اقبال نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی ۔۔۔۔۔۔ علامہ محمد اقبال

مغزل

محفلین
غزل

نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو ” میں “ رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیانِ مشتاقی
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری ، تو پھر کیا شکوہِ ساقی
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بّراقی
دلوں میں ولولے ، آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہواندازِ آفاقی
خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیّاد کی زد میں
مری غمّاز تھی شاخِ نشمین کی کم اوراقی
الٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے، نہیں میرے تخیّل کی یہ خلّاقی

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
 

زونی

محفلین
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی



بہت خوب!

بہت اچھا لگا اقبال کا خوبصورت کلام پڑھ کر ، بہت شکریہ شئیر کرنے کیلئے۔


مری غمّاز تھی شاخِ نشمین کی کم ادراقی



مغل بھائی تصحیح کیجئے گا یہ لفظ "کم ادراکی" ھے شاید ؟
 

مغزل

محفلین
مجھے فطرت ، نوا پر، پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی دردآشنا ، باقی
بہت خوب!
بہت اچھا لگا اقبال کا خوبصورت کلام پڑھ کر ، بہت شکریہ شئیر کرنے کیلئے۔

مغل بھائی تصحیح کیجئے گا یہ لفظ "کم ادراکی" ھے شاید ؟

آداب !!
بہت شکریہ زونی !
شاید نہیں یقیناً ’’ اَدراقی‘‘ ہی ہے ۔۔
وگرنہ قافیہ غلط ہوجائے گا۔ ایک دوسرے فورم پر
اقبال کی اس غزل پر مجھ ایسے ایک شاعر و نقاد نے
الزام لگا یا تھا کہ غزل کے بہت سے اشعار بحر سے خارج ہیں
اور بہت سے اشعار محض غزل کا پیٹ بھرنے کو بھرتی کیے گئے ہیں۔
اور دیگر بھی باتیں ہیں ۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ اقبال کی غزل کامقدمہ ہمیں
لڑنے کونصیب ہوا۔۔ جس پر بشمول مذکورہ لفظ کے ۔۔ ایک بحث ہوئی
میں باباجانی اور وارث صاحب کی اجازت سے اس مقدمہ کا متن بزم میں پیش
کرنا چاہوں گا ۔۔ مجھے اس کی اجازت دی جائے ۔۔ لیکن اس شرط پر
کہ میری معروضات پر نہ صرف بات کی جائے بلکہ میری رہنمائی
کی جائے ۔۔ ویسے ’’ ادراقی ‘‘ عمومی طور پر لغات وغیرہ میں
نہیں ملتا۔۔۔ بہرحال آپ کیلئے ہے کہ ۔۔ حکیم مومن خان
مومن کی ’’ تحفہِ حکیم مومن ‘‘ میں مل جائے گا۔
پیش رووں میں مجھے کہیں نظر نہیں آیا
ماسوائے ’’ اقبال ‘‘ کے ۔۔
معنی پر بحث آئندہ
مراسلے تک مؤخر
والسلام​
 

ابوشامل

محفلین
قبلہ مغل صاحب! آپ "ادراقی" کہہ رہے ہیں جبکہ یہاں میرے پاس جو نسخہ ہے اس میں "اوراقی" لکھا ہے۔
ہن کی کریے ؟؟
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے حیرت ہے کہ اس غزل کے وزن پر کوئی اعتراض وارد ہوا ہے اور اشعار کو بحر سے خارج سمجھا گیا ہے۔ معترض کوئی نا واقفِ عروض ہی ہو سکتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
قبلہ مغل صاحب! آپ "ادراقی" کہہ رہے ہیں جبکہ یہاں میرے پاس جو نسخہ ہے
اس میں "اوراقی" لکھا ہے۔ ہن کی کریے ؟؟
قبلہ ۔۔ وہ نسخہ مجھے دکھا سکتے ہیں ۔۔ یا مجموعہ کا نام ۔۔ پبلشر ۔۔ اور تاریخِ اشاعت وغیرہ۔
ویسے اوراقی (بمعنی پتہ ) کا محل ہی درست معلوم ہوتا ہے ۔۔ ممکن ہے کہ یہ تحریرو طباعت کی غلطی ہو۔
(میں نے اقبال کو شکوہ سے زیادہ نہیں پڑھا ۔۔ جوابِ شکوہ بھی نہیں ) :grin:
 

فرحت کیانی

لائبریرین
نہ کر ، افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بّراقی
دلوں میں ولولے ، آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہواندازِ آفاقی


بہت خوب۔ :)
بہت شکریہ م۔م۔مغل!
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ فرحت کیا نی صاحبہ ۔
سلامت رہیئے ۔۔

(احباب کی توجہ ۔۔ غزل میں ادراقی اور اوراقی کی صحت درکار تھی ۔۔ صحت میسر ہوچکی ہے اسلیئے غزل میں تدوین کردی گئی ہے )
 

مغزل

محفلین
مجھے حیرت ہے کہ اس غزل کے وزن پر کوئی اعتراض وارد ہوا ہے اور اشعار کو بحر سے خارج سمجھا گیا ہے۔ معترض کوئی نا واقفِ عروض ہی ہو سکتا ہے۔

آداب وارث صاحب۔
میں نے موصوف کو جو جواب دیا ہے وہ ذیل میں پیش ہے ۔
ملاحظہ کیجئے ۔۔ کہیں غلطی رہ گئی ہو تو رہنمائی کیجئے ۔
والسلام

قبلہ اسمعیل اعجاز،
آداب و سلامِ مسنون!
سب سے پہلے تو دست بستہ معافی کا خواستگار ہوں کہ مجھے یہاں آنے میں خاصی تاخیر ہوگئی ۔
” ہوئی تاخیر ، تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا“
بجلی کی آنکھ مچولی سے بخوبی واقف ہوں گے ۔پھر دیگر نجی مصروفیات نے بھی مہلت نہیں دی کہ آپ کی بارگاہ میں حاضرہوسکتا، بہر کیف چند دن قبل آپ نے اقبال کی غزل کی بابت ارشادکیا کہ اس میں مصرع کے بحر سے خارج ہونے کا معاملہ ہے ، مزید یہ کہ آپ کو مطلع کی زبان پر اعتراض رہا کہ: ”نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو میںرہتا نہیں باقی“ بھلایہ کیا بات ہوئی ، سوم یہ کہ آپ نے چھٹے شعر کی بابت اشارہ کیا کہ ”ادراقی “ کیا ہے یا یہ کہ اس کا یہاں کیا محل ۔۔۔؟۔۔۔۔ پھر یہ بھی کہا کہ ” اقبال“ کی اصلاح کیجئے ۔۔۔لیجئے میں عرض کرتا ہوں ۔۔۔پہلی بنیادی غلطی یہ رہی کہ جن صاحب یا صاحبہ نے یہ مراسلہ یہاں چسپاں کیا ہے انہوں نے غالباً محض اپنی عقیدت و یادداشت کی بنیاد پر یہ غزل یہاں پیش کی اور اس کی صحت و املا کی بابت غور نہیں کیا ادب دوستوں کو اس معاملے میں محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔بہر کیف اب آتے ہیں آپ کے اعتراضات کی جناب میں۔ ”نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو میںرہتا نہیں باقی“ میں ۔۔۔ ”میں“ واوین میں ہے یہاں میں سے مراد ۔۔”خود“ ۔۔” خودی“ ۔۔ ”انا“ ۔۔ ”پندار“ ہے ۔۔ تشریح تو آپ بخوبی کرسکتے ہیں ، امید ہے شعر کا مفہوم آپ پر واضح ہوگیا ہوگا۔۔ چھٹے شعر میں ” ادراقی“ ۔۔ لکھا گیا ہے ۔۔ ادراقی۔۔ تحفہِ حکیم مومن میں مستعمل ملتا ہے اس کے بعد کسی نے استعمال نہیں کیا ۔۔ یہی وجہ کے عمومی لغات میں نہیں ملتا ، ویسے”اَدراقی “ ۔۔آ تش فشاں پہاڑ کے دہانے کو کہتے ہیں شاہین سے منسوب ہے کہ و ہ ایسی ہی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے ۔۔۔خیر یہاں بھی مراسلہ نگار سے غلطی ہوئی اور ادراقی لکھا گیا جب کہ صحیح لفظ ورق کی جمع اور اوراق سے حاصل مصدر ” اوراقی“ ہے۔ وَرَق سے عام طور پر صفحہ مراد لیاجاتا ہے مگر اس کے معانی میں ” پتہ “ ۔۔”برگ“ ۔۔ یا ” پات“ بھی لیے جاتے ہیں ۔ملاحظہ کیجئے :
ورق۔۔ [وَرَق] ۔۔(عربی)
اسم ِنکرہ ( مذکر - واحد )
جمع استثنائی: اَوراق [اَو + راق]
جمع غیر ندائی: وَرَقوں [وَرَقوں (و مجہول)]
1. برگد، درخت، درخت کا پتا، پات۔
2. کاغذ کا ٹکڑا، پتا، پتر، جزو کا آٹھواں حصہ۔
3. تاش، کارڈ، تاش کا پتا۔
4. چاندی یا سونے کا باریک کٹا ہوا ٹکڑا۔
5. پترا، قاش، باریک اور چوڑی تراشی ہوئی چیز۔
امید ہے تشفی ہوچلی ہوگی، اب ان معنوں میں آپ اقبال کی غزل کو پڑھیے اور لطف لیجئے ۔
رہی بات بحر کی تو ، میرے محترم بزرگ،مجھے ایسا کہیں نہیں محسوس ہوا کہ کوئی مصرع خارج از بحر ہو۔
پھر بھی آپ چاہیں تو اس کی تقطیع کرکے دیکھ لیجئے ۔
امید ہے آپ میرے حق میں دعا کرنا نہ بھولیں گے
کہساروں کی وادی ایبٹ آباد سے ہجرتی۔۔۔۔۔۔
اسیرِ شہرکراچی۔۔۔۔۔۔۔۔
م۔م۔مغل
 

زونی

محفلین
بہت شکریہ فرحت کیا نی صاحبہ ۔
سلامت رہیئے ۔۔

(احباب کی توجہ ۔۔ غزل میں ادراقی اور اوراقی کی صحت درکار تھی ۔۔ صحت میسر ہوچکی ہے اسلیئے غزل میں تدوین کردی گئی ہے )






شکریہ مغل بھائی اب شعر بھی صحیح معنوں میں سمجھ آ رہا ھے :)
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ زونی بابو،
اللہ برکتیں عطا فرمائے۔
میرے حق میں دعا کیجئے گا۔
والسلام
 
Top