پروف ریڈ اول نو طرز مرصع

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر161

تاہنوز اُس رموزداں سرایر عشق کے نے کلام موالات التیام سے فراغت نہ پائی تھی کہ یکایک، فوج زنگیان زشت روستیزہ خود وحشیان درشت گو آزرم جو، ہر چہار طرف سے آ ٹوٹے اور میرے تئیں زخم ہائے کاری سے رشک تحتئہ ارغوان کا کیا۔ پھر اس عاجز کو خبر تن بدن اپنے کی نہ رہی۔ جس وقت کہ دریائے بیہوشی کے اوپر ساحل افاقت کے آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ دو پیادے سرہنگ زادے میرے تئیں اوپر چارپائی کے ڈال کر لے جاتے ہیں اور آپس میں ساتھ اس کلام کے متکلم ہیں۔ ایک نے کہا کہ اس لوتھ بے جان کو صحرائے پُر جوش واشباح میں ڈال چلو کہ غذا کُتوں اور کووں کی ہو۔ دوسرا بولا کہ اگر ملکہ تحقیقات کرے اور اس احوال پر اطلاع پاوے، تو مقرر ہے کہ جیتا گڑوادے گی۔ پس تجھ کو زندگی اپنی عزیز نہیں کہ اس طرح بے تمیزی سے بات کرتا ہے۔ تب میں نے یاجوج و ماجوج سے ازراہ عجز و الحاح کے کہا کہ یارو میں زندہ ہوں اور یہ کیا ماجرا گزرا، اگر میرے تئیں راز سے مطلع کروگے، تو بعید مروت و جوانمردی سے نہ ہوگا۔ تب اُن عزیزوں نے حقیقت احوال اس واردات کے تئیں، اس طرح سے اوپر لوح بیان کے نگارش کیا کہ یہ جوان قفس فولادی میں برادر زادہ بادشاہ کا ہے۔ وقتِ رحلت کے باپ اس کے نے کہ صاحب تاج و تخت کا تھا برادر اپنے کو ولی عہد کرکے وصیت کی کہ فرزند عزیز بہ موجب خورد سالگی کے بیہوش و صغیر ہے۔ لازم کہ تعہد خلافت و فرمانروائی و قواعد سلطنت و کشور کشائی کا از راہ دولت خواہی دکار آگاہی بہ فصل الٰہی بوجہ احسن سرانجام دیجیو اور جس وقت کہ لعلِ شب چراغ کان ابہت و شہریاری کا حد بلوغ کو پہنچے تو ساتھ دختر خجستہ سیر اپنی کے نکاح کرکے اوپر تخت سلطنت مختار اور شہریار کیجیو۔ پس بعد واقعہ جاں کاہ فردوس آرام گاہ حضرت ظل اللہ کے برادر کوچک والی افسر واورنگ خلافت کا ہوا۔ بیچ امانت کے خیانت اور عہد سے بد عہد ہوکر شاہزادہ کو ساتھ دیوانگی کے نسبت دے کر، بیچ پنجرہ فولادی کے محبوس اور اِرث سے مایوس کر چوکی مستحکم او پردرواہ باغ کے تعین کی، بلکہ اکثر دفعہ زہر ہلاہل سے مسموم کیا، جو زندگی باقی تھی کارگر نہ ہوا اور دونوں عم زادے، آپس میں منسوب بلکہ
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۱۸۶

جدائی تمہاری نشتر زن جگر کی ہو ؎
گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل
اسی فکر میں شب وروز باگریہ دلسوز میری گزرتی ہے بلکہ کمال سودا ہے، دیکھیے کیا صورت واقع ہو اور نقش مدعا کا کس پہلو نہ بیٹھے۔ در جواب اس کے اُس دانش پناہ عشق آگاہ نے کہا کہ اے فرزند اگر مرکوز خاطر مبارک کا یوں ہے کہ یہاں سے کوچ کیجیے تو بسم اللہ۔
فرد
اگر ملنا ہے اپنے باپ سے ، کاہے کو دکھ کھینچو
ابھی غم سے نکل کر دل کو اپنے شاد کر ڈالو
مجھ کو یہاں کسی کی اُلفت دامن گیر خاطر کی نہیں کہ جس سبب سے پابند اس ملک کا ہو رہوں بلکہ عین خوشی و خاطر یوں ہے کہ جس میں رضامندی تمھاری ہو، بجا لانا اس کا از جملہ واجبات ہے۔ دختر وزیر کی نے، اس بات کے سننے سے مانند زر کے شگفتہ ہو کر بیچ طیاری ۵۸۹ اسباب روانگی کے قَد غن بَلخ ۵۹۰ فرمایا اور ایک ہفتہ کے عرصہ میں سب اسباب لاد کے نَقارہ کوچ کا بلند کیا۔ بہ فضل الہیٓ بعد انقضائے عرصہ دو ماہ کے وہ قافلہ با سودا گر پیر مردوسَگ بے نظیر بیچ ولایت قلمرو میری کے آ پہنچے اور بیچ باغ بادشاہی کے رخت اقامت کا ڈالا۔ پس ایک شہرۂ عظیم تاجر کے آنے کا بیچ ہر کوئے وبرزن کے پڑا۔ دختر وزیر نے بیچ خدمت مادر مہربان کے پہنچ کر آداب تسلیمات و کور نشات بجا لا کر عرض کیا کہ دو روز کی مہلت اور ہو تو والد بزرگوار کو قید و زنداں سے خلاصی دے کر گوشۂ اخفا کے بیچ بیٹھوں۔ بارے بادشاہ نے سواری واسطے سیر باغ طلب کی ۔ پس جس وقت کہ شہسوار آفتاب کا بیچ جولاں گاہ عرصہ سپہر کے نمودار ہوا میں نے اپنے تیئں بیچ باغ کے پہنچایا اور سوداگر کو مع کتّے اور پِنجرہ فولادی کے حضور طلب کیا۔ بہ موجب حکم کے اُس سوداگر نے تحفہ ہائے عجیب و غریب نذر

صفحہ ۱۸۷

گزرانے۔میں نے احوال سگ پرستی اور قید کرنا دو جوانوں کا استفسار کیا کہ راست بے کم و کا ست مُفَصل بیچ حضور لامع النور کے اظہار کر ۔ تاجر نے بہ مقدور خود بیچ اِخفائے راز سربستہ کے دریغ رکھا لیکن بدون اظہار اسرار کے مخلصی نہ دیکھی بقول اس کے ؎
نہاں کے ماندآں رازے کزوسازند محفل ہا

صفحہ ۱۸۸
بیان سر گزشت خواجہ سرپرست
عرض کیا کہ حضرت سلامت یہ غلام عقیدت اِلتیَام سوداگر بچہ ہے اور دو نَوجوان قفس فولادی میں برادران کلاں اس بے سروساماں کے ہیں۔ جس وقت کہ والد بزرگوار والا تبار اس خاکسار کے نے جہان فانی سے رخت ہستی کا طرف سرائے جاودانی کے کھینچا۔ بقول اس کے ؎
رباعی
جیسا ہی کہ ہلکا ہے گا، آنے کا رنگ
ویسا ہی سبک تر ہے گا، جانے کا رنگ
دنیا کی ہے چال بندی یارو حسرتؔ
فانوس خیال ہے گا، زمانے کا رنگ
اور مال بسیار دولت بے شمار ترکہ چھوڑا۔ یہ دونوں عزیز مصر بے تمیزی کے قابض و متصرف ہوئے۔ بعد فراغت ماتَم داری کے باہم مصلحت کر کے میرے تیئں بُلایا اور کہا جو کچھ مالیت

صفحہ ۱۸۹
پدرکی سے نقد اور جنس ہے حِصَّہ رسد بہ موجب شَرع کے تقسیم کر لیں اور جس کے جی میں جو آرزو ہووے ہوس دل کی نکالے اور چاہے سو کرے بقول اس کے : ع ہر کسے مصلحت خویش نکومی داند میں نے عرض کیا کہ اگر مربی موا تو کیا غم ہے ، تم دونوں بزرگ بجائے پدر میرے سر پر سلامت ہو۔ مجھ کو سوائے کھانے اور کھیلنے کے کچھ اور سروکا ر نہیں ہے بلکہ امیدوار تعلیم کا ہوں کہ سعی موفورہ تمہاری سے ساتھ علم و ہنر کے بہرور ہوں مجھ کو حصہ بِرادرانہ سے کچھ غرض نہیں۔ یہ دنیا چند روزہ ہے بہ قول اس کے ۔
رُباعی
جب تک رہی جگ میں زندگانی حسرتؔ
تب تک سُنی دہر کی کہانی حسرتؔ
دیکھا تو یہ حیث و بحث ناحق کا ہے
ہے خواب و خیال زندگانی حسرتؔ
درجواب ان دونوں برادران یوسفی نے کہا کہ اگر سِن تمیز اور عنفوان شباب میں تو دعوا حصہ مال پدری کا کرے اور یہ مال ہم سے تلف ہو جاوے تو پھر عہدہ بر آ ہونا مشکل ہے۔ اگر حضور حاکم وقت کے بہ رضا و رغبت اپنے فارغ خطی بہ مہر قاضی و مفتی و گواہی اکا بران شہر کے لکھ دے تو کیا مضایقہ، ہم از راہ شفقت برادرانہ تجھ کو پرورش کریں گے۔ میں نے بہ موجب اِستدعا اُن کے لا، دعویٰ ورثہ باپ کے سے لکھ دیا اور رہنے لگا۔ بعد چند روز کے بقول آنکہ
ع خوے بدرابہانۂ بسیار
میرے تیئں گھر سے خارج کیا اور صاف جواب دیا۔ قبلہ گاہ رضواں دستگاہ اس فدوی کو نہایت الطاف اور اشفاق سے پرورش کرتا تھا اور باعث خورد سالی کے بہ نسبت ان دونوں کے قرب منزلت میری دل میں زیادہ رکھتا تھا چنانچہ جب کبھی کہ وہ مشفق شفیق واسطے

صفحہ ۱۹۰
تجار ت کے مرحلہ پیمائے ملک و دیار کا ہوتا تو ایک تحفہ ، واسطے میرے مقرر لاتا چنانچہ ایک یہ کتّا اور دو غلام میرے تھے۔ ایک روز کی نقل ہے کہ قبلہ گاہ نے بیچ حین حیات اپنی کے مجھ سے بیچ خلوت کے کہا تھا کہ اگر یہ دونوں بھائی تیرے تجھ سے بدسلوکی کریں اور حصہ برادرانہ سے محروم رکھیں تو وہ جو فلانی حویلی تیرے نام کی ہے اور اس کے صحن میں جو شجر رشک طوبی کا سایہ انداز ہے، نیچے اس درخت کے پانچ ہزار اشرفی ایک حوض میں زیرزمیں امانت سپرد کی ہیں، وہاں سے لیجیو۔ اور صرف وجہ معاش اپنی کا کیجیو۔ پس میں اُس حویلی میں جا رہا اور یہ بھائی کہ ناواقف تھے خاموش رہے اور مزاحم احوال میرے کے نہ ہوئے اور وہ حویلی قبضہ میرے میں چھوڑی ۔ تب میں نے اُس زرپردستگاہ پا کے دوکان تجارت کی ترتیب دی اور گونہ اعتبار بیچ شہر کے پیدا کیا اور یہ دو غلام وفادار بیچ خدمت کے حاضر تھے۔ بعد عرصہ تین سال کے میرے تیئں مال بِسیار و دولت بے شمار و عزت و اعتبار دوکان تجار کے حاصل ہوا۔ ایک روز غلام میرا زار زارو بے قرار نہایت پر اِضطرا دوڑا ہوا آیا اور کہا کہ تمھارے دونوں بھائیوں کو ایک یہودی ضرب و شلاق کر رہا ہے، مشکیں بندھی ہیں اور تازیانے پڑتے ہیں ۔ یوں بھائیوں سے تم نے جو دل سخت کیا ہے ، جانتے ہو اُن کا کیا حال ہو رہا ہے۔ یہ بات سن کر بے اختیا ر گھر سے برآمد ہوا اور اُس معرکے میں آ کر اُس یہودی سے پوچھا کہ ان بندہ ہائے خدا نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس قدر ظلم اور ستم تو روا رکھتا ہے۔ اُن نے درجواب کہا کہ اگر تجھ کو ان پر رحم آتا ہے تو تو زرہما را دے اور ان کو چھڑا لے۔ میں نے اُسی وقت مبلغ خطیر کے کر ان کو چھڑا کر اپنے ڈیرے لایا اور علاج جراحت ہائے نہانی کا کر کے حمام میں نہلایا اور خِلعت پوشاک فاخرہ پہنایا۔
فرد
تقدیر میں جو کچھ ہو سو ہو وے ہو وے
تدبیر کا کیا حال دکھاوے رووے

صفحہ ۱۹۱
کچھ تفتیش احوال کی نہ کی کہ باعث خجِالت اور شرمساری ان کی کا ہو گا۔ چند روز خوش و خرم باہم اور سب بات سے بے غم رہے، ایک روز میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید یہ ہمراہی میری سے ، غصہ کھاتے ہوں، کس واسطے کہ اعتبار اور آبرو تاجر کی سفر سے ہے۔ پس تمامی مال اپنے کے تین حصہ کیے۔ ایک حصہ میں نے رکھا اور دو حصے ان دونوں بھائیوں کو دے کر روانہ ترکستان کا کیا اور غلام و نَفَرو اَسپ و اُشترو خیِمہ و خَرگاہ و سایر ضروریات کے سے ہر ایک کو جدا جدا اسباب تیار کر دیا اور بلکہ قافلہ سالار سے سفارش کر کے کہ ان کو زیر سایہ اپنے کے رکھیو اور ہر چیز سے ممدو معاون رہیو، وداع کیا اور کہا۔
فرد
رخصت ہوتا ہے مرا یار، خدا کو سونپا
کیا کروں بس نہیں لاچار، خدا کو سونپا
بعد ایک مدت کے جو سوداگروں نے معاوَدَت کی ، میں منتظر شب وروز چشم براہ تھا کہ سب قافلہ آیا، دیکھتا کیا ہوں کہ بھائی میرے قافلے کے ہمراہ نہیں ہیں۔ ایک شخص سے جو تحقیقات احوال کا کیا تو اُن نے کہا کہ ایک بھائی تمہارا مال قماربازی میں ہارا اور فقیر ہوا۔ اور دوسرا ایک شورہ گر کی لڑکی پر عاشق ہو کر اور سب مال اس کے پیچھے صرف کر کے بہ زبان حال یوں پڑھتا ہے:
رباعی
احوالِ دلِ خراب ظاہر تجھ پر
دل سوختہ و کباب ظاہر تجھ پر
اس پر تُو جلا جلا کے مارے ہے جان
ہے اس کا خیال و خواب ظاہر تجھ پر

صفحہ ۱۹۲
سننے اس ماجرائے جاں گداز کے سے ازراہ غیرت کے دیوانہ ہوا اور خواب و خوراپنے اوپر حرام کی۔ بعد ازاں مال و جواہر ہمراہ لے کر بہ طریق یلغار اُس شہر میں جا پہنچا اور تحقیق کر کے انھیں بیچ فَرودگاہ ۵۹۱ اپنی کے لایا اور حمام کرا کے پوشاک پہنائی اور کچھ بازپُرس نہ کی کہ باعث خجالت کا ہو گا۔ اُسی شہر میں ہر ایک کے واسطے مَتاع اور اَسباب خرید کیا اور تہیہ سفر کا کر کے روانہ وطن کا ہوا۔ جب کہ نزدیک آیا اُن کو دو منزل چھوڑ کر اپنے تئیں داخل شہر کا کیا اور سب سوداگروں سے کہا کہ ہمارے بھائی آتے ہیں استقبال کے واسطے تیار ہو کہ بہ عزت و حرمت تمام درچشم ہم چشماں رونق افزائے وطن مالوفہ کے ہوں کہ اس اثنا میں ایک شخص نالہ و گریاں میرے پاس آیا اور کہا کہ کاش تمہارے بھائی اس راہ سے نہ آتے کہ از باعث شُہرہ مالیت انہوں کے ، ڈاکہ اُن پر پڑا اور تمامی اموال بہ غارت گیا بلکہ کئی آدمی مارے گئے۔ میں نے پوچھا کہ وے دونوں کہاں ہیں ، کہا کہ برآمد شہر کے اوپر عُریاں و برہنہ بیٹھے ہیں ۔ فی الحال رخت بھیجا اور بلا کر گھر میں رکھا۔ چنانچہ چند روز بسر لے گئے ایک روز بہ طریق مصلحت کے انہوں سے کہا کہ ارادہ سفر کا درپیش رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ہمراہ تمہار ے روانہ ہندوستان کا ہوں ۔ دونوں نے کہا کہ ازیں چہ بہتر۔ پس مع احمال و اثقال ۵۹۲ اوپر کشتی کے سوا ہوئے اور لنگر اُٹھا کر بادبان کھول دیے۔ قضا یاًبرادراں کلاں کے تئیں ساتھ کنیزک میری ک تعشق پیدا ہوا۔ چنانچہ ان نے برادر دوسرے کے ساتھ کہ ’مرادمنجھلے بھائی سے ہے مصلحت کی اور کہا:
فرد
چھوٹی نہ یہ بت پرستی ہم سے حسرتؔ
ایسا ہی ملا ہے یار اللہ اللہ
ان نے کہا کہ چھوٹے بھائی کو بیچ میں سے اٹھا ڈالیے اور عیش بے وسواس کیجیے پھر اس کنیز پر اور ہر چیز پر کہ ہم کو عزیز ہے، قابض و متَصرف ہوں گے۔ صلاح یہ ہے کہ اس کے

صفحہ ۱۹۳
تئیں دریا میں ڈالا چاہیے، تو گو ہر مقصود کا بیچ ہاتھ کے آوے ، القصّہ ایک رات بیچ خواب کے سرشار تھا، برادراں کلا ں نے پکارا کہ اے بھائی یہاں آوو اور قدرت الہیٓ کو بہ چشم خود تماشا کرو کہ دریا میں حق تعالیٰ نے کیا کیا خلقت پیدا کی ہے کہ ایک آدمی شاخ ہائے مرجاں ہاتھ میں لیے ناچتا اور کیا کیا تماشے کرتا ہے۔ میں بہ مجرد سُننے اس بات کے مخمور آنکھیں ملتا ہوا اوپر لبِ کشتی کے آ بیٹھا اور جھک کر دیکھنے لگا۔ ایک برادر نے ٹانگوں میں ہاتھ ڈال کر اور پیچ کشتی کا خرچ کر کے میرے تئیں اوندھا دریا میں ڈالا۔ ہر چند شناوری کر تا تھا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ بارے ورطۂ ہلا کت میں کتا میرے ہاتھ میں آ گیا اور میں نے اپنے تیئں سبک کیا۔ پس بعد ہفت شبانہ روز کے بدستیاری اس سگ وفادار کے اوپر ساحل دریا کے پہنچا او ر برائے تحصیل قوت کے افتاں و خیزاں راہ آبادی کی لی، تا آنکہ بیچ ایک شہر کے داخل ہو کر برسر بازار آن کھڑا ہوا۔ ناگاہ دو شخص بہ لباس عجمی سامنے سے نمودار ہوئے۔ شکر الہیٓ کا بجا لایا اور جی میں تصور کیا کہ شاید آشنا ہوں گے، چاہیے کہ رفع حاجت گرسنگی ۵۹۳ میری کریں اور رعایت ہم وطنی بجا لا ویں ۔ جب کہ اور نزدیک آئے معلوم ہوا کہ دونوں برادر بہ جان برابر ہیں۔ میں نے دو ڑکر سلام کیا اور پاؤں پر لوٹ گیا۔ وہ دیکھتے ہی نہایت متعجب اور متحیر ہوئے۔ اتنے میں برادر میانہ یعنی منجھلے بھائی نے ایک طمانچہ میرے منھ پر مارا۔ میں برادرکلاں کے دامن میں جا چھپا اُن نے بھی ایک لات ماری ۔ غرض ان دونوں بے رحم ستمگار نے میرے تیں بعد زجرو تو بیخ خوب شلاق کیا۔ ہر چند خدا اور رسول کو شفیع لا کر عجز و الحاح کرتا تھا، کچھ فائدہ نہ تھا۔ تب میں نے یہ بند مخمس کا حسب حال اپنے پڑھا ؎
بے وفا ہر گز وفا پر جی کے تیں لانے کے کی نٔیں
بھول کر بھی یہ مروت کی طرف آنے کے نٔیں
شیوۂ جوروجفا سے اپنے پھر جانے کے نٔیں
غم ترایہ سنگدل، اے دل، کبھو کھانے کے نٔیں
اِن کی اُلفت میں نہ دل آنسو بہاوے یاں تلک

صفحہ ۱۹۴
تاآں کہ خلقت اُس شہر کی جمع ہوئی اور گناہ میرا پوچھا۔ دونوں صاحبوں نے گریبان پارہ کیا اور کہا کہ یہ بدبخت ہمارے بھائی کا نوکر تھا، اُس کو دریا میں ڈالا اور مال پر خود قابض و متصرف ہوا، ہم جستجو اس کی میں مدت سے تھے آج پایا ہے۔ اس عر صہ میں چند نَفرپیادہ حاکم کے کہ بیچ سرہنگی عمروعیار سے بھی گوئے سبقت کی لے گئے تھے آ پہنچے اور میرے تئیں کشاں کشاں بہ ایں حالت پریشاں و بد سلوکی برادراں و خویشاں ، روبرو حاکم کے لے جا کر کھڑا کیا اور قصاص چاہا۔ سو اشرفی کارسازی حاکم نے قبول کی کہ اس کو جی سے مارا چاہیے تا کہ عبرت اوروں کو ہووے اور کوئی شخص ایسی نمک حرامی پر جرأت نہ کرے۔ حاصل کلام کا یہ ہے کہ رسّی میرے گلے میں ڈالی، اور سولی پر باندھا اس وقت سوائے اُن دونوں بھائیوں کے کوئی آشنا نظر نہ پڑتا تھا مگر یہ کتا کہ احوال میرا دیکھ کر ہر ایک کے پاؤں پر لوٹتا تھا۔ اور میری نظر طرف آسمان کے تھی کہ اس وقت میں دست گیر درماندگان کوئے ناکامی و چارہ ساز بے چارگان عالم بے سر انجامی سوائے خداوند حقیقی کوئی نہیں، خیر جو کچھ کہ میری قسمت اور نصیب میں ہے راضی و شاکر ہوں بقول اس کے یہ اشعار ؎
کون ہے جُز خدا کسی کا کوئی
کہ سُنے مدعا کسی کا کوئی
مادر و خواہر و زن و فرزند
نہیں ہے آشنا کسی کا کوئی
اس اثنا میں حاکم کے تئیں درد قولنج کا بہ شدت پیدا ہوا۔ اُس وقت ایک شخص اَعیان ۵۹۴ اُس کے سے کہتا تھا کہ بَندیوانوں ۵۹۵ کو قید سے خلاص کرو تا بہ دعائے مسکیناں و محتاجاں شفائے کامل حاصل ہو۔ فی الحال ایک خواص سوار ہوار اور گزر اُس کا طرف دار اس ناپائیدار کے پڑا۔ رِیسمان ۵۹۶ میرے گلے کی شمشیر سے قطع کی اور زندان خانے میں جا کر سب بندی آزاد کیے۔ میں نے رسّی گلے اپنے سے دور کی اور شکر الہیٓ بجا لا کے باہر آیا اور اُس شہر سے اپنے تئیں نکال کر افتاں و خیزاں بیچ ایک قریہ کے پہنچا ۔ ایک فقیر اس مکان میں سکونت

صفحہ ۱۹۵
رکھتا تھا۔میں نے اس کے تئیں سلام بادَب تمام کیا او ر جاتے ہی بیٹھ گیا۔ بعد ایک ساعت کے ماحَضر واسطے درویش کے لائے۔ چنانچہ اُن نے کھانا میرے تئیں بھی کھلایا۔ بعد فراغ طعام کے متوجہ اوپر حال اس بے حال کے ہو کر احوال پُرسی میر ی کی کہ بابا کہاں سے آیا اور حقیقت اپنی کہہ۔ میں نے عرض کیا ؎
نالہ ہمارے دل کے غم کا گواہ بس ہے
دینے کے نٔیں شہادت انگشت آہ بس ہے
درکار نٔیں زباں سے کہنا بیان غم کا
اے آبؔرو ہمارا حال تباہ بس ہے
فقیر روشن ضمیر نے اوپر احوال تباہ میرے کے نہایت تاسُّف کیا۔ اس عرصہ میں ایک مرید اس کا دس تو مان ۵۹۷ نذر لایا۔ فقیر نے وہ مبلغ خطیر مجھ کو دیا او ر کہا یہ سرمایہ لے، خدائے تعالیٰ اس زر سے تجھے بہت برکت دیوے گا، ہو سکے تو ادائے دین کا کیجیو، واِلاّ خیر، میں نے معاف کیا۔ پس میں دعائے خیر کہہ کر روانہ ہوا۔ برکت اُس دس تو مان زر سے بہ شماردہ سو روپے ہوئے۔ بعد ایک سال کے کہ پھر اُس گاؤں میں واسطے ملازمت اس فقیر کے پہنچا تھا، چالیس غلام بہ کمر مرصّع دست بستہ بیچ خدمت اپنی کے رکھتا تھا۔ مال بے شمار بیچ حضور اُس مرد خدا کے لا کر قدم بوس حاصل کیا او ر کہا کہ بہ یمن دعائے فقیراں کہ شامل حال فرخندہ مآل اس خادم الفُقریٰ کے ہے، بہ ایں جمعیت اور حشمت پہنچا اور ہر چند میں نے چاہا کہ کچھ قبول کرے ، ہرگز نہ لیا۔ بعد دو تین روز کے خدمت اس بزرگ کے سے روانہ ہوا۔ اور ایک شہر میں پہنچا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ خلقت بسیار جمع ہے اور ہر چہار طرف سے غُل ہو رہا ہے۔ میں نے جو سبب پوچھا تو یہ کہا کہ دو چور پکڑ ے گئے ہیں کہ واسطے چوری کے حاکم کے گھر میں بیٹھے تھے۔ اب ان پر سیاست ہے۔ غور کر کے جو دیکھا تو معلوم کیا کہ وے دونوں بھائی ہیں ، خون برادری کمال جوش پر آیا اور حاکم کے ہاتھ سے بہ عوض مبلغ خطیر چھڑوا کر اپنے مکان پر لایا اور پوشاک پاکیزہ پہنا کر پوچھا کہ اے برادران ۔ کنیز من چہ شد۔ کہا کہ
 

سیما علی

لائبریرین
196-200
ریختہ ص
‎بیماری سے فوت ہوئی تب میں نے ازراو ألفت کمال کے کہا:
‎رباعی
‎ تم دور و یار ہم سے اتنا ہی ہے
‎دریا دریا
‎ہماری آنکھوں سے ہے
‎فرمان برادری کا اس سے آگے کیا ہے
‎جو جو کیے جور اور تم نے سو سو تو ہے
‎تامدت سه ماه اس شہر مینوچر کے اتفاق رہنے کا ہوا۔ بعد اس کے وہاں سے سفر کیا اور
‎بھائی ہمراہ تھے۔ جس وقت که نزدیک آبادی کے قافل فرود آیا وقت نماز عصر کا تھا کہ ہر دو
‎برادر نے کہا کیا چاہتا ہے کہ پیادہ پا ہو کر سیرصحرا کی کیسے کسی واسطے کہ یہاں کا رگا و نهایت
‎خوب ہے اور فرمانروا اس ملک کے نے تیار کروائی ہے۔ به موجب صلاح، انھوں کے باہم
‎پیادہ پا روانہ ہوئے ، جب کہ قریب ایک فرج کے نکل گئے اور اس مکان سے بھی نظر نہ آیا
‎میں نے پوچھا کہ شکار گاہ کہاں ہے، جو تم کہتے تھے۔ بردار میانی سراسر طوفانی نے کہا کہ
‎خاطر جمع رکھے اب کوئی دور میں منظور نظر ہوتا ہے۔ تا آن که متصل ایک چاہ کے پہنچے ۔اتنے
‎میں منجھلے بھائی صاحب کنویں کے سر پر آن کھڑے ہوئے اور کہا کہ ایک ایسا تماشا عجیب
‎اس میں نظر آتا ہے کہ ساری عمرنہیں دیکھا ہے۔ اشتعا لک اس کی سے برا در کلاں نے دوڑ
‎کر ملاحظہ کیا اور کہا کہ واقعی اس قسم کا کائنات آج تک نظر نہیں پڑا۔ بجان الشد آدی سے بھی
‎کچھ نہیں بچا ہے۔ یہ کلام سراسر ایهام سن کر میں بھی ازراہ سادگی اور محبت برادرانہ کے پچھلی
‎بدسلوکیاں ان کی بھلا کے اور اعتماد ان کے کلام پر لا کے متوجه طرف چاہ کے ہوا۔ جو میں
‎جھانک کر دیکھتا ہوں ، تو سوائے تاریکی کے کچھ نظر نہ پڑا۔ یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھ کو سوائے
‎اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا ہے کہ ہر دو برادران نے با قصد تمام میرے تئیں کنویں میں
‎دھکیل دیا۔

196
ریختہ
چہے چوں گور، ظالم تنگ و تیره
ز تاریکیش چشم عقل خیرہ

وہ چاہ اسی واسطے تھا کہ جو بادشاہ اس ولایت کا کسی پر پرغضب ہوتا تو اس کو کنویں میں
ڈلوادیتا۔ وہ شخص اجل گرفتہ چند روز میں بھوک اور پیاسا جان بھی تسلیم ہوتا۔ پس ان دونوں
تابکاروں نے قافلے میں جا کر اظہار کیا کہ بھائی کو بھیٹر یا لے گیا۔ نے اس حادثہ جاں گزا
کے سے اکثر دوستوں نے تاسف اور حسرت کر کے کوچ کیا۔ اس وقت بے کسی میں یہ سنگ
وفادار کے ہمراہ آیا تھا۔ برسر چاه اقامت پذیر رہا اور قاعده ی مقررکیا کہ ہر پگاه کو شہر میں
جاتا اور وہ قوت اپنالتا اور مجھ کو بھی پہنچاتا۔ ایک پیر زال ۵۹ اس نواح میں رہتی تھی، اور
اتفاقا چند سوچ پر از آب اس کے دھرے تھے یہ کتا اس کے نزدیک جا کر لوٹا اور اشاره
پانی کا کیا ۔ پیرزمان نے ایک ظرف سفالی میں پانی بھر کے رو برو أس کے احترا۔ کتا متوجه
آب نوشی کا نہ ہوا اور دامن اس ضعیف کا منھ میں پکڑ کر اشاره طرف چاہ کے کیا۔ ان نے قرینہ
عقل سے دریافت کر کے کہا کہ شاید کوئی شخص کنویں میں مقید ہوا ہے۔ ایک ڈول اور ری
لے کر وہ نیک بخت، بر سر چاه آئی اور ڈول پرآب تہ کنویں میں چھوڑا اور و به این نعت نعت
کرنے لگا۔ میں متوجطرف بلندی کے ہوا اور ڈول پر از آب سے پانی پی اور شکر بدرگاه
کارساز بے نیاز بالا یا۔ چنانچہ مدت شش ماه اسی وطیرے سے گزارے ایک روز ایک شخص
کو لائے اور کنویں میں ڈالا ۔ وو اول گروه ایرانی با ضرب گرا کہ ووسی پور میں انتقال کر
گیا۔ وقت نیم شب کے ایک ریسمان کنویں میں جو آئی، دیکھتا ہوں کہ ایک خوان طعام
ایکسپو چه پر از آب اس میں بندھا ہے، میں نے وہ کھانا نوش جان کر کے پانی پیا۔ اورری
کو حرکت دی اوپر والوں نے کھینچ لی۔ باقی جو کچھ پس خوردہ رہا تھا ان خدمت گاروں نے
کھایا اور کتے کو بھی کھلا یا ۔ ایک مہینہ تک اسی طور سے گزران کرنے کا اتفاق ہوا۔ ایک

ریختہ
197
روز شب کے وقت، آدھی رات میں کسی شخص نے رسی ڈالی اور بآواز ملائم کہا اے غریب
بے چارہ ستم رسیدہ سرریسمان کو کمر اور ہاتھ اپنے سے مستحکم باندھ۔ میں نے اس مژده
راحت افزاکے سے نہایت خوش ہو کے شکر بار گاہ الہی بج لا یا اور جی میں کہا کہ شاید ز مین کی
سیر کوئی روزوں اور بھی قسمت میں ہے اور وہیں رسی کو اوپر اپنے لپیٹا اور ان نے کھینچ لیا اور
اوپرآیا۔ فی الفور رسی کھول کے ان نے میرے تئیں ہمراہ کیا۔ ایک جا پر دور اس اسپ
ویراق حاضر کیے تھے ، ایک پر آپ سوار ہوا اور دوسرے پر مجھ کو سوار کیا اور تمام شب
مسافت بعید قطع کی۔ جس وقت کہ خاتون شب کی پلنگ پر سے اٹھ کے چھ خلوت خانے
مغرب کے گی اور ترک خورشید کا میدان صحراکے پرتو انداز ہوا۔ شعر
نپٹ یہ ماجرا یارو کڑا ہے
مسافر دشمنوں میں آ پڑا ہے
خدا حافظ ہے میرے دل کا یارو
کہ پتھر سے یہ شیشہ جا بھڑا ہے
برنگ ماہی بے آب نس دن
سجن میں دل ہمارا تر پھڑ ا ہے
کرے کیا آبرو کیوں کر نہ رووے
رقیباں کے صنم بس میں پڑا ہے
اس سوار ستم شعار نے، میری طرف نگا ہ خند و سے دیکھا اور تلوار نکال کر قصد ہلاک
میرے ایک وار چلایا۔ میں اس کی ضرب کو بچا کر گھوڑے سے اترا اور قدموں پڑا اور
نہایت عاجزی سے گڑگڑایا کہ میرے مارنے سے کیا حاصل ہوگا مثل ہے ، بگلا مارے پنکھنا
ہاتھ تب أن نے کہا کی اے کمبخت وہ جوان کہاں ہے کہ جس کے واسطے تخت سلطنت
کا چھوڑ کر آوار ہ و دشت ادبا ر کی ہوئی ہوں ۔ میں نے دریافت کر کے کہا کہ اے نازنین وہ

ریختہ
198
‎دیتا تھا اور اس قدر جزع و فزع عمل میں لایا کہ ان نے میرے حال پر رفت کی اور کہا
‎کہ سوار ہو وقت فرصت کا نہیں ہے۔ تمام روز افسوس و در یخ کیا اور میری طرف رخ توجہ کا
‎:فرمایا۔
‎آپ دلم خواستن آن می شود
‎ہر پ خدا خواست ما می شود
‎تا آں کہ آفتاب مغرب میں گیا اور ایک مکان پر طرح اقامت کی ڈالی۔ اس نے از راه
‎مهربانی کے احوال میرا پوچھا۔ میں نے جو کچھ کہ راست به راست تھا گزارش کیا۔ تب ملکہ
‎نے مجھ سے فرمایا کہمن، اے عزیز میں دختر روشن اختر فرماں روائے زیر آباد کی ہوں۔
‎ایک روز نظر میری ، شاف الصدق وزیر اعظم کے اوپر پڑی۔ یہ ٹرار جان و دل فریفتہ اور
‎عاشق اس کی ہوئی ، اور دایہ " محرم اسرارا پانی سے کہا۔ شعر
‎مرتی ہوں میرے حال پداپنظر کرو
‎کباخدا کے واسطے
‎اس کو خبر کرو
‎کس کو بس میں کر کے ساتھ مارتے ہو کیوں
‎وہ کچھ نہیں، خدا کا، تو تھوڑا باڈر کرو
‎اے نالہ ہائے شوق اگر تم میں درد ہے
‎اس سے ان کے دل میں توبا کراژ کرو
‎مبلغ نمایاں اور زیر بسیار کارسازی میں خرچ کیے۔ تا کہ خلوت میں بلا کر مقصد حاصل
‎کیا، چنانچہ ہر شب اتفاق ملاقات کا ہوتا تھا۔ ایک رات اس کو پاسبانوں نے التباس شب
‎رو میں پڑ ا اور بادشاہ کے حضور میں لے گئے ، به سبب اس کے کہ شب میں پہچان نہیں کہ پر

ریختہ
199
‎وزیر ہے۔ بادشاہ نے علم کا فرمایا۔ بعد از شفاعت واخواهان فرمایا کہ چاہ سلیمانی کے
‎ڈالیں۔ میں فکر کی بالائی کہ یار میرا مارا نہ گیا اور میں رسوائے خاص و عام نہ ہوئی ۔ ہر
‎روز آپ وطعامنیتی که گرسنگی سے ضائع نہ ہو۔ ایک رات میری خاطر میں گزرا کہ زندگی
‎بے یارحیف ہے۔ شعر ۔
‎جان میری پرسزا ہے جو کہ گزرے ہے عذاب
‎یار سے ہو کر بدا پر زندگانی حیف
‎فی الحال دور اس اسپ باد پائے سبک رفتار اور سلاح پاکیزہ اور دور میں پراز زروجواہر
‎لے کر برسر چاه آئی اور اس عزیز کو نہ پایالیکن نصیے تیرے نے یاوری کی کہ مجھی شخص با
‎دولت وز رمیسر آئی۔ یہ کہ کر نان و کباب نکالا اور با ہم ناشتہ کیا اور شب وروز راہ طے کر کے
‎ایک شہر میں آکر طرح سکونت اختیار کی اور وہ آپ مسلمان ہوئی اور میں نے ہر موجب شرع
‎کے نکاح کیا۔ مسند وقتی زر و جواہر پاس اپنے رکھ کر دوکان جواهر فروشی کی نکا لی ۔تا آں کہ دور
‎اندک فرصت مشہور ومعروف ہوا۔ ایک روز بازار میں اژدھام نظر آیا۔ بعد تحقیقات کے
‎معلوم ہوا کہ دونفرجی بہت دزدی گرفتار ہیں اور خون کے قصاص کے امید وار ہیں، آگے جا
‎کر دیکھتا ہوں تو برادران عزیز از جان سلمہ الرحمن ہیں اور ب خواری تمام سر و پا شکسته و دست
‎بته جروح وخت زمین پرگھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں۔ میری آنکھوں میں جہاں تاریک ہوا اور
‎اشک خونیں، در یک چشم سے جاری ہوئے ،ملازمین حاکم کو ایک مشت دیار دینے کے صبر کرو
‎تا کہ میں سوال و جواب ان کا کروں اور میں ہنجیل تمام، حاکم کے پاس آیا اور ایک دانہ تینتی
‎کہ سابق ازاں به قیمت یک صد تومان حاکم کیا چاہتا تھا اور میں راضی نہ تھا کہ کارسازی میں
‎دے کر ان کے پرانے کا پیغام کیا۔ حاکم نے کہا اگر مدعیوں کو راضی کرو تو اگی جاں بخشی
‎ہوگی ، ان معلوم ۔ تب میں نے پانسو تو مان ان کو دینے اور ان کو لے کر گھر آیا۔ اب کی دفعہ
‎عورت اپنی کو چھپایا، کہ مبادا یہ شیطان ہیں کچھ خلل کریں۔ سراپناان کے پاؤں پر ڈال کر
‎نہایت مگر کیا اور شبانه روز به خدمت گاری کے حاضر رہا تا یک سال احوال بد ہیں منوال

ریختہ
200
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ نمبر ۲۴۱

کہ ناگاہ ایک کاغذبیچ دامن بادشاہ کے آن پڑا۔ دیکھا تو لکھا تھا کہ "ہمارے تئیں مشتاق طاق تصور کر کے تخت پر کہ واسطے سواری کے بھیجا ہے، سوار ہو کر تشریف ارزانی فرماؤ کہ جشن عالی ترتیب دیا ہے اور منتظر قدوم میمنت لزوم تمھارے کا ہوں کہ جائے شما خالی است" بہ مجرد پڑھنے خط کے اور ملاحظہ تخت کے بادشاہ مع درویشاں سوار ہوا۔ تخت کو مانند تختے حضرت سلیمان علی السلام کے باد صبا اوپر دوش اپنے کے لے اُڑی اور یے پانچوں شخص بے ہوش ہوئے اور یہ شعر بہ زبان دُر بیان خندہ سیر کی سے سرزد ہوا۔ شعر؂

اٹھا سر پر بلائے آشنائی
ہوا ہوں مبتلائے آشنائی
ملے کیوں کر نہ حسرتؔ دلبروں سے
ہے اس کا دل فدائے آشنائی

وقت ہوشیاری کے اپنے تئیں ایسے مکان پر پایا کہ تمام عمر میں نہ دیکھا تھا اور نہ کسی سے سنا تھا۔ کسی نے کہا کہ ان کی آنکھوں میں سرمہ سلیمانی کھینچو۔ بہ مجرد اس عمل کے دو چار قطرے آنکھوں سے گرے اور ایک جماعت پریوں کی نظر پڑی کہ واسطے طلب کے آئیں تھیں، کہا کہ ملک شہبال بن شاہ رُخ نے حضور طلب کیا ہے۔ فرخندہ سیر بہ رفاقت درویشاں روانہ ہوا۔ دیکھا کہ تخت مرصع اور کرسی جڑاؤ متعدد بچھی ہیں اور فوج فوج پر یزا دوست بستہ استادہ ہیں اور شہبال بن شاہ رُخ اوپر تخت مرصع تکیہ لگائے بہ تزک تمام بیٹھا ہے اور ایک پریزاد ہفت سالہ بیچ حضور کے بیٹھی ہے اور ساتھ شاہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر کے بیچ لہو لعب کے مشغول ہے۔ ملک شہبال بہ مجرد دیکھنے کے اٹھ کر بغلگیر ہوا اور اوپر تخت کے پاس اپنے بٹھایا اور کرم اور نوازش بے اندازہ کرمت فرمائی اور تمام روز بیچ عیش و عشرت اور راگ و رنگ کے گزرا۔ روز دوم جس وقت کہ خسرو گردوں کا بیچ اسپک نیلگوں سپہر کے رونق افزا ہوا۔ ملک شہبال نے حقیقت احوال فرخندہ سیر کی اور باعثِ رفاقت درویشوں کا استفسار کیا چنانچہ بادشاہ عالی جاہ نے مفصل کیفیت ہر چہار شخص کی کہ بہ منزہ اربعہ عناصر کے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۲

متفق تھے حواس خمسہ اپنے کے تئیں درست کر کے گزارش کیا اور کہا کہ اگر سعی و توجہ خود بدولت و اقبال کے سے یے مظلومان بے چارہ از خانماں آوارہ، گرم و سرد زمانہ کشیدہ و رنج و راحت و ہر چشیدہ کہ بہ دامنِ دولت مستفیض و مستفید ہوئے ہیں، مطلب اور مراد کو پہنچیں تو بعید از بندہ پروری و مسافر نوازی نہ ہو گا؂

چشمِ ترحم ز تو داریم ما
قبلہ توئی رو بہ کہ آریم ما
حاجتِ ما از تو بر آید تمام
دامنت از کف نہ گزاریم ما

بادشاہ شہبال نے سننے اس ماجرائے تعجب افزا کے سے نہایت مستعد و سرگرم ہو کر نگاہ تند و تلخ سے طرف دیواں و عفریتاں و پریاں کے دیکھا اور بزرگان و سرداران جِنیاں کے تئیں جا بجا لکھ بھیجا کہ بہ مجرد مطالعہ اس فرمان قضا جِریان کے اپنے تئیں بیچ حضور لا مع النور کے حاضر کریں اور توقف ایک ساعت کا روا نہ رکھیں و اِلا موردِ عتاب و خطاب کے ہوں گے اور جنس آدم زاد سے کیا مرد و زن جس کے پاش ہو ہمراہ لاوے اور اِخفا اس معنی کا موجب پریشانی و حیرانی اپنی کا جانے، دیوان و عِفریتان و جنیان بیچ اطراف عالم کے پراگندہ ہوئے اور نامہ متضمن تاکید اکید کے جا بجا پہنچائے اور ملک شہبال ساتھ بادشاہ اور درویشوں کے ہم کلام بہ ایں حکایت ہوا کہ مدت سے بیچ آرزوئے تولد فرزند دلبند کے تھا اور یہ عہد کیا تھا کہ جس وقت میرے تئیں حق تعالٰی پسر یا دختر عنایت فرما دے گا تو جو کوئی پسر یا دختر بادشاہان اقالیم میں سے بیچ زُمرۂ انسان کے تولد ہو گا نسبت اس کی ساتھ فرزند اپنے کے مقرر کروں گا۔ بارے اندرون محل کے جو ملکۂ آفاق بارور ہوئی اور بعد اِنقضائے ایام حمل کے دختر خجستہ اختر مُتولد ہوئی، اسی وقت حکم کیا کہ جہاں کہیں بیچ گھر سلاطین زماں کے لڑکا تولد ہوا ہو اس کے تئیں لا کے حاضر کرو۔ بہ موجب حکم قضا توام کے اس شہزادہ بختیار کے تئیں لائے اور میرے تئیں محبت اس کی دامنگیر خاطر کے ہوئی۔ چنانچہ ہر ماہ میں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۳

ایک دفعہ حضور میں بلا کر مُوردِ عنایات کا کرتا ہوں اور شرط تربیت و پرورش کی بجا لاتا ہوں اور بیچ دامادی اپنی کے ممتاز و سرفراز کیا۔ فرخندہ سیر نے سننے اس داستان ہدایت بنیان کے سے خوش وقتی حاصل کی۔ القصہ بیچ ہفتہ عشرہ کے تمامی بزرگان و سرداران، جنات گلستانِ ارم اور شہر سبز اور پردۂ کوہ قاف اور اور دریائے قلزم کے اور ملک عرب و عجم و ہندوستان وغیرہ اور کوہستان جزائر و بنادر کے بالکل آ کر حاضر ہوئے۔ اول ملک صادق سے طلب اس گلغدار کا کیا کہ شہزادہ چین کا گرفتار زلف پُر چین اس کے کا تھا۔ بعد پیچ و تاب بسیار کے لاچار ہو کر حاضر کی۔ بعد ازاں بادشاہ جِنیان ولایت عمان کے سے دختر عفریت کی کہ اس پر شہزادہ ملک نیمروز کا گرفتار اور گاؤ سوار تھا، طلب کی، بعد از عذر ہائے بسیار کے وہ بھی آئی۔ جس وقت دختر بادشاہ فرنگ اور بہزاد خاں کے تئیں طلب کیا، سب منکر پاک ہوئے بلکہ قسم اقسام شدید درمیان لائے مگر سردار جنیان دریائے قلزم نے سر آگے ڈالا اور خاموس رہا۔ ملک شہبال نے از روئے عقل دریافت کر کے اس کی طرف نگاہ گرم سے دیکھا، ان نے عرض کیا کہ جس وقت والد بزرگوار اس شہزادے کا، واسطے استقبال کے آیا، اور اننے گھوڑا بیچ دریا کے ڈالا میں کہ واسطے سیر و شکار اس دیار کے سوار ہوا تھا۔ یکایک نگاہ میری اوپر اس معشوقہ جادو نگاہ کے پڑی۔ بہ مجرد دیکھنے کے بے اختیار عاشق و فریفتہ ہو کر شکار سے خالی ہوا اور صبر و قرار میرا گیا۔ جس وقت کہ ان نے گھوڑی اپنی بیچ دریا کے ڈالی میں نے حلو اس کی پکڑ کے بیچ قابو کے کیا اور جو بہزاد خاں فرنگی کے تئیں بیچ عالم انصاف کے مرد مردانہ پایا، فرمایا کہ اس کے تئیں بھی لے لو، چنانچہ وہ بھی ہمارے پاس سلامت و حاضر ہے۔ یہ کہا اور دونوں حاضر کیے۔ بعد اس کے دختر فرمانروائے شام کے تئیں تلاش کیا اور ہر ایک سے پوچھا کچھ نشان نہ پایا بلکہ سوگند عظیم درمیان لائے۔ ملک شہبال نے فرمایا کہ کوئی غیر حاظر بھی ہے یا سب آ چکے۔ عرض ہوئی کہ مسلسل جادو نے ایک قلعہ مستحکم علم سحر سے بیچ کوہ قاف کے بنایا ہے اور اس میں مستحصن ہے و اسیر دستگیر کرنے میں اس کے کسی کو طاقت اور مجال نہیں ہے۔ یہ بات سن کر ملک شہبال نے فرمایا کہ جنیان و دیوان و عفریتان فوج
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۴

فوج و توپ توپ مستعد و مسلح ہو کر جاویں اور اس کو اسیر و دستگیر کر کے حضور میں لاویں اور ملک و مال اس کا تاخت و تاراج کر کے صفاً صفا کی نوبت پہنچا دیں۔ بہ مجرد ہونے حکم کے افواج قہار و لایق کارزار افزوں از حد و شمار روانہ ہوئے۔ آخرش تھوڑی فرصت میں داد مردی و مردانگی کی دے کر حلقہ بگوش کیا اور حضور میں لائے۔ جس وقت ملک شہبال نے استفسار ماجرا کیا، مطلق جواب نہ دیا۔ تب بادشاہ نے فرمایا، اس کے تئیں باانواع عقوبت و عذاب معاذب کر کے پارہ پارہ کریں اور افواج پری کے تئیں حکم کیا کہ تفحص و تجسس کر کے اس ناز نین کو پیدا کریں۔ وے بہ موجب حکم بادشاہ کے ملکہ شام کے تئیں تلاش کر کے حضور میں لائے۔ درویش دیکھنے اس حکم اور عدالت کے سے بیچ تعریف اور توصیف بادشاہ شہبال کے رطب اللِسان اور عذب البیان ہوئے اور حکم بادشاہ شہبال کا یوں نفاذ ہوا کہ مردوں کے تئیں، باہر دیوان خانہ میں اور عورتوں کے تئیں اندر عیش محل کے لے جاویں اور فرمایا کہ شہر کے تئیں آئین بندی و چراغان و آرائش کے تیاری ہو۔ پس ساعت سعید اختیار کر کے، اول شہزادہ بختیار بن فرخندہ سیر بادشاہ کو ساتھ دختر روشن اختر اپنی کے جلوہ افروز تخت عروسی کا کیا اور خواجہ یمنی کو ساتھ دختر سلطان دمشق کے کیا۔ اور بادشاہ زادہ ملک فارس کو ساتھ شہزادی بصرہ کے منعقد کیا اور بادشاہ زادہ عجم کو ساتھ ملکہ فرنگ کے ازدواج بخشا اور بہزاد خاں کو ساتھ دختر فرماں روائے نیمروز کے منکوح فرمایا اور شہزادہ چین کو ساتھ دختر پیرا عمیٰ کے کہ در قبض تصرف ملک صادق کے تھی، جلوہ عروسی و دامادی کا دیا اور شہزادہ نیمروز کو ساتھ دختر عفریت کے شرف مناکحت بخشا۔ القسہ چالیس روز تک گلستان ارم کے باعیش و عشرت مشغول رہے اور داد خوشی اور کامرانی کی دی۔ بعد ازاں ملک شہبال نے ہر ایک کو باتحفہ ہائے انواع ہر ملک و دیار کے بہ ہر اطراف مطلوبہ ان کے باجمعیت شایستہ روانہ کیا کہ ہر ایک بیچ وطن اپنے پہنچا اور واسطہ استعانت ملک شہبال کے قابض و متصرف مملکت موروثی اپنی کے ہو کر بقیہ عمر مستعار ساتھکام دل کے زندگی بسر لے گئے اور خواجہ زادہ یمنی و بہزاد خاں فرنگی بیچ رفاقت فرخندہ سیر کے بہ خواہش دل رضا مندی جاں حاضر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۵

رہے اور خواجہ زادہ یمنی بخدمت کانشامانی اور بہزاد خاں فرنگی بہ علاقہ بخشی گری فوج شہزادہ بلند اقبال بختیار وال تبار کے سربلند ہوئے۔ عاقبتُ الامر بہ مُقتضائے اس کے کہ یہ جہان فانی ہے، ندائے کُلُ نفس ذائِقۃُ الموت کی دے کر آسودہ عالم بقا کے ہوئے۔ الٰہی جس طرح یہ چار درویش مع بادشاہ فرخندہ سیر و شہزادہ نیمروز و بہزاد خاں فرنگی ہر ایک اپنی مراد کو پہونچے اسی طرح ہر ایک کی مراد اور مقصد برآسے۔ مصرع

یا الٰہی دُعائے خستہ دلاں مُستجاب کُن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۶

نور الحسن ہاشمی

مقدمہ

"نو طرز مرصع" شمالی ہند میں اردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے ک، اس سے پہلے کی ہمیں اب تک کوئی مکمل کتاب شمالی ہند میں نہیں مل سکی ہے۔ مولانا محمد حسین آزادؔ اس کا سالِ تصنیف ۱۸۹۷ءبتاتے ہیں، حالانکہ یہ اس سے بہت قبل لکھی گئی تھی۔ ڈاکٹر سید سجاد نے اس کتاب کے متعلق بڑی کاوش سے تحقیق کی ہے اور لندن یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹری کی سند بھی اس پر عطا کی ہے۔ "نو طرز مرصع "کی تاریخ کے سلسلے میں یہاں انہیں کی تحقیقات ہے افادہ کیا گیا ہے۔

" نو طرز مرصع" کے مؤلف کا نام میر محمد حسین عطا خان ہے۔ تخلص تحسینؔ، اٹاوہ (یوپی)، وطن۔ ان کے تفصیلی حالات ابھی تک نہیں معلوم ہوسکے ہیں۔ عموماً صرف اسی قدر معلوم ہیں جتنے انہوں نے نو طرز مرصع کے دیباچے میں خود لکھے ہیں، بات یہ ہے کہ اس وقت اردو نثر نگاری کی بساط ہی کیا تھی، تحسین کے زمانے میں کتنے نثار تھے جو ان سب کا تذکرہ لکھا جاتا، البتہ شاعروں کی تعداد بہت تھی اس لیے ہمارے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۷

اردو ادب میں قد ما نے جتنے تذکرے لکھے وہ سب شاعروں کے متعلق ہیں، شاعری میں تحسین کا مرتبہ بہت بلند نہ تھا، اس لئے تذکروں میں اگر کہیں ان کا نام آیا بھی ہے تو بہت سرسری طور پر۔

سب سے پہلے ان کا ذکر ہماری زبان اور ادب کی سب سے پہلی تاریخ آبِ حیات میں ملتا ہے جس میں ابتدائی نثر نگاروں کا ذکر کرتے ہوئے تحسینؔ کا ذکر نو طرز مرصع کے مصنف ہونے کے سلسلے میں کردیا گیا ہے اور اس کتاب کا سال تصنیف آزادؔ نے ۱۷۹۸ سال بتایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزادؔ کوخود ان کا حال زیادہ معلوم نہ تھا۔ صرف دو سطروں میں ان کا ذکر ختم کردیا ہے کہ آزاد کے بعد جتنے اور دیگر ادب کے مورخ ہوئے ہیں انہوں نے بھی اس کے ذکر میں کسی تحقیق سے کام نہیں لیا اور ہر ایک آزاد کی نقل کرتا چلا گیا۔ سیرالمصنفین (محمد یحییٰ تنہا)،نمونہ منثورات (احسدن مارہروی) گل رعنا وغیرہ میں محض آب حیات کی عبارت ملتی ہے داستان تاریخ اردو (حامد حسن قادری) میں اس کا ذکر اس دیباچے سے نکل کر دیا گیا ہے جو مولوی عبدالحق نے میر امنؔ کی باغ و بہار پر لکھا تھا۔

قدیم تذکروں میں بحثیت شاعر کے سب سے پہلے جس تذکرے میں تحسین کا ذکر ملتا ہے وہ خوب چند ذکا کا ہے جو غالبا ۱۷۸۸ء میں ترتیب دیا گیا ہے اس میں تحسین کا ذکر صرف بہ حثیت شاعر کے ہے بہ حیثیت نثار کے نہیں، نو طرز مرصع کا اس میں کہیں ذکر نہیں ہے اور ان کے والد کا نام بھی غلط لکھا ہے یعنی مراد خان شوق۔ تذکرہ سرور میں دو شخص تحسین کے تخلص سے درج ہیں۔ ایک منشی محمد حسین عطا خان جن کی بابت صرف اتنا لکھا ہے کہ یہ اٹاوے میں رہتے ہیں۔ دوسرے محمد حسین خاں ساکن لکھنؤ جن کی بابت لکھا ہے کہ ان کا خطاب "مرصع رقم" ہے اور یہ اچھے خوش نویس اور انشاءپرداز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سرور نے ایک ہی شخص کے دو کر دیے ہیں۔ محی دین کے تذکرۂ طبقات سخن میں البتہ سب سے پہلے ان کا ذکر بحیثیت نثر نگار کے ملتا ہے۔ وہ لکھتا ہے :

"ان کا نام محمد حسین عطا خان ولد محمد باقر خاں شوق ہے۔ ابوالمنصور خان صفدر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۸

جنگ کے درباری تھے۔ انہوں نے فارسی میں ضوابط انگریزی اور تواریخ قاسمی لکھی ہیں اور اُردو میں "نوطرزمرصع" جس میں چار درویش کا قصہ بیان کیا گیا ہے"۔

ڈالکٹر گلکرائسٹ نے میر امنؔ کی تصنیف باغ و بہار کے مقدمے میں تحسینؔ کے طرز پر صرف تنقید کی ہے اور حالات کچھ نہیں لکھے ہیں۔ غلام علی خان اپنی فارسی تاریخ اودھ مسمی بہ عماد السعادت (۱۸۰۸) میں تحسینؔ کا ذکر سرسری طور پر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت وہ فیض آباد کے ریزیڈنٹ کپتان ہارر پر کی ملازمت میں تھے۔ اس میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ شجاع الدولہ کے ایک خفیہ خط کا مفہوم جو حیدر نائیک کے نام تھا تحسین سے ہارپر نے سنا ۔یہ واقعہ ۱۷۷۲ کا ہے۔ ڈاکٹر سجاد نے ایک اور تذکرے کا ذکر کیا ہے جو انہیں انڈیا آفس لائبریری میں ملا تھا ۔ اس پرمصنف کا نام درج نہیں ہے اور نہ سنہ تصنیف لکھا ہے۔ لیکن ان کا خیال ہے ۱۸۰۶ء اور ۱۸۲۶ء کے درمیان لکھا گیا ہے۔ اس تذکرے میں شعرائے ہمعصر کے حالات تفصیل سے دیے ہیں اور تذکرہ مستند معلوم ہوتا ہے، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ تذکرہ کسی ہندو مصنف کا لکھا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس میں بہت سے ہندو شعراء کا ذکر ہے۔ تحسینؔ کے متعلق اس تذکرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رضوی سید تھے۔ وطن اٹاوا تھا۔ اشعار قابل تعریف اور گفتگو فصیح ہوتی تھی، فن کتابت میں کمال رکھتے تھے۔ خطاب "مرصع رقم" تھا اور خطاطی میں اعجاز رقم خاں کے شاگرد تھے، نثر و نظم دونوں میں ملکہ خاص رکھتے تھے۔ فارسی میں ضوابط انگریزی اور تاریخ قاسمی لکھی اور اردو میں "نوطرزمرصع" جس میں محاورے کی صفائی اور الفاظ کی بندش از ادبی ذوق رکھنے والوں کو لبھاتی ہے۔ فارسی شعر سے زیادہ شغف تھا، ان کے بیٹے نوازش علی خاں سرکار انگریزی میں سکندرآباد کے تحصیلدار تھے اور نستعلیق اور شکست خط خوب لکھتے تھے۔

شیفتہ نے اپنے تذکرہ گلشن بے خار میں تحسینؔ کے متعلق کچھ نہیں لکھا ہے البتہ تحسینؔ کے نبیرہ (پوتے یا نواسے) قاسم علی خاں قاسم کی موسیقی دانی کی تعریف ہے اور قاسیم کے متعلق لکھا ہے کہ لکھنؤ میں رہتے ہیں اور تحصیلداری کے مرتبے پر فائز ہیں. گارساں دتاسی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۴۹

نے بھی تحصیل کا ذکر کیا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ تحسین کلکتہم پٹنہ اور فیض آباد میں رہ چکے ہیں، شجاع الدولہ اور پھر آصف الدولہ کے دربار میں بھی باریاب ہوئے۔ نوطرزمرصع شجاع الدولہ کے کہنے سے لکھی پھر اسے آصف الدولہ نے بھی پسند کیا۔ اس کے بعد گلکرائسٹ کا نوٹ دوہرایا ہے۔ ضوابط انگریزی اور تاریخ قاسمی کا بھی ذکر کیا ہے۔

کریم الدین تذکرہ طبقات الشعراء ہند میں صرف گارساں دتاسی کے بیان پر اکتفا کی ہے۔ میر قطب الدین باطنؔ نے جو تحسین کے نبیرہ قاسم کے دوست تھے تحسین کے متعلق کچھ نہیں لکھا ہے البتہ قاسم کے متعلق لکھا ہے کہ سرکار انگریزی میں مراتب عالیہ پر ممتاز تھے اور فن شعر میں ناسخؔ کے شاگرد تھے عبدالغفور خاں نساخؔ نے اپنے تذکرے میں تحسین کے بیٹے سید حیدر علی خاں حیدر کا بھی ذکر کیا ہے اور ان کے بیٹے قاسم کے متعلق جو کچھ شیفتہؔ نے لکھا ہے وہی دہرا دیا ہے۔

بہرحال خارجی شواہد سے کچھ مفصل حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ نہ سنین پیدائش و وفات نہ تعلیم و تربیت اور کوائف زندگی۔ جو کچھ تحسینؔ کے متعلق معلوم ہو سکا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اچھے اور معزز گھرانے سے تھے، خاندان میں علم و ہنر کا چرچا تھا۔ ان کے دادا سے لے کر ان کے پوتے تک تقریباً سب سرکار انگریزی میں اچھے عہدوں پر فائز رہے اور غالباً کپتان ہارپر کی سفارش سے شجاع الدولہ اور ان کے بعد آصف دولہ کے دربار سے منسلک رہے۔

تحسینؔ اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے اور اس زمانے میں جب کہ زبان دانی کا معیار بہت بلند تھا، ان کا ذکر تذکروں میں بحثیت اچھے شاعر کے آنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کا شمار معمولی شاعروں میں نہ تھا کچھ مرثیے بھی لکھے تھے، پر گو شعراء میں شمار تھا، حالانکہ اب ان کا کلام نہیں ملتا۔ شعر و شاعری کے علاوہ خطاطی میں بھی یدطولی رکھتے تھے اور نثر نویسی میں بھی مشہور تھے۔

خوش قسمتی سے تحسینؔ نے اپنی تصنیف کے شروع میں ایک دیباچہ بھی شامل کر دیا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۲۵۰

جس سے بعض باتوں پر بہت روشنی پڑتی ہے خصوصاً یہ کہ کتاب کی تالیف کا سبب کیا تھا، کب اسے لکھنا شروع کیا، پھر کچھ دن یہ کام کیوں ملتوی رہا اور آخر تکمیل کی نوبت کیوں کر آئی؟ دیباچے کی زبان بہت سے مرصع و مسجع ہے ۔آغاز ایک چھوٹی سی نظم سے ہوتا ہے جس میں حمد و نعت ایک ایک دو دو اشعار ہیں، اس کے بعد اپنا اور اپنے والد کا حال بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بہت مشہور آدمی ہیں۔ اپنے استاد اعجاز رقم خاں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ شاعر و نثار اور بہت اچھے خوش نویس تھے۔ تحسینؔ نے باپ کے مرنے کے بعد کی داستانیں چھوٹی بڑی لکھیں۔ نو "طرز مرصع" کا سبب تالیف یہ لکھا کہ ایک مرتبہ تحسینؔ کو جنرل اسمتھ کے ساتھ کشتی پر کلکتے تک سفر کرنا پڑا۔ جنرل صاحب انگریزی فوج کے کمانڈر تھےِ سفر بہت طویل تھا۔ طبیعت کی دلبستگی کا کوئی سامان نہ تھا۔ چنانچہ تحسینؔ کا ایک اور ساتھی اہل کشتی کو مختلف قسم کی داستانیں سنا کر دل بہلایا کرتا تھا، ایک دن اس نے وہ داستان سنائی جو "نوطرزمرصع" میں مذکور ہے۔ اس کو سن کر تحسینؔ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اس داستان کو مرصع ہندی زبان میں لکھئے تو ایک نئی چیز ہوگی اور انشائے تحسین، ضوابط انگریزی اور تواریخ قاسمی سے کہیں زیادہ دلچسپ۔ چنانچہ انہوں نے اس داستان کے شروع کے کئی حصے لکھ ڈالے لیکن ان کو پورا نہ کرسکے کیونکہ جنرل اسمتھ تھی جب انگلستان واپس جانے لگے تو پٹنہ میں وکیل نظامت کا عہدہ ان کے سپرد کر گئے۔ اس نئے کام کی وجہ سے فرصت نہیں ملتی تھی کہ وہ اس کام کو مکمل کر سکیں۔ لیکن دل میں خیال لیے رہے کہ اسے پورا کرنا ہے، غرض عرصے تک یہ کام ملتوی رہا۔ اتفاقاً چند حاسدوں کی وجہ سے وہ اپنے عہدے سے ہٹا دیے گئے اور سخت مشکلات میں پڑ گئے۔ اس بے سروسامانی کی حالت میں سودا کے اشعار ان کی ہمت بندھاتے رہے جن کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نے چند دن دنیا میں اچھی طرح بسر کیے ہیں تو اب یہ چند دن مصیبت کے بھی خندہ پیشانی کے ساتھ کاٹنا چاہیے اور کوئی شکوہ شکایت نہ کرنا چاہیے کیونکہ قسمت کا وطیرہ یہی ہے۔ انقلابات زمانہ تو ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آخرکار ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ اب شجاع الدولہ کا دامن پکڑنا چاہیے چنانچہ وہ فیض آباد آگئے ۔
 
صفحہ نمبر 239

خدمت چہار درویش دل ریش کے سے رخصت ہو کر اندرون محل کے تشریف لایا اور اس گل گلشن ،حسن لطافت بغل میں لے کر بوسہ اوپر پیشانی اُس کے دیا اور بیچ پائے درویشوں کے ڈال کرکہا کہ از قدوم بہجت لزوم تمھارے سے یہ دولت غیر مترقب میسر آئی ، شعر

جوانی بیچ زور عشق نے جب پیر کر ڈالا
مراقد باد غم نے، حلقہ زنجیر کر ڈالا
قیامت سحر ہے اس شاہ خوباں کی نگاہوں میں
ہمارے ملک دل کو دیکھیے تسخیر کر ڈالا
اور بیچ عیش محل کے لے جا کر دائی ہائے صاحب ذکا کے تئیں سپرد کیا اور جشن نو روزی اور شادی عید جمشیدی کرکے داد عیش و نشاط کی دی اور لشکر کو ساتھ داد و دہش فراواں کے سرفراز و بے نیاز کیا اور سہ سال محصول رعیت کو معاف فرمایا اور بند یوانوں کے تئیں قید سے چھوڑا اور کہا،
فرد
نو بہار آئی ہے، پابندیوں کی زنجیروں کو توڑ
فصل گل میں نیں گوارا ان کو زنداں کی ہوا
اس عرصے میں پھر ایک آواز خلل کی محل خاص سے ایسی آئی کہ ایک عالم کانپ اٹھا اور بیچ ورطہ تحیر و گرداب تفکر کے حیران رہے۔ خبر اندرون محل سے آئی کہ جس شہزادہ بلند اقبال تئیں بیچ کناردایہ بلند پایہ رونق افزا کیا۔ ایک ابر تیرہ غیب سے نمودار ہوا اور دایہ کو مع شاہزادہ احاطہ کیا۔ بعد ارتفاع اس دور حیرت آمود کے دایہ بے ہوش اور طفل ناپیدا ہوا۔ بہ استماع اس سانحہ عجیب بادشاہ اور جملہ حاضران متحیر اور متعجب ہوئے اور کہا،

صفحہ نمبر240
فرد
کیوں نہ ہو اس دکھ سے ہم بے قراری الغیاث
ہے ترے نگہ کا زخم کاری الغیاث
القصہ بعد دو روز کے شاہزادہ کو باگہوارہ زریں و مرصع و گہوارہ پوش معہ جھالر مروارید و خلعت فاخرہ پہنا کر دولت خانہ حضرت ظل اللہ کے لائے۔ دیکھنے اس عجائب و غرائب کے سے جمیع خادمان محل نے مانند گک کے شگفتہ اور مانند تصویر کاغذ کے متحیر ہو کر کہا کہ یاالہی یہ کیا اسرار ہے۔ بادشاہ نے ایک عمارت نوکار مبطوع و دلکش واسطے درویشوں کے متصل خاص محل کی تیار کروائی اور اکثر اوقات بعد از فراغ امور مملکت جلیس ہمدم و انیس دل پرغم درویشاں دل ریشاں کا رہتا۔ چنانچہ ہر مہینہ میں ایک دفعہ ابر تیرہ آتا اور شاہزادے کے تئیں بدستور مذکور لے جاتا اور بعد سہ روز کے باخوان ہائے لطیف و کسوت ہائے منیف کہ چشم مردم کی دیکھنے اس کے سے خیرہ ہوتی تھی لے آتا۔ تاآنکہ سن شریف اس کا بہ ہفت سالگی پہنچا۔ بادشاہ اور درویشوں نے مصلحت باہم کی اور ایک عریضہ ، نیاز بدیں مضمون لکھا کہ اگر ایں حیرت زدگان رااز راہ شفقت و الطاف بلا اکناف کے ورطہ حیرت اس امر عجیب کے سے اوپر ساحل آگاہی کے لا کر اطلاع بخشو گے، بعید تو جہات و مہربانی نہ ہوگا

بہت ہے عشق میں تیرے ہمیں خوشی کی ہوس
نکالیں کس طرح اے جان اپنے جی کی ہوس
اگر زمیں پہ بہشت بریں ملے ہم کو
نہ جائے تو بھی،مرے دل سے ، اس گلی کی ہوس
یہ لکھ کر بیچ گہوارہ شہزادہ بہ طریق معہود کے غائب ہوا۔ جس وقت آفتاب عالمتاب بیچ آرام گاہ مغرب کے گیا اور شاہ زریں کلاہ انجم سپاہ ماہ کا اوپر تخت زمردگوں آسمان کے جلوہ افروز ہوا، فرخندہ سیربیچصبحت درویشوں کے ہم جلیس و ہم کلام تھا
 

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 231 سے 235

ص 231

اتفا قًا یہ مقدمه گوش زد پسر فرمانروائے اس شہر کے ہوا۔ به موجب مضمون اس شعر کے ؂

نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بسا کیں دولت از گفتار خیزد
در آید جلوه حسن از رہِ گوش
ز جاں آرام بباید ز دل ہوش

اُن عزیز نے غائبانہ عاشق اور شیدا اس شیریں شمائل پر ہو کر اظہار بید لی کا کیا۔ تب والد بزرگوار اس کا یعنی والی اس دیار کے نے میرے تیں خلوت میں بلا کر رضامند نسبت اور بیاہ کا کیا، بعدازاں کہ ہردو طرف سے کام نےسرانجام پایا ساعت سعید اختیار کر کے علما وفضلا نے عقد ازدواج کا باندھا۔ بیچ شَب زفاف کے نوشہ نے چاہا کہ شرط مواصلات کی بجا لاوے گلشن جمال اُس کے سے گُل کامیانی کے چُنے۔ شعر؂

دل جلے لالہ سے گلشن میں جب آتی ہے بہار
رنگ گُل کو، آگ کے شعلے دکھاتی ہے بہار
بلبل و قمری کو دام طوق دیتی ہے بتا
مست دیوانوں کی زنجیریں تڑاتی ہے بہار

جوں ہی مردوزن حجرہ سے باہر ہوئے کہ آوازه ناله و آشوب کی بلند ہوئی۔ سب نے متحیر ہو کے چاہا کہ دروازہ حجرے کا کھولیں اور اندر جا کے باعث اس خرابی کے سے مطلع ہوں ۔ یہ بات ہرگز میسر نہ آئی۔ جب ہنگامہ برطرف ہوا اور شور وغل نے تسکین پایا اور در وازہ حجرے کا توڑ کر اندر داخل ہوئے ، دیکھتے کیا ہیں کہ نوشہ کی گردن سر سے جدا ہے اور دلہن

کف بہ لب بیچ خاک اور خون کے بے ہوش پڑی ہے۔ بہ مجردد یکھنے اس حادثہ جانگداز کے شادی به منزله مرگ کے ہوئی۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 232

مخمس

شرح اس غم کی زبان سیتی نہیں کی جاتی
شارحوں کے تئیں کچھ بات نہیں بن آتی
لکھنے بیٹھے ہیں تو کاغذ کی پھٹے ہے چھاتی
حالت اس دولہا دولہن کی نہیں لکھی جاتی
یوں قلم حرف کے آگے به زبان روتے ہیں

القصہ بادشاہ نے از روئے غضب اور قہر حکم واسطے قتل دختر کے فرمایا ۔ پھر اسی طرح سے ازسرنو آشوب فتنہ و فساد نے سر اٹھایا۔ چنانچہ بادشاہ ترس جان کے سے خلوت نشین ہوا اور فرمایا کہ دولت سرائے خاص سے ان کو بدر کر یں ۔ به موجب حکم قضاقوام کے یہ بات فی الفور عمل میں آئی اور شُہرہ شہر میں ہوا۔ کنیزوں نے دختر کو لا کر گھر میں رکھا۔ جو قتل شاہزادے کا بہ سبب دختر بد اختر کے ہوا تھا، بادشاہ اور تمام ارکان دولت، دشمن جان اور مال میرے کے ہوئے۔ بعد فراغ تعزیت شہزادے کے اُمراء وُ ندما وسائر ۶۷۸ عوام الناس او پر قتل میرے اور قصاص دختر اور تاراج اموال کے مستعد ہوئے ۔ ایک جماعت کثیر واسطے، سر انجام، اس کام کے تعین ہوئی ۔ جس وقت که بیچ حوالی حرم سرا میری کے پہنچے، نگاه سنگ اور خشت در و دیوار اور عمارت بام سے برسنے صادر ہوئے ۔ اس واردات سے ہر ایک نے اپنے اپنے گھر کی راہ لی اور ایک آواز مہیب گوش زد بادشاہ کے ہوئی کہ دستِ تَعدّی ۶۷۹ اور ظلم و آزار اس گلعذار کے سے کوتاہ رکھ۔ والّا جو کچھ کہ بیٹے تیرے نے دوستی اس کی سے دیکھا تو دشمنی اس کے سے دیکھے گا اور بیماری سخت و آسیب واقع ہوں گے چنانچہ حکم اعلیٰ صادر ہوا کہ ان کو گھر سے نہ نکالو اور تعدی اور ستم سے باز آوو۔ حافظوں نے تلاوت قرآن اور عالموں نے عمل اور صاحبِ افسوں نے منتر شروع کیے چنانچہ سالہائے سال اسی نوع سے گزرتے ہیں۔ ع دیو بہ گریز دوازاں قوم کہ قرآں خوانند

اور میں بھی مُفَصّل اس واردات سے مطلع نہیں ہوں۔ مگر ایک روز عا جزہ سے پوچھا تھا
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 233


کہ تجھ کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا اسرار ہے در جواب کہا کہ اتنا معلوم ہے کہ شبِ زناف کے شوہر میرے نے چاہا کہ مباشرت کرے، ناگاه چھت مکان کی چری اور ایک جماعت پیدا ہوئی اور تخت مُکلّف به جواہر درمیان حجرہ کے آیا اور ایک شخص او پر اس کے با جمال ولفریب بیٹھا تھا، جماعت نے قصد قتل شہزاد ے کا کیا اور وہ تخت نشین میری طرف متوجہ ہوا اور کہا۔ شعر ؂

کیونکہ اب رم کرسکو گے ہم ستی اے من ہرن
اب تو ہم نے تم ستی باندھاہے اپنا جیوڑا
اے صنم تیرے جمال وخال اور ابرو کو دیکھ
اس سیہ کا فر نے مسجد کو کیا ہے دیو ہڑا

میں واہمہ سے غش میں آئی اور جان از قالب تہی کی اور معلوم نہ ہوا کہ یہ کون ہے۔ در میان انسان کے اور اُن کے اتنا تفاوت پایا کہ پاؤں اس گُروہ کے مانند پاؤں گوسفندوں ۶۸۰ کے تھے لیکن ۔


بیت

عشق میں ہندو ترک کے کچھ نہیں ہے بیوڑا
یاں مُنڈایا سر ہوا آزار وه با سیوڑا

پس اے جوان غریب و مہمان عجیب اس وقت سے کہ مال و اموال میرا قبضہ و تصرف میرے سے باہر گیا اور آ شناؤں نے کنارا پکڑا خادم اور فرمانبردار جدا ہوئے ، میں بیچ اس کنج ویرانے کے پڑا ہوں اور جس کسی نے کہ رفاقت نیک و بد کی دی اور جدا نہ ہوئی، یہ لڑ کی ہے۔ اب کہ کارم بجاں و کا ردم به استخواں پہنچا ہے بایں شکستگی احوال و دستیاری عصائے چوبیں سے گدائی کو چہ بہ کو چہ کرتا ہوں اور کوئی بدنامی کے باعث بھیک بھی نہیں دیتا ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 234

فرد

ما ر از خاک کویش پیرا ہن ست برتن
آں ہم ز آب و دیدہ صد چاک تابہ دامن
بعد مدت کے خدائے تعالے نے تیرے تئیں اوپر حال ضعیف میرے کے مہربان کیا کہ طعام لذیذ کھایا اور دختر برہنہ تھی اُس کے کپڑے بنوائے۔ اگر خوف وخلل آسیب کا نہ ہوتا تو واللہ یہ عاجزه بیچ کنیزی تیری کے دیتا اور باعث افتخار و سعادت اپنی کا جانتا۔ اب مُرتکب اس امر ناصواب کا ہونا مصلحت نہیں۔ ہر چند کہ میں نے اس قدر عجر والحاج کیا کہ بیچ شرح اور بیان کے نہ آوے، وہ پیر مرد ہرگز راضی نہ ہوا بلکہ مُبالغہ اور مُکا بر ہ حد سے درگز را اور وقت شام کا ہوا۔ میں اس بزرگ کو دعائے خیر کہہ کے بیچ کا رواں سرا کے آیا۔ مبارک خوشی و شادی سے بیچ جامہ کے پھولا نہ سما تا تھا اور کہتا تھا اَلحمدُ للهِ وَالمَنَّۃ کہ مقصد دلی پر فائز ہوئے۔ میں تخلل عشق سے بے خود و حیران تھا کہ واللہ اعلم بالصواب یہ مرد دختر اپنی کو مجھے دے یا نہ دے اگر وہ نہ دیوے اور مبارک جو ملک صادق کے واسطے چاہتا ہے تو کس طور سے اس کو راضی کروں اور معشوقہ کو بیچ قابو کے لا ووں اور یہ وصال جاناں کامیاب ہوں مگر شرارت جنوں سے نجات پاؤں یانہ پاؤں اور جو اس شہر میں سکونت اختیار کروں تو ملک صادق یہ بات سن کر والله اعلم کیا سلوک کرے بیچ اس منصوبہ اور پیچ و تاب کے نہایت غرق و مشَوِّش تھا۔ بارے علی الصباح بیچ بازار کے جا کے لباس فاخرہ واسطے دختر کے اور واسطے اس پیر مرد کے خرید کیا اور میوہ ہائے گونا گوں اور غذا ہائے لطیف لے کر بیچ خدمت اس خضر گم گشتگان بادیہ ناکامی کے پہنچا۔ ان نے نہایت مہربانی اور تَلَطُّف او پر حال خُسراں مال میرے کے کیا اور فرمایا کہ اے عزیز تیرے تئیں جان سے بھی زیادہ دوست رکھتا ہوں۔ مبادا مفت مارا جاوے تو حسرت قیامت تک باقی رہے۔ میں نے عرض کیا کہ اے پِدر مهربان ایک مدت سے بادل بریاں و دیدۂ گریاں رنج غربت کشیده و مصائب سفر دیده از شہر بہ شہر ود یہہ بہ دیہہ وصحرا بہ صحرا و کوچہ بہ کوچہ حیراں و سرگرداں ہو کر اوپر سرچشمہ وصال
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص235

اِس نونہال کے پہنچا ہوں۔

فرد

کے از دست خواہم رہا کردنش
کنونم که باشد به کف دامنش

القصه تا مدت یک ماه بیچ خدمت اس پیر ہدایت مَصِير ۶۸۱ کے دوڑ ا اور کوئی دقیقہ بیچ عجرو انکسار کے باقی کے نہ چھوڑا تا آنکہ وہ مرد کامل سخت بیمار وکاہل ہوا اور مجھ سے فرمایا کہ ہر چند منع کرتا ہوں اور تو دست ہوسں کا دامن اس آرزو کے سے کوتاہ نہیں کرتا ہے، خوب آج مصلحت دختر سے کروں گا ، دیکھیے کیا کہتی ہے ۔ میں سننے اس مژده راحت افزا سے بہت خوش وقت ہوا اور آداب بجا لا کے رخصت ہوا۔ تمام شب مارے خوشی کے نیند نہ آئی۔ علی الصباح خوش وخرم خدمت اُس بزرگ کے آیا۔ اُن نے فرمایا کہ اے جوان میں نے دختر اپنی تجھ کو دی اور اس کو اور تجھ کو بخد اسپرد کیا ۔ پس جب تک کہ دم باقی ہے میرے پاس حاضر رہ بعد ازاں جو کچھ کہ چاہے عمل میں لا ئیو، مختار ہو۔ بعد چند روز کے جو اُس پر صاحبِ تدبیر نے اس جہان فانی کو لبیک به داعی اجل گفته وداع کیا اور داغِ مہاجرت کا اوپر ہمارے چھوڑا ،تجہیز و تکفین اس کی سے فراغت پا کے مبارک دختر کے تئین چادر اُڑھا کر بیچ کارواں سرا کے لا یا اور میں نے چاہا کہ نیچے قدم اس معشوقه دِلنواز کے سرا پناڈالوں، مبارک نے کہا کہ اے عزیز ملک صادق سے اندیشہ کر کہ تمام یہ محنت و مشقت سالہا سال کی رائیگاں جائے گی۔ میں نے سننے اس نصیحت کے سے کنارا کیا۔ مبارک نے واسطے تسلّی اور تسکین میری کے کہا کہ اس امانت کو سلامت بیچ حضور ملک صادق کو پہنچادیں۔ اگر وہ از راهِ عنایت کے تیرے تئیں مرحمت فرماوے تو بڑ الطف ہے والّا ہاتھ اُس بادشاہ جنوں کے سے جانبر نہ رہے گا۔ بارے دوشتر اور کَجا وے ۶۸۲ خرید کر کے روانہ منزل مقصود کے ہوئے اور بعد مدت مدید کے قریب آپہنچے ایک آواز ہنگامہ و شور کی مسموع ہوئی اور مبارک نے کہا کہ فوج
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ ۲۸۱

"جب طائر زریں بال آفتاب کے نے رخ بیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سییں ماہتاب کا بطن مرغ مشکین شب تار کے سے نمودار ہوا مستحقطان و محارسان شہر کے نے کہ بموجب حکم والی اس دیار کے مامور تھے، دروازہ شہر پناہ کا مسددود کر کے راہ آمد و رفت صادر و وارد کی بند کی۔ ہر چند کہ عاجز نے ساتھ کمال لجاجت و سماجت کے زبان عجز و نیاز کی واسطے درآمد ہونے شہر کے کھولی اصلا عرض میری کے تئیں پیرایہ اجابت کا نہ بخشا۔ لاچار بیچ پناہ دیوار کے استقامت کر کے مزاج کے تئیں واسطے شغل بیداری و شب گزاری کے اوپر تماشا برجِ حصار کے کہ رفعت عمارت اس کی ہمسر چرخ بریں کی تھی، مصروف کیا۔ جس وقت زلف خاتونِ شب کی کمر تک پہنچی اور چشم خلائق کی خمار نشۂ غنودگی کے سے سرمست خوابِ غفلت کے ہوئی، یکایک صندوق چوبیس فرازِ دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج حمل کے سے جلا بخش دیدۂ تماشابیں ہوا۔" (ص ۸۳)

(۲)

دوسرا وہ اسلوب ہے جس میں دو الگ الگ اسالیب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک اس تصورِ حقیقت کا اسلوب جس کی مثال ہم پہلے اسلوب کے ذیل میں دے آئے ہیں اور دوسرا وہ جس میں برعظیم کے بدلے ہوئے سیاسی، معاشرتی و تہذیبی اثرات، لاشعوری طور پر، اس تصور حقیقت کو متاثر کر کے اسے آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں۔ اسلوب کے اس گنگا جمنی روپ کو اس اقتباس میں دیکھیے۔ اس میں پہلا اسلوب بھی شامل ہے اور وہ بھی جس کا ذکر تیسرے اسلوب کے ذیل میں آگے آئے گا:

"پس توں اوپر مستقل مزاجی میری کے آفریں کر کے کلمۂ چند اس عبارت سے کہ معنی مراد کے تئیں موافق پڑے فصاحت کلام سے بیان کر۔ و الا ممکن ہے کہ دانہ تسبیح دل کا بیچ رشتہ محبت زبان کے کہ کلید گنجینۂ نطق کی ہے، سرگردان نہ ہو کے ایک جان دو قالب نہ رہ سکے۔ ملکہ نے چیں بہ چیں ہو کے کہا کہ تیرے تئیں یاد ہو گا کہ میں نے اول مرتبہ منع کر رکھا ہے کہ تو بیچ حرکات اور سکنات میری کے زینہار مستفسر و متلاشی نہ ہو جیو۔ پس اب خلاف معمول بات


صفحہ ۲۸۲

کہنا کیا لطف ہے۔ فقیر نے ہنستے ہنستے ملکہ سے کہا کہ جیوں اور بات خلافِ معمول معاف ہوئی اتنی یہ بھی سہی۔ ملکہ اس وقت جل کر اور بھی آتش کا پرکالہ بن گئی اور نپت ہی خفگی سے کہا کہ معقول! یک نہ شد دو شد۔ چل اپنا کام کر، ان باتوں سے کیا چاہتا ہے۔" ( ۱۲۲)

(۳) تیسرا وہ اسلوب جو داستان میں فرنگی کرداروں کے آنے کے بعد (تیسرے درویش کی داستان سے) بڑی حد تک روایتی طرز احساس پر غالب آنے لگتا ہے اور اس میں ابھرنے لگتا ہے۔ استعارے غائب ہونے لگتے ہیں۔ عبارت کی رنگینی، جو پہلے اسلوب میں بہت نمایاں ہے اور دوسرے میں ملی جلی نظر آتی ہے ، پھیکی پڑنے لگتی ہے اور چلتا ہوا مفید اسلوبِ نثر پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہی وہ اسلوب ہے جو بدلتے ہوئے طرز احساس کا اسلوب ہے اور جسے ذیل کے اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے :

"ایک روز اتفاقاً موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھا اور ابر بھی زور طرح سے ہو رہا تھا اور بجلی بھی یوں کوند رہی تھی جس طرح بنیجنی پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشح نے عجب مزا کر رکھا تھا اور ستھری ستھری گلابیاں شرابِ ارغوانی سے بھری ہوئیں اس ڈول سے رکھیاں تھیں کہ یاقوت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے کون ہو جاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادۂ مروق سے نوش کروں کہ یکایک ایک شعر بے اختیار زبان میری پر گزرا

چمن ہے ابر ہے عیش و طرب ہے جام و صہبا ہے
پر اک باقی ہے مجھ کو ساقیِ گلفام کی خواہش
(ص ۱۳۲/۱۳۳)

ان تینوں اقتباسات سے ‘نوطرز مرصع‘ کے مختلف اسالیب کے مزاج کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ یہ فرق نہ صرف بندشوں، تراکیب، لہجوں میں محسوس ہوتا ہے بلکہ جملے کی


صفحہ ۲۸۳

ساخت بھی بدلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پہلے اقتباس میں جو عبارت آرائی، استعارات کا استعمال و رنگینی ہے یہ اثرات دوسرے اقتباس میں ہلکے پڑ جاتے ہیں۔ خصوصاً دوسرے اقتباس کے شروع کے جملے پہلے اقتباس سے اور آخری پانچ سات جملے تیسرے اسلوب کے مزاج، رنگ و آہنگ اور لہجے سے بڑی حد تک مطابقت رکھتے ہیں۔تیسرے اقتباس میں پہلے اسلوب کا طرز احساس پسپا ہو جاتا ہے اور نیا طرز احساس لاشعوری طور پر ابھر آتا ہے۔ تیسرے درویش کی داستان کے بعد پیچیدہ جملے سادہہونے لگتے ہیں۔ طویل جملے غائب ہو کر مختصر جملوں میں بدل جاتے ہیں۔ اور اسی کےساتھاسلوب کا مزاج، جملے کی ساخت اور لہجہ، لفظو کی ترتیب، تراکیب و بندش، فاعل، رعل، مفعول کی ترتیب بھی بدل جاتی ہے۔ اس تینوں اقتباسات کو ایک ساتھپڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ۱۷۶۸ سے لے کر ۱۷۷۴ تک خود تحسین کے اندر زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔یہ وہ دور ہے کہ برعظیم پر انگریزوں کی حکمرانی کم و بیش قائم ہو چکی ہے۔ بادشاہ نام کا بادشاہ رہ گیا ہے اور اس کی بادشاہت کمپنی بہادر کی محتاج ہے۔ ہمارا روایتی طرز احساس اس نئے تصور حقیقت کے پھیلنے کے ساتھ دم توڑ رہا ہے۔ تحسین اس روایتی اسلوب کا دامن تھامنے کی کوشش کرتے ہیں مگر "نو طرز مرصع" سے اسلوب کے دو دھارے نکلتے ہیں۔ ایک روایتی طرز احساس کا دھارا اور ایک بدلے ہوئے زمانے کے طرز احساس کا دھارا۔ سرور کا فسانۂ عجائب اور آثار الصنادید کا پہلا روپ روایتی طرز احساس کا اسلوب ہے۔ فورٹ ولیم کالج اور پھر سر سید کی نثر دوسرے طرز احساس کی ترجمان ہے۔اردو ادب کی تاریخ میں "نو طرز مرصع" کی یہی اہمیت ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ اسے مصنوعی، سطحی یا مذاق سلیم کےلیے مکروہ یا ثقل کہہ کر حقارت سے رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تصنیف اپنےدور میں قابل قدر و اہم تھی جس کا اثر اس دور کے لکھنے والوں نے قبول کیا اور آج بھی اس لیےاہم ہےکہ یہ ایک مخصوص طرز احساس کی نمائندگی کرتیہ ے۔

(تاریخِ ادب اردو، جلد دوم، حصہ دوم: ڈاکٹر جمیل جالبی، ص ۱۰۹۴ تا ۱۱۰۸)


صفحہ ۲۸۴

پروفیسر گیان چند جین

نو طرز مرصع

تحسین اٹھارویں صدی کی سب سے اہم اردو داستان کے مؤلف ہیں۔ مہر چند کھتری نے قصۂ ملک محمد وگیتی افروز مین، میر امنؔ نے باغ و بہار میں اور آزادؔ نے آبِ حیات میں ان کا نام عطا حسین خاں لکھا ہے لیکن ان کا صحیح نام میر محمد حسین عطا خان تھا جوان کےدوست امر اللہ ابو الحسن نے تذکرۂ مسرت افزا میں درج کیا ہے۔ نوطرز مرصع کے قدیم ترین نسخوں میں بھی یہی نام ملتا ہے۔ داستان کے مرتب ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ۲ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ آزادؔ نے ایک اور غلط بیانی کو رائج کیا۔ لکھتے ہیں ۳ :

"میر محمد عطا حسین خاں تحسینؔ نے چار درویشوں کا قصہ اردو میں لکھ کر نو طرز مرصع نام رکھا۔ شجاع الدولہ کے عہد میں تصنیف شروع ہوئی۔ ۱۷۵۸ء / ۱۲۱۳ھ نواب آصف الدولہ کے عہد میں ختم ہوئی۔"

شجاع الدولہ ۱۷۷۵ء میں اور آصف الدولہ ستمبر ۱۷۹۷ء / ربیع الاول ۱۲۱۲ھ میں جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آزادؔ نے آصف الدولہ کی تاریخِ وفات درج کرتے


صفحہ ۲۸۵

ہوئے عیسوی اور ہجری دونوں سنوں میں ایک سال کی غلطی کی۔ تحسینؔ نے خود واضح کر دیا ہے کہ وہ داستان لکھ کر شجاع الدولہ کے حضوور میں گزارنا چاہتا تھا کہ حیات مستعار نے نواب سے دغا کی۔ بعدۂ اس قصہ کو آصف الدولہ کے حضور میں پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قصے کی تکمیل شجاع الدولہ کے عہد (۱۷۷۵ء تک) ہی میں ہو چکی تھی۔ اگ چند ورق رہ گئے ہوں گے تو ان کا ترجمہ اسی سال کر لیا ہو گا۔ تمہید میں ایک جملہ یہ بھی ہے :

"اس وقت چندے اشعار مرزا سوداؔ صاحب کے کہ داد سخن کی دیتا ہے، میری تئیں، حسب حال اپنے، یاد پڑے۔"

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سودا المتوفی ۱۷۸۱ء / ۱۱۹۵ھ اس وقت زندہ تھے۔ بلوم ہارٹ نے انڈیا آفس اردو مخطوطات کی فہرست میں سالِ تصنیف ۱۷۸۰ء کے قریب قیاس کیا ہے۔ غالباً ۱۷۷۵ء ہی صحیح تاریخ ہے۔

حیدر آباد کے ڈاکٹر سید سجاد نے نو طرف مرصع پر تحقیق کر کے لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹر کی ڈگری لی۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمین ے اپنی مرتبہ نو طرز مرصع (۱۹۵۸ء) کے دیباچے میں درج کیا ہے۔ ڈاکٹر سجاد نے داستان کی ابردا کی تاریخ دریافت کرنے میں قابلِ قدر کاوش کی۔ تحسین نے لکھا ہے کہ وہ جنرل اسمتھ کی رفاقت میں دریائے گنگ میں بہ سواری کشتی کلکتہ جا رہے تھے۔ راستے میں ایک عزیز نے یہ داستان شروع کی۔ تحسین کو خیال ہوا کہ اس داستانِ بہارستان کو اردو میں لکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس کا ابتدائی حصہ کشتی ہی میں سپردِ قلم کیا۔ کلکتہ پہنچنے کے بعد ان کا تبادلہ عظیم آباد کو ہو گیا اور داستان کا کام ملتوی کرنا پڑا۔

ڈاکٹر سجاد نے لندن کی لائبریریوں میں ڈوب کر نہ صرف جنرل اسمتھ کا پتا چلایا بلکہ اس کے سفرِ کلکتہ کا زمانہ ۱۷۶۸ء بھی معلوم کر لیا۔ اس سے یہ طے ہو جاتا ہے کہ نو رطرز مرصع کی داغ بیل ۱۷۶۸ء میں پڑ چکی تھی۔ تکمیل ۱۷۷۵ء میں ہوئی ہو گی۔

اٹھارویں صدی کے آخر تک اردو میں نثر نگاری ایسی ندرت سمجھی جاتی تھی کہ کئی اہل قلم


صفحہ ۲۸۶

نے اپنی ناواقفیت کی بنا پر یہ سمجھا کہ وہی اس کے موجد ہیں۔ تحسینؔ سے پہلے وجہیؔ اور فضلیؔ نے یہی دعویٰ کیا تھا۔ تحسین کو بھی یہی خوش فہمی ہے۔

"مضمون اس داستانِ بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارتِ رنگین زبانِ ہندی کے لکھا چاہیے کیونکہ آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجادِ تازہ کا نہیں ہوا۔"

تحسینؔ نے اس کتاب کی تالیف میں دوسرا فائدہ یہ بھی مدِ نظر رکھا تھا کہ "جو کوئی زبانِ اردوئے معلی سیکھنے کا حوصلہ رکھے، وہ اس کا مطالعہ کرے۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ کتاب اس ضرورت کو پورا کر سکتی ہے یا نہیں؟ بعد کے داستان نگاروں نے بھی اپنا سرمایۂ فخر زبان اور اسلوب ہی کو قرار دیا قصہ گوئی کو نہیں۔

نو طرز مرصع جس وقت لکھی گئی اس وقت تک اردو نثر کو علمی درجہ نصیب نہ تھا۔ نو طرز مرصع کے پون صدی بعد تک اردو کے شعرا اردو نثر کو سرمایۂ ننگ سمجھتے تھے۔ مثنویوں کی فصلوں کے عنوان فارسی میں لکھے جاتے تھے۔ فارسی کے متأخرین انشا پردازوں کی تصانیف مثلاً پنچ رقعہ، مینا بازار، سہ نچر ظہوری وغیرہ کا بول بالا تھا۔ اردو میں نثر لکھی جائے تو ان کی تقلید کے سوا چارہ نہ تھا۔ نو طرزِ مرصع کا اسلوب زیادہ سے زیادہ مغلق، مصنوعی اور پُر تکلف ہے۔ اگر ایک طرف اس کتاب میں تشبیہ و استعارہ کی افراط، مبالغے کی بلند پروازی، تخیل کی فلک سیری ہے تو ساتھ ہی ساتھ عربی و فارسی کے موٹے لغات، فارسی کے انداز پر جار و مجرد اور صفت و موصوف کی معکوس ترکیب، توازن و ہمواری کا رقدان اور تعقید و گنجلک ہے۔ قصہ تو فارسی سے لیا ہی ہے، ان کی عبارت بھی اس انداز کی ہوتی ہے جیسے پہلے فارسی میں لکھ کر ترجمہ کیا ہو۔ مثلاً نو طرز مرصع کے شروع میں اپنے والد کی توصیف میں لکھتے ہیں :

"بیچ میدانِ تشریح و توصیف ذات اس مفرد کائناتِ نسریں ہلال آہوئے قلم کا اوپر صفحۂ گلشنِ افلاک چراگاہ سفیدۂ کاغذ کے جلوہ نمائش کا پر کر نافہ


صفحہ ۲۸۷

رتیز بہارِ عرصۂ تحریر کا نہیں ہو سکتا۔"

معلوم نہیں ہو پاتا کہ یہاں کون سا لفظ مضاف ہے کون سا مضاف الیہ۔ فقرہ کہاں ختم ہوا ہے۔ اس قسم کی الجھی ہوئی پرتصنع عبارت کا مفہوم پلے نہیں پڑتا۔ اسے مشکل سے اردو کہا جا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ تحسینؔ نے جس ماحول میں اپنی تخلیق پیش کی وہاں سلیس عبارت لکھتے تو کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔ انہوں نے اس اسلوب کی داغ بیل ڈالی جس کی نکھری ہوئی صورت فسانہ عجائب میں ہے۔ ملاحظہ ہو :

"در تعریفِ روشنی و آتش بازی گوید۔ از روئے انصاف کے کہے تو تماشے کی عالم میں وہ رات نہ تھی گویا شب برات تھی۔ اگر چراغان کی کیفیت کا ذکر کروں تو دل مانند محفل سرابستان ارم کے تجلی بخش دیدۂ بصیرتِ ارباب ذوق کا ہو جاوے اور کنول کی چمن کے روشنی کا بیان کیجیے تو غنچہ دل کا مانند گلریز کے ہوائے محبت اس کی سے گل کی صورت میں پنکھڑی پنکھڑی ہو جھڑ جائے۔ ایک طرف انار کے جھاڑ میںمانند جھاڑ کے درخت انإر کے گلہائے آتشین سے صحنِ باغ کے تئیں گل انار کر رکھا تھا۔"

فسانۂ عجائب سے مشابہت ظاہر ہے۔ فرق یہ ہے کہ تحسین کی نثر اکھڑی اکھڑی، غیر متوازن اور فرسودہ ہے۔ فسانۂ عجائب میں یہی ایک مشاق استاد کے قلم سے رواں دواں ہو کر نکلتی ہے۔ یہ بات بھی نہیں کہ اردو زبان اس وقت تک ابتدائی حالت میں تھی۔ ان سے تقریباً (۱۹) سال بعد مہر چند نے قصۂ ملک محمد وگیتی افروز لکھا۔اس کی زبان میں بات چیت کی سلاست پائی جاتی ہے۔ زبان کی طویل زندگی میں انیس (۱۹) سال کوئی بڑا عرصہ نہیں۔ چنانچہ اسی زمانے میں ان کی عبارت کے اغلاق پر انگشت نمائی کی گئی۔ مہر چند کھتری ۱۲۰۸ھ میں قصہ ملک محمد وگیتی افروز کی تمہید میں لکھتے ہیں:


"مگر انہیں دنوں میں عطا حسین خاں نے چار درویش کا قصہ فارسی سے ہندی زبان میں تجمین کر کے نو طرز مرصع نام رکھا۔ سو الحق نو طرز مرصع


صفحہ ۲۸۸

ہے لیکن جو ریختہ زبان میں بہ الفاظِ دقیق اور عبارتِ رنگین موزوں کیا ہے۔ اس سبب سے مطبوع انگریزوں کے نہیں ہوا۔"

ڈاکٹر گل کرسٹ نے باغ و بہار کے انگریزی پیش لفظ میں بھی اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے:


"عطا حسین خاں نے ابتداءً اصل فارسی سے اس کا ترجمہ شائع کیا مگر چونکہ اس کی زبان بوجہِ کثرتِ تراکیب و محاورہ فارسی و عربی مغلق اور قابل اعتراض مانی گئی تھی، اس لیے۔۔۔ اس نقص کو رفع کرنے کی غرض سے کالج کے ملازمین میں سے میر امن دہلوی نے مذکورہ بالا ترجمے سے موجودہ متن تیار کیا۔"

تحسین کو اردو نثر کے رحجان کا صحیح اندازہ نہیں ہوا۔نو طرز مرصع اور باغ و بہار سے ایک ہی مقام کے دو بیانات ملاحظہ ہوں :

"جس وقت زلف خاتونِ شب کی قمر تک پہنچی اور چشم خلائق کی، خمار نشۂ غنودگی کے سے سرمست خوابِ غفلت کے ہوئی یکایک ایک صندوقِ چوبیں فراز دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج حمل کے سے جلا بخش دیدۂ تماش بیں کا ہوا۔ فقیر واردات اس عجائبات کے سے کمال متعجب ہوا کہ آیا یہ خیال طلسمات کا ہے یا مسبب الاسباب حقیقی نے اوپر اس بیکس کے نظر ترحم کی فرما کے خزانۂ غیب سے دولتِ غیر مترقب مرحمت کی۔"
(نو طرز مرصع، ص ۸۳)

"جس وقت آدھی رات اِدھر اور آدھی رات اُدھر ہو گئی۔ سنسان ہو گیا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ ایک صندوق قلعے کی دیوار سے نیچے چلا آتا ہے۔ یہ دیکھ کر میں اچمبھے میں آیا کہ یہ کیا طلسم ہے۔ شاید خدا نے میری حیرانی اور سرگردانی پر رحم کھا کر خزانہ غیب سے عنایت کیا۔"
(باغ و بہار)

میر امن کے بیان میں حیرت، سناٹا اور پراسرار فضا کا جو احساس ہے وہ تحسین کے یہاں تقریباً


صفحہ ۲۸۹

مفقود ہے۔قارئین کو باغ و بہار سے زیر بار کی رانی کی سرگزشت یاد ہو گی۔

"میں کنیا زیر آباد کے دیس کے راجا کی ہوں اور وہ گبرو جو زندانِ سلیمان میں قید ہے اس کا نام بہرہ مند ہے میرے پتا کے منتری کا بیٹا ہے۔"

یہ بھی خیال ہو گا کہ یہ دیوان کا پوت کس طرح گھڑ چڑھی کا کسب ظاہر کر رہا تھا اور رانی اور راجکماری جھروکے سے دیکھ رہی تھیں۔ یہ سب امن کے فکرِ گہر بار کی تخلیق ہے۔ تحسین نے صرف یہ کہا ہے:

"دختر روشن اختر فرماں روائے زیر آباد کی ہوں ایک روز نظر میری خلف الصدقِ وزیر اعظم کے اوپر پڑی بہ ہزار جان و دل فریفتہ اور عاشق اس کی ہوئی۔"

میر امن کے بیان میں قلبِ نسوانی کی نزاکت اور عاشق کے جذبات کی مہذب شیفتگی ہے۔ تحسینؔ کے یہاں ہوس کی گرسنہ آنکھیں ہیں۔

تحسین کو نثر میں جابجا اشعار داخل کرنے کا بہت شوق ہے۔یہ اشعار کبھی کبھی دردؔ، سوداؔ اور دوسرے اساتذہ کے ہوتے ہیں اور بیشتر خود ان کے۔ ان کے اشعار میں عموماً لطفِ شعر نہیںہوتا۔ستم یہ ہے کہ یہ محض فرد پر قناعت نہیں کرتے بلکہ پورے کے پورے قطعے اور غزلیں شامل کر دیتے ہیں۔ اس کتاب کی نثر یوں ہی کچھ بہت رواں نہیں۔ بات بات پر شعر عرض کرنے کےلپکے کی بدولت تسلسل ڈھیر ہو جاتا ہے۔


جہاں تک زبان کا تعلق ہے نو طرز مرصع فضلی کی کربل کتھا، سوداؔ کے دیباچۂ کلیات انشا اور مرزا مظہر کی گفتگو مندرجۂ آبِ حیات کے زمرے ہی میں رکھی جائے گی۔ تحسین کے انتخاب کی داد ضرور دینی چاہیے کہ انہوں نے ایسی بلند پایہ داستان کا انتخاب کیا جس نے میر امن کر واہ دکھائی دونوں ادیبوں پر ماحول کا جبر نمایاں ہے۔ تحسین نے لکھنؤ کے زرق برق، صنعت آمیز، شکوہ و نمود کے ماحول میں اپنی تخلیق کی، میر امن نے مکتب کی کاروباری فضا


ریختہ صفحہ ۲۹۰

میں، اس سے دونوں کے اسلوب کی تشکیل ہوئی۔ تحسین کی بدنصیبی تھی کہ میر امن جیسے انشا پرداز نے اس داستان کو دوبارہ لکھا۔ جس کی وجہ سے تحسین کا کارنامہ ماند پڑ گیا۔ لیکن یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ اس وقت شمالی ہند کی اردو نثر میں کوئی ادبی تصنیف نہ تھی۔ نو طرز مرصع اپنے طرف کی پہلی کوشش ہے۔

(اردو کی نثری دداستانیں، گیان چند، صفحہ ۲۰۰ تا ۲۰۶)، اشاعت ۱۹۸۷)

حواشی :

۱ : اصلاً مجھے یہ اطلاع مسعود حسین رضوی صاحب نے دی تھی۔
۲ : مقدمۂ نو طرز مرصع، ص ۲۱
۳ : طبعِ دوازدہم، شیخ مبارک علی پبلشرز، ص ۲۵
۴: مقدمۂ نو طرز مرصع، ص ۳۱
۵: نو طرز مرصع، ص ۶۵
۶ : بحوالہ مقدمۂ نو طرز مرصع، از ڈاکٹر نور الحس ہاشمی، ص ۲۳
 
Top