تعارف (نہیں) پوچھتے ہیں وہ کہ راحلؔ کون ہے

سیما علی

لائبریرین
خیر، واپس مدعے پر آتے ہیں۔ سو اسی شوق کی پیروی میں ہم نے اپنے نام کے ساتھ راحلؔ کا ٹنٹنا لگا کر اتنا بڑا نام کر لیا کہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانی اور یونیورسٹی کے داخلہ فارم بھرنا مشکل ہوگئے ۔۔۔ اور ہمارا سر فخر سے اتنا بلند ہوگیا کہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا کہ اس دوران ابا محترم اپنا سر پیٹ رہے تھے۔ ہماری اماں کا البتہ یہ خیال تھا کہ نام کے ساتھ تخلص جوڑنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں راحلؔ کے بجائے کاہلؔ زیادہ مناسب اور بامسمیٰ ہوگا! ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے کافی دبیز چمڑی پائی ہے (جس کو ایک آپریشن کے دوران اطبا نے باقاعدہ سندِ تصدیق عطا کی) سو ہم نے والدہ کے اس تاثر کو داد و تحسین گردانا اور آٹوگراف دینے کے لیے ان سے قلم اور کاغذ بھی طلب کر لیا۔ یہ اور بات ہے کہ آخر میں آٹوگراف والدہ کے پاپوش کا ہماری پشت پر ثبت ہوا۔
بہت خوب بہت خوب
بار بار پڑھا اور ہر بار اسقدر اچھا لگا کہ ہمارے پاس بخدا مناسب الفاظ کا چناؤ ناممکن ہے ۔۔۔
ڈھیروں داد و تحسین !!!!
سلامت رہیے ڈھیروں دعائیں
بھیا تھوڑا سا وقت ضرور نکالیے اُردو محفل کے لئے آپکے دم سے نکھار ہے اردو محفل میں ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
بہت خوب بہت خوب
بار بار پڑھا اور ہر بار اسقدر اچھا لگا کہ ہمارے پاس بخدا مناسب الفاظ کا چناؤ ناممکن ہے ۔۔۔
ڈھیروں داد و تحسین !!!!
سلامت رہیے ڈھیروں دعائیں
بھیا تھوڑا سا وقت ضرور نکالیے اُردو محفل کے لئے آپکے دم سے نکھار ہے اردو محفل میں ۔۔۔۔۔
بہت شکریہ سیما آپا... آپ کی شفقت اور خلوص کا مقروض ہوں کہ اتنی پرانی پرانی تحاریر بھی ڈھونڈ نکال کر پڑھتی ہیں اور حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں. جزاک اللہ خیر.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بھیا تھوڑا سا وقت ضرور نکالیے اُردو محفل کے لئے آپکے دم سے نکھار ہے اردو محفل میں ۔۔۔۔۔
اپنی آپا محفل کی آئی ایم ایف ہیں اور ہم سب غریب ممالک کی طرح بجٹ میں آپا کے مقروض ۔
مجھے تو دیوالیہ ہوئے بھی مدت ہو گئی :ROFLMAO: :ROFLMAO: :ROFLMAO: ۔
 

سیما علی

لائبریرین
ناچیز کی ولادت ملکِ پاکستان کے عروس البلاد کراچی میں سن ۱۹۸۴ عیسوی میں ہوئی۔ اسلامی تقویم کے حساب سے ان دنوں رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔ عموماً رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں پیدائش کا (خوشگوار) اثر انسان کے اعمال و اخلاق پر پڑتا ہے۔ ہمارے کردار پر پڑے اثرات میں سے اب تک جو اثر سامنے آیا ہے، جس کی سرکاری سطح پر تصدیق کی جاسکے، وہ محض بسیار خوری، ہمارا مطلب ہے کہ وہ خوش خوراکی ہے جس کا مومنین رمضان المبارک میں خاص اہتمام کرتے ہیں۔ سنِ ولادت کے اعتبار سے خاکسار اب عمرِ رواں کے ۳۷ ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔
بہت بہترین !!!!!
زبردست زبردست زبردست
🥇🥇🥇🥇🥇🥇🥇🥇
اللہ پاک آپکو اپنی حفظ و امان میں رکھے آمین
آپ سے تو اس شہر کے حوالے سے اور بھی انسیت ہوگئی ہے ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
انسان چونکہ فطرتاً حریص اور زیادہ کا طلبگار ہے، سو ہمیں بھی لگا کہ نام کی طوالت میں کچھ کسر باقی ہے۔
نام کی طوالت منظور بلکہ سر آنکھوں پر منظور کیونکہ کام انتہائی خوبصورت ہے ۔
اللہ پاک سے دعاہے کہ آپکے کاموں میں برکت عطا فرمائے اور اپنی امان میں رکھے ہمیشہ !آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
یہ الگ بات ہے کہ میرے بجلی گھر میں ایک چندابیٹری سیل اور ایک دو ہائیڈروجن کے ایٹم ہو ں گے ۔وہ بھی بغیر آئسو ٹوپس ۔
 

فاخر رضا

محفلین
آج پھر پورا پڑھ گیا. وہی مزہ آیا. لکھتے رہیے
ہمارا بچپن (جو ابھی ختم نہیں ہوا) پہاڑ گنج کے پچھواڑے، ڈی سلوا کے سائے میں گزرا. دوستوں کے ساتھ آپ کی کئی گلیوں میں مجبوراً جانا رہتا تھا
 

فاخر رضا

محفلین
کڑاہی کھانے کا اتفاق چند ایک مرتبہ ہی ہوا. دال کبھی نہیں کھائی.
بختیاری یوتھ سینٹر میں دوڑ ضرور لگائی مگر اس سے زیادہ نہیں
 

مزمل اختر

محفلین
عزیزانِ من، آداب!

ویسے تو چار سال اور چودہ سو مراسلوں کے بعد رسمی تعارف کروانا شدید قسم کا تکلف معلوم ہوتا ہے، مگر ہم ٹھہرے ایک قدامت پسند اور روایت پرست انسان (یہاں لفظ انسان کے استعمال پر اشکال ہو سکتا ہے، چلیں وہ آدمی سمجھ لیں جس کو انسان میسر ہونا دشوار ہوتا ہے)۔ سو تاخیر سے ہی سہی، مگر اپنے بارے میں کچھ نالائقِ بیان باتیں بتائے دیتے ہیں۔

جب بات رسم و رواج کی پاسداری پر آن پہنچی ہے تو لازم ہے کہ پہلے اپنا نام بتایا جائے۔ سرکاری کاغذات میں اس خاکسار کا مکمل نام محمد احسن سمیع درج ہے، جس میں سے ہمیں عطا کیا گیا نام احسن ہے۔ محمد کا سابقہ عمومی رواج کے تحت نبی پاکﷺ سے عقیدت کے طور ہمارے خاندان کے تقریباً سبھی مردوں کے ناموں کے ساتھ لگا ہوتا ہے، جبکہ سمیع میرے والدِ محترم کا اسمِ گرامی ہے۔
انسان چونکہ فطرتاً حریص اور زیادہ کا طلبگار ہے، سو ہمیں بھی لگا کہ نام کی طوالت میں کچھ کسر باقی ہے۔ گویا دل میں ایک خلش سی رہتی تھی جو پیہم ایک ادھورے پن کا احساس جگائے رکھتی۔ ظاہر ہے کہ باپ دادا کے ناموں کے ساتھ تو کوئی چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں تھی، سو نام کو مزید لمبا کرنے کا ایک ہی طریقہ سوجھا کہ اگر اردو شاعری کو زیرِ مشق (یہاں مشق کو ستم پڑھیں گے) لے آیا جاوے تو مزید ایک نام کا لاحقہ تخلص کی رعایت سے اپنے نام کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے۔ ویسے تو اس جہان میں بڑا نام کرنے کے اور بھی طریقے معروف اور رائج ہیں جیسے کوئی علمی کارنامہ سر انجام دینا یا عوامی فلاح و بہبود کا کوئی کام کرنا۔ تاہم ہمارے خیال یہ سب غیر ضروری ہیں اور اضاعتِ وقت کا باعث ہیں۔ جب خود نام کو بڑا کیا جاسکتا ہو، تو بڑا نام کرنے کی مشقت میں کیوں پڑا جائے!!!
اس حوالے سے ہندوستان کے مشہور مفکر جناب علامہ ابن ناصر حسین مدظلہ العالی و دامت برکاتہم نے اپنی شہرہ آفاق تخلیق ’’از قیامت تا قیامت‘‘ میں کیا خوب فرمایا ہے
’’والدِ می گوید کہ نام بزرگی بر سر خواہد گذاشت
پسر ما نیز ہمین کار را خواہد کرد
اما ہیچ کس نمی داند
مقصدِ من کجاست؟‘‘
پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا
بیٹا ہمارا ایسا کام کرے گا
مگر یہ تو کوئی نہ جانے
کہ میری منزل ہے کہاں!
خیر، واپس مدعے پر آتے ہیں۔ سو اسی شوق کی پیروی میں ہم نے اپنے نام کے ساتھ راحلؔ کا ٹنٹنا لگا کر اتنا بڑا نام کر لیا کہ انٹرمیڈیٹ کے امتحانی اور یونیورسٹی کے داخلہ فارم بھرنا مشکل ہوگئے ۔۔۔ اور ہمارا سر فخر سے اتنا بلند ہوگیا کہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا کہ اس دوران ابا محترم اپنا سر پیٹ رہے تھے۔ ہماری اماں کا البتہ یہ خیال تھا کہ نام کے ساتھ تخلص جوڑنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں راحلؔ کے بجائے کاہلؔ زیادہ مناسب اور بامسمیٰ ہوگا! ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے کافی دبیز چمڑی پائی ہے (جس کو ایک آپریشن کے دوران اطبا نے باقاعدہ سندِ تصدیق عطا کی) سو ہم نے والدہ کے اس تاثر کو داد و تحسین گردانا اور آٹوگراف دینے کے لیے ان سے قلم اور کاغذ بھی طلب کر لیا۔ یہ اور بات ہے کہ آخر میں آٹوگراف والدہ کے پاپوش کا ہماری پشت پر ثبت ہوا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا، ہم بھی بہت ڈھیٹ، ہمارا مطلب ہے کہ سخت جان واقع ہوئے ہیں تو اس نشان کو ہم نے والدین کی امیدوں کا بوجھ سمجھ کر اپنی پشت پر بخوشی لاد لیا۔

ناچیز کی ولادت ملکِ پاکستان کے عروس البلاد کراچی میں سن ۱۹۸۴ عیسوی میں ہوئی۔ اسلامی تقویم کے حساب سے ان دنوں رمضان کا مہینہ چل رہا تھا۔ عموماً رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے میں پیدائش کا (خوشگوار) اثر انسان کے اعمال و اخلاق پر پڑتا ہے۔ ہمارے کردار پر پڑے اثرات میں سے اب تک جو اثر سامنے آیا ہے، جس کی سرکاری سطح پر تصدیق کی جاسکے، وہ محض بسیار خوری، ہمارا مطلب ہے کہ وہ خوش خوراکی ہے جس کا مومنین رمضان المبارک میں خاص اہتمام کرتے ہیں۔ سنِ ولادت کے اعتبار سے خاکسار اب عمرِ رواں کے ۳۷ ویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ اگرچہ دیکھنے والے بالوں کی سفیدی اور پیٹ کی ’’فربگی‘‘ کے سبب اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوجاتے ہیں، تاہم ہمارے خیال میں ہمیں ایسی کوئی ضرورت لاحق نہیں کہ جس کی وجہ سے ہمیں اپنی عمر چھپانے کی جھنجھٹ میں پڑنا پڑے۔ بلکہ جب کوئی ہمارے جثے کو دیکھ کر مرعوب ہونے لگتا ہے تو ہم واقعی یہ تمنا کرنے لگتے ہیں کہ کاش ہم آٹھ دس سال پہلے پیدا ہو چکے ہوتے تو آج کم از کم ذہنی سطح ہی کسی ۳۷ سالہ شخص کے مساوی ہوتی!

بچپن پورا کا پورا شہرِ کراچی میں ہی، اس شہر کو حجلۂ عروسی سے گوشۂ بیوگی کی جانب بڑھتا دیکھتے، بسر ہوا۔ والد صاحب مجلسِ اعلیٰ ثانوی تعلیم کراچی میں ملازم تھے سو اسی نسبت سے شمالی ناظم آباد میں سلسلہ کوہِ ڈی سلوا کے دامن میں واقع مرکزِ شباب بختیاری سے متصل سرکاری رہائش گاہ میسر تھی۔ بچپن سینٹ جوڈز ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کرتے، یوتھ سینٹر کے (مبینہ طور پر) کسی قدیم قبرستان ملبے پر تعمیر کیے جانے کے سبب وہاں موجود بھوتوں اور جنات کے قصے سنتے، محلے میں کرکٹ کھیلتے اور ڈی سلوا کی مشہور کوئلہ کڑھائی اور دال فرائی کھاتے گزرا۔ سن ۲۰۰۰ عیسوی میں الحمدللہ میٹرک کا امتحان (غیر) امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ سن ۲۰۰۲ میں آدمجی کالج، گرومندر سے (مزید غیر) امتیازی نمبروں سے کیا۔ چونکہ ہم انسانی مساوات کے قائل ہیں اس لیے امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کرنے کے ہمیشہ مخالف رہے ہیں کہ اس سے امتیازی سلوک کی بُو آتی ہے۔ اپنے اس جذبۂ مساوات کی قیمت جب ہم انٹر کے امتحانات کے رزلٹ کی صورت چکا چکے (اے ون کے بجائے محض اے گریڈ لاسکے) تو پتہ چلا کہ دنیا ابھی ہماری انقلابی سوچ سے کتنی پیچھے ہے! سو اس دنیا کی فرسودہ سوچ پر کفِ افسوس ملتے ہوئے ہم جامعہ کراچی میں شعبہ کیمیکل انجینئرنگ میں داخلہ لے کر علامہ جنید جمشید رحمۃ اللہ علیہ کے اس ارشادِ مبارک کو پاؤں تلے روندنے لگے
؎ ہم کیوں چلیں اس راہ پرجس راہ پر سب ہی چلے
کیوں نہ چنیں وہ راستہ جس پر نہیں کوئی گیا

تاہم سینے میں آتشِ انقلاب کی چنگاریاں ابھی تک اڑ رہیں تھی سو ہم اپنی وضع نہ بدلتے ہوئے سن ۲۰۰۶ میں جامعہ کراچی سے مزید غیر امتیازی نمبروں سے فارغ ہوئے۔ دورِ طالبِ علمی میں شعر و شاعری پر ستم جاری رہا۔ کل کراچی سطح کے طلبہ مشاعروں میں شرکت بھی رہی اور انعامات بھی جیتے۔ جامعہ سے فراغت کے بعد جب پیشہ ورانہ زندگی کا مرحلہ شروع ہوا تو اردو شاعری کو کچھ عرصہ سکھ کا سانس لینا نصیب ہوا۔ ابتدائی جد و جہد کے بعد جب پیشہ ورانہ زندگی میں کچھ ٹھہراؤ آیا تو ذہن ووبارہ شاعری کی طرف مائل ہوا ۔۔۔ مگر شاعری اتنے عرصے میں زیر زمین جا کر کامیابی سے روپوش ہوچکی تھی۔ شاید کراچی کے سیاستدانوں کی طرح لندن فرار کی تاک میں تھی! تاہم جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہم بھی بہت ڈھیٹ، ہمارا مطلب ہے کہ مستقل مزاج واقع ہوئے ہیں سو ہم بھی لمبر ون ایجنسی کی مثل اس کے تعاقب سے دستبردار نہیں ہوئے اور بالآخر اس کی گردن کو اس قدر زور دبوچا کہ آج تک حلقۂ اربابِ ذوق اس کی چیخیں سن کر عبرت پکڑتا ہے!

سن ۲۰۰۷ سے ۲۰۱۷ تک مختلف مقامی اور کثیر القومی کمپنیوں میں کام کیا۔ ۲۰۱۵ میں خیال آیا کہ ابھی بھی کچھ کمی سی محسوس ہوتی ہے۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد یہ منکشف ہوا کہ اعلی تعلیم کو خود سے مزید مزین کرنے اشد ضرورت ہے، سو الاختصاص فی ادارۃ الاعمال (تمویل و زنجیرِ رسد) کی تحصیل کے لیے آئی بی اے کراچی میں داخلہ لیا۔ کورس ورک مکمل کرلیا تھا، محض تھیسسز باقی تھا کہ ۲۰۱۷ میں ہماری روزی روٹی ہمیں کھینچ تان کر ملکِ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم لے آئی۔ تب سے اس تعارف کے قلم برداشتہ کیے جانے تک یہیں مقیم ہوں۔

اگرچہ ہماری اوصافِ ذاتیہ کی کامل آگہی کے لیے یہ چند سطور ناکافی ہیں، تاہم مزید کچھ بیان کرنے پر امکان ہے کہ کوئی ہم سے سچ مچ متاثر نہ ہو جائے۔ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، اسی طرح ایک اردو محفل میں دو کاہلوںؔ، ہمارا مطلب ہے راحلوںؔ کا ہونا بھی کچھ کم خطرناک نہ ہوگا۔

والسلام۔
بہت شاندار بھائی جان پڑھ کر مزا آگیا اللہ آپ کو دنیا آخرت کی بھلائی عطا فرمائے آمین
 
Top