نمکین غزل: ہوئے آج گم، قلب و جاں ، آتے آتے: محمد خلیل الرحمٰن

غزل​
ہوئے آج گم قلب و جاں ،آتےآتے​
یہ حالت ہوئی کب ،یہاں آتے آتے​
غزل داغ کی ہم نےسرقہ تو کرلی​
خیالات اُلجھے کہاں ،آتے آتے​
حسینوں کی اور کم سنوں کی کہانی!​
جنھیں’’آئیں گی شوخیاں آتے آتے‘‘​
اسی کام میں جوتیاں بھی گھسادیں​
’’وہاں جاتے جاتے، یہاں آتے آتے‘‘​
تردّد کے بعد آئے عاشق کے در پہ​
کہ آڑے تھیں مجبوریاں آتے آتے​
تعارف نے ایسا ہی کچھ طول کھینچا​
ہمیں سوگئے ، درمیاں آتے آتے​
خلیل اپنی تقدیر کو دوش کیا دیں​
زمانہ ہی بدلا یہاں آتے آتے​
محمد خلیل الرحمٰن​
 

مغزل

محفلین
غزل داغ کی ہم نےسرقہ تو کرلی​
خیالات اُلجھے کہاں ،آتے آتے​
چہ خوب چہ خوب خلیل صاحب مزا آگیا ، بہت خوب اسی طرح نوازتے رہیے ، ملاقات میں میری کم نصیبی رہی کہ سن نہ پایا تھا آپ کو۔۔
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ اچھی غزل ہے۔ اصلاح کی رو سے بعد میں دیکھتا ہوں تفصیل سے۔ ذرا انتظار کرو۔
 

الف عین

لائبریرین
میرا یہ خیال ہے کہ محض کچھ اشعار میں اصلاح ہونے سے بہتری آ سکتی ہے۔

حسینوں کی اور کم سنوں کی کہانی!
جنھیں’’آئیں گی شوخیاں آتے آتے‘‘
میں اصلاح کی ضرورت ہے، پہلے مصرع میں بات مکمل نہیں ہو رہی، اور دوسرے، حسینوں ’اور‘ کم سنوں کی کیا ضرورت ہے؟ مطلب تو محض کم سن حسینوں /حسینہ سے ہے نا!
حسیں کم سنوں کی کہانی سناؤں؟
انہیں آئیں گی۔۔۔۔
یا اس قسم کی دوسری گرہوں کے بارے میں سوچو۔

اسی کام میں جوتیاں بھی گھسادیں
میں ’بھی‘ حشو ہے، اس کا صیغہ بلکہ گرامر کو ہی بدلا جا سکتا ہے۔
اسی کام میں جوتیاں گھس گئی ہیں
اس طرح روانی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے میرے ناقص خیال میں۔ (جو ممکن ہے اتنا ناقص بھی نہ ہو)

تعارف نے ایسا ہی کچھ طول کھینچا
در اصل ’ایسا ہی‘ میں ’ہی‘ بھی بھرتی کا ہے۔
تعارف نے کچھ اس طرح طول کھینچا
زیادہ رواں اور واضح نہیں لگتا؟
 
Top