نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین

بہت عمدہ انتخاب ۔۔بہت شکریہ آپکی کاوش قابل صد تحسین ۔۔آپکی وجہ سے اتنا بہترین ناول پڑھنے کا موقعہ ملا
جیتے رہیے ۔۔ایک بار پھر بہت سا را اظئار تشکر۔۔۔
اشرف صاحب کا کمال یہ ہے وہ جانوروں کی خصلتوں میں انسانی کردار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے شاید کچھ لوگوں کوگمان گزرتا ہے کہ اشرف جانوروں کو آدمی کی طرح ٹریٹ کررہے ہیں۔لیکن اشرف صاحب نے فکشن کے ذریعے انسانوں میں بسی ہوئی جانوروں کی جبلتوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ناول ”نمبر دار کا نیلا“ ایک ایسا ہی ناول ہے جس میں انسان یعنی ٹھاکر اودل سنگھ اور جانور یعنی نیلا کی جبلتیں ایک دوسرے میں مدغم ہوگئی ہیں۔
نیلا دراصل نیل گائے کا بچہ ہے جسے گاﺅں کے نمبر دار ٹھاکر اودل سنگھ نے پالا ہے۔ نیلا کو پالنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ٹھاکر کے مکان میں چوری ہوجاتی ہے اورٹھاکر کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ مکان کی حفاظت کے لیے کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ جس کی دہشت سے لوگ ٹھاکر کے مکان کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ کرسکیں۔ ٹھاکر نیلے کو بڑی دلجمعی سے پالتا ہے۔
اس کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتا ہے ۔ اسے چارہ اور سانی کے علاوہ تیل ، بادام اور کھوے کے لڈّو کھلاتا ہے۔اِس کھان پان سے نیلے کی صحت بہت اچھی ہوجاتی ہے ساتھ ہی اس کی روایتی جبلتوں میں تبدیلیاں پیدا ہؤ جاتیں ہیں۔فطری طور پر جانور انسان سے خوف کھاتا ہے لیکن نیلے کے دل میں ٹھاکر اور اس کے اہلِ خانہ ، جن سے وہ مانوس ہے، کے علاوہ انسانوں کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔آخر گاؤں کے لوگوں کو پریشان کرنا شروع کردیتا ہے ۔۔پہلے لوگوں کی شکایات کو ٹھاکر اپنی مکاری سے غلط ثابت کرتا ہے ۔۔لیکن کی وحیشیانہ حرکتیں بڑھتی ہیں اور آخر ٹھاکر کے بیٹے کو مارے کے بعد ٹھاکر کو مار کر اسکی لاش پر سے گذر کر فرار ہوجاتا ہے ۔۔
یہ ناول آج کے عہد کی سیاست میں وحشت و بربریت کی مثال بھی ہے اور انسان کے اندر موجود ازلی ہوس و خود غرضی اور مکاری و سفاکی پر تازیانہ بھی۔ اس کے علاوہ ناول کی تفہیم باطنی و خارجی دونوں سطحوں پر ممکن اور مکمل ہے۔۔۔۔/
صف اول کے ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول کے تعلق سے کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
”بیشک اتنا عمدہ فکشن اردو تو کیا انگریزی میں بھی میں نے بہت دن سے نہیں دیکھا۔“

(رسالہ ”سوغات“ ۔ شمارہ:۱۱)
نیلا کو سدھانے کے طریقے کا بیان کس عمدگی سے ہوا ہے :
”شروع شروع میں بہت دقتیں پیش آئیں۔ اول تو یہ کہ وہ وحشی تھا۔ کسی طرح بندھنے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ پہلے اسے بھوکا رکھا گیا۔ بھوک نے اس کی وحشت کو کم کیا۔ پھر اسے خوب پیٹ بھر کر ضرورت سے زیادہ غذا دی گئی تب خوش خوری نے اس کی وحشت کو بظاہر ختم کردیا۔“(نمبر دار کا نیلا۔ ص: ۷۱)
نہایت ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ سدا سلامتی ہو۔ یہ ناول واقعتاً مختلف ہے اور پڑھتے ہوئے خوشگوار احساس ہوا۔
 
صرف ایک مہینے کی قلیل مدت میں اپنا کہا کر دکھایا۔۔۔۔
خرم صاحب آپ کے مراسلے پر سیر حاصل گفتگو شکیل بھائی، جاسمن صاحبہ فرما ہی چکے ہیں۔۔۔ ایسے مضامین بالعموم خشک ہوتے ہیں پر آپ کے قلم کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی جس نے اس خشک مضموں کو بھی ایسے نبھایا کہ شروع کیا تو آخر تک پڑھ کر ہی دم لیا۔ ناول پڑھنا باقی ہے۔ وہ بھی شاید کبھی پڑھوں گا۔ سردست اس خوبصورت مقالے کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں۔ خاصے کی چیز ہے۔
آپ کی محبت اور وقت کے لیے نہایت ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ ایسے مضامین کو خشکی سے بچانے کا واحد حل ، کہانی کا حلول ہے۔ ان شا اللہ جلد ہی دسمبر کے درمیان یا جنوری تک دو مزید مضامین اہلیانِ محفل کی خدمت میں پیش کروں گا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ کی محبت اور وقت کے لیے نہایت ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا۔ ایسے مضامین کو خشکی سے بچانے کا واحد حل ، کہانی کا حلول ہے۔ ان شا اللہ جلد ہی دسمبر کے درمیان یا جنوری تک دو مزید مضامین اہلیانِ محفل کی خدمت میں پیش کروں گا۔
میں منتظر رہوں گا۔
 
Top