داغ نہ تھی تاب اے دل تو کیوں چاہ کی ۔ داغ دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
نہ تھی تاب اے دل تو کیوں چاہ کی
بڑا تیر مارا اگر آہ کی

وہی ایک ہے خاکِ دیر و حرم
دل اِس راہ کی لے یا اُس راہ کی

خدا جانے کیا بن گئی دل پہ آج
صدا ہے جو اللہ اللہ کی

اُڑاتے ہو بے پر کی تعریف میں
بندھی ہے ہوا کس ہوا خواہ کی

وہ پیغام رخصت کا منہ پھیر کر
وہ شرمیلی آنکھیں سحر گاہ کی

اُجاڑے ہیں گھر تو نے کافر بہت
کہاں جائے مخلوق اللہ کی

تم آنا ہمارے جنازے کے ساتھ
یہ تکلیف کرنا خدا راہ کی

کبھی دو کبھی سو ملیں گالیاں
مقرر ہماری نہ تنخواہ کی

فلک سا بھی ظالم کوئی اور ہے
مگر عمر اُس کی نہ کوتاہ کی

اُسے ہم نے دیکھا جسے دیکھ کر
نگہ نے تری شرم ناگاہ کی

گیا دل ترے پاس اک آن میں
مسافت بہت کم ہے اس راہ کی

کہا بوسہِ آستاں پر بہ طنز
نہیں ہے یہ دہلیز درگاہ کی

نہیں بے سبب ان بتوں کو غرور
کچھ اس میں بھی حکمت ہے اللہ کی

نہ لیتے گئے بے وفا جان کر
اگر جان بھی ان کے ہمراہ کی

مرے دل میں برچھی چبھو کر کہا
خبردار تو نے اگر آہ کی

یکایک ڈسا تیری کاکل نے دل
اس افعی نے کیا چوٹ ناگاہ کی

یہ سمجھائے دیتے ہیں اے داغؔ ہم
اطاعت کیے جاؤ تم شاہ کی

(داغ دہلوی)
 
Top