صاحب کی طرح اپنی اپنی آگ میں جلتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے کہ اگلے دن ہمیں پھر یکجا ہونا تھا۔
دوسرے دن میرے یہاں راشد صاحب کے چند سوگوار جمع ہو گئے ۔یعنی عبداللہ حسین، سجاد ظہیر کی بیٹی نجمہ ظہیر باقر، ڈاکٹر علی باقر، اکبر حیدر آبادی، وقار لطیف اور حبیب حیدرآبادی۔ جلائے جانے اور دفن کرنے پر دیر تک گرما گرم بحث ہوتی رہی۔پھر علی باقر نے راشد صاحب پر اپنا مضمون پڑھا اور میں نے راشد صاحب پر سلیم احمد کے مقالے کے کچھ صفحے پڑھے اور ان کی کچھ نظمیں سنائیں اور یوں ہم نے اپنے اپنے طور پر اس رات راشد صاحب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت کیا۔


تشکر، روزنامہ منصف حیدر آباد
 

خرم

محفلین
جیسے زندہ رہے ویسے ہی مرگئے راہ بھٹکتے۔ شاعری کا کیا ہے، وہ تو ابوجہل بھی بہت اچھی کر لیتا تھا۔ ساری داستان عبرت کا مقام ہے کم از کم میرے لئے۔
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ سبحان اللہ ، بابا جانی جواب نہیں آپ کا ، یہ مضمون میں نے ساقی فاروقی کی کتاب بازگشت و بازیافت میں پڑھا تھا، دو بارہ کتاب نہ ہاتھ لگی مگر یہاں پڑھ کر اعادہ ہوا، اللہ آپ کو سلامت رکھے، مجھ ایسوں کے لیے آپ کی مجلس میں ہونا ہی سعاد ت ہے ، سدا خوش رہیں، والسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
جیسے زندہ رہے ویسے ہی مرگئے راہ بھٹکتے۔ شاعری کا کیا ہے، وہ تو ابوجہل بھی بہت اچھی کر لیتا تھا۔ ساری داستان عبرت کا مقام ہے کم از کم میرے لئے۔

قبلہ پرسانلٹی پر نہ جایا کریں۔ بس یہ دیکھیں کہ اس نے کام کیا کیا ہے۔

ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہیں جسے
 

مغزل

محفلین
صد فیصد متفق ، شکریہ فرخ صاحب،
( کیا آپ نے اپنا نمبر بدل لیا ہے ہوسکے تو مجھے ذپ کیجے)
 

خرم

محفلین
قبلہ پرسانلٹی پر نہ جایا کریں۔ بس یہ دیکھیں کہ اس نے کام کیا کیا ہے۔

ایسا کہاں سے لاؤں تجھ سا کہیں جسے

بھائیو یہ بات مجھے کسی اور نے بھی کبھی کہی تھی اور حتی الوسع کوشش بھی کرتا ہوں لیکن جب بات اس وقت کی آئے جب ایک شخص اس دنیا سے اپنا نامہ اعمال لے کر چلا گیا تو صرف اس کا کام سوچنا میرے لئے دشوار ہوجاتا ہے۔ اس کی خرد اگر اس کی صحیح راہ پر رہنمائی ہی نہ کرسکی اور وہ اندھیروں میں سر پٹختا ہی اس دنیا سے چلا گیا تو کام کی عظمت چہ معنی دارد بلکہ خرد کا وجود ہی مشکوک ہو جاتا ہے میرے تئیں۔ ایک بندہ کو جانا لاہور تھا اور وہ کراچی کی گاڑی کے پیچھے بھاگتا رہا اور تھک کر مر گیا۔ اس شخص کے بھاگنے کی تعریف کروں کہ اس کے بے منزل گزر جانے کا ماتم؟:mad:
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائیو یہ بات مجھے کسی اور نے بھی کبھی کہی تھی اور حتی الوسع کوشش بھی کرتا ہوں لیکن جب بات اس وقت کی آئے جب ایک شخص اس دنیا سے اپنا نامہ اعمال لے کر چلا گیا تو صرف اس کا کام سوچنا میرے لئے دشوار ہوجاتا ہے۔ اس کی خرد اگر اس کی صحیح راہ پر رہنمائی ہی نہ کرسکی اور وہ اندھیروں میں سر پٹختا ہی اس دنیا سے چلا گیا تو کام کی عظمت چہ معنی دارد بلکہ خرد کا وجود ہی مشکوک ہو جاتا ہے میرے تئیں۔ ایک بندہ کو جانا لاہور تھا اور وہ کراچی کی گاڑی کے پیچھے بھاگتا رہا اور تھک کر مر گیا۔ اس شخص کے بھاگنے کی تعریف کروں کہ اس کے بے منزل گزر جانے کا ماتم؟:mad:

حضرت کسے کیا پتہ کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ہر مذہب کے لوگ بزعم خود اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں اور دوسرے کو غلط اور سمجھتے ہیں ان جیسا اعلیٰ مذہب اور صحیح راستہ اور کسی کے پاس نہیں۔ یہ جانچنے والے ہم اور آپ کون ہیں۔ اسکا فیصلہ تو خدا کرے گا۔ اگر آپ یہی سوچیں گے تو اس طرح تمام سائینسدان چونکہ کافر ہیں آپ کے مطابق وہ تو سب جہنم رسید ہوجائیں گے چاہے انہوں نے انسانی فلاح کے لئے کتنے ہی بڑے کام کیوں نہ کیے ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک اور عصمت چغتائی بھی تھیں جن کا کریا کرن ہوا تھا۔۔۔
بہر حال گاہے گاہے باز خواں۔۔ اس لئے اس قصے کو منصف نے دہرایا، اور میں نے فائل حاصل کر لی۔
 

خرم

محفلین

حضرت کسے کیا پتہ کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ ہر مذہب کے لوگ بزعم خود اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں اور دوسرے کو غلط اور سمجھتے ہیں ان جیسا اعلیٰ مذہب اور صحیح راستہ اور کسی کے پاس نہیں۔ یہ جانچنے والے ہم اور آپ کون ہیں۔ اسکا فیصلہ تو خدا کرے گا۔ اگر آپ یہی سوچیں گے تو اس طرح تمام سائینسدان چونکہ کافر ہیں آپ کے مطابق وہ تو سب جہنم رسید ہوجائیں گے چاہے انہوں نے انسانی فلاح کے لئے کتنے ہی بڑے کام کیوں نہ کیے ہوں۔
فرخ بھیا ایک زمیندار نے ایک ملازم کو گندم کی فصل کی کٹائی پر مامور کیا۔ بجائے فصل کی رکھوالی کے وہ بندہ گلی ڈنڈہ کی مشق کرتا رہا اور اس میں مہارت حاصل کرتا رہا اور فصل جانور چر گئے۔ ایسے بندے کو اس کا مالک گلی ڈنڈے میں مہارت پر شاباش دے گا کہ فصل برباد کرنے پر اسے ملازمت سے برخواست کرے گا؟ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلا کام تو انسان کا ہے کہ اپنے معبود کو پہچانے۔ باقی سب کچھ تو اسے راضی کرنے کے طریقے ہیں۔ اب اگر کسی نے یہ بنیادی کام ہی نہ کیا یا بجائے معبود کو ماننے کے اس کی تضحیک کرتا رہا تو وہ شاعر، سائنسدان، عالم جتنا مرضی بڑا رہا، اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سرانجام دینے میں وہ بری طرح ناکام رہا سو اس کا انجام حسرت و یاس کی ہی تصویر ہوگا۔
اعجاز انکل، عصمت چغتائی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب آپ نے بہ قائمی ہوش و حواس نہ صرف اللہ کا انکار کیا بلکہ اس کے احکامات کی دانستہ علی الاعلان تضحیک کی تو بس۔ اس موضوع پر میرے ذہن میں تو اس سے بہتر کوئی اور تمثیل نہیں آتی کہ "ابوالحکم" ابوجہل بنا اس دنیا سے گزر گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ن م راشد کا 'کریا کرم' کروانا اس کا اور اللہ کا مسئلہ ہے اور یقیناً وہ دونوں اس کو حل بھی کر لیں گے :) میرا لیئے تو یہ اہم ہے کہ میرا اور ن م راشد کا کیا مسئلہ یا رشتہ ہے اور یہ سوچ کر کوئی بھی حقیقت پسند اور اردو شاعری کا شیدائی ن م راشد کی عظمت کو سلام کیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 

الف عین

لائبریرین
ن م راشد کی یاد میں​


سحاب قزلباش​
آج صبح راشد صاحب کو جلا دیا گیا!!
ضیاء تمہاری آواز ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔ مولا! ایسا کیسے ہو گیا۔ یعنی راشد صاحب کو جلا دیا گیا۔ تم لوگ دیکھتے رہے ۔ کسی نے کچھ نہ کیا۔ اعجاز چپ چاپ کھڑا حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے ا س کو بھی مجھ سے شکایت ہو۔ میرا جی اسی طرح میلے کچیلے کپڑوں میں ا سٹوڈیو کے باہر کھڑے سردی سے کانپ رہے تھے ۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہر ایک کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ یار سحاب تم لوگ کیسے ادیب ہو۔ سب کے سب لندن میں بیٹھے رہے ۔ راشد کو جلوا دیا۔ وہ ہماری امانت تھا۔ ادیبوں کی ایک میٹنگ کر لی ہوتی۔کہاں گئے وہ سب ادیب شاعر جو تمہارے گھر میں شعر سن سن کر سر دھنا کرتے تھے ۔ وہ لوگ کچھ بھی نہ کر سکے ۔ تمہارا عبداللہ حسین، ساقی تم اور سینکڑوں شاعرو ادیب ہیں لندن میں ۔ کسی نے راشد کی بیوی سے نہیں کہا کہ یہ تمہارا حق تو ہے ۔ مگر وہ ہمارا شاعر بھی ہے ۔ اس کو مت جلاؤ۔
*
نو۔ اکتوبر کی رات کے دس بجے عبداللہ حسین نے ٹیلیفون کیا۔ سحاب میں عبداللہ ہوں ۔ سنو ایک درد ناک خبر۔ راشد صاحب کا آج شام اپنی ساس کے گھر میں انتقال ہو گیا۔
عبداللہ بڑی نرم آواز میں دکھ سے بول رہا تھا۔ عبداللہ تم کہاں سے بول رہے ہو۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا راشد صاحب کہاں تھے ۔ مجھے ساقی نے بتایا ہے ابھی ابھی وہ ساقی کے گھر رات کو آنے والے تھے ساس کے گھر سے ہو کر ۔ شیلا دو دن سے اٹلی گئی ہوئی ہے ۔ وہ ساس کے پاس آئے وہ کافی لائیں ۔ ا ور پیتے ہی سر جھک گیا۔ ان کی ساس نے ساقی کو فون کیا۔ ہم دونو ں ٹیلی فون پکڑے چپ تھے ۔ میں نے عبداللہ کو یہ بھی نہیں بتایا کہ ابھی دو دن پہلے رات کے دس بجے راشد صاحب نے ٹیلیفون کیا تھا۔ شکریہ ادا کرنے کے لیے کہ میں نے اعجاز کو زبردستی راشد صاحب کے پاس بھیجا تھا۔ اور اعجاز پیارا ان کی کتاب کا مسودہ لے گیا۔ ا سی دن پد ما سچ دیو کے گھر کھانے پر میں اعجاز کو لیے جا رہی تھی۔
*
بقول اعجاز اتنے پونڈ خرچ کئے میں نے ۔پھر ہم دونوں بار کنگ کا لمبا سفر ٹرین میں کر رہے تھے ۔ تو راشد کی باتیں کرتے رہے ۔
تم ضرور جاؤ۔ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں ان کی کتاب چھپوا دو۔ وہ اندر سے بڑے رنجیدہ ہیں ۔ مجھے پاکستان کے ا دیب گھاس نہیں ڈالتے ۔ تم جاؤ ان کی تسلی ہو جائے گی۔ ان کا مسودہ لے جاؤ تا کہ ان کی کتاب آ جائے ۔ پھر ہم آل انڈیا ریڈیو کی باتیں ، راشد صاحب اور میرا جی کی باتیں کرتے رہے ۔ اعجاز کو اعتراض تھا کہ شیلا نے اتنی دور گھر کیوں لیا۔ راشد صاحب کی ساری عمر کی کمائی سے گھر خرید لیا ۔ لندن سے دور یہ برا کیا مائی نے ۔
اعجاز غصے میں تقریر کر رہا تھا۔
راشد صاحب تو سٹھیا گئے ہیں ۔ بڑھاپے میں ۔ شیلا میم صاحب جو کہتی ہیں ۔ وہی کرتے ہیں ۔ بظاہر اکیلے نہیں رہ سکتے ۔پاکستان واپس کیوں نہیں آتے ۔ ان کو سب سر آنکھوں پر بٹھائیں گے ۔ ان کا اپنا ملک ہے ۔ ان کا شہر جہاں پیدا ہوئے ۔ واپس آ جائیں ۔ ا نہیں لکھنا چاہئے ۔ اس کے لیے اپنے لوگوں سے ملنا بہت ضروری ہے ۔ وہ خود تنگ آ چکے ہیں ۔ اعجاز اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا۔ پاکستان واپس آ جانا چاہئے تھا۔ راشد نے اردو شاعری کو بہت کچھ دیا ہے ۔ ہمارے لوگ بھول گئے ۔ راشد کو۔ مگر جب چیزیں چھپ گئیں تو لوگ پھر سے پیار کریں گے ۔
اعجاز ! اگر اتنا خیال ہے تمہیں تو ایک روز کے لیے چھ پاؤنڈ خرچ کر کے چلے جاؤ۔ وہ بڑے تنہا ہیں ۔ پاکستان سے وہ محبت کرتے ہیں ۔ وہ کبھی کبھی رات کو ٹیلیفون کرتے ہیں ۔ جب بہت اداس ہوتے ہیں ۔ ایک تو آہستہ آہستہ سے باتیں کرتے ہیں ۔ پھر پیچھے سے خاتون کے ذہن میں ٹیلیفون کے بل کے اضافے کا کمپیوٹر لگا ہوا ہوتا ہے ۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اچھا بھئی بہت باتیں کر لیں ۔ شیلا تم کو پیار کہہ رہی ہے ۔ اکثر میں خود کہہ دیتی تھی۔ راشد صاحب آپ رکھئیے ٹیلیفون میں کرتی ہوں تو شرمندہ ہو جاتے ۔ ہاں بھئی یہ گھر اتنی دور ہے کمبخت پیسے تو تمہارے بھی لگیں گے ۔ ’’ تو بڑی ڈاہڈی ہے ۔‘‘ اور ہنستے رہتے ۔ اور پھر پرانے لوگوں کی باتیں ۔ وہ اکثر رات کو جب تنہا ہوتے تو ٹیلیفون پر ٹھرک جھاڑ لیا کرتے تھے ۔ پرانے قصوں میں ’’مسز حسین‘‘ کو ضرور یاد کرتے ۔ میرا جی زیب قریشی، ورشا کا ذکر اکثر ہو جاتا۔ وشوا متر عادل، دگل صاحب اور منٹو سے تو ان کی محبت چڑ میں تبدیل ہو گئی تھی۔
*
صبح ہی صبح حبیب حیدرآبادی کی رندھی ہوئی آواز آئی۔ سحاب کچھ کر و نا۔ ساقی نے بتایا میری شیلا سے بات بھی ہوئی۔ وہ آج صبح دس بجے راشد صاحب کو جلوا دیں گی۔ انگریزی کے لفظ Cremation میں اتنی بے رحمی نہ تھی جتنی کہ اردو ترجمے میں اور مجھے لگا کہ میں خود جلنے والی ہوں ۔ تیاری ہو رہی ہے اور میں نے صبح آٹھ بجے دولتانہ صاحب (جو ان دنوں پاکستان کے سفیر تھے لندن میں ) کو ٹیلیفون کر دیا۔
دولتانہ صاحب ! راشد صاحب اکیلے شیلا کے شوہر ہی نہ تھے ۔ وہ ہمارے ا دب کا حصہ بھی ہیں ۔ دولتانہ صاحب خدا کے لیے کچھ کیجئے ۔ وہ ہمارے ادیب و شاعر بھی ہیں ۔ وہ سب سنتے رہے اور آہستہ سے کہا کہ سحاب میں قیوم کو ٹیلیفون کرتا ہوں ۔ (پریس کونسلر) جلدی سے وہ بلجیم میں راشد کے بیٹے شہر یار سے Contact کریں جو پیرس میں ہیں ۔
شاید کوئی تدبیر نکلے ۔ میرے رونے پر ۔ انہوں نے بیگم دولتانہ کو ٹیلیفون پکڑا دیا۔ جن سے اپوا کی وجہ سے بے تکلفی بھی تھی۔ میں بے قرار ہو گئی۔ کچھ کیجئے ۔ اللہ۔ آج صبح دس بج کر چالیس منٹ پر شیلا۔ ساقی۔ عبداللہ حسین اور دو ایک دوست جا رہے ہیں ۔ وہ سب ان کو جلا دیں گے ۔ ان کی لکھی ہوئی وصیت کوئی بھی نہیں ہے ۔ آپ لوگ ان سے وصیت کے بارے میں پوچھئے کہ وصیت لکھی ہوئی دکھائیں ۔ جلدی کیجئے آپ کو کچھ کرنا چاہیے ۔
اور پھر کچھ نہ ہوا۔ راشد صاحب کی بیوی شیلا نے ، شاعر مغرب نے نئی نسلوں کے مصنف عبداللہ حسین اور کئی سر پھرے لوگوں نے ماورا کے ۔ ن۔م۔ راشد کو جلوا دیا۔
*
لندن آ کر راشد صاحب پر تو بہار آ گئی تھی۔ آپریشن کے بعد بھی وہ آرام کرنے کے بہانے پندرہ بیس دن تک اسپتال میں رہے ۔
’’یہاں سے میں کچھ دن بعد ضیا محی الدین کے فلیٹ میں چلا جاؤں گا۔‘‘ وہ بتا رہے تھے ۔ آپ اس کے فلیٹ میں رہیں گے ۔؟میرے تعجب پر وہ ہنستے رہے پگلی وہ بھی مجھے بہت چاہتا ہے ۔ اپنا بچہ ہے ۔ آزاد کشمیر ریڈیو میں میں نے کام دیا تھا اس کو جب اس کی پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اس وقت سے وہ احسان مانتا ہے ۔ میرا۔ میری بیوی کا بڑا خیال کرتا ہے ۔ بڑا ’’ بی با‘‘ ہے ۔پھر اس کا فلیٹ ’’ چلسی‘‘ کے پاس ہے ۔ ہیوں ، ملنگوں کا تکیہ، کیوں ٹھیک ہے نا؟۔ فہمیدہ کی طرف ’’ ٹھرکی‘‘ نظروں سے دیکھتے رہے ۔
’’ ارے بھئی تم تو عورتوں کی جدید شاعری کی علمبردار ہو۔ نظمیں نہیں لائیں ‘‘۔ وہ ہنستی رہی۔ ’’تمہاری تعریف کر رہے ہیں ‘‘ میں نے لقمہ دیا۔ اور فہمیدہ خوشی سے پاگل ہو گئی۔ جلدی سے بٹوے میں سے کاپی نکال لی۔ راشد صاحب کی عقابی چمک کو ایک نئی راہ نظر آئی۔
’’سنو بھئی ایسے نہیں ۔ تم کل شام کو آؤ ۔چار سے پہلے ۔ میری بیوی نے میرے دوستوں کے لیے یہی وقت رکھا ہے ۔ وہ بچے کو لے کر کل کہیں جا رہی ہے ۔ تم کل آؤ۔ میں منتظر رہوں گا۔ ابھی ہم سب مل کر باتیں کرتے ہیں ۔ اور میں ان کے چہرے پر ایسی کئی نیرنگیاں دیکھنے کی عادی تھی۔ وہ بھی سمجھ گئے ۔ مجھے دیکھا اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگے ۔
’’یار فہمیدہ! یہ سحاب بڑی ڈاڈی ظالم تھی۔ اپنی سادگی و پر کاری میں بندے کو اڑا کر رکھ دیتی تھی۔ میں نے اس پر ایک نظم بھی لکھی تھی۔ اور میں نے فقرہ دیا۔ ان کا آپ تلفظ نہیں درست کرا سکتے ۔ ان کا تلفظ تو آپ سے پہلے بہت سے لوگوں نے ٹھیک کروا دیا۔ راشد صاحب کھسیانی ہنسی ہنستے رہے ۔ اور اس ڈر سے کہ میں قصہ نہ سنا دوں ۔
ارے بھئی چائے منگواؤ۔ چھوڑو اس قصے کو۔ میں انہیں ڈرانا بھی نہیں چاہتی تھی۔
اس وقت آل انڈیا ریڈیو کے کونے کونے میں یہ فقرہ استعمال ہو رہا تھا۔ تلفظ ٹھیک کرا رہے ہیں ۔
*
۲۴۹۱ ء کا ذکر تھا۔ جب کہ ان کا کمرہ دو پہر تین بجے سے شام کے پانچ بجے تک بندرہتا۔۔ راشد صاحب کا کمرہ ’اسٹوڈیو کے پچھلے حصے کا کمرہ تھا۔ تین زرد مٹی میں ڈوبی سیڑھیاں ۔ اس پر ہرے رنگ کا دروازہ چک کے اندر بند رہتا۔ڈیوٹی روم سے کئی لوگ جاتے اور واپس آتے ۔ کئی لوگوں کو ضروری کاغذات پہ دستخط کرانے ہوتے مگر جا نہیں سکتے تھے ۔ واپس آ جاتے ۔ پھر جگہ جگہ مذاق اڑتا رہتا۔ سارے کونوں کھدروں میں ایک نئی اناؤنسر کی دھوم مچ گئی تھی جن کو ٹریننگ راشد صاحب دے رہے تھے ۔ جن کی بڑی گاڑی مٹی میں بھری سیڑھیوں کے پاس چک کے قریب رکتی۔ جس میں سے سرخ و سفید ہنستی ہوئی ایک صاحبہ چنا ہوا دوپٹہ پہنے ہوئے اُترتیں ۔ چوڑیوں اور مہندی سے بھرے ہاتھوں سے غرارہ اٹھائے ہوئے ۔ چک اٹھا کر تیزی سے اندر غائب ہو جاتیں ۔ شام کو پانچ بجے وہی بڑی گاڑی دھواں اڑاتی آتی اور وہ شرم و حیا کی پوٹلی اس گاڑی میں چلی جاتی۔
کچھ ’’ ٹھرکیے ‘‘ تو ساڑھے چار بجے سے ہی ’’انڈرہل روڈ‘‘ کے کونے کی پان والی دکان پر کھڑے ہو جاتے ۔ نئی اناؤنسر کی ایک جھلک دیکھنے جس کو ٹریننگ راشد صاحب دے رہے تھے ۔ بڑی شے ہے ۔ یہ ان کی دریافت ہے ۔ مہر اناؤنسر، شکیل، سب بڑے جل رہے تھے ۔ آخر اتنے پرانے اناؤنسر ہیں ہم۔ یہ تو ہمارا حق ہے کہ ہم ٹریننگ دیں ۔ راشد صاحب افسر ہیں تو کیا ہوا؟بولنا کیا جانتے ہیں ۔ آخر میں ایک دن غصے میں چلی گئی ان کے کمرے میں ۔ وہ مجھے بیٹی بھی کہتے تھے کبھی کبھی۔ میں لوگوں کو برا نہیں کہنے دوں گی۔ آخر کیا وجہ ہے ؟ اور میں دندناتی سیڑھیوں پر بھاگتی کمرے میں گھس گئی۔ اندھیرے کمرے میں میدہ شہاب چہرہ چمک رہا تھا۔ میز پر ا سکرپٹ کھلے پڑے تھے ۔ اور یہ ا ن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے ۔
’’میں قسمت کا حال بتا رہا تھا انہیں ‘‘ اندھیرے میں کچھ دیر بعد مجھے راشد صاحب کا چہرہ نظر آیا۔ میرا خیال تھا وہ خفا ضرور ہوں گے میری اس حرکت پر۔ مگر وہ ہنستے رہے ۔ ارے تم شیرنی بنی قزلباشو ں کا سارا خون چہرے پر مل آئی ہو۔ کیا ہوا؟ کسی نے کچھ کہا تم کو ۔ سحاب بی بی۔ اور ان کا پیار دیکھ کر میں پھر ریشہ ختمی ہو گئی۔آپ کو لوگ بہت غلط سمجھتے ہیں ۔ آخر راشد صاحب لوگوں کو آپ سے کچھ نہ کچھ تو پوچھنا ہوتا ہے تو وہ کیسے آپ کے پاس آئیں ۔ دروازہ بند ہے ۔ ڈیوٹی روم میں لوگ مذاق اڑا رہے ہیں ۔ آپ تو کچھ بھی نہیں کر رہے ۔ صرف آپ ہاتھ دیکھ رہے ہیں ۔ ’’مسز حسین‘‘ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی اور ان کی ہنسی سے راشد صاحب بھی شگفتہ کھلے پھول کی طرح ڈال پر جھول رہے تھے ۔ وہ حاسد راشد غائب تھا۔ جسے میرا جی جانتے تھے ۔ ایک معصوم سا انسان جو عینک کے پیچھے ذہن کی روشنی سے دیکھ رہا تھا۔ گلستاں سجائے شاعر بیٹھا تھا۔ ’’اور اب آپ دروازہ نہیں بند کر سکتے ۔‘‘ اور میں نے بڑا سا ٹوٹا ہوا پتھر پاؤں سے ہٹا دیا۔ اب جس کا جی چاہے وہ آ سکتا ہے ۔
’’نہیں سحاب بی بی بات دراصل یہ ہے کہ میں ان کا تلفظ ٹھیک کرواتا ہوں ۔ لوگ گھڑی گھڑی آ کر تنگ کرتے ہیں ۔ ا س لیے ایک دو گھنٹے ان کو پڑھواتا ہوں ۔ ‘‘ اور انہوں نے لفظ چبا چبا کر بولنا شروع کیا۔ اور بکھرے ہوئے ا سکرپٹ ہاتھوں سے اکٹھے کرتے رہے ۔’’ آؤ چائے پیو۔ بی بی۔ مسز حسین نے مجھے بھی شامل کرنا چاہا۔ میرا جی نے ایک روز ان کا جغرافیہ بتایا تھا کہ ان موصوفہ کے پاس سیٹھ جگت نرائن کی چیک بک بھی اور کار بھی ہے ۔ اور ان کے پاس ان کے بچے ۔ آیا اور شوہر، رہتے ہیں ۔ چند منٹوں میں مجھے پتہ لگ گیا کہ اللہ نے ملاحت سادگی و پرکاری سے مالا مال کر رکھا ہے ۔ اور اوپر کی منزل بالکل خالی ہے ۔ اتنی خالی کہ دروازے تک ان کی ہنسی میں چرچراتے سنائی دیتے ہیں ۔ کیا راشد صاحب بہرے ہیں ۔ کیا انہیں سنائی نہیں دیتا؟ اور پھر ایک دن ا ن کے قلم کو حرکت ہوئی اور پھر اس نظم ’’داشتہ‘‘ کی تخلیق ہوئی۔
میں ترے خندہ بیباک سے پہچان گیا
کہ تری روح کو کھاتا سا چلا جاتا ہے ،
کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے ، کوئی ا لم زہرہ گداز
میں تو اس پہلی ملاقات میں یہ جان گیا!
آج یہ دیکھ کے حیرت نہ ہوئی۔
کہ تری آنکھوں سے چپ چاپ برسنے لگے اشکوں کے سحاب،
اس پہ حیرت تو نہیں تھی، لیکن
کسی ویرانے میں سمٹے ہوئے خوابیدہ پرندے کی طرح
ایک مبہم سا خیال
دفعتاً ذہن کے گوشے میں ہوا بال فشاں ۔
*
حیدرآباد دکن کے مغنی تبسم کی بہن شبنم جن کے میاں حبیب حیدرآبادی ہیں ۔ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ ہے ۔ اور اکبر حیدرآبادی جو آکسفورڈ میں رہتے ہیں ۔ ان کے گھر دوپہر کا کھانا تھا اس روز۔ راشد صاحب بہت خوش تھے گھنٹوں اپنی نئی نظمیں سناتے رہے ۔حیدرآبادیوں کا شائستہ مہذب گروپ تھا۔ خواتین و حضرات گھنٹوں سنتے رہے ۔ ۔ ۔ کھانے سے پہلے راشد صاحب اپنی نظمیں سناتے اور نہال ہوتے جاتے ۔
*
پھر راشد صاحب کے انتقال کے کئی دن بعد شیلا کا ایک خط ملا اور انہوں نے فون کیا۔ خط کا مضمون بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ سمجھا بوجھا۔ نپے تلے جملے ۔ تم کو مجھ سے خفا نہیں ہونا چاہئیے ۔ وہ تم کو بہت چاہتے تھے ۔ راشد تم سے فیسی نیٹ ہوتے تھے میں نے ان کی آخری خواہش پوری کر دی۔ میرے والد کے کری میشن کے وقت وہ دیکھنے نیچے گئے تھے کہ کیا Process ہے ۔ انسان کس طرح جل کر راکھ ہو جاتا ہے ۔ بقول ’’ شیلا کے ‘ ایسا کرنا ہائی جینک ہوتا ہے ۔ نہ دباؤ نہ بہاؤ کچھ سیکنڈ کے بعد لاش بٹن دباؤ اور سر سے جلتی ہوئی بھاڑ میں گر جاتی ہے ۔ پھر راکھ اک ننھے سے ڈبے میں مل جاتی ہے ۔ جس پر نام اور پتہ لکھا ہوتا ہے ۔
بقول شیلا ، راشد صاحب ا س حقیقت پر کئی روز سوچتے رہے تھے خاموشی سے ۔
’’زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے ‘‘ اور میں سوچ رہی تھی میرے شاعر نے ان بڑے میاں کا جب یہ حشر دیکھا ہو گا تو جنت دوزخ دونوں رخ دیکھنے کے بعد نہ جانے کیا کیا شکوے اللہ میاں سے کئے ہوں گے ۔ اس باغی شاعر نے سارے دکھ بھرے سالوں کا بدلہ انگریز بیوی سے لے لیا۔ بقول ایرانیوں کے ’’ زنگی کی فرنگی بیوی کے ساتھ‘‘ شیلا کے اٹلی جانے کے ساتھ ہی موقع سے فائدہ اٹھا لیا۔
نذر محمد گجرات کا رہنے والا سیدھا سا شاعر جواب بھی اپنے کھانوں کے لیے ترستا تھا۔ جو اپنے لوگوں کے لیے ترستا تھا۔ جو اپنی پہلی بیوی کے بچوں کو ابھی تک چاہتا تھا جو اپنی چھوٹی لڑکی کو پڑھانے کے لیے امریکہ کے ہر ٹیچر سے دوستی کرتا پھرتا۔ یہ وہی شیلا جو ان کی بیوی تھیں وہ ان کی چھوٹی بیٹی کی استانی تھی ایک زمانے میں راشد صاحب سے ایک لڑکا پیدا کر کے صحیح معنوں میں اس چھوٹی لڑکی کی ماں بھی بن گئی تھیں ۔
شہر یار راشد صاحب کا سب سے بڑا لڑکا، سنا تھا اس روز لندن وقت سے پہلے پہنچ چکا تھا مگر وہ نہ ماں سے ملا نہ وہاں آیا جہاں یہ سب لوگ جمع تھے ۔ ملن والی جگہ پر اگر بیٹا ہی آ کر منع کر دیتا تو کسی کی مجال نہ تھی کہ راشد صاحب کو جلوا دیتے ۔ یہ کیسا بیٹا تھا۔ جو اس لندن میں چھپا بیٹھا رہا جہاں باپ جلایا جا رہا تھا۔ کیسا خاموش احتجاج تھا۔ سنا تھا ساقی نے فاتحہ خوانی اپنے گھر میں کروائی لیکن بیٹا اس رسم میں بھی شامل نہ ہوا۔
ن۔م۔ راشد شاعری اور ادب میں نئی راہ کا علم بردار، فارسی ادب پر مرنے والا راشد! اور ان کے وہ احباب جو گاؤں اور قصبوں سے گوہر نایاب شہروں میں آ کر علم و عمل سے نکھرے ادب کے ماتھے کے چاند بنے ۔ ان میں سے اکثر اہل مغرب کے رسم و رواج کے دعوے دار بن گئے ۔ ہمارے ادب کے اٹیلکچول کہلائے جو کمروں میں بیٹھ کر تعزیتی جلسوں میں آج بھی کہتے ہیں ۔ کیا ہوا مرنے کے بعد جسم کو چاہے جلادو، چاہے بہا دو یا مٹی میں دبا دو۔ یہ کتابیں ہیں جو وہ چھوڑ گئے ہیں یہ ادب ہے جو وہ چھوڑ گئے ہیں ۔ یہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور یہی ہماری پہچان۔
ہماری نئی نسل جب کبھی ادب پر نظر ڈالے گی تو یہی کہا جائے گا۔ اردو شاعری کو بلینک درس آزاد شاعری سے متعارف میراجی اور۔ن ۔م۔ راشد نے کروایا۔ ماورا ایران میں اجنبی ، لکھنے والا نئی راہ کا رہبر یہ راشد ہی کی پہچان تھی۔
*
اور پھر کنیڈا کے مشاعرے میں اس رات مانٹی ریال کے جگمگاتے اسٹیج پر ایک لڑکی میری طرف اپنی بانہیں اٹھائے سوگوار آنکھوں سے مرا دل کھینچتی ہوئے لپک رہی تھی۔
کسی نے کہا مسز چوہدری آپ سے ملنا چاہتی ہیں ۔
میرے دل نے سسکیاں سنیں اس کے گرم گرم ہونٹ مرے کانوں کو چھو رہے تھے ۔ آپ۔ نے بھی مرے ا باجی کو جلوا دیا۔ وہ گلے میں بانہیں ڈالے رو رہی تھی۔ آپ سحاب آنٹی ہیں نا۔
یہ راشد صاحب کی محبت تھی۔ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی جس کے میں کچھ کام نہ آ سکی۔ ان آنسوؤں سے کیا کام چلا جو ان کی بیٹی کی آنکھوں سے ابھی نکل رہے تھے اور جو میں اس روز گنوا چکی تھی۔ ا تنا ہی کہہ سکی۔
بیٹی تم ایک ٹیلیفون ہی اگر شیلا کو کر دیتیں یا پاکستان ابمیسی کو کہ میرے بابا کو نہ جلایا جائے ۔۔ شہر یار بھی آئے لیکن خاموش چھپے پھرتے رہے ۔ شیلا تو تمہاری استانی تھیں تم تو انہیں ہم سب سے بہتر جانتی ہو۔ نہ جانے میں کیا کہے جا رہی تھی اس کی آواز ہلکی ہوتی گئی۔
’’آنٹی ہماری کیا چلتی شیلا آنٹی کے سامنے ۔ اتنی دور بیٹھ کر میں کیا کر سکتی تھی سوائے رونے کے اور ابھی ابا ہوتے تو کہتے تمہیں سوائے رونے کے اور آتا ہی کیا ہے ۔؟ ہم دونوں ہنس پڑے ۔ وہی کھٹکے دار ہنسی جو راشد صاحب کی خصوصیت تھی۔ وہی ذہین آنکھیں جو بھابھی بیگم راشد نے چرا کر اپنی چھوٹی بیٹی کو بخش دی تھیں ۔ میں اس کے آنسو پونچھ رہی تھی اور ان آنکھوں سے پیچھے وہی آواز میرا پیچھا کر رہی تھی۔ ان کی پسندیدہ نظم جو انکو بہت پسند تھی جیسے راشد صاحب پڑھ رہے ہوں ۔ ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ۔
’’ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ‘‘
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے !
جسم کے ساحل آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا
انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سر ریگ نہاں
میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں
ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آواز بلند!
دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے
تا ک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!
تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!
کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور
سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعل جاں لے کے ہر اک سمت رواں !
جونہی دن نکلے گا اور شہر
جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،
میں بھی ہر سو ترے مژگان کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!
دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی
راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے
بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے
اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر
ان کے سایے سے بھی لرزہ طاری،
پیکر خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے
رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں
بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں
رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو
بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔
صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے
اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے ،
٭٭٭
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ، بازگشت و بازیافت میں اسکا مکمل متن مل گیاہے ، شکریہ ، مہمیز کے لیے ۔
 

باذوق

محفلین
فرخ بھیا ایک زمیندار نے ایک ملازم کو گندم کی فصل کی کٹائی پر مامور کیا۔ بجائے فصل کی رکھوالی کے وہ بندہ گلی ڈنڈہ کی مشق کرتا رہا اور اس میں مہارت حاصل کرتا رہا اور فصل جانور چر گئے۔ ایسے بندے کو اس کا مالک گلی ڈنڈے میں مہارت پر شاباش دے گا کہ فصل برباد کرنے پر اسے ملازمت سے برخواست کرے گا؟ یہی حال انسان کا ہے۔ پہلا کام تو انسان کا ہے کہ اپنے معبود کو پہچانے۔ باقی سب کچھ تو اسے راضی کرنے کے طریقے ہیں۔ اب اگر کسی نے یہ بنیادی کام ہی نہ کیا یا بجائے معبود کو ماننے کے اس کی تضحیک کرتا رہا تو وہ شاعر، سائنسدان، عالم جتنا مرضی بڑا رہا، اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سرانجام دینے میں وہ بری طرح ناکام رہا سو اس کا انجام حسرت و یاس کی ہی تصویر ہوگا۔
اعجاز انکل، عصمت چغتائی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب آپ نے بہ قائمی ہوش و حواس نہ صرف اللہ کا انکار کیا بلکہ اس کے احکامات کی دانستہ علی الاعلان تضحیک کی تو بس۔ اس موضوع پر میرے ذہن میں تو اس سے بہتر کوئی اور تمثیل نہیں آتی کہ "ابوالحکم" ابوجہل بنا اس دنیا سے گزر گیا۔
سرخ الفاظ کے لئے ۔۔۔۔ جزاک اللہ خیر !!
خرم بھائی ، آپ نے اس طرح لکھ کر دل خوش کر دیا۔
درحقیقت ، سادہ سی بات یہ ہے کہ دنیا کے "انسانوں" میں اور دنیا کے "مسلمانوں" میں بڑا اور نمایاں فرق "زندگی بعد الموت" کے عقیدہ کا ہے۔
دنیا ہی اگر سب کچھ ہے تو بےشک ہم کارل مارکس کی بھی تعریف کریں‌ گے ، لینن کی بھی ، چرچل کی بھی اور راشد ، عصمت کی بھی۔
اور اگر زندگی بعد الموت پر ہمارا ایمان ہے تو پھر ہم فکرِ اقبال کے ناطے ۔۔۔۔ "شکوہ" کے بعد "جواب شکوہ" پر بھی غور و فکر کریں گے !

کچھ ایسے ہی موقع پر نعیم صدیقی کی ایک تحریر کا اقتباس یاد آ گیا ، ملاحظہ فرمائیں :
یہ میرے لیے ضروری امر ہے کہ ادب کی تخلیق کے وقت 'اسلامی کسوٹی' کا بھی خیال رکھوں !
۔۔۔ میرے لیے یہ کیسے ممکن رہے گا کہ جب اپنے دماغ کو کسی ادبی کاوش میں لگاؤں تو اس نظریۂ حقیقت کو نوچ کر ذہن سے الگ کر دوں جو اسلام نے مجھے دیا ہے۔ میرے لیے یہ کیسے ممکن ہوگا کہ میں جس عظیم سچائی پر ایمان رکھتا ہوں، کسی نظم کا خاکہ بناتے وقت، کسی افسانے کا پلاٹ سوچتے اور کسی کردار کے نقوش مرتب کرتے وقت اس ایمان کو سینے سے اٹھا کر باہر رکھ دوں؟ میرے لیے یہ کیسے ممکن ہوگا کہ اسلام خیالات و جذبات اور حوادث و تاثرات ، اخلاق و کردار، تمدنی اقدار اور تاریخی روایات میں خیر و شر کی جو تقسیم کرتا ہے اور اس تقسیم کے لیے جو کسوٹی استعمال کرتا ہے، اسے قلم ہاتھ میں لیتے ہی مسترد کر دوں؟ یعنی شعر و افسانہ میں مَیں کوئی دوسرا نظریہ ، کوئی دوسرا طرزِ فکر، کوئی دوسرا ایمان اور کوئی دوسرا معیارِ نیک و بد استعمال کروں؟؟

اس اقتباس کی پیشکشی کا یہ مطلب نہیں کہ ادب کو بس "اسلامی ادب" ہی ہونا چاہئے ورنہ نہیں۔ اس اقتباس میں جو فقرہ اہم ہے اس کو میں نے سرخ رنگ دیا ہے۔
 
ن م راشد کی بیٹی نسرین راشد نے بھی ان کے جلائے جانے پر یہی لکھا ہےکہ وہ سرا سر شیلا کا فیصلہ تھا ، بقول نسرین شیلا کفن دفن کا خرچ بچانا چاہتی تھی، جب کہ کریمیشن نسبتا سستا عمل تھا ۔ اور یہ بھی کہ راشد شیلا سے کافی تنگ آ چکے تھے ۔

واللہ اعلم حقیقت کیا ہے تاہم نسرین راشد کے مضامین سے مشرقی بیٹی کے دکھ کا اظہار ضرور ہوتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
"زاویہ"کے ایک حصہ میں اشفاق احمد مرحوم نے ن م راشد کا ذکر کیا ہے ۔ کافی عرصے سے یہ بات میرے ذہن میں تھی مگر یہ دھاگہ نہ ملا اور میں نے بھی زیادہ جستجو نہ کی ۔ بقول اشفاق صاحب کے ن م راشد نئی ایجادات یعنی مشینوں وغیرہ سے بہت مرعوب ہوتے تھے ۔اور کہیں بھی کوئی مشین دیکھتے تو دلچسپی اور حیرت کا اظہار کرتے ۔ ایسے ہی کسی ہندو (غالبا ان کی بیوی کا کوئی عزیز) کے کریا کرم گئے تو وہاں اسے اسی طرح سے برقی بھٹی میں جلایا گیا اور چند منٹوں میں سارا معاملہ سرانجام پا گیا۔ اسے دیکھ کر انھوں نے حسب عادت خوشی اور حیرت کا اظہار کیا ۔ شاید اسی خوشی اور حیرت سے ن م راشد کی بیوی شیلا نے یہ خیال کیا کہ ان کی یہ خواہش ہے اور یوں انھیں دفنانے کی بجائے جلا دیا گیا ۔

یہ ان الفاظ کا مفہوم ہے جو اشفاق صاحب نے کہے تھے ۔آپ لوگ اندازہ لگا لیں کہ کیا ہونا ممکن ہو سکتا ہے ۔ بہرحال یہ بات تو ایک طے شدہ‌حقیقت ہے کہ بحیثیت مسلمان وہ کوئی قابل فخر شئے نہ تھے ، شاعر اچھے تھے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ۔
وسلام
 
Top