نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں ، خدائے برتر کی رحمتیں ہیں

ابن رضا

لائبریرین
نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں ، خدائے برتر کی رحمتیں ہیں
یہ کہکشائیں، زمیں زماں سب اُسی کے جلووں کی وسعتیں ہیں

فلک کی چادر میں نور اُس کا، ہے موجِ دریا سرور اُس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں

نوازتا ہے وہ عزتیں بھی، نصیب کرتا ہے ذلتیں بھی
جسے جو چاہے عطا کرے وہ، اُسی کے کن کی کرامتیں ہیں

ہے ابتدا بھی ، وہ انتہا بھی، فنا کے غم سے ہے ماورا بھی
اُسی کے آگے ہیں سر نگوں سب، کمال یکتا کی قدرتیں ہیں

قیام اُس کا درونِ دل ہے ، کلام اُس کا سکونِ دل ہے
خدا سےدوری کا شاخسانہ یہ زندگی کی صعوبتیں ہیں

عظیم پروردگار ہے وہ، صبور و نافع ، قہار ہے وہ
جہانِ فانی کے سب خزانے اُسی خدا کی سخاوتیں ہیں

 

یاز

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے جناب۔ مجھے زیادہ بحور کی معلومات تو نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ والی بحر بہت پسند ہے۔
 

عباد اللہ

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے جناب۔ مجھے زیادہ بحور کی معلومات تو نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ والی بحر بہت پسند ہے۔
یاز بھیا اسی بحر میں جوش کا شعر دیکھئے
تمام محفل کے رو برو گو اٹھائیں نظریں ملائیں آنکھیں
سمجھ سکا ایک بھی نہ لیکن سوال میرا جواب تیرا
 
بہت عمدہ غزل ہے جناب۔ مجھے زیادہ بحور کی معلومات تو نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ والی بحر بہت پسند ہے۔
بحر ہے
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

فیض کی غزل ہے اس میں
ستم کی رسمیں بہت تهیں لیکن نہ تهی تری انجمن سے پہلے

اس کے علاوہ خسرو کی مشہور غزل ہے

ز حال مسکیں مکن تغافل ورائے نیناں بنائے بتیاں
 

یوسف سلطان

محفلین
نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں ، خدائے برتر کی رحمتیں ہیں
یہ کہکشائیں، زمیں زماں سب اُسی کے جلووں کی وسعتیں ہیں

فلک کی چادر میں نور اُس کا، ہے موجِ دریا سرور اُس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں

نوازتا ہے وہ عزتیں بھی، نصیب کرتا ہے ذلتیں بھی
جسے جو چاہے عطا کرے وہ، اُسی کے کن کی کرامتیں ہیں

ہے ابتدا بھی ، وہ انتہا بھی، فنا کے غم سے ہے ماورا بھی
اُسی کے آگے ہیں سر نگوں سب، کمال یکتا کی قدرتیں ہیں

قیام اُس کا درونِ دل ہے ، کلام اُس کا سکونِ دل ہے
خدا سےدوری کا شاخسانہ یہ زندگی کی صعوبتیں ہیں

عظیم پروردگار ہے وہ، صبور و نافع ، قہار ہے وہ
جہانِ فانی کے سب خزانے اُسی خدا کی سخاوتیں ہیں

بے شک
بہت خوب
 

نور وجدان

لائبریرین
مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

ذاتی طور پر یہ بحر مجھے بہت پسند ہے ۔اس بحر میں اشعار کی ترنمی میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ رضا بھائی یہ بات تو بلا تصنع ہے کہ اشعار بہت اعلی ہیں یعنی کہ آپ نے حق ادا کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعلی ۔۔۔سلامت رہیں ۔۔اللہ تعالیٰ مزید آپ کو علم و ہنر کی دولت سے مالا مال کریں ۔ آمین ثمہ آمین​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
نوازشیں ہیں، عنایتیں ہیں ، خدائے برتر کی رحمتیں ہیں
یہ کہکشائیں، زمیں زماں سب اُسی کے جلووں کی وسعتیں ہیں

فلک کی چادر میں نور اُس کا، ہے موجِ دریا سرور اُس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں

نوازتا ہے وہ عزتیں بھی، نصیب کرتا ہے ذلتیں بھی
جسے جو چاہے عطا کرے وہ، اُسی کے کن کی کرامتیں ہیں

ہے ابتدا بھی ، وہ انتہا بھی، فنا کے غم سے ہے ماورا بھی
اُسی کے آگے ہیں سر نگوں سب، کمال یکتا کی قدرتیں ہیں

قیام اُس کا درونِ دل ہے ، کلام اُس کا سکونِ دل ہے
خدا سےدوری کا شاخسانہ یہ زندگی کی صعوبتیں ہیں

عظیم پروردگار ہے وہ، صبور و نافع ، قہار ہے وہ
جہانِ فانی کے سب خزانے اُسی خدا کی سخاوتیں ہیں

سبحان اللہ ، سبحان اللہ ! کیا بات ہے ابن رضا بھائی ! بہت خوب !! ہر شعر پر بیشک بیشک کی تکرار رہی! اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے !

عمومًا تو حمدیہ و نعتیہ کلام کو تکنیکی اور فنی نقطہء نظر کے بجائے دل کی نظر سے دیکھاجاتا ہے ۔ لیکن میری رائے میں ایسے کلام کو تمام تکنیکی اور فنی عیوب سے اور زیادہ پاک ہونا چاہیئے کہ نذرانہء عقیدت ومحبت کا یہی تقاضا ہے ۔
فلک کی چادر میں نور اُس کا، ہے موجِ دریا سرور اُس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں
یہاں ’’موجِ دریا میں سرور اُس سے یا موجِ دریا میں سرور اُس کا‘‘ ہونا چاہیئے ۔ ’’میں‘‘ کے بغیر سخت تعقید پیدا ہورہی ہے ۔ مطلب کچھ یوں بن رہا ہے کہ ’’موجِ دریا اُس کا سرور ہے‘‘ ۔ اگر اسے’’سرِ موجِ دریا سرور اس کا ‘‘ کرلیں تو تعقید دور ہوجاتی ہے ۔ نیز کریم پرور کی ترکیب خلافِ مدعا ہے ۔ غریب پرور اور بندہ پرور تو ٹھیک ہیں لیکن کریم پرور درست نہیں ۔
شاخسانہ والے شعر میں شترگربہ ہے ۔ یہاں دوسرے مصرع میں ’’خدا سے دوری‘‘ کے بجائے ’’اور اُس سے دوری‘‘ کا محل ہے ۔
ابن رضا بھائی پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ اگر کوئی بات بارِ خاطر ہوئی ہو تو فراخ دلی سے کام لے کر مجھے معاف فرمائیے گا ۔
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح کے لئے نہیں ہے یہ حمد، پھر بھی متوجہ کر رہا ہوں کہ ’کوہ و پربت‘ غلط ترکیب ہے۔ پربت ہندی لفظ ہے، اس کے ساتھ اضافت یا واو عطف نہیں لگ سکتا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
سبحان اللہ ، سبحان اللہ ! کیا بات ہے ابن رضا بھائی ! بہت خوب !! ہر شعر پر بیشک بیشک کی تکرار رہی! اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے !

عمومًا تو حمدیہ و نعتیہ کلام کو تکنیکی اور فنی نقطہء نظر کے بجائے دل کی نظر سے دیکھاجاتا ہے ۔ لیکن میری رائے میں ایسے کلام کو تمام تکنیکی اور فنی عیوب سے اور زیادہ پاک ہونا چاہیئے کہ نذرانہء عقیدت ومحبت کا یہی تقاضا ہے ۔
فلک کی چادر میں نور اُس کا، ہے موجِ دریا سرور اُس کا
بلند و بالا یہ کوہ و پربت کریم پرور کی ہیبتیں ہیں

یہاں ’’موجِ دریا میں سرور اُس سے یا موجِ دریا میں سرور اُس کا‘‘ ہونا چاہیئے ۔ ’’میں‘‘ کے بغیر سخت تعقید پیدا ہورہی ہے ۔ مطلب کچھ یوں بن رہا ہے کہ ’’موجِ دریا اُس کا سرور ہے‘‘ ۔ اگر اسے’’سرِ موجِ دریا سرور اس کا ‘‘ کرلیں تو تعقید دور ہوجاتی ہے ۔ نیز کریم پرور کی ترکیب خلافِ مدعا ہے ۔ غریب پرور اور بندہ پرور تو ٹھیک ہیں لیکن کریم پرور درست نہیں ۔
شاخسانہ والے شعر میں شترگربہ ہے ۔ یہاں دوسرے مصرع میں ’’خدا سے دوری‘‘ کے بجائے ’’اور اُس سے دوری‘‘ کا محل ہے ۔
ابن رضا بھائی پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ اگر کوئی بات بارِ خاطر ہوئی ہو تو فراخ دلی سے کام لے کر مجھے معاف فرمائیے گا ۔

توجہ اور پذیرائی کے لیے بہت ممنون ہوں ظہیر صاحب. دراصل یہ میری بہت پرانی اور سب سے پہلی حمد تھی کل نظر سے گزری تو یاد تازہ کرنے کے لیے ایسے ہی دوبارہ شریک کردی۔ نشاندہی کا شکریہ انشاءاللہ ان پر توجہ ضرور دوں گا
 

جاسمن

لائبریرین
بہت ہی پیاری حمد ہے۔واہ!سبحان اللہ! سبحان اللہ! سبحان اللہ!
جزاک اللہ!
ہمارے بھی دل کی آواز ہے۔
 

شکیب

محفلین
بھئی تعریف تو کرنی بھول ہی گیا۔ ما شاء اللہ خوبصورت اشعار ہیں۔ داد قبول فرمائیے۔ حمد کے اشعار پر خوشی کا اظہار اور تعریف بھی باعثِ ثواب ہیں۔ حمد و نعت میں فنی خامیاں، جذبات سے پرے کی چیز ہیں۔ اصل تو جذبات ہیں۔
 
Top