نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین

نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین
"Numberdar ka Neela: A Study of Postcolonial Context and Anti-Colonialism"


ادب کبھی بھی عصری حسیت سے جان نہیں چھڑا پاتااور بڑا ادیب اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اجتماعی شعور و لاشعور کا نمائندہ بنتا ہے۔ اردو ادب نے آغاز ہی سے موضوعی سطح پر ارتقائی سفرکی روایت قائم کی اورتاحال زلفِ خمِ جاناں سے اخلاق و تربیت، مذہب و تصوف، تاریخ و سیاست، سماج و معیشت ،استعمار و آمریت ، جدیدیت مابعد جدیدیت اور نو آبادیات سے مابعد نو آبادیات تک متنوع موضوعات و رجحانات کو اپنے اندر خوبصورتی سے سموتے ہوئےتخلیق، تنقید اور تحقیق کا سفر جاری رکھا ہے ۔ یوں اردو ادب میں نہ صرف متغیرسیاسی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کا مقابلہ کرنے کی سکت و استعداد رہی ہے بل کہ جراحی کا بھی پورا سامان موجود رہا ہے۔ اردو ادب کو بلا شبہ ثقافتی تعاملات کابہترین عکاس، ملواں تہذیب کا نمائندہ ، معاشرتی المیوں کا تذکیہ یا اور اجتماعی شعور و لاشعور کا بہترین مظہرقرار دیا جاسکتاہے۔اگراردو افسانہ اور ناول نگاروں کی دوسری نسل کے ایسے نمائندہ قلم کاروں کا ذکر کیا جائے جنھوں نے جرات سے قلم کی حرمت کو نبھایا اورادبی و قومی دونوں سطحوں پر کھل کر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا ہو تو سید محمد اشرف اس کی صف اول میں موجود ملیں گے۔

سید محمد اشرف کا ناول "نمبردار کا نیلا"مابعد نو آبایاتی سیاق سے تعلق رکھتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز، اپنی مرضی سے قانون میں تبدیلی، غریب عوام پر جبرو استبداد اوراس کے خلاف مزاحمت، حیوانی علامت اورصنفی تعلقات کے مباحث کو پیش کیا گیا ہے۔ ناول کا زمان و مکان بعد از تقسیم دیہی ہندوستان اور 1950 کی دہائی کے اوائل سے منسلک ہے۔ یہ وہ دور ہے جب برصغیر سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ اسے نئی نئی برطانوی راج سے خلاصی ملی تھی لیکن اس کے بعد عوامی سطح کے آقا ؤں نے بالکل ویسا ہی جبر وستم عوام پر ڈھانا شروع کردیاتھا جیسا ان سے پہلے انگریز آقاؤں نے ڈھایا تھا۔یوں یہ ما بعد نو آبادیاتی مباحث سامنے لاتا ہے اور ایسے مسائل کی نشا ن دہی کرتا ہےجن سے سارا معاشرہ مسلسل دوچار تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ناول ایک ایسے عہد کی داستان اور المیے کا بیان ہے جس سے مکمل خلاصی تاحال برصغیر پا ک وہند کو نصیب نہیں ہوئی۔

دنیا بھر میں جن ممالک نے استعمار کا شکنجہ کسا ان میں ہسپانیہ، پرتگال، برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، اٹلی، روس اور جاپان شامل ہیں۔ ان ممالک میں نسبتاً زیادہ ظالم ملک برطانیہ نے برصغیرکو اپنی کالونی بنایا اور کالونیل دور میں یہاں ظلم وستم ، لوٹ مار اور ہر استحصالی ہربہ آزمایا۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نوآبادیاتی مسائل کی حوالے سے لکھتے ہیں:

"نوآبادیاتی دور کی پوری داستان طاقت اور تشدد کی پرستش کے گرد گھومتی ہے ۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی غارت گروں سے لے کر پوری دنیا کے برطانوی فاتحین تک (جو خود بیک وقت سپرمین تھے اور مشنری بھی)سب نے تاریک زمانوں کے سپہ سالاروں کی طرح نسلی اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر انسانیت کا قتل عام کیا۔" (1)

برطانوی استعمار اور نوآبادیاتی دور کے اختتام پر یہ امید تھی کہ برصغیر میں امن قائم ہوگا، انصاف کا بول بالا ہوگا اور خوش حالی گھر گھر پھیلے گی۔ بدقسمتی سے یہاں کے عوامی سطح کے نمائندے اور ا ن کے پس پشت طاقتوں نے اس خواب کو چکنا چور کیا اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں عدل و انصاف ، معیاری خوراک ، ابتدائی تعلیم، سائنسی ترقی اور صحت ایسے میدانوں میں یہ خطہ دنیا کے دیگر بیشتر ممالک کی نسبت بہت پیچھےدکھائی دیتا ہے۔ سید محمد اشرف نے چوں کہ مابعد نو آبادیا ت کے مسائل کو سامنےرکھتے ہوئے ناول تحریر کیا ہے اس لیے اس میں انھی مسائل کو زیرِ بحث لائے ہیں جن کی ضرورت تھی۔غور کیا جائے تو نوآبادیاتی دور کا مابعد نو آبادیاتی دور سے کچھ خاص فرق آج بھی واضح نہیں دکھائی دیتا۔ اسی لیے تاحال مصنفین جب قلم اٹھاتے ہیں تو ان موضوعات پر ضرور خامہ فرسائی کرتے ہیں۔اس ضمن میں احمد سہیل کا موقف ہے کہ

"نئے آزادہونے والے ممالک اسی پرانے خول میں بند ہیں ۔ نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستان ہو یا الجزائر، سوڈان ہو یا انڈونیشیا، تقریباً ادب و فن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طورپر نہیں کاٹی گئی تھیں۔ لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پرمنافقت ، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ فرد ہویا حکومت، ایک طبقہ ہو یا ایک معاشرہ، ہر مقام پرسمجھوتے کیے گئے اور پس نو آبادیاتی ادب و فکر میں التباس کی دھند پھیلی۔ تقریباً سبھی چھوٹے بڑے سابقہ غلام ممالک کی واضح فکری قدر نہ اپنا سکھ اور نہ ہی کوئی مستحکم نظام ان کے حصے میں آیا۔ وہی دو ممالک جو ایک ہی نو آبادیاتی شکنجے سے آزاد ہوئے ، ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے جن کے خوابوں کو پانے کے لیے سامراجی نظام سے ٹکر لی گئی، بعد میں وہ سب ہی منافقت ، زرپرستی اور اقتدار پسندی کی نذر ہوگئے۔ فرد سے فرد کا قلبی رشتہ کٹ گیا۔فکری اور عمرانیاتی آدرش بکھربکھر کے ریزہ ریزہ ہوگئے توفرد کو اپنے پھسپھسےاور کھوکھلے نظریات اور رجحانات کا احساس ہوا۔ "(2)

یوسف نون بھی اپنے مضمون میں اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ "نمبردار کا نیلا" ایک علامتی اور سماجی ناول ہے۔فیوڈل ازم، طبقاتی افتراق،سیاسی و سماجی جبرو استبداد اور اسے طول دینے والے خوف و طاقت کے مہروں سے لے کر سرچشموں تک کے تمام موضوعاتی پہلو اس ناول میں سموئے گئے ہیں۔ فیوڈل ازم ، سیاست اور بنیاد گزاری کے تحت پنپنے والی رجیم کے خاص مائنڈ سیٹ اور اس کےپیچھے کارفرما غیبی طاقتوں اور ان کے خوف کو نیلے کےعلامتی روپ میں متشکل کیا گیا ہے۔ (3)ناول کا مرکزی کردار ٹھاکر اودل سنگھ نمبر دار ہے۔ وہ طاقت، استحصال اور آمریت کے استعارے کے روپ میں سامنے آتا ہے اورہندوستانی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی عکاسی کرتا ہے۔نمبردار ایسی طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو بدلتے ہوئے معاشرے میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی تھیں۔نو آبادیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو نمبردار کو برطانوی استعمار کانمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک خود غرض اور لالچی انسان، غیر جمہوری حکمران ، اور جاگیر دار ہے جو اپنی طاقت کو ظلم اور جبر کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔ وہ گاؤں والوں کی زندگیوں پراستحصال اور جبر کا شکنجہ کس دیتا ہے اور انھیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔انگریز سرکار نے اپنے نمک خواروں اور وفاداروں کو بڑی بڑی جاگیریں بانٹی تھیں اور انھیں برطانوی حکومت کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ طاقت ما بعد نوآبادیات بھی جاری رہی ۔

(ناول) میں کچھ ایسی مقتدر سیاسی و سماجی طاقتیں ہیں جو حقائق کو عین اپنے مفادات کے مطابق تشکیل دینے میں قدرت رکھتی ہیں۔ ان تشکیل کی گئی حقیقتوں کے بیچ اصل حقائق کہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔ "(4)

ٹھاکر اودل سنگھ اپنے اثر ورسوخ اور شاطر چالوں سے سارے علاقےکو بے بس اور پا بہ زنجیررکھتا ہے ۔وہ علاقے کے پنڈت اور تھانیدار یعنی مذہب اور عدلیہ دونوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور وہ دونوں ذاتی مفادات کے لیے بخوشی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ٹھاکر طاقت اور اقتدار کی وجہ سے عوام پر ظلم و ستم کے کئی واقعات ہوتے ہیں۔ وہ عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرتا ہے، انھیں اپنے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور انھیں اپنی زمینوں سے بے دخل کرتا ہے۔ یہ ظلم و ستم عوام کی زندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے، اور یہ معاشرے میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ یوں ناول مظلوم و مقہور طبقے کے اجتماعی شعور و لاشعور کا نمائندہ بن کر سامنے آتا ہے۔

"نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستا ن ہو یاالجزائر ، سوڈان یا انڈونیشیا، تقریباً ادب وفن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نو آبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طور پر نہیں کاٹی گئی تھیں۔لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پر منافقت، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانان ان کے لیے مشکل ہوگیا۔"(5)

ناول کا دوسرا اہم ترین کردار نیل گائے کی نسل سے "نیلا "ہے۔یہ استحصالی طبقے کی طاقت، غرور، اقتدار اور لمبے ہاتھ کی علامت ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو اولاً صاحبِ اقتدار طبقہ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے پالتے ہیں اور پھر ایک دن یہی طاقت بدمست ہوکر انھیں کچل ڈالتی ہے۔غور کیا جائے تو سید اشرف ٹھاکر کے نیلے کی جگہ غنڈے اور بدمعاش کردار بھی پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں جبرو تشدد کے لیے نیلے کا علامتی استعمال کیاجس کی ایک وجہ محمد ہادی حسین کے اس بیان سے سمجھ آتی ہے:

علامتی اظہار نہ صرف تزئین کلام، تصریحِ مطالب اور لطف سخن کا موجب ہے بل کہ دور از فہم حقائق کو سمجھنے سمجھانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ (6)

نیلے کی علامت بلا شبہ اساطیری طرز کی ہے لیکن اسے نئی معنویت دی گئی ہے۔ اس سے قبل اردو ادب میں نیل گائے کی علامت کو اس زمرے میں کبھی استعمال نہیں کیاگیا۔ ایک جانب وہ گئو ماتا کا اوتار ہے جو ہندو مذہب میں دیوی اور بھگوان کا درجہ رکھتی ہے دوسری جانب یہ تشدد، جبراور ظلم کا روپ لیے ہوئے ہے۔ صدام حسین نیلے کی علامتیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

’’نیلا‘‘ نامی جانور کو علامتی روپ دے کر انسان کی خود غرضی، مکاری، فریب دہی، ظلم و ستم اور استحصال دیگراں کو بیان کیا گیا ہے۔ پلاٹ کے لحاظ سے ناول کے تمام واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ناول میں پیش کردہ تمام چیزیں فطری اور حقیقی معلوم ہوتی ہیں اور انسان کی روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ۔۔اس میں ہندوستان کی سیاسی قیادت میں در آئی خامیوں کو ایماندارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔۔۔بائیس سال قبل لکھے گئے ناول میں بیان کردہ حالات آج کے ہندوستان سے پوری طرح مماثلت رکھتے ہیں۔۔۔(7)

جانوروں کی علامیت (انگریزی ) کتاب میں گائے کو عالمی سطح پر عموماً مثبت طاقت ، زمین سے منسلکہ اور اس کی پرورش میں مستعمل امن پسند جانور اور دیوی کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ بال خصوص ہندو دھرم میں تو اس کی خاص عزت ہے ، ماتا کا درجہ دیا جاتا ہے اور بھگوان کااوتار سمجھاجاتا ہے۔ ایسے میں سید اشرف نے اسے نئی معنویت دی ہے جو خصوصی توجہ کی مستحق ہے ورنہ عموماً گائے اور بیل کی علامت سے متعلق عالمی ادب یہی نقطہ نظر پیش کرتا ہے:

When linked with the primigenial goddess Neith, the cow is a mother-symbol, representing the primal principle of humidity and endowed with certain androgynous—or gynandrous, rather—characteristics. In Egypt it was linked with the idea of vital heat. Vac, the feminine aspect of Brahma, is known as the ‘melodious Cow’ and as the ‘Cow of abundance.(8)

نوآبادیا ت کے انسانوں پر نفسیاتی اثرات اس قدرگہرے ہیں کہ بعد از نو آبادیات بھی اس چکی میں پسنے والے افراد خود کو ظالم و جابر کےخوف کے سے باہر نہیں نکال پاتے ہیں۔نیلا جس نے کئی دیہاتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں اور منھ زور قاتل کی صورت میں کہیں بھی، کسی کی بھی جان لینے سے پرہیزنہیں کرتا ، بہت سست روی سے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس کے خلاف شکایات درج کروائی جاتی ہیں، سرکاری مشنری عرصہ دراز کے بعد حرکت میں آتی ہے اور لوگ اپنے تئیں بھی اسے مار ڈالنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ایسے میں جب کہ ان کی تعدادساٹھ ساٹھ کے جتھوں کی ہے اور ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں اور ہتھیار موجود ہیں، وہ اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک عجیب خوف ان کے دل و دماغ پر سوار رہتا ہے۔ یہ محض ایک جانور کا خوف نہیں ہے بل کہ وہ خوف ہے جس کے تحت وہ کتنے عرصے سے زندگی گزار تے آرہے تھے، یہ نظام اور استعماری قوتوں کا خو ف ہے جس نے انھیں نفسیاتی عارضے "فوبیا" میں مبتلا کردیا ہے۔

“ارہڑ کے اس لمبے چوڑے کھیت کے گھیرے میں لیے پچاس ساٹھ آدمیوں کی موجودگی کے باوجود غضب کا سناٹا تھا۔ پاگل نیلا اسی کھیت میں کسی جگہ موجودتھا۔ لاٹھیاں ڈنڈے اور سانٹھیں تھامے وہ سارے آدمی پنجوں کے بل چل رہے تھے اور پھونک پھونک کرقدم اٹھا رہے تھے۔اگر کھڑی فصل میں سے نمودار ہو کر اپنے نکیلےسینگوں پر رکھ کر ریلتا ہوا پٹخیاں دیتا ہوا ، کھروں سے کھونداتا ہوا لہو لہان کرتا ہوا وہ بھاگے تو کیا ہوگا۔ یہی سوچ ہر آدمی کے کانوں میں دھڑکن بن کر دھک دھک کر رہی تھی۔(9)”

ٹھاکرسے نیلے کی ملاقات کو ڈرامائی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ ایک دن ایک زخمی نیل گائے جسے کتے بھنبوڑ رہے تھے،فصلوں سے برآمد ہوئی اور کتوں کے ڈر سے پھر سے بھاگ گئی۔ اس کے دو بچھڑے پیچھے رہ گئے جنھیں ٹھاکرنے باندھ دیا۔ ان میں سے ایک درخت سے سر ٹکرا ٹکرا کر مر گیا دوسرے کے پاؤں باندھ کر بچالیا گیا ۔ ٹھاکرنے یہ سوچ کر کے یہ اس کے لیے فائدہ مند ہے، طاقت میں اضافے کا سبب ہوگا اور کسی کتے کی نسبت زیادہ آسانی سے رکھوالی کرسکے گا اسے پالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب گاؤ ماتا ہونے کے ناطے لوگ اس کو کچھ کہہ نہ سکیں گے دوسری جانب اس کی طاقت اور جثے کی وجہ سے لوگ اس سے خوف کھائیں گے۔استعماری قوتیں ، چھوٹی قوتوں کی پرورش کرتے ہوئے مستقبل سے بے خبر ہوکر عموماً ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں :

اول تو یہ گئو ماتا ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ یہ بڑا ہو کر اجنبیوں کو اپنے سینگوں سے لہو لہان کرکے انھیں اپنے کھروں سے کچل سکتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اسے کھلانے لانے کا کوئی خاص خرچہ نہیں ہوگا ۔ کبھی کبھی اپنے کھیتوں کا چارا بھی کھالیا کرے گا۔(10)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نمبردار کے پاس ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اس کے سیاہ و سفید میں مدد کرتے اور اس کے گھر کی رکھوالی کرتت، ایسے میں وہ نیلے ہی کو کیوں پالنا چاہتا تھا اور وحشت و دہشت کے روپ میں زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حویلی میں اپنا سارا کالا دھن چھپاتا تھا تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے اور کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ غریب مزدوروں کےخون پسینے کی کمائی کو سود کی صورت میں موصول کرتا تھا اور زرِ ضمانت کے طورپر بھی ان کی ماں بہنوں اور بیگمات کے زیورات پر قبضہ جمائے رکھتا تھا۔ اس کی فصل چوں کہ وسیع ہوتی تھی اور اس سے کثیر اناج برآمد ہوتا تھا اس لیے وہ اناج کو مہنگا کرنے کے لیے بہت سا کولڈ سٹوریج میں بھی رکھوا دیتا تھالیکن ایک بھی جگہ اس کا اندراج اس کے اپنے نام نہیں ہوتا تھا۔ یہ سارا اندراج ان غریب کسانوں کے نام ہوتا تھا جنھیں اس کی دور تک خبر بھی نہ تھی۔ یہ المیہ عصرِ حاضر کا بھی المیہ ہے۔اگر کبھی چھاپہ پڑتا تو ٹھاکر کے ظلم سے بچنے کے لیے وہ ساری فصل اور اس کی آمدن کو بھی اپنی ملکیت تسلیم کرلیتے۔اس نے اپنا کالا دھن چھپا کر رکھا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے محافظ بھی تعینات کیے ہوئے تھے لیکن ایک بار کچھ شاطر ڈاکو انھیں نشہ پلا کر کچھ مال لوٹ کر لے گئے ۔ ٹھاکر اسی وقت سے اس سلسلے میں ہوشیار رہنے لگا تھا حالاں کہ اس نے دولت چھپانے کی خفیہ جگہ تعمیر کرنے والے غریب راج مستری کو پہلے ہی تعمیر سے اگلے دن قتل کروا دیا تھا۔

"تینوں ڈبوں میں وہ سارے سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں جو ادھار لینے والوں نے ضمانت کے طورپر رکھوائے تھے اور جو سودا ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اور ٹھاکر اودل سنگھ کی دولت کے سمندر میں ابھرآئے تھے۔ وہ لگ بھگ گیارہ سیر سونے کے زیور تھے۔ اس خزانے کو شہر کی کوٹھی میں رکھنے کا مطلب تھا انکم ٹیکس والوں کے خوف سے خود کو بے خواب رکھنا۔ قصبے کی حویلی میں جو خفیہ جگہ بنوائی تھی اور جسے بنانے والے راج مستری کے کپڑے تعمیر کے دوسرے دن نہر کنارے پائے گئے تھے، وہ اس نقدی کے لیے ناکافی تھی جو ٹھاکر اودل سنگھ نے شہر کے کولڈ اسٹور اور قصبے کی چئیرمینی سے پیدا کی تھی۔ کولڈ اسٹور میں 90 فیصد آلو ان کا خریدا ہوا تھا لیکن حساب کی کتابوں میں اس کا اندراج دیہات کے کسانوں کے نام ہوتا تھا۔ ۔۔۔کسانوں نے سارے اندراجات اپنے نام میں قبول کیے۔ یہ سارے کسان وہ تھے جو ٹھاکر اودل سنگھ کی گڑھی سے برسات اور سردیوں میں اپنے گھر کے زیور رکھ کر قرضہ اٹھاتے تھے ۔"(11)

انگریز کے بعد ہندوستان میں نو آبادیات کے جو بہت سے اثرات باقی رہ گئے تھے ان میں سب سے بڑا مسئلہ وڈیروں، چودھریوں اور پنڈتوں کے ظلم و ستم کا تھا۔وہ نہ تو قوم کو ترقی کرنے دینا چاہتے تھے ، نہ تعلیم حاصل کرنے دینا چاہتے تھے نہ ہی عدل و انصاف چاہتے تھے۔انھوں نے ارتکاز دولت اورعدل و انصاف کی غیر موجودگی اور اختیارات کے غلط استعمال سے لوگوں کو کے گرد ایسا نہ دکھنے والا جال بن دیا تھا جس سے وہ نکل نہیں پاتے تھے۔ عوام کو پھانسنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ان پر زندگی کے دروازے بند کردیے جائیں اور وہ جب قرض لیں تو انھیں سود کے شکنجے میں اس مضبوطی سے جکڑ دیں کہ وہ کبھی باہر نہ نکل سکیں دوسرا یہ کہ عوام میں سے کچھ کو اپنے بہت قریب کرلیں اور دیگر پر ظلم کا ایسا نظام رائج کریں کہ فرد کی انفرادیت اور تشخص ختم ہوجائے اور وہ محض ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کے بیٹھنے ہی میں عافیت سمجھے۔برصغیر میں موروثی سیاست نے اسے تباہی سے بہت دیر تک دوچار کیے رکھا ہے اور یہ مظہر اب بھی دیکھےمیں آتا ہے۔ چوں کہ لوگ نوآبادیات کے سحر سے ذہنی طور پر سست روی سے آزاد ہورہے تھے اس لیے انھوں نے موروثی سیاست سے بھی نکلنے کی تگ و دو شروع کر دی تھی لیکن ان کی آواز دبی دبی تھی اور اس میں زیادہ دم خم نہ تھا۔ ایسے میں جب کہ لوگ "ہر بار ٹھاکر ہی کیوں " ایسے نعرے لگار ہے تھے، ٹھاکر ایک اور چال چل کر بازی اپنی جانب پلٹ دی ۔وہ ان ممبروں کو اغواکروالیتا، دھمکیاں دیتا ہے اور مظالم ڈھاتا ہے جو اس کے خلاف ووٹ دے سکتےتھے۔ اس طرح وہ انھیں اپنا ہم نوا بنا کر چئیرمین کی نشست پر کامیاب ہوا۔ انھی ممبران میں سے ایک جھمن کا کرداردکھایا گیا ہے جسے وہ اغواکرلیتا ہے اور خود ہی گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دیتا ہےتا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے۔ مخالف امیدوار محمود، اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اودل کےخلاف درخواست دے دیتا ہے ۔ پولیس ایسے میں بک جاتی ہے اور تفتیش کچھ یوں ہوتی ہے :

"دن میں ٹھاکر صاحب قصبے کی حویلی میں پولس کے سب انسپکٹر انچارج کو کھانے کی میز پر تفتیش کراتے اور رات کو 12 بجے کے بعد گاؤں پہنچ کر گڑھی کے تہہ خانے میں جھمن کو ڈنڈے پر کپڑا لپیٹ کر پٹواتے۔ چناؤ سے ایک دن پہلے انھوں نے جھمن کو سمجھایا کہ ہمارا ساتھ دینے میں تمھارا جو فائدہ ہے اسےتم سمجھ نہیں پارہے ہو۔ ایک تو یہ کہ تمھیں چئیر مین بننے کے بعد صفائی کا ممبر انچارج بنادوں گا ۔صفائی کے عملے کی آسامیاں تم اپنی مرضی سے بھرنا۔ قصبے میں نل لگوانے کا کام بھی تمھارے ہی سپرد ہوگا۔ 100 نل منظور ہوتے ہیں تو کم از کم پندرہ ضرور لگوانا ہوں گے۔روزانہ سڑک کی نالیوں پر چونا ڈالوانے کا ایک بجٹ ہوتا ہے ۔ اس پیسے سے تم دھرم کے کام میں لگا سکتے ہو جیسے اپنی بیٹی کی شادی کا کھانا اور کپڑے وغیرہ۔" (12)

یہ ہی نہیں ٹھاکر نے جمعدار کو دھمکی دینے کے لیے اس کی بیٹی کو اٹھوانے کی بات بھی کی۔ یہ دھمکی عموماً کم جرات مند اور غیور لوگوں پر فوراً کارگر ہوتی ہے۔ اب جمعدار کے پاس ماننے کے سوا اور کیا چارہ تھا۔ اس خدشے سے کہ کہیں جھمن اب بھی نہ مانے اس نے اسے خود جان سے مار دینے کی دھمکی بھی دی۔ جھمن کی ڈر کے مارے گھگی بندھ گئی اور وہ مان گیا۔ اسے تین دن کی مار پیٹ کے بعد چھوڑا گیا تھا، اس نے بجائے احتجاج کے اودل کا شکریہ ادا کیا اور اس کے حق میں اگلے دن ووٹ دینے کے لیے تیار ہوگیا۔

"ہاتھ کے آزاد ہونے کا جو واحد فائدہ جھمن کی سمجھ میں آیا وہ یہ کہ اب اطمینان سے جھک کر دونوں ہاتھ جوڑ سکتا تھا ۔اس نے یہی کیا۔"(13)

جب جھمن سے تھانے دار نے اس کی گمشدگی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ محمود کے ڈر سے دلی بھاگ گیا تھا اور اب پہنچا ہے۔ تھانے دار نے رپورٹ میں اودل سنگھ کا شکریہ ادا کیا۔ طاقت کا توازن اب اودل کی جانب تھا کیوں کہ وہ اب چئیر مین بن چکا تھا۔ یقینا اس نے جیتنے کے لیے دیگر لوگوں کےساتھ بھی اسے ہی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا تھا۔ایک جانب ٹھاکر کی اپنی شیطانی فکر جاری تھی ،دوسری جانب نیلا غیر ضروری غذا اور سرسوں کا تیل، بادام ، مونگ پھلیوں پر پل کر ایسا ہتا کٹا ہوگیا تھا کہ ایک ہی ٹکر میں کسی بھی انسان کا کام تمام کر سکتا تھا۔ ٹھاکر خوش تھا اور اس جنگلی وحشی جانور کو اس انداز سے اپنے قابو میں کیا تھا کہ پہلے خوب کھلایا پلایا ،پھر بھوکا رکھا اور اپنی مرضی سے خوراک دی۔ جس طرح کتے کو سدھایا جاتا ہے، ایسے ہی وہ ٹھاکر کے سدھائے میں آگیا اور اس کے اشارے پر ناچنے لگا۔ ٹھاکر نے نیلے کو اپنے قریبی ساتھیوں او ر رشتہ داروں سے واقف کرایا تاکہ وہ انھیں نقصان نہ پہنچا سکے جب کہ دیگر تمام کی خوں ریزی اور ان پر چڑھ دوڑنے کے لیے ہمیشہ تیار ملا۔ایک دن اس نے غریب شامو کو ٹکر مار کر اس کی کمر توڑ ڈالی ۔ ٹھاکر اس پر تشویش کے بجائے خوش ہوا۔ اس نے اسے مذہبی رنگ دے دیا تاکہ آئندہ کبھی بھی اس کی جانب کوئی شکایت نہ آئے اور لوگ اسے گاؤ ماتا کا اوتار سمجھ کر قبول کریں اور اس کی ساری شرارتوں کو بھی یہ سمجھیں کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے ۔

"یہ گئو ماتا کا اوتار ہے۔ دشٹ لوگوں کا ٹھیک ٹھیک پر بندھ رکھے گا۔"(14)

اس پر شکایت لانے والوں میں سے کچھ نے نیلے کے آگے جھک کر باقاعدہ اسے سلام بھی پیش کیا۔کبھی نیلا گڑھی میں ہوتا اور کبھی قصبے کی حویلی میں تاکہ دونوں جانب اس کی مسلسل دونوں جانب دہشت قائم رہے۔ اب نیلے میں انسانوں کے درمیان رہنے کا حوصلہ آگیا تھا اور وہ یہ بات جان گیا تھا کہ انسان اس کے جثے اور طاقت سے خوف کھاتے ہیں۔طاقت کے نشے میں چور کبھی وہ چلتے لوگوں کے درمیان گھس جاتا، سینگوں سے راستہ بناتا، کسی کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتا، مزدوری لینے آئے مزدوروں پر چڑھ دوڑتا، پڑوسی گھروں میں گھس کر ان کے مٹی کے برتن توڑ ڈالتا۔قصبےمیں لوگ نیلے سےاپنی عزت اور سامان بچانے لگے۔ وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کرتے لیکن ٹھاکر یہ بھی برا لگتا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی طاقت کے نشے میں سب کچھ بہہ جائے۔ایک ایسا ہی واقعہ گلفام کا تحریر کیا گیا ہے۔ وہ بیچارہ خوانچہ فروش ہے اور امرود بیچتا ہے۔ نیلے نے نہ صرف اس کے امرود کھائے، ہٹانے پر اس کے بقیہ امرود کچل دیے اور جب اس حرکت سے روکا تو اس نے اس پر حملہ کرکے اس کے بازور کو زخمی کردیا اور قمیض پھٹ گئی؛ وہ اس کا ہرجانہ چاہتا تھا۔ ٹھاکر نے غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا اسے ہی ڈانٹا اور الزام اس کے سر بڑی شاطر بازی سے دھر دیا۔ کہنا لگا:

"تم نے اس وقت تک تہہ بازاری کا پیسہ نہیں بھرا تو اس کا مطلب ہے صبح سے شام تک تم غیر قانونی انداز میں بیٹھے۔بولو جواب دو۔۔۔۔تم کئی بار امرودوں کی تعداد بدل چکے ہو۔ بولو کتنے امرود کھائے۔سات بار یا چھ بار۔۔۔۔سب لوگ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے۔گلفام ان کی طرف بے بس نظروں سے دیکھتا رہا۔۔۔۔کیا اس کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ نیلے نے اس کو لات ماری جب کہ خود یہ اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ اس نے بغیر کسی اشتعال کے نیلے کو دو مرتبہ دھکا دیا"(15)

اس بیچارے کی داد رسی تو کیا ہوتی ، سب طاقت کے سامنے جھک گئے اور اس پر معصوم گئو ماتا پر حملے کا الزام الگ لگا۔اس پر اسے سو مرتبہ اٹھا بیٹھی کی سزاالگ ملی اوپر سے اسےبقیہ امرود بھی معصوم گئو ماتا کو کھلانے پڑے۔ یوں نیلا اس کے مذموم عزائم میں مسلسل کامیابی کی منازل طے کروانے میں مدد کر رہا تھا۔ ٹھاکر خود یہ سوچتا تھا کہ اس دولت اور شہرت کے پیچھے نیلے کا بڑا ہاتھ ہے۔

"جب سے وہ دیہات اور قصبے کی دولت کی حفاظت سے بے فکر ہوئے ہیں، سیاست اورتجارت میں خوب وقت دینے لگے ہیں۔ تو ان کی توجہ اور وقت دینے کی وجہ سے سیاست اور تجارت پہلے سے کئی گنا ترقی پر ہیں یعنی ان سب ترقیوں کے پیچھے اس نیلے کا ہاتھ ہے۔"(16)

گزرتے حالات و واقعات کے ساتھ نیلے کے حوالے سے لوگوں کے رویے میں واضح تبدیلیاں رونما ہوئیں تھیں۔وہ ٹھاکر کے خلاف تو آواز اٹھا سکتے تھے ، نیلے کے خلاف اٹھانا ایک طرح سے دھرم کے خلاف آواز اٹھانے کے برابر تھا۔بہت سے غیر جانب دار افراد اس لیے بیچ میں آجاتے تھے کہ کسی طور دھرم پر آنچ نہ آئے۔کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ٹھاکر اور نیلے کی طرف دار ی کرتے تھے ۔ نتیجتاً نیلے کو ایک طرح سے سیاسی پناہ مل گئی تھی۔ اب وہ زیادہ آزادی کے ساتھ لوگوں کی جان اور مال سے جس طرح چاہے سلوک کرسکتا تھا۔اس میں ٹھاکر اور نیلا دونوں کا ہی فائدہ تھا۔ جب کسی کا نقصان ہوتا تو ٹھاکر اور اس کے ساتھی اسی کی غلطی ثابت کردیتے اور وہ روتا تڑپتا رخصت ہوجاتا۔ اس سے لوگوں کی ہی ذہن سازی ہوگئی کہ یہ مسئلہ کسی طور حل ہونے کا نہیں ہے۔

ٹھاکر صاحب اگر براہِ راست کسی کو کوئی گزند پہنچائیں گے تو اس کی تو داد فریاد ہے لیکن نیلے کی کسی حرکت کی داد فریاد اس لیے نہیں ہے کہ اس کی حمایت میں ٹھاکر صاحب کے علاوہ بہت سے غیر جانب دار لوگ بھی شامل ہوجاتے تھے۔ کوئی نیلے کو برا کہہ کر خوامخواہ شراپ بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔آہستہ آہستہ صورتِ حال کچھ یوں ہوگئی کہ جو لوگ نیلے سے مضروب بھی ہوتے وہ بھی اس بات کا کھکلم کھلا اعتراف نہیں کرتے مبادا انھی کی کوئی غلطی سامنے آجائے۔"(17)

ٹھاکر نیلے کے خلاف شکایات سنتا تو اکثر کہتا کہ وہ اسے سمجھا دے گا۔ ٹھاکر اس بات سے یا تو بالکل بے خبر تھا کہ جانور کو سمجھایا نہیں جاسکتا یا پھر وہ اس کی طاقت کے نشے میں خود بھی چور تھا ۔ نیلے کا دماغ کسی شیطان چرخے کی طرح چلنے لگا تھا اور وہ اب اس قابل ہوگیا تھا کہ با آسانی خود بخود گاؤں سے شہر تک ٹھاکر کی حویلی پہنچ سکے۔ ٹھاکر اس کی بدلتی فطرت سے جان بوجھ کر آنکھیں مو ند چکا تھا۔ اس کی تیزی، انسانی دماغ کی طرح سوچنے کی صلاحیت اور دور تک پیچھا کرکے دشمن کو ختم کرنے کی استعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی تھی۔ اس کی دست درازیاں بھی حد سے تجاوز کرنے لگی تھیں۔ وہ سکول میں جاکر تباہی مچاتا، ہیڈ ماسٹر کی کرسی اٹھا پھینکتا اور بچوں کو روندتا آگے نکل جاتا۔ اس نے ننھے بچوں کو سخت زخمی کیا تھا۔ پنچایت ہوئی تو ٹھاکر نے انھی آٹھ بچوں کو مجرم قرار دے دیا کہ انھوں نے نیلے کو چھیڑا ہوگا۔ حقیقت یہ کہ جب تک جرم کی پشت پناہی نہ کی جائے تب تک وہ پنپتا اور پھلتا پھولتا نہیں ہے۔

" ٹھاکر نے ان بچوں کے والدین کو بھری پنچایت میں سمجھایا کہ یہی آٹھ بچے نیلے کو پتھر مار مارکر پریشان کر تے ہیں ورنہ ڈیڑھ سو بچوں میں صرف انھی آٹھ کو کیوں پسند کرتا۔"(18)

نیلے کو روکا نہ گیا ، اس نے کھیت میں گھس کر بھیکو کی جوان بہو کی آنتیں ایک ہی ٹکر میں نکال دیں۔ تیسرے دن لوگوں نے پنچایت بٹھائی۔ مندر کا پجاری در اصل دولت کا پجاری بن گیا اور حق انصاف کی بات کہنے کے بجائے وہ ٹھاکر کے ڈرامے میں پورا پورا شریک ہوا۔ ٹھاکر نے کہا کہ میں تو گئو کی سیوا کر نا اپناحق سمجھتا ہوں اور تم سب کہتے ہوتو اسے گولی ماردیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ بندوق کی جانب بڑھاکہ پجاری نے سوچا سمجھا کردار ادا کیا۔اس نے ایسا دہشت ناک نقشہ کھینچا اور وعظ کیا کہ لوگ سہم گئے، ڈر کے مارے منھ چھپانے لگے اور اس مقدس گاؤ ماتا کے اوتار کےمالک شاطر ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے نیلے کو گولی نہیں مار دی ورنہ ان پر آسمانی عذاب نازل ہوتا۔

"کیا بکتا ہے مورکھ۔۔۔گئو کا شراپ گاؤں پرڈالے گا۔۔۔؟اگر گئو بدھ ہوا تو گاؤں میں پہلے تو ہیضے کی وبا آئے گی جو خاص طورپر سے گود کے بچوں کو چن چن کر لے جائے گی۔۔۔پھر تیز موسلا دار بارش ہوگی اور کھیتوں کے پودے جڑ سمیت نکل کر اسی سیلاب میں بہہ جائیں گے۔پھرآندھیاں آئیں گی اور درخت یعنی برگد جیسے بڑے ورکش بھی اپنی جٹاؤں کو سمیٹ کر دھرتی سے نکل کر زمین پر بچھ جائیں گے۔۔۔ پنجایت جب چھٹی تو سبھی لوگ اودل سنگھ کے شکر گزار تھے جنھوں نے آج نیلے کو گولی نہ مار کر سارے گاؤں کو مختلف آفتوں سے بچالیا تھا"(19)

ٹھاکر کے بڑےچھوٹے بیٹے اونکار کو بھی اپنے باپ ہی کی طرح سفاک اورشاطر دکھایا گیا ہے۔وہ بڑی استحصالی طاقت کی پناہ میں پنپتی چھوٹی استحصالی طاقت ہے۔ اس نے دو دوستوں کی مدد سے ایک شریف النفس نوجوان کمہارن بڑکی کی عزت لوٹی اور الزام الٹا اس کےہونے والے شوہر کے دوستوں پر لگا دیا۔ خود رپورٹ بھی اونکار ہی نے لکھوائی۔ اس کے غریب منگیتر کو گرفتار کرلیا گیا، منگنی ٹوٹ گئی اور بڑکی عمر بھر کے لیے ذلت و خواری کی تصویر بنی رہ گئی۔ ٹھاکر کو معلوم ہوگیا کہ یہ اس حرکت اس کے بیٹے کی ہے اور اس حرکت کے دوران بڑے بیٹے کی بیوی یعنی اس کی بہو کی عزت سے بھی کھیلا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس نے اونکار کو کچھ خاص نہیں کہا ۔ وہ رپورٹ اس لیے نہیں لکھوانا چاہتا تھا کہ اس طرح نیلے کا ڈر لوگوں کے دل سے کم ہوجائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ اب گڑھی میں با آسانی آیا جاسکتا ہے۔ مجرم پکڑنے کا مرحلہ آیا تو شناخت پریڈ کے دوران ٹھاکرنے اپنے دشمنوں پر الزام لگایا اور غریب امرود فروش گلفام کےبڑے بھائی کو پکڑوادیا کہ اس نےانتقاما ایسا کیا تھا۔

مابعد نوآبادیات میں ایک بڑا مسئلہ مذہبی منافرت ، مسلکی اختلافات اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجانے کا بھی رہا ہے۔ یہ موضوع بھی اس ناول میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک دن محمود جو کہ ٹھاکر کا سیاسی حریف تھا، ٹھاکر اس کی بیٹی کی شادی میں گیا اور ساتھ نیلے کو بھی لے گیا۔شادی سے واپسی پر نیلے نے ایک گائے کو ہری ہوتے دیکھا اور اپنے وحشی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ وہ اندھا دھند بھاگا اور بھاگتے ہوئے جو اس کے سامنے آیا اس کو رگیدتا گیا۔ اس نے مسجد کے قاری صاحب کو بھی الٹا اٹھا پھینکاجنھیں نہایت نازک حالت میں ہسپتال پہنچا یا گیا ۔ یوں معاملے کو مذہبی رنگ ملا اور سینکڑوں لوگوں کا ہجوم بلوے کو تیار ہوگیا۔ جواباً ہندو بھی گئو ماتا کو بچانے کے لیے نکلے اور ٹھاکو تھانے کو بطور محفوظ پناہ گاہ منتقل کردیا گیا۔ معاملہ تھانے گیا توٹھاکر نے غلطی تسلیم کرنے یا نیلے کو جنگل میں چھوڑنے کے بجائے الٹا الزام محمود کے بڑے بیٹے کے سر دھر دیا کہ اس نے نیلے کو کچھ ایسا کھلایا ہے کہ وہ پاگل ہوگیا ۔ اس نے نیلے کو خوش کرنے کے لیے گڑ کھلایا تھا جو نیلے کی عام خوراک تھی لیکن اس کے چوں کہ گواہ بھی موجود تھے اور ٹھاکرنے تھانے دار سےساز باز بھی کرلی تھی اس لیے سارے معاملے کو پلٹتے ہوئے وقت نہیں لگا۔تھانے دار نے بھی رپورٹ ٹھاکر کے خلاف لکھنے کے بجائے جانور کے خلاف لکھنے کا بہانہ بنایا اور ٹھاکر نے محض نیلے کو محض جانور سمجھ کر خدمت کرنے اور سرپرستی قبول نہ کرنے کا اظہار کیا۔یوں سارا معاملہ ہی ختم ہو کر رہ گیا۔تھانے دار کا بیان ملاحظہ کیجیے جو کس پینترے سے رپورٹ لکھنے کی سوچ رہا ہے اور درپردہ ٹھاکر اور نیلے کو بچا رہاہے۔

"میں اپنی طرف سے کیس کو تبھی درج کروں گا جب مجھے یہ علم ہوجائے کہ مارنے والا کون تھا اور اس کی ولدیت کیا تھی ۔ٹھاکر صاحب تو کہتے ہیں کہ اس نیلے سے ان کا اتنا ہی سمبندھ ہے کہ وہ ان کی گڑھی کی حویلی میں آجاتا ہے تو وہ اسے کھانا دے دیتے ہیں۔وہ اسے اپنا پاتو ماننے کو تیار نہیں۔۔۔"(20)

یہیں تک نہیں سیاست دان ٹھاکر نے یہ افواہ باقاعدہ ہجوم میں پھیلا دی تھی کہ محمود کے بیٹے نے جان بوجھ کر دھتورا کھلا کر نیلے کو پاگل کیا ہے اور اس نے تھانے دار کے سامنے اقرار بھی کرلیا ہے۔ اس بات سے مجمعے کا زور ٹوٹنے لگا تھا اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے۔ تھانے دارنے بھی بازی پلٹتے دیکھ کر عوام کو مختلف قانونی دفعات سے ڈرا کر گھروں کو لوٹا دیا۔ محمود بھی چوں کہ اس سارے معاملے میں ڈر چکا تھا اس لیے اس نے بجائے کہ نا حق بہنے والے خون کا انصاف کرتا اور اپنے موقف پہ ڈٹ جاتا، فوت ہوجانے والے قاری کے خاندان کو ٹھاکر سے کچھ رقم دے دلا کر معاملہ دبا دیا۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر کسی کو باہر پتہ چلا تو خوامخواہ تمھاری ہی بدنامی ہوگی اس لیے خاموشی سے رکھ لو ۔یہاں دونوں سیاست دان ذاتی مفاد کے لیے یک جا ہوگئے ۔اتنے بڑے واقعے کے باوجود ٹھاکر نیلے کی کارکردگی سے خوش تھا۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا اگرچہ وہ جانتا تھاکہ یہ ایک فتنہ ہے۔

"وہ بہت سنجیدگی سے یہ بات سوچتے کہ ان جیسے صاحبِ دولت اور صاحبِ اقتدار کے پاس اس قسم کا ایک ہتھیار ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس کچھ فتنے اسی لیے پالے جاتے ہیں کہ وہ برے وقت میں ساتھ دیں یا اچھے وقت کو اور بہتر بنائیں۔"(21)

ٹھاکر اپنی شاطر طبیعت ، قانون کی ملی بھگت اور نیلے کی طاقت کے سہارے سارے علاقے کی قسمت کا خدا بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ سرکاری کی جانب سے اسےجو کچھ میسر ہوتا ، اسے وہ خاموشی سے ہضم کرجاتا ۔ اس ڈر سے کہ کہیں شکایت نہ ہو، وہ اس کا انتظام احسن انداز میں کرتا اور اپنے پڑوس کے دوچار گھروں یاپھر گھر سے دور گاؤں کی سرحد پر بنے دو ایک گھرانوں کو بھی مراعات میں حصہ دار بناتاجس کی وجہ سے اسے کسی تفتیش یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا نہ ہی کوئی آواز اس کے خلاف اٹھ پاتی ۔لیکن یہ سلسلہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگا اور اس کے خلاف دبی دبی آوازیں بلند ہونے لگیں۔پہلی آواز خود اس کے اپنے ہی گھر سے اٹھی۔ بڑکی جس کی عزت اس کے بیٹے اونکار نے لوٹی تھی ،اور اس کی بھابی کی خدمت میں رہتی تھی، اس نے دوبارہ سے اونکار کو قریب پایا اور یہ یقین کرکے کہ اس کی عزت لوٹنے والا اونکار ہی تھا، اپنے گذشتہ منگیتر کے ساتھ مل کر اسے قتل کروادیا اور اس کی بیگم کو اغوا۔ یہاں اچھنبے کی بات یہ تھی کہ نیلے کی موجودگی میں کوئی کس طرح حویلی میں داخل ہوا اور یہ سارا واقعہ پیش آیا ؟یہ بالکل نا ممکن سی بات تھی۔ بڑکی نے نیلے کو قابو میں رکھنے کے لیے کچھ عرصہ قبل اسے کھلانا پلانا شروع کر دیا تھااور ایک وقت ایسا آیا جب نیلے کی طاقت کا توازن اس کی جانب ہوگیا ۔جس وقت بڑکی کا گذشتہ منگیتر اور اس کا دوست اونکار اور اس کی بیوی کو اٹھا کر لے گیا اس وقت بڑکی اسے کھلا پلا رہی تھی۔ یہ نقطہ نہایت اہم ہے کہ طاقت کا توازن کس طرح پلٹتا ہے، وفاداریاں کس طرح تبدیل ہوتی ہیں اور کی جاسکتی ہیں۔ اونکار کو قتل کردیا گیا اور اس کی بیوی کی عصمت دری کی گئی۔ اب نیلا نا قابلِ اعتبار ہوگیا تھا لیکن ٹھاکر کو اس میں اونکار کا روپ نظر آتا تھا۔علاقے کاہیڈ ماسٹر جو بہت سمجھ دار انسان تھا اس نے ٹھاکر کو پریشان دیکھ کر کہا تھا کہ بڑکی کی عزت نیلے نے لوٹی ہے لیکن وہ سمجھ نہ پایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ ہیڈ ماسٹر، سکول اور اس کی تعلیم کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ اس سکول کو بھی ختم کروا دینا چاہتا تھا لیکن عوامی رائے اور پسندیدگی کوبنائے رکھنے کی وجہ سے اسکول کو بمشکل تمام جاری رہنے دیا تھا۔ اس اسکول میں اکلوتا ایک ہی استاد سب بچوں کو پڑھاتا تھا۔ وہی ماسٹر تھااور وہی ہیڈ ماسٹر۔ سکول ایک طرح سے محض نمائشی شے بنا ہوا تھا۔

"ضلع کلکٹر اور شہر کے پڑھے لکھوں کو دکھانے کے لیےگاؤں میں سکول ضروری تھا اس لیے اسکول تھا۔ اسکول کا خرچہ گرام پنچایت اٹھاتی تھی۔۔۔نمبر دار کو دیہات کے بچوں کی تعلیم بہت اکھرتی تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ سارے لونڈے جھنوں نے تعلیم پائی تھی ان سے اتنے خوش نہیں رہتے تھے جتنے وہ لونڈے جھنوں نے تعلیم نہیں پائی تھی۔ "(22)

بیٹی اور بہو کے واقعے کے بعد ٹھاکر کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی نظر میں نیلے کی قدر کم نہ ہوئی تھی کیوں کہ اس کے مطابق وہ اس کی دہشت اور دولت میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔وہ ہر جگہ نظر آنے لگا تھا ، ہر جگہ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ خود اونکاراور ٹھاکر تھا :

"کھڑے کھڑے انھوں نے نیلے سے پیدا ہونے والی دہشت کو محسوس کیا اور اس دہشت کے سائے میں قطرہ قطرہ بڑھتی دولت اور انچ انچ بڑھتے اقتدار اور اختیار کو لقمہ لقمہ ہضم کیا ۔"(23)

“نیلااس وقت گڑھی میں تھا حالاں کہ درحقیقت وہ اس وقت قصبے میں تھا۔ وہ آموں اور امرودوں اور بیروں اور جامنوں کے ہر باغ میں تھا ۔ قصبے کا ہر فرد سمجھ رہا تھا کہ نیلا کہیں اور نہیں خود اس کے دروازےسے لگا کھڑا ہے بس ذرا دروازہ کھلا اور۔۔۔”(24)

ٹھاکر اور اس کے ارد گرد دیہات نیلے کے خوف میں مبتلا تھے ۔ غلام معاشروں میں عموماً ظلم کو برداشت کرتے کرتے اسے سہنے کی عادت پڑجاتی ہے اور جب جابر کا مقابلہ کرنا بال کل ہی ممکن نہ ہو تو ظلم کو اپنی قسمت سمجھ لیا جاتا ہے۔یہی خوف کی نفسیات بھی ہے۔ نیلے کے حوالے سے بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے تئیں اس کے غائب ہوجانے کے باوجود اس سے موت کے خوف میں مبتلا تھے۔ بہو دونوں بچوں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے تھی، بوڑھا ہیڈ ماسٹر آنکھیں بند کیے ہوئے خوف زدہ تھا اور باقی سب لوگوں کے حالات بھی ایک ہی جیسے تھے۔

طاقت، دہشت اور وحشت کی علامت نیلا ، اس قدر خطرناک ہوگیا تھا کہ ٹھاکر کے سوا سبھی کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا تھا اور اس کا اظہار اس کے دوسرے بیٹے ، بہو اور ان کے بچوں نے بھی کیا تھا لیکن وہ ان کی بات ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے جنگل میں چھوڑ دیا جائے۔ بغاوت کی یہ آواز بھی گھر ہی سے بلند ہوئی تھی۔ شہر کے کلکٹر کو نیلے کے خلاف متعدد درخواستیں موصول ہوئیں تو اس نے ٹھاکر بلا کر نیلے کو مارنے کا کہا تھا لیکن ٹھاکر نے ان سے کچھ وقت لے لیا تھا تا کہ اس عرصے میں اسے باندھ کر رکھے اور لوگ آہستہ آہستہ بھول جائیں۔ اس نے اسے اپنے ارہڑ کے کھیت میں باندھ دیا تھا تاکہ لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے لیکن اس نے رسی تڑا کر پھر سے تباہی مچائی تھی اور ایک ہی رات میں بارہ مختلف جگہوں پر واردات کی تھی۔ ایس پی یہ بھی خیال تھا کہ یہ محض نیلے کی نہیں بل کہ اس جیسے دیگر نیلوں کی بھی شرارت ہے ۔اس کے بعد ایس پی اور کلکٹر نے اسے پاگل قرار دے کر مارنےکا حکم دیا تھا ۔ پاگل قرار دینا بھی ایک طرح سے احتیاط تھی تاکہ شہر میں گئو ماتا کے قتل پر فساد نہ پھوٹ پڑے۔ لوگوں کی بہت سی ٹولیاں نے آخر کار ٹھاکر اور نیلے کے خلاف ہتھیار اٹھا ئےتھے اور وہ اس کی تلاش میں نکلے کہ جہاں ملے اسے مار دیا جائے۔ ٹھاکر اسے پھر سے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بچا نہیں پا یا۔ لوگوں نے اسے لاٹھیوں سےپیٹتے ہوئے لہو لہان کردیا۔ نیلے کی ایک آنکھ ضایع ہوئی اور دوسری سے خون بہنے سے اسے دھندلا نظر آنے لگا۔ نیلا اندازے سے حویلی کی جانب بڑھا اور پچھلی دیوار سے اندر کود کر اس کے دوسرے بیٹے کو بھی موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ بہو اور بچے بہت مشکل سے اپنی جان بچا پائے ۔

"بڑی بہو کا پیر ساڑی میں اٹکا اور وہ لڑکھڑا گئی ۔ پیچھے سے آتا ہوا پرتاپ اس سے ٹکرایا اور رک گیا۔ بہو کمرے کے اندر داخل ہوچکی تھی اور پرتاپ نیلے کےسینگوں سے الجھا ہوا تھا۔ بڑی بہو اضطراری طورپر کمرے سے باہر آئی ۔۔۔مڑی تو دیکھا کہ نیلا اپنی پچھلی ٹانگوں پہ کھڑا ہوا اگلے کھروں سے پرتاپ کا سرپاش پاش کرچکا تھا۔ (25)

بدمست نیلے نے ٹھاکر کا بھی خیال نہ کیا اور اسے بھی اپنے سینگوں سے مسلتے اور پیروں سے کچلتے ہوئے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ لوگ اس کی تلاش میں آگے بڑھے لیکن وہ وہاں سے ہمیشہ کے لیے دور بھاگ چکا تھا ، کسی اور استحصالی قوت کا بازوبننے، کسی کو روند ڈالنے اور اپنی طاقت کا خراج وصول کرنے کے لیے۔ ناول کا اختتام اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ استعماری و استحصالی قوتیں جس قدر بھی تیز ہوں، اگر لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کامیابی کی جانب بڑھتے ہیں اور ایسی قوتوں کو شکست دیے بنا امن کی زندگی جینا دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔مجموعی طورپر ناول مابعد نو آبادیاتی دور کے مسائل کی خوبصورتی سے نمائندگی کرتا ہے۔
Muhammad Khurram Yasin

حوالہ جات:
 

جاسمن

لائبریرین
السلام علیکم۔
ابھی میں نے آپ کا مضمون نہیں پڑھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مضامین بہت فرصت اور توجہ سے پڑھنے والے ہوتے ہیں۔
اس ناول کا تذکرہ ابھی چند دن پہلے کہیں پڑھا تھا۔
 
محمدخُرم صاحب !
ماشاء اللہ خوب عالمانہ انداز اور فاضلانہ طریق پر ناول کی سیرکرائی ہے ۔ میں نے یہ ناول آرکیولائبریری سے ڈاؤن لوڈ کرلیا ہے ۔اب اِسے پڑھنے اوراِس کے واقعات اور محرکات کو سمجھنے کا مزا آئے گا مگر یہ فرمائیے کیا ناول کی ضخامت 94 صفحات محض ہے ؟
 
آخری تدوین:
محمدخُرم صاحب !
ماشاء اللہ خوب عالمانہ انداز اور فاضلانہ طریق پر ناول کی سیرکرائی ہے ۔ میں نے یہ ناول آرکیولائبریری سے ڈاؤن لوڈ کرلیا ہے ۔اب اِسے پڑھنے اوراِس کے واقعات اور محرکات کو سمجھنے کا مزا آئے گا مگر یہ فرمائیے کیا ناول کی ضخامت 94 صفحات محض ہے ؟
شکیل صاحب! نہایت ممنون ہوں، ذرہ نوازی۔ شکریہ۔
آرکائیو میں شاید کوئی اور ایڈیشن ہو، میرے پا س ایڈیشن میں اس کے صفحات کی تعداد ایک سو اڑتیس ہے۔ سرورق اور دیباچہ وغیرہ الگ ہیں۔ اس ناول کا کینوس بڑا ہے ، اس لیے اسے موضوعِ تحقیق و تنقید بنایا۔دیگر 13 کتب سے مدد لی ، اس لیے دورانِ تحقیق کام طوالت کا سبب بنا۔ آرکائیو میں موجود، ہوسکتا ہے مختصر ہو۔ آپ ڈاؤنلوڈڈ فائل سے اختتامیہ دیکھیے، اگر ناول مکمل ہوتا ہے تو یقینا یہ اس کا مختصر ایڈیشن ہوگا۔
 
السلام علیکم۔
ابھی میں نے آپ کا مضمون نہیں پڑھا۔ ظاہر ہے کہ ایسے مضامین بہت فرصت اور توجہ سے پڑھنے والے ہوتے ہیں۔
اس ناول کا تذکرہ ابھی چند دن پہلے کہیں پڑھا تھا۔
وعلیکم السلام!
بہت شکریہ کہ آپ ایسے باذوق قارئین، ہم ایسے نکموں کو میسر ہیں۔ آپ ضرور مطالعہ فرمائیےگا۔ شکریہ۔ جزاک اللہ ۔ جو اچھا برا لگے برملا اظہار کیجیے گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
کبھی کبھی مجھے خود پہ ہی ہنسی آتی ہے کہ کہاں میں اور کہاں اس طرح کے اردو کے تحقیقی مضامین!
میں تو شاعری کے لیے سٹوڈیو کھول کے پریشان تھی کہ یااللہ! اتنے عالم فاضل لوگوں میں میں کہاں ان پڑھ سی آ گئی ہوں۔ اور اب یہ نثری مضامین! :unsure:

مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ​

اتنے مشکل مشکل الفاظ و تراکیب۔
حق ہا!!!:X3:
لیکن آپ نے آخر پڑھنے پہ مجبور کر ہی دیا ہے۔ :):):) ورنہ ہم اردو کے باقاعدہ طالب علموں میں شمار قطار نہیں ہوتے۔ :)
آپ ایسے باذوق قارئین، ہم ایسے نکموں کو میسر ہیں
کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ!!!
باذوق قارئین جلد ہی مطالعہ فرما کے اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے۔ :D
 
کبھی کبھی مجھے خود پہ ہی ہنسی آتی ہے کہ کہاں میں اور کہاں اس طرح کے اردو کے تحقیقی مضامین!
میں تو شاعری کے لیے سٹوڈیو کھول کے پریشان تھی کہ یااللہ! اتنے عالم فاضل لوگوں میں میں کہاں ان پڑھ سی آ گئی ہوں۔ اور اب یہ نثری مضامین! :unsure:

مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ​

اتنے مشکل مشکل الفاظ و تراکیب۔
حق ہا!!!:X3:
لیکن آپ نے آخر پڑھنے پہ مجبور کر ہی دیا ہے۔ :):):) ورنہ ہم اردو کے باقاعدہ طالب علموں میں شمار قطار نہیں ہوتے۔ :)

کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ!!!
باذوق قارئین جلد ہی مطالعہ فرما کے اپنی رائے سے آگاہ فرمائیں گے۔ :D
میں منتظر رہوں گا۔ جزا ک اللہ خیرا۔ سدا سلامتی ہو۔ آمین۔
اور شاعری کے اسٹوڈیو سے کیا مراد ہے ؟
نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات درحقیقت اصطلاحات ہیں اس لیے انھیں ترجمہ نہیں کیا جاسکتا، پہلے ہی ترجمہ شدہ اصطلاحات ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
ماشاءاللہ۔
ناول کا گہرائی میں جا کے مطالعہ کرنا،اس تجزیاتی مطالعہ سے معانی اخذ کرنا اور پھر اسے احسن انداز سے پیش کرنا ایک فن ہے اور آپ اس فن میں ماہر ہیں۔ آپ بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ یہ کاپی اور چسپاں کرنا نہیں ہے بلکہ آپ نے جگہ جگہ اپنی منطقی رائے بھی دی ہے۔
اس مضمون کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ناول کو پڑھنا ہی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے ساتھ ناول نگار کی طرزِ تحریر سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
میرے خیال میں سب ہی خاص کرداروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور ترتیب کا دھیان بھی خوب رکھا ہے۔ کرداروں کے ساتھ ساتھ موضوع اور ناول جن معاملات و مسائل کا احاطہ کرتا ہے، انھیں بہت خوبی سے جامع اور مختصر طور پہ اجاگر کیا گیا ہے۔
کہیں کہیں املا کی کچھ غلطیاں ہیں جو کہ جرنل میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تحقیقاتی مضامین شائع کرنے والے ایک جرنل میں املا کی اغلاط نظر آنا عجیب لگتا ہے۔
نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستان ہو یا الجزائر، سوڈان ہو یا انڈونیشیا، تقریباً ادب و فن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طورپر نہیں کاٹی گئی تھیں۔ لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پرمنافقت ، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ فرد

نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستا ن ہو یاالجزائر ، سوڈان یا انڈونیشیا، تقریباً ادب وفن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نو آبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طور پر نہیں کاٹی گئی تھیں۔لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پر منافقت، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانان ان کے لیے مشکل ہوگیا۔"(5)
یہ پیراگراف دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔ اور شاید جرنل میں بھی ایسا ہی ہے۔ مضمون لکھنے کے بعد مضمون نگاروں کو تنقیدی نگاہ سے اسے دیکھنا چاہیے تھا۔
بہرحال مجھے بہت اچھا لگا۔ اسے پڑھنے سے پہلے ناول پڑھنا پڑا اور ناول واقعی ایسا تھا کہ جب تک مکمل نہیں کیا، رکھ نہیں سکی۔
مردوں عورت کے ازلی رومانوی رنگ کے بغیر ناول لکھنا اور ایسا ناول کہ جس کا موضوع اور کہانی قاری کو اپنی مکمل گرفت میں لے لے، کمال ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرد و عورت کے رومانس کے بغیر بھی ناول لکھے جا سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر تحقیقی مضمون میں اس پہلو کو بھی شامل کیا جاتا تو بہتر تھا۔
ہیڈ ماسٹر کا کردار مختصر تھا اور وہی امید کی واحد کرن بھی تھا۔ لگتا ہے ناول نگار نے اسے مختصر اس لیے رکھا کہ مکمل اجالا آنے سے پہلے کرن بھی چھوٹی سی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین
"Numberdar ka Neela: A Study of Postcolonial Context and Anti-Colonialism"


ادب کبھی بھی عصری حسیت سے جان نہیں چھڑا پاتااور بڑا ادیب اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اجتماعی شعور و لاشعور کا نمائندہ بنتا ہے۔ اردو ادب نے آغاز ہی سے موضوعی سطح پر ارتقائی سفرکی روایت قائم کی اورتاحال زلفِ خمِ جاناں سے اخلاق و تربیت، مذہب و تصوف، تاریخ و سیاست، سماج و معیشت ،استعمار و آمریت ، جدیدیت مابعد جدیدیت اور نو آبادیات سے مابعد نو آبادیات تک متنوع موضوعات و رجحانات کو اپنے اندر خوبصورتی سے سموتے ہوئےتخلیق، تنقید اور تحقیق کا سفر جاری رکھا ہے ۔ یوں اردو ادب میں نہ صرف متغیرسیاسی، سماجی، معاشی اور نفسیاتی مسائل کا مقابلہ کرنے کی سکت و استعداد رہی ہے بل کہ جراحی کا بھی پورا سامان موجود رہا ہے۔ اردو ادب کو بلا شبہ ثقافتی تعاملات کابہترین عکاس، ملواں تہذیب کا نمائندہ ، معاشرتی المیوں کا تذکیہ یا اور اجتماعی شعور و لاشعور کا بہترین مظہرقرار دیا جاسکتاہے۔اگراردو افسانہ اور ناول نگاروں کی دوسری نسل کے ایسے نمائندہ قلم کاروں کا ذکر کیا جائے جنھوں نے جرات سے قلم کی حرمت کو نبھایا اورادبی و قومی دونوں سطحوں پر کھل کر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ چھوڑا ہو تو سید محمد اشرف اس کی صف اول میں موجود ملیں گے۔

سید محمد اشرف کا ناول "نمبردار کا نیلا"مابعد نو آبایاتی سیاق سے تعلق رکھتا ہے جس میں طاقت کا ارتکاز، اپنی مرضی سے قانون میں تبدیلی، غریب عوام پر جبرو استبداد اوراس کے خلاف مزاحمت، حیوانی علامت اورصنفی تعلقات کے مباحث کو پیش کیا گیا ہے۔ ناول کا زمان و مکان بعد از تقسیم دیہی ہندوستان اور 1950 کی دہائی کے اوائل سے منسلک ہے۔ یہ وہ دور ہے جب برصغیر سماجی اور سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ اسے نئی نئی برطانوی راج سے خلاصی ملی تھی لیکن اس کے بعد عوامی سطح کے آقا ؤں نے بالکل ویسا ہی جبر وستم عوام پر ڈھانا شروع کردیاتھا جیسا ان سے پہلے انگریز آقاؤں نے ڈھایا تھا۔یوں یہ ما بعد نو آبادیاتی مباحث سامنے لاتا ہے اور ایسے مسائل کی نشا ن دہی کرتا ہےجن سے سارا معاشرہ مسلسل دوچار تھا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ناول ایک ایسے عہد کی داستان اور المیے کا بیان ہے جس سے مکمل خلاصی تاحال برصغیر پا ک وہند کو نصیب نہیں ہوئی۔

دنیا بھر میں جن ممالک نے استعمار کا شکنجہ کسا ان میں ہسپانیہ، پرتگال، برطانیہ، فرانس، ہالینڈ، بیلجیم، جرمنی، اٹلی، روس اور جاپان شامل ہیں۔ ان ممالک میں نسبتاً زیادہ ظالم ملک برطانیہ نے برصغیرکو اپنی کالونی بنایا اور کالونیل دور میں یہاں ظلم وستم ، لوٹ مار اور ہر استحصالی ہربہ آزمایا۔ ڈاکٹر اقبال آفاقی نوآبادیاتی مسائل کی حوالے سے لکھتے ہیں:

"نوآبادیاتی دور کی پوری داستان طاقت اور تشدد کی پرستش کے گرد گھومتی ہے ۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی غارت گروں سے لے کر پوری دنیا کے برطانوی فاتحین تک (جو خود بیک وقت سپرمین تھے اور مشنری بھی)سب نے تاریک زمانوں کے سپہ سالاروں کی طرح نسلی اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر انسانیت کا قتل عام کیا۔" (1)

برطانوی استعمار اور نوآبادیاتی دور کے اختتام پر یہ امید تھی کہ برصغیر میں امن قائم ہوگا، انصاف کا بول بالا ہوگا اور خوش حالی گھر گھر پھیلے گی۔ بدقسمتی سے یہاں کے عوامی سطح کے نمائندے اور ا ن کے پس پشت طاقتوں نے اس خواب کو چکنا چور کیا اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں عدل و انصاف ، معیاری خوراک ، ابتدائی تعلیم، سائنسی ترقی اور صحت ایسے میدانوں میں یہ خطہ دنیا کے دیگر بیشتر ممالک کی نسبت بہت پیچھےدکھائی دیتا ہے۔ سید محمد اشرف نے چوں کہ مابعد نو آبادیا ت کے مسائل کو سامنےرکھتے ہوئے ناول تحریر کیا ہے اس لیے اس میں انھی مسائل کو زیرِ بحث لائے ہیں جن کی ضرورت تھی۔غور کیا جائے تو نوآبادیاتی دور کا مابعد نو آبادیاتی دور سے کچھ خاص فرق آج بھی واضح نہیں دکھائی دیتا۔ اسی لیے تاحال مصنفین جب قلم اٹھاتے ہیں تو ان موضوعات پر ضرور خامہ فرسائی کرتے ہیں۔اس ضمن میں احمد سہیل کا موقف ہے کہ

"نئے آزادہونے والے ممالک اسی پرانے خول میں بند ہیں ۔ نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستان ہو یا الجزائر، سوڈان ہو یا انڈونیشیا، تقریباً ادب و فن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نوآبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طورپر نہیں کاٹی گئی تھیں۔ لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پرمنافقت ، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ فرد ہویا حکومت، ایک طبقہ ہو یا ایک معاشرہ، ہر مقام پرسمجھوتے کیے گئے اور پس نو آبادیاتی ادب و فکر میں التباس کی دھند پھیلی۔ تقریباً سبھی چھوٹے بڑے سابقہ غلام ممالک کی واضح فکری قدر نہ اپنا سکھ اور نہ ہی کوئی مستحکم نظام ان کے حصے میں آیا۔ وہی دو ممالک جو ایک ہی نو آبادیاتی شکنجے سے آزاد ہوئے ، ایک دوسرے کے دشمن ٹھہرے جن کے خوابوں کو پانے کے لیے سامراجی نظام سے ٹکر لی گئی، بعد میں وہ سب ہی منافقت ، زرپرستی اور اقتدار پسندی کی نذر ہوگئے۔ فرد سے فرد کا قلبی رشتہ کٹ گیا۔فکری اور عمرانیاتی آدرش بکھربکھر کے ریزہ ریزہ ہوگئے توفرد کو اپنے پھسپھسےاور کھوکھلے نظریات اور رجحانات کا احساس ہوا۔ "(2)

یوسف نون بھی اپنے مضمون میں اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ "نمبردار کا نیلا" ایک علامتی اور سماجی ناول ہے۔فیوڈل ازم، طبقاتی افتراق،سیاسی و سماجی جبرو استبداد اور اسے طول دینے والے خوف و طاقت کے مہروں سے لے کر سرچشموں تک کے تمام موضوعاتی پہلو اس ناول میں سموئے گئے ہیں۔ فیوڈل ازم ، سیاست اور بنیاد گزاری کے تحت پنپنے والی رجیم کے خاص مائنڈ سیٹ اور اس کےپیچھے کارفرما غیبی طاقتوں اور ان کے خوف کو نیلے کےعلامتی روپ میں متشکل کیا گیا ہے۔ (3)ناول کا مرکزی کردار ٹھاکر اودل سنگھ نمبر دار ہے۔ وہ طاقت، استحصال اور آمریت کے استعارے کے روپ میں سامنے آتا ہے اورہندوستانی تاریخ کے ایک اہم موڑ کی عکاسی کرتا ہے۔نمبردار ایسی طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے جو بدلتے ہوئے معاشرے میں اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی تھیں۔نو آبادیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو نمبردار کو برطانوی استعمار کانمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک خود غرض اور لالچی انسان، غیر جمہوری حکمران ، اور جاگیر دار ہے جو اپنی طاقت کو ظلم اور جبر کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔ وہ گاؤں والوں کی زندگیوں پراستحصال اور جبر کا شکنجہ کس دیتا ہے اور انھیں اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔انگریز سرکار نے اپنے نمک خواروں اور وفاداروں کو بڑی بڑی جاگیریں بانٹی تھیں اور انھیں برطانوی حکومت کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ طاقت ما بعد نوآبادیات بھی جاری رہی ۔

(ناول) میں کچھ ایسی مقتدر سیاسی و سماجی طاقتیں ہیں جو حقائق کو عین اپنے مفادات کے مطابق تشکیل دینے میں قدرت رکھتی ہیں۔ ان تشکیل کی گئی حقیقتوں کے بیچ اصل حقائق کہیں دب کر رہ جاتے ہیں۔ "(4)

ٹھاکر اودل سنگھ اپنے اثر ورسوخ اور شاطر چالوں سے سارے علاقےکو بے بس اور پا بہ زنجیررکھتا ہے ۔وہ علاقے کے پنڈت اور تھانیدار یعنی مذہب اور عدلیہ دونوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور وہ دونوں ذاتی مفادات کے لیے بخوشی اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ٹھاکر طاقت اور اقتدار کی وجہ سے عوام پر ظلم و ستم کے کئی واقعات ہوتے ہیں۔ وہ عوام سے بھاری ٹیکس وصول کرتا ہے، انھیں اپنے کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، اور انھیں اپنی زمینوں سے بے دخل کرتا ہے۔ یہ ظلم و ستم عوام کی زندگیوں کو تباہ کر دیتا ہے، اور یہ معاشرے میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ یوں ناول مظلوم و مقہور طبقے کے اجتماعی شعور و لاشعور کا نمائندہ بن کر سامنے آتا ہے۔

"نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے بعد چاہے وہ ہندوستا ن ہو یاالجزائر ، سوڈان یا انڈونیشیا، تقریباً ادب وفن پر سابقہ سامراجی اثرات قائم رہے کیوں کہ نو آبادیاتی نظام کی جڑیں مکمل طور پر نہیں کاٹی گئی تھیں۔لہٰذا ان ممالک کے فکری افق پر منافقت، سودے بازی اور نعرے بازی کی قوتیں کچھ ایسی حاوی رہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پانان ان کے لیے مشکل ہوگیا۔"(5)

ناول کا دوسرا اہم ترین کردار نیل گائے کی نسل سے "نیلا "ہے۔یہ استحصالی طبقے کی طاقت، غرور، اقتدار اور لمبے ہاتھ کی علامت ہے۔ یہ وہ طاقت ہے جو اولاً صاحبِ اقتدار طبقہ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے لیے پالتے ہیں اور پھر ایک دن یہی طاقت بدمست ہوکر انھیں کچل ڈالتی ہے۔غور کیا جائے تو سید اشرف ٹھاکر کے نیلے کی جگہ غنڈے اور بدمعاش کردار بھی پیش کرسکتے تھے لیکن انھوں جبرو تشدد کے لیے نیلے کا علامتی استعمال کیاجس کی ایک وجہ محمد ہادی حسین کے اس بیان سے سمجھ آتی ہے:

علامتی اظہار نہ صرف تزئین کلام، تصریحِ مطالب اور لطف سخن کا موجب ہے بل کہ دور از فہم حقائق کو سمجھنے سمجھانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ (6)

نیلے کی علامت بلا شبہ اساطیری طرز کی ہے لیکن اسے نئی معنویت دی گئی ہے۔ اس سے قبل اردو ادب میں نیل گائے کی علامت کو اس زمرے میں کبھی استعمال نہیں کیاگیا۔ ایک جانب وہ گئو ماتا کا اوتار ہے جو ہندو مذہب میں دیوی اور بھگوان کا درجہ رکھتی ہے دوسری جانب یہ تشدد، جبراور ظلم کا روپ لیے ہوئے ہے۔ صدام حسین نیلے کی علامتیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :

’’نیلا‘‘ نامی جانور کو علامتی روپ دے کر انسان کی خود غرضی، مکاری، فریب دہی، ظلم و ستم اور استحصال دیگراں کو بیان کیا گیا ہے۔ پلاٹ کے لحاظ سے ناول کے تمام واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ناول میں پیش کردہ تمام چیزیں فطری اور حقیقی معلوم ہوتی ہیں اور انسان کی روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ۔۔اس میں ہندوستان کی سیاسی قیادت میں در آئی خامیوں کو ایماندارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔۔۔بائیس سال قبل لکھے گئے ناول میں بیان کردہ حالات آج کے ہندوستان سے پوری طرح مماثلت رکھتے ہیں۔۔۔(7)

جانوروں کی علامیت (انگریزی ) کتاب میں گائے کو عالمی سطح پر عموماً مثبت طاقت ، زمین سے منسلکہ اور اس کی پرورش میں مستعمل امن پسند جانور اور دیوی کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ بال خصوص ہندو دھرم میں تو اس کی خاص عزت ہے ، ماتا کا درجہ دیا جاتا ہے اور بھگوان کااوتار سمجھاجاتا ہے۔ ایسے میں سید اشرف نے اسے نئی معنویت دی ہے جو خصوصی توجہ کی مستحق ہے ورنہ عموماً گائے اور بیل کی علامت سے متعلق عالمی ادب یہی نقطہ نظر پیش کرتا ہے:

When linked with the primigenial goddess Neith, the cow is a mother-symbol, representing the primal principle of humidity and endowed with certain androgynous—or gynandrous, rather—characteristics. In Egypt it was linked with the idea of vital heat. Vac, the feminine aspect of Brahma, is known as the ‘melodious Cow’ and as the ‘Cow of abundance.(8)

نوآبادیا ت کے انسانوں پر نفسیاتی اثرات اس قدرگہرے ہیں کہ بعد از نو آبادیات بھی اس چکی میں پسنے والے افراد خود کو ظالم و جابر کےخوف کے سے باہر نہیں نکال پاتے ہیں۔نیلا جس نے کئی دیہاتوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں اور منھ زور قاتل کی صورت میں کہیں بھی، کسی کی بھی جان لینے سے پرہیزنہیں کرتا ، بہت سست روی سے لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس کے خلاف شکایات درج کروائی جاتی ہیں، سرکاری مشنری عرصہ دراز کے بعد حرکت میں آتی ہے اور لوگ اپنے تئیں بھی اسے مار ڈالنے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ایسے میں جب کہ ان کی تعدادساٹھ ساٹھ کے جتھوں کی ہے اور ان کے ہاتھ میں لاٹھیاں اور ہتھیار موجود ہیں، وہ اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایک عجیب خوف ان کے دل و دماغ پر سوار رہتا ہے۔ یہ محض ایک جانور کا خوف نہیں ہے بل کہ وہ خوف ہے جس کے تحت وہ کتنے عرصے سے زندگی گزار تے آرہے تھے، یہ نظام اور استعماری قوتوں کا خو ف ہے جس نے انھیں نفسیاتی عارضے "فوبیا" میں مبتلا کردیا ہے۔

“ارہڑ کے اس لمبے چوڑے کھیت کے گھیرے میں لیے پچاس ساٹھ آدمیوں کی موجودگی کے باوجود غضب کا سناٹا تھا۔ پاگل نیلا اسی کھیت میں کسی جگہ موجودتھا۔ لاٹھیاں ڈنڈے اور سانٹھیں تھامے وہ سارے آدمی پنجوں کے بل چل رہے تھے اور پھونک پھونک کرقدم اٹھا رہے تھے۔اگر کھڑی فصل میں سے نمودار ہو کر اپنے نکیلےسینگوں پر رکھ کر ریلتا ہوا پٹخیاں دیتا ہوا ، کھروں سے کھونداتا ہوا لہو لہان کرتا ہوا وہ بھاگے تو کیا ہوگا۔ یہی سوچ ہر آدمی کے کانوں میں دھڑکن بن کر دھک دھک کر رہی تھی۔(9)”

ٹھاکرسے نیلے کی ملاقات کو ڈرامائی ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ ایک دن ایک زخمی نیل گائے جسے کتے بھنبوڑ رہے تھے،فصلوں سے برآمد ہوئی اور کتوں کے ڈر سے پھر سے بھاگ گئی۔ اس کے دو بچھڑے پیچھے رہ گئے جنھیں ٹھاکرنے باندھ دیا۔ ان میں سے ایک درخت سے سر ٹکرا ٹکرا کر مر گیا دوسرے کے پاؤں باندھ کر بچالیا گیا ۔ ٹھاکرنے یہ سوچ کر کے یہ اس کے لیے فائدہ مند ہے، طاقت میں اضافے کا سبب ہوگا اور کسی کتے کی نسبت زیادہ آسانی سے رکھوالی کرسکے گا اسے پالنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جانب گاؤ ماتا ہونے کے ناطے لوگ اس کو کچھ کہہ نہ سکیں گے دوسری جانب اس کی طاقت اور جثے کی وجہ سے لوگ اس سے خوف کھائیں گے۔استعماری قوتیں ، چھوٹی قوتوں کی پرورش کرتے ہوئے مستقبل سے بے خبر ہوکر عموماً ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں :

اول تو یہ گئو ماتا ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ یہ بڑا ہو کر اجنبیوں کو اپنے سینگوں سے لہو لہان کرکے انھیں اپنے کھروں سے کچل سکتا ہے ۔ تیسرے یہ کہ اسے کھلانے لانے کا کوئی خاص خرچہ نہیں ہوگا ۔ کبھی کبھی اپنے کھیتوں کا چارا بھی کھالیا کرے گا۔(10)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نمبردار کے پاس ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو اس کے سیاہ و سفید میں مدد کرتے اور اس کے گھر کی رکھوالی کرتت، ایسے میں وہ نیلے ہی کو کیوں پالنا چاہتا تھا اور وحشت و دہشت کے روپ میں زندہ رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حویلی میں اپنا سارا کالا دھن چھپاتا تھا تاکہ ٹیکس سے بچا جاسکے اور کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ غریب مزدوروں کےخون پسینے کی کمائی کو سود کی صورت میں موصول کرتا تھا اور زرِ ضمانت کے طورپر بھی ان کی ماں بہنوں اور بیگمات کے زیورات پر قبضہ جمائے رکھتا تھا۔ اس کی فصل چوں کہ وسیع ہوتی تھی اور اس سے کثیر اناج برآمد ہوتا تھا اس لیے وہ اناج کو مہنگا کرنے کے لیے بہت سا کولڈ سٹوریج میں بھی رکھوا دیتا تھالیکن ایک بھی جگہ اس کا اندراج اس کے اپنے نام نہیں ہوتا تھا۔ یہ سارا اندراج ان غریب کسانوں کے نام ہوتا تھا جنھیں اس کی دور تک خبر بھی نہ تھی۔ یہ المیہ عصرِ حاضر کا بھی المیہ ہے۔اگر کبھی چھاپہ پڑتا تو ٹھاکر کے ظلم سے بچنے کے لیے وہ ساری فصل اور اس کی آمدن کو بھی اپنی ملکیت تسلیم کرلیتے۔اس نے اپنا کالا دھن چھپا کر رکھا تھا اور اس کی حفاظت کے لیے محافظ بھی تعینات کیے ہوئے تھے لیکن ایک بار کچھ شاطر ڈاکو انھیں نشہ پلا کر کچھ مال لوٹ کر لے گئے ۔ ٹھاکر اسی وقت سے اس سلسلے میں ہوشیار رہنے لگا تھا حالاں کہ اس نے دولت چھپانے کی خفیہ جگہ تعمیر کرنے والے غریب راج مستری کو پہلے ہی تعمیر سے اگلے دن قتل کروا دیا تھا۔

"تینوں ڈبوں میں وہ سارے سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں جو ادھار لینے والوں نے ضمانت کے طورپر رکھوائے تھے اور جو سودا ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اور ٹھاکر اودل سنگھ کی دولت کے سمندر میں ابھرآئے تھے۔ وہ لگ بھگ گیارہ سیر سونے کے زیور تھے۔ اس خزانے کو شہر کی کوٹھی میں رکھنے کا مطلب تھا انکم ٹیکس والوں کے خوف سے خود کو بے خواب رکھنا۔ قصبے کی حویلی میں جو خفیہ جگہ بنوائی تھی اور جسے بنانے والے راج مستری کے کپڑے تعمیر کے دوسرے دن نہر کنارے پائے گئے تھے، وہ اس نقدی کے لیے ناکافی تھی جو ٹھاکر اودل سنگھ نے شہر کے کولڈ اسٹور اور قصبے کی چئیرمینی سے پیدا کی تھی۔ کولڈ اسٹور میں 90 فیصد آلو ان کا خریدا ہوا تھا لیکن حساب کی کتابوں میں اس کا اندراج دیہات کے کسانوں کے نام ہوتا تھا۔ ۔۔۔کسانوں نے سارے اندراجات اپنے نام میں قبول کیے۔ یہ سارے کسان وہ تھے جو ٹھاکر اودل سنگھ کی گڑھی سے برسات اور سردیوں میں اپنے گھر کے زیور رکھ کر قرضہ اٹھاتے تھے ۔"(11)

انگریز کے بعد ہندوستان میں نو آبادیات کے جو بہت سے اثرات باقی رہ گئے تھے ان میں سب سے بڑا مسئلہ وڈیروں، چودھریوں اور پنڈتوں کے ظلم و ستم کا تھا۔وہ نہ تو قوم کو ترقی کرنے دینا چاہتے تھے ، نہ تعلیم حاصل کرنے دینا چاہتے تھے نہ ہی عدل و انصاف چاہتے تھے۔انھوں نے ارتکاز دولت اورعدل و انصاف کی غیر موجودگی اور اختیارات کے غلط استعمال سے لوگوں کو کے گرد ایسا نہ دکھنے والا جال بن دیا تھا جس سے وہ نکل نہیں پاتے تھے۔ عوام کو پھانسنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ان پر زندگی کے دروازے بند کردیے جائیں اور وہ جب قرض لیں تو انھیں سود کے شکنجے میں اس مضبوطی سے جکڑ دیں کہ وہ کبھی باہر نہ نکل سکیں دوسرا یہ کہ عوام میں سے کچھ کو اپنے بہت قریب کرلیں اور دیگر پر ظلم کا ایسا نظام رائج کریں کہ فرد کی انفرادیت اور تشخص ختم ہوجائے اور وہ محض ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کے بیٹھنے ہی میں عافیت سمجھے۔برصغیر میں موروثی سیاست نے اسے تباہی سے بہت دیر تک دوچار کیے رکھا ہے اور یہ مظہر اب بھی دیکھےمیں آتا ہے۔ چوں کہ لوگ نوآبادیات کے سحر سے ذہنی طور پر سست روی سے آزاد ہورہے تھے اس لیے انھوں نے موروثی سیاست سے بھی نکلنے کی تگ و دو شروع کر دی تھی لیکن ان کی آواز دبی دبی تھی اور اس میں زیادہ دم خم نہ تھا۔ ایسے میں جب کہ لوگ "ہر بار ٹھاکر ہی کیوں " ایسے نعرے لگار ہے تھے، ٹھاکر ایک اور چال چل کر بازی اپنی جانب پلٹ دی ۔وہ ان ممبروں کو اغواکروالیتا، دھمکیاں دیتا ہے اور مظالم ڈھاتا ہے جو اس کے خلاف ووٹ دے سکتےتھے۔ اس طرح وہ انھیں اپنا ہم نوا بنا کر چئیرمین کی نشست پر کامیاب ہوا۔ انھی ممبران میں سے ایک جھمن کا کرداردکھایا گیا ہے جسے وہ اغواکرلیتا ہے اور خود ہی گمشدگی کی رپورٹ لکھوا دیتا ہےتا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے۔ مخالف امیدوار محمود، اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اودل کےخلاف درخواست دے دیتا ہے ۔ پولیس ایسے میں بک جاتی ہے اور تفتیش کچھ یوں ہوتی ہے :

"دن میں ٹھاکر صاحب قصبے کی حویلی میں پولس کے سب انسپکٹر انچارج کو کھانے کی میز پر تفتیش کراتے اور رات کو 12 بجے کے بعد گاؤں پہنچ کر گڑھی کے تہہ خانے میں جھمن کو ڈنڈے پر کپڑا لپیٹ کر پٹواتے۔ چناؤ سے ایک دن پہلے انھوں نے جھمن کو سمجھایا کہ ہمارا ساتھ دینے میں تمھارا جو فائدہ ہے اسےتم سمجھ نہیں پارہے ہو۔ ایک تو یہ کہ تمھیں چئیر مین بننے کے بعد صفائی کا ممبر انچارج بنادوں گا ۔صفائی کے عملے کی آسامیاں تم اپنی مرضی سے بھرنا۔ قصبے میں نل لگوانے کا کام بھی تمھارے ہی سپرد ہوگا۔ 100 نل منظور ہوتے ہیں تو کم از کم پندرہ ضرور لگوانا ہوں گے۔روزانہ سڑک کی نالیوں پر چونا ڈالوانے کا ایک بجٹ ہوتا ہے ۔ اس پیسے سے تم دھرم کے کام میں لگا سکتے ہو جیسے اپنی بیٹی کی شادی کا کھانا اور کپڑے وغیرہ۔" (12)

یہ ہی نہیں ٹھاکر نے جمعدار کو دھمکی دینے کے لیے اس کی بیٹی کو اٹھوانے کی بات بھی کی۔ یہ دھمکی عموماً کم جرات مند اور غیور لوگوں پر فوراً کارگر ہوتی ہے۔ اب جمعدار کے پاس ماننے کے سوا اور کیا چارہ تھا۔ اس خدشے سے کہ کہیں جھمن اب بھی نہ مانے اس نے اسے خود جان سے مار دینے کی دھمکی بھی دی۔ جھمن کی ڈر کے مارے گھگی بندھ گئی اور وہ مان گیا۔ اسے تین دن کی مار پیٹ کے بعد چھوڑا گیا تھا، اس نے بجائے احتجاج کے اودل کا شکریہ ادا کیا اور اس کے حق میں اگلے دن ووٹ دینے کے لیے تیار ہوگیا۔

"ہاتھ کے آزاد ہونے کا جو واحد فائدہ جھمن کی سمجھ میں آیا وہ یہ کہ اب اطمینان سے جھک کر دونوں ہاتھ جوڑ سکتا تھا ۔اس نے یہی کیا۔"(13)

جب جھمن سے تھانے دار نے اس کی گمشدگی کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ محمود کے ڈر سے دلی بھاگ گیا تھا اور اب پہنچا ہے۔ تھانے دار نے رپورٹ میں اودل سنگھ کا شکریہ ادا کیا۔ طاقت کا توازن اب اودل کی جانب تھا کیوں کہ وہ اب چئیر مین بن چکا تھا۔ یقینا اس نے جیتنے کے لیے دیگر لوگوں کےساتھ بھی اسے ہی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا تھا۔ایک جانب ٹھاکر کی اپنی شیطانی فکر جاری تھی ،دوسری جانب نیلا غیر ضروری غذا اور سرسوں کا تیل، بادام ، مونگ پھلیوں پر پل کر ایسا ہتا کٹا ہوگیا تھا کہ ایک ہی ٹکر میں کسی بھی انسان کا کام تمام کر سکتا تھا۔ ٹھاکر خوش تھا اور اس جنگلی وحشی جانور کو اس انداز سے اپنے قابو میں کیا تھا کہ پہلے خوب کھلایا پلایا ،پھر بھوکا رکھا اور اپنی مرضی سے خوراک دی۔ جس طرح کتے کو سدھایا جاتا ہے، ایسے ہی وہ ٹھاکر کے سدھائے میں آگیا اور اس کے اشارے پر ناچنے لگا۔ ٹھاکر نے نیلے کو اپنے قریبی ساتھیوں او ر رشتہ داروں سے واقف کرایا تاکہ وہ انھیں نقصان نہ پہنچا سکے جب کہ دیگر تمام کی خوں ریزی اور ان پر چڑھ دوڑنے کے لیے ہمیشہ تیار ملا۔ایک دن اس نے غریب شامو کو ٹکر مار کر اس کی کمر توڑ ڈالی ۔ ٹھاکر اس پر تشویش کے بجائے خوش ہوا۔ اس نے اسے مذہبی رنگ دے دیا تاکہ آئندہ کبھی بھی اس کی جانب کوئی شکایت نہ آئے اور لوگ اسے گاؤ ماتا کا اوتار سمجھ کر قبول کریں اور اس کی ساری شرارتوں کو بھی یہ سمجھیں کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا ہے ۔

"یہ گئو ماتا کا اوتار ہے۔ دشٹ لوگوں کا ٹھیک ٹھیک پر بندھ رکھے گا۔"(14)

اس پر شکایت لانے والوں میں سے کچھ نے نیلے کے آگے جھک کر باقاعدہ اسے سلام بھی پیش کیا۔کبھی نیلا گڑھی میں ہوتا اور کبھی قصبے کی حویلی میں تاکہ دونوں جانب اس کی مسلسل دونوں جانب دہشت قائم رہے۔ اب نیلے میں انسانوں کے درمیان رہنے کا حوصلہ آگیا تھا اور وہ یہ بات جان گیا تھا کہ انسان اس کے جثے اور طاقت سے خوف کھاتے ہیں۔طاقت کے نشے میں چور کبھی وہ چلتے لوگوں کے درمیان گھس جاتا، سینگوں سے راستہ بناتا، کسی کی کھال ادھیڑ کر رکھ دیتا، مزدوری لینے آئے مزدوروں پر چڑھ دوڑتا، پڑوسی گھروں میں گھس کر ان کے مٹی کے برتن توڑ ڈالتا۔قصبےمیں لوگ نیلے سےاپنی عزت اور سامان بچانے لگے۔ وہ اپنے گھروں کے دروازے بند کرتے لیکن ٹھاکر یہ بھی برا لگتا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کی طاقت کے نشے میں سب کچھ بہہ جائے۔ایک ایسا ہی واقعہ گلفام کا تحریر کیا گیا ہے۔ وہ بیچارہ خوانچہ فروش ہے اور امرود بیچتا ہے۔ نیلے نے نہ صرف اس کے امرود کھائے، ہٹانے پر اس کے بقیہ امرود کچل دیے اور جب اس حرکت سے روکا تو اس نے اس پر حملہ کرکے اس کے بازور کو زخمی کردیا اور قمیض پھٹ گئی؛ وہ اس کا ہرجانہ چاہتا تھا۔ ٹھاکر نے غلطی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا اسے ہی ڈانٹا اور الزام اس کے سر بڑی شاطر بازی سے دھر دیا۔ کہنا لگا:

"تم نے اس وقت تک تہہ بازاری کا پیسہ نہیں بھرا تو اس کا مطلب ہے صبح سے شام تک تم غیر قانونی انداز میں بیٹھے۔بولو جواب دو۔۔۔۔تم کئی بار امرودوں کی تعداد بدل چکے ہو۔ بولو کتنے امرود کھائے۔سات بار یا چھ بار۔۔۔۔سب لوگ ٹھٹھا مار کر ہنسنے لگے۔گلفام ان کی طرف بے بس نظروں سے دیکھتا رہا۔۔۔۔کیا اس کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ نیلے نے اس کو لات ماری جب کہ خود یہ اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ اس نے بغیر کسی اشتعال کے نیلے کو دو مرتبہ دھکا دیا"(15)

اس بیچارے کی داد رسی تو کیا ہوتی ، سب طاقت کے سامنے جھک گئے اور اس پر معصوم گئو ماتا پر حملے کا الزام الگ لگا۔اس پر اسے سو مرتبہ اٹھا بیٹھی کی سزاالگ ملی اوپر سے اسےبقیہ امرود بھی معصوم گئو ماتا کو کھلانے پڑے۔ یوں نیلا اس کے مذموم عزائم میں مسلسل کامیابی کی منازل طے کروانے میں مدد کر رہا تھا۔ ٹھاکر خود یہ سوچتا تھا کہ اس دولت اور شہرت کے پیچھے نیلے کا بڑا ہاتھ ہے۔

"جب سے وہ دیہات اور قصبے کی دولت کی حفاظت سے بے فکر ہوئے ہیں، سیاست اورتجارت میں خوب وقت دینے لگے ہیں۔ تو ان کی توجہ اور وقت دینے کی وجہ سے سیاست اور تجارت پہلے سے کئی گنا ترقی پر ہیں یعنی ان سب ترقیوں کے پیچھے اس نیلے کا ہاتھ ہے۔"(16)

گزرتے حالات و واقعات کے ساتھ نیلے کے حوالے سے لوگوں کے رویے میں واضح تبدیلیاں رونما ہوئیں تھیں۔وہ ٹھاکر کے خلاف تو آواز اٹھا سکتے تھے ، نیلے کے خلاف اٹھانا ایک طرح سے دھرم کے خلاف آواز اٹھانے کے برابر تھا۔بہت سے غیر جانب دار افراد اس لیے بیچ میں آجاتے تھے کہ کسی طور دھرم پر آنچ نہ آئے۔کچھ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ٹھاکر اور نیلے کی طرف دار ی کرتے تھے ۔ نتیجتاً نیلے کو ایک طرح سے سیاسی پناہ مل گئی تھی۔ اب وہ زیادہ آزادی کے ساتھ لوگوں کی جان اور مال سے جس طرح چاہے سلوک کرسکتا تھا۔اس میں ٹھاکر اور نیلا دونوں کا ہی فائدہ تھا۔ جب کسی کا نقصان ہوتا تو ٹھاکر اور اس کے ساتھی اسی کی غلطی ثابت کردیتے اور وہ روتا تڑپتا رخصت ہوجاتا۔ اس سے لوگوں کی ہی ذہن سازی ہوگئی کہ یہ مسئلہ کسی طور حل ہونے کا نہیں ہے۔

ٹھاکر صاحب اگر براہِ راست کسی کو کوئی گزند پہنچائیں گے تو اس کی تو داد فریاد ہے لیکن نیلے کی کسی حرکت کی داد فریاد اس لیے نہیں ہے کہ اس کی حمایت میں ٹھاکر صاحب کے علاوہ بہت سے غیر جانب دار لوگ بھی شامل ہوجاتے تھے۔ کوئی نیلے کو برا کہہ کر خوامخواہ شراپ بھی نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔آہستہ آہستہ صورتِ حال کچھ یوں ہوگئی کہ جو لوگ نیلے سے مضروب بھی ہوتے وہ بھی اس بات کا کھکلم کھلا اعتراف نہیں کرتے مبادا انھی کی کوئی غلطی سامنے آجائے۔"(17)

ٹھاکر نیلے کے خلاف شکایات سنتا تو اکثر کہتا کہ وہ اسے سمجھا دے گا۔ ٹھاکر اس بات سے یا تو بالکل بے خبر تھا کہ جانور کو سمجھایا نہیں جاسکتا یا پھر وہ اس کی طاقت کے نشے میں خود بھی چور تھا ۔ نیلے کا دماغ کسی شیطان چرخے کی طرح چلنے لگا تھا اور وہ اب اس قابل ہوگیا تھا کہ با آسانی خود بخود گاؤں سے شہر تک ٹھاکر کی حویلی پہنچ سکے۔ ٹھاکر اس کی بدلتی فطرت سے جان بوجھ کر آنکھیں مو ند چکا تھا۔ اس کی تیزی، انسانی دماغ کی طرح سوچنے کی صلاحیت اور دور تک پیچھا کرکے دشمن کو ختم کرنے کی استعداد خطرناک حد تک بڑھ رہی تھی۔ اس کی دست درازیاں بھی حد سے تجاوز کرنے لگی تھیں۔ وہ سکول میں جاکر تباہی مچاتا، ہیڈ ماسٹر کی کرسی اٹھا پھینکتا اور بچوں کو روندتا آگے نکل جاتا۔ اس نے ننھے بچوں کو سخت زخمی کیا تھا۔ پنچایت ہوئی تو ٹھاکر نے انھی آٹھ بچوں کو مجرم قرار دے دیا کہ انھوں نے نیلے کو چھیڑا ہوگا۔ حقیقت یہ کہ جب تک جرم کی پشت پناہی نہ کی جائے تب تک وہ پنپتا اور پھلتا پھولتا نہیں ہے۔

" ٹھاکر نے ان بچوں کے والدین کو بھری پنچایت میں سمجھایا کہ یہی آٹھ بچے نیلے کو پتھر مار مارکر پریشان کر تے ہیں ورنہ ڈیڑھ سو بچوں میں صرف انھی آٹھ کو کیوں پسند کرتا۔"(18)

نیلے کو روکا نہ گیا ، اس نے کھیت میں گھس کر بھیکو کی جوان بہو کی آنتیں ایک ہی ٹکر میں نکال دیں۔ تیسرے دن لوگوں نے پنچایت بٹھائی۔ مندر کا پجاری در اصل دولت کا پجاری بن گیا اور حق انصاف کی بات کہنے کے بجائے وہ ٹھاکر کے ڈرامے میں پورا پورا شریک ہوا۔ ٹھاکر نے کہا کہ میں تو گئو کی سیوا کر نا اپناحق سمجھتا ہوں اور تم سب کہتے ہوتو اسے گولی ماردیتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ بندوق کی جانب بڑھاکہ پجاری نے سوچا سمجھا کردار ادا کیا۔اس نے ایسا دہشت ناک نقشہ کھینچا اور وعظ کیا کہ لوگ سہم گئے، ڈر کے مارے منھ چھپانے لگے اور اس مقدس گاؤ ماتا کے اوتار کےمالک شاطر ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے نیلے کو گولی نہیں مار دی ورنہ ان پر آسمانی عذاب نازل ہوتا۔

"کیا بکتا ہے مورکھ۔۔۔گئو کا شراپ گاؤں پرڈالے گا۔۔۔؟اگر گئو بدھ ہوا تو گاؤں میں پہلے تو ہیضے کی وبا آئے گی جو خاص طورپر سے گود کے بچوں کو چن چن کر لے جائے گی۔۔۔پھر تیز موسلا دار بارش ہوگی اور کھیتوں کے پودے جڑ سمیت نکل کر اسی سیلاب میں بہہ جائیں گے۔پھرآندھیاں آئیں گی اور درخت یعنی برگد جیسے بڑے ورکش بھی اپنی جٹاؤں کو سمیٹ کر دھرتی سے نکل کر زمین پر بچھ جائیں گے۔۔۔ پنجایت جب چھٹی تو سبھی لوگ اودل سنگھ کے شکر گزار تھے جنھوں نے آج نیلے کو گولی نہ مار کر سارے گاؤں کو مختلف آفتوں سے بچالیا تھا"(19)

ٹھاکر کے بڑےچھوٹے بیٹے اونکار کو بھی اپنے باپ ہی کی طرح سفاک اورشاطر دکھایا گیا ہے۔وہ بڑی استحصالی طاقت کی پناہ میں پنپتی چھوٹی استحصالی طاقت ہے۔ اس نے دو دوستوں کی مدد سے ایک شریف النفس نوجوان کمہارن بڑکی کی عزت لوٹی اور الزام الٹا اس کےہونے والے شوہر کے دوستوں پر لگا دیا۔ خود رپورٹ بھی اونکار ہی نے لکھوائی۔ اس کے غریب منگیتر کو گرفتار کرلیا گیا، منگنی ٹوٹ گئی اور بڑکی عمر بھر کے لیے ذلت و خواری کی تصویر بنی رہ گئی۔ ٹھاکر کو معلوم ہوگیا کہ یہ اس حرکت اس کے بیٹے کی ہے اور اس حرکت کے دوران بڑے بیٹے کی بیوی یعنی اس کی بہو کی عزت سے بھی کھیلا گیا ہے لیکن اس سب کے باوجود اس نے اونکار کو کچھ خاص نہیں کہا ۔ وہ رپورٹ اس لیے نہیں لکھوانا چاہتا تھا کہ اس طرح نیلے کا ڈر لوگوں کے دل سے کم ہوجائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ اب گڑھی میں با آسانی آیا جاسکتا ہے۔ مجرم پکڑنے کا مرحلہ آیا تو شناخت پریڈ کے دوران ٹھاکرنے اپنے دشمنوں پر الزام لگایا اور غریب امرود فروش گلفام کےبڑے بھائی کو پکڑوادیا کہ اس نےانتقاما ایسا کیا تھا۔

مابعد نوآبادیات میں ایک بڑا مسئلہ مذہبی منافرت ، مسلکی اختلافات اور ان کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجانے کا بھی رہا ہے۔ یہ موضوع بھی اس ناول میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک دن محمود جو کہ ٹھاکر کا سیاسی حریف تھا، ٹھاکر اس کی بیٹی کی شادی میں گیا اور ساتھ نیلے کو بھی لے گیا۔شادی سے واپسی پر نیلے نے ایک گائے کو ہری ہوتے دیکھا اور اپنے وحشی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ وہ اندھا دھند بھاگا اور بھاگتے ہوئے جو اس کے سامنے آیا اس کو رگیدتا گیا۔ اس نے مسجد کے قاری صاحب کو بھی الٹا اٹھا پھینکاجنھیں نہایت نازک حالت میں ہسپتال پہنچا یا گیا ۔ یوں معاملے کو مذہبی رنگ ملا اور سینکڑوں لوگوں کا ہجوم بلوے کو تیار ہوگیا۔ جواباً ہندو بھی گئو ماتا کو بچانے کے لیے نکلے اور ٹھاکو تھانے کو بطور محفوظ پناہ گاہ منتقل کردیا گیا۔ معاملہ تھانے گیا توٹھاکر نے غلطی تسلیم کرنے یا نیلے کو جنگل میں چھوڑنے کے بجائے الٹا الزام محمود کے بڑے بیٹے کے سر دھر دیا کہ اس نے نیلے کو کچھ ایسا کھلایا ہے کہ وہ پاگل ہوگیا ۔ اس نے نیلے کو خوش کرنے کے لیے گڑ کھلایا تھا جو نیلے کی عام خوراک تھی لیکن اس کے چوں کہ گواہ بھی موجود تھے اور ٹھاکرنے تھانے دار سےساز باز بھی کرلی تھی اس لیے سارے معاملے کو پلٹتے ہوئے وقت نہیں لگا۔تھانے دار نے بھی رپورٹ ٹھاکر کے خلاف لکھنے کے بجائے جانور کے خلاف لکھنے کا بہانہ بنایا اور ٹھاکر نے محض نیلے کو محض جانور سمجھ کر خدمت کرنے اور سرپرستی قبول نہ کرنے کا اظہار کیا۔یوں سارا معاملہ ہی ختم ہو کر رہ گیا۔تھانے دار کا بیان ملاحظہ کیجیے جو کس پینترے سے رپورٹ لکھنے کی سوچ رہا ہے اور درپردہ ٹھاکر اور نیلے کو بچا رہاہے۔

"میں اپنی طرف سے کیس کو تبھی درج کروں گا جب مجھے یہ علم ہوجائے کہ مارنے والا کون تھا اور اس کی ولدیت کیا تھی ۔ٹھاکر صاحب تو کہتے ہیں کہ اس نیلے سے ان کا اتنا ہی سمبندھ ہے کہ وہ ان کی گڑھی کی حویلی میں آجاتا ہے تو وہ اسے کھانا دے دیتے ہیں۔وہ اسے اپنا پاتو ماننے کو تیار نہیں۔۔۔"(20)

یہیں تک نہیں سیاست دان ٹھاکر نے یہ افواہ باقاعدہ ہجوم میں پھیلا دی تھی کہ محمود کے بیٹے نے جان بوجھ کر دھتورا کھلا کر نیلے کو پاگل کیا ہے اور اس نے تھانے دار کے سامنے اقرار بھی کرلیا ہے۔ اس بات سے مجمعے کا زور ٹوٹنے لگا تھا اور لوگ پیچھے ہٹنے لگے تھے۔ تھانے دارنے بھی بازی پلٹتے دیکھ کر عوام کو مختلف قانونی دفعات سے ڈرا کر گھروں کو لوٹا دیا۔ محمود بھی چوں کہ اس سارے معاملے میں ڈر چکا تھا اس لیے اس نے بجائے کہ نا حق بہنے والے خون کا انصاف کرتا اور اپنے موقف پہ ڈٹ جاتا، فوت ہوجانے والے قاری کے خاندان کو ٹھاکر سے کچھ رقم دے دلا کر معاملہ دبا دیا۔ ساتھ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر کسی کو باہر پتہ چلا تو خوامخواہ تمھاری ہی بدنامی ہوگی اس لیے خاموشی سے رکھ لو ۔یہاں دونوں سیاست دان ذاتی مفاد کے لیے یک جا ہوگئے ۔اتنے بڑے واقعے کے باوجود ٹھاکر نیلے کی کارکردگی سے خوش تھا۔ وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا اگرچہ وہ جانتا تھاکہ یہ ایک فتنہ ہے۔

"وہ بہت سنجیدگی سے یہ بات سوچتے کہ ان جیسے صاحبِ دولت اور صاحبِ اقتدار کے پاس اس قسم کا ایک ہتھیار ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں کہ اس کچھ فتنے اسی لیے پالے جاتے ہیں کہ وہ برے وقت میں ساتھ دیں یا اچھے وقت کو اور بہتر بنائیں۔"(21)

ٹھاکر اپنی شاطر طبیعت ، قانون کی ملی بھگت اور نیلے کی طاقت کے سہارے سارے علاقے کی قسمت کا خدا بننے کی پوری کوشش کر رہا تھا۔ سرکاری کی جانب سے اسےجو کچھ میسر ہوتا ، اسے وہ خاموشی سے ہضم کرجاتا ۔ اس ڈر سے کہ کہیں شکایت نہ ہو، وہ اس کا انتظام احسن انداز میں کرتا اور اپنے پڑوس کے دوچار گھروں یاپھر گھر سے دور گاؤں کی سرحد پر بنے دو ایک گھرانوں کو بھی مراعات میں حصہ دار بناتاجس کی وجہ سے اسے کسی تفتیش یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا نہ ہی کوئی آواز اس کے خلاف اٹھ پاتی ۔لیکن یہ سلسلہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگا اور اس کے خلاف دبی دبی آوازیں بلند ہونے لگیں۔پہلی آواز خود اس کے اپنے ہی گھر سے اٹھی۔ بڑکی جس کی عزت اس کے بیٹے اونکار نے لوٹی تھی ،اور اس کی بھابی کی خدمت میں رہتی تھی، اس نے دوبارہ سے اونکار کو قریب پایا اور یہ یقین کرکے کہ اس کی عزت لوٹنے والا اونکار ہی تھا، اپنے گذشتہ منگیتر کے ساتھ مل کر اسے قتل کروادیا اور اس کی بیگم کو اغوا۔ یہاں اچھنبے کی بات یہ تھی کہ نیلے کی موجودگی میں کوئی کس طرح حویلی میں داخل ہوا اور یہ سارا واقعہ پیش آیا ؟یہ بالکل نا ممکن سی بات تھی۔ بڑکی نے نیلے کو قابو میں رکھنے کے لیے کچھ عرصہ قبل اسے کھلانا پلانا شروع کر دیا تھااور ایک وقت ایسا آیا جب نیلے کی طاقت کا توازن اس کی جانب ہوگیا ۔جس وقت بڑکی کا گذشتہ منگیتر اور اس کا دوست اونکار اور اس کی بیوی کو اٹھا کر لے گیا اس وقت بڑکی اسے کھلا پلا رہی تھی۔ یہ نقطہ نہایت اہم ہے کہ طاقت کا توازن کس طرح پلٹتا ہے، وفاداریاں کس طرح تبدیل ہوتی ہیں اور کی جاسکتی ہیں۔ اونکار کو قتل کردیا گیا اور اس کی بیوی کی عصمت دری کی گئی۔ اب نیلا نا قابلِ اعتبار ہوگیا تھا لیکن ٹھاکر کو اس میں اونکار کا روپ نظر آتا تھا۔علاقے کاہیڈ ماسٹر جو بہت سمجھ دار انسان تھا اس نے ٹھاکر کو پریشان دیکھ کر کہا تھا کہ بڑکی کی عزت نیلے نے لوٹی ہے لیکن وہ سمجھ نہ پایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ ہیڈ ماسٹر، سکول اور اس کی تعلیم کو بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ اس سکول کو بھی ختم کروا دینا چاہتا تھا لیکن عوامی رائے اور پسندیدگی کوبنائے رکھنے کی وجہ سے اسکول کو بمشکل تمام جاری رہنے دیا تھا۔ اس اسکول میں اکلوتا ایک ہی استاد سب بچوں کو پڑھاتا تھا۔ وہی ماسٹر تھااور وہی ہیڈ ماسٹر۔ سکول ایک طرح سے محض نمائشی شے بنا ہوا تھا۔

"ضلع کلکٹر اور شہر کے پڑھے لکھوں کو دکھانے کے لیےگاؤں میں سکول ضروری تھا اس لیے اسکول تھا۔ اسکول کا خرچہ گرام پنچایت اٹھاتی تھی۔۔۔نمبر دار کو دیہات کے بچوں کی تعلیم بہت اکھرتی تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ سارے لونڈے جھنوں نے تعلیم پائی تھی ان سے اتنے خوش نہیں رہتے تھے جتنے وہ لونڈے جھنوں نے تعلیم نہیں پائی تھی۔ "(22)

بیٹی اور بہو کے واقعے کے بعد ٹھاکر کو کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا لیکن اس کے باوجود اس کی نظر میں نیلے کی قدر کم نہ ہوئی تھی کیوں کہ اس کے مطابق وہ اس کی دہشت اور دولت میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔وہ ہر جگہ نظر آنے لگا تھا ، ہر جگہ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ وہ خود اونکاراور ٹھاکر تھا :

"کھڑے کھڑے انھوں نے نیلے سے پیدا ہونے والی دہشت کو محسوس کیا اور اس دہشت کے سائے میں قطرہ قطرہ بڑھتی دولت اور انچ انچ بڑھتے اقتدار اور اختیار کو لقمہ لقمہ ہضم کیا ۔"(23)

“نیلااس وقت گڑھی میں تھا حالاں کہ درحقیقت وہ اس وقت قصبے میں تھا۔ وہ آموں اور امرودوں اور بیروں اور جامنوں کے ہر باغ میں تھا ۔ قصبے کا ہر فرد سمجھ رہا تھا کہ نیلا کہیں اور نہیں خود اس کے دروازےسے لگا کھڑا ہے بس ذرا دروازہ کھلا اور۔۔۔”(24)

ٹھاکر اور اس کے ارد گرد دیہات نیلے کے خوف میں مبتلا تھے ۔ غلام معاشروں میں عموماً ظلم کو برداشت کرتے کرتے اسے سہنے کی عادت پڑجاتی ہے اور جب جابر کا مقابلہ کرنا بال کل ہی ممکن نہ ہو تو ظلم کو اپنی قسمت سمجھ لیا جاتا ہے۔یہی خوف کی نفسیات بھی ہے۔ نیلے کے حوالے سے بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے تئیں اس کے غائب ہوجانے کے باوجود اس سے موت کے خوف میں مبتلا تھے۔ بہو دونوں بچوں کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے تھی، بوڑھا ہیڈ ماسٹر آنکھیں بند کیے ہوئے خوف زدہ تھا اور باقی سب لوگوں کے حالات بھی ایک ہی جیسے تھے۔

طاقت، دہشت اور وحشت کی علامت نیلا ، اس قدر خطرناک ہوگیا تھا کہ ٹھاکر کے سوا سبھی کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا تھا اور اس کا اظہار اس کے دوسرے بیٹے ، بہو اور ان کے بچوں نے بھی کیا تھا لیکن وہ ان کی بات ماننے کو تیار نہ تھا کہ اسے جنگل میں چھوڑ دیا جائے۔ بغاوت کی یہ آواز بھی گھر ہی سے بلند ہوئی تھی۔ شہر کے کلکٹر کو نیلے کے خلاف متعدد درخواستیں موصول ہوئیں تو اس نے ٹھاکر بلا کر نیلے کو مارنے کا کہا تھا لیکن ٹھاکر نے ان سے کچھ وقت لے لیا تھا تا کہ اس عرصے میں اسے باندھ کر رکھے اور لوگ آہستہ آہستہ بھول جائیں۔ اس نے اسے اپنے ارہڑ کے کھیت میں باندھ دیا تھا تاکہ لوگوں کی نظروں سے محفوظ رہے لیکن اس نے رسی تڑا کر پھر سے تباہی مچائی تھی اور ایک ہی رات میں بارہ مختلف جگہوں پر واردات کی تھی۔ ایس پی یہ بھی خیال تھا کہ یہ محض نیلے کی نہیں بل کہ اس جیسے دیگر نیلوں کی بھی شرارت ہے ۔اس کے بعد ایس پی اور کلکٹر نے اسے پاگل قرار دے کر مارنےکا حکم دیا تھا ۔ پاگل قرار دینا بھی ایک طرح سے احتیاط تھی تاکہ شہر میں گئو ماتا کے قتل پر فساد نہ پھوٹ پڑے۔ لوگوں کی بہت سی ٹولیاں نے آخر کار ٹھاکر اور نیلے کے خلاف ہتھیار اٹھا ئےتھے اور وہ اس کی تلاش میں نکلے کہ جہاں ملے اسے مار دیا جائے۔ ٹھاکر اسے پھر سے بچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بچا نہیں پا یا۔ لوگوں نے اسے لاٹھیوں سےپیٹتے ہوئے لہو لہان کردیا۔ نیلے کی ایک آنکھ ضایع ہوئی اور دوسری سے خون بہنے سے اسے دھندلا نظر آنے لگا۔ نیلا اندازے سے حویلی کی جانب بڑھا اور پچھلی دیوار سے اندر کود کر اس کے دوسرے بیٹے کو بھی موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ بہو اور بچے بہت مشکل سے اپنی جان بچا پائے ۔

"بڑی بہو کا پیر ساڑی میں اٹکا اور وہ لڑکھڑا گئی ۔ پیچھے سے آتا ہوا پرتاپ اس سے ٹکرایا اور رک گیا۔ بہو کمرے کے اندر داخل ہوچکی تھی اور پرتاپ نیلے کےسینگوں سے الجھا ہوا تھا۔ بڑی بہو اضطراری طورپر کمرے سے باہر آئی ۔۔۔مڑی تو دیکھا کہ نیلا اپنی پچھلی ٹانگوں پہ کھڑا ہوا اگلے کھروں سے پرتاپ کا سرپاش پاش کرچکا تھا۔ (25)

بدمست نیلے نے ٹھاکر کا بھی خیال نہ کیا اور اسے بھی اپنے سینگوں سے مسلتے اور پیروں سے کچلتے ہوئے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ لوگ اس کی تلاش میں آگے بڑھے لیکن وہ وہاں سے ہمیشہ کے لیے دور بھاگ چکا تھا ، کسی اور استحصالی قوت کا بازوبننے، کسی کو روند ڈالنے اور اپنی طاقت کا خراج وصول کرنے کے لیے۔ ناول کا اختتام اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ استعماری و استحصالی قوتیں جس قدر بھی تیز ہوں، اگر لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو کامیابی کی جانب بڑھتے ہیں اور ایسی قوتوں کو شکست دیے بنا امن کی زندگی جینا دیوانے کا خواب نظر آتا ہے۔مجموعی طورپر ناول مابعد نو آبادیاتی دور کے مسائل کی خوبصورتی سے نمائندگی کرتا ہے۔
Muhammad Khurram Yasin

حوالہ جات:
عمدہ آرٹیکل ہے، اردو محفل میں شراکت کا شکریہ۔ عنوان میں ورداستعماری کے درمیان کوئی اسپیس موجود نہیں ہے حالانکہ تکنیکی طور پر یہ تین الفاظ ہیں اور ان کے درمیان اسپیس بنتی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اسپیس بھی دی جاتی اور ر پر زبر لگا دی جاتی تو ٰ رَد استعماری ٰ کے الفاظ پڑھنے میں آسانی رہتی۔ ہم جیسے اسے بڑی سہولت سے وِرد پڑھتے رہے مگر جب پورے عنوان پر توجہ کی تو معاملہ کھُلا۔ :)

اس کے علاوہ یہ بھی فرمائیے کہ کیا اس عنوان کا یہ انگریزی ترجمہ دُرست ہے؟

///نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ
"Numberdar ka Neela: A Study of Postcolonial Context and Anti-Colonialism"
///
میری ناقص رائے میں، اس کا ترجمہ تو بنتا ہے
"Numberdar ka Neela: Post-Colonial Context and Anti-Colonial Study"
ماشاءاللہ۔
ناول کا گہرائی میں جا کے مطالعہ کرنا،اس تجزیاتی مطالعہ سے معانی اخذ کرنا اور پھر اسے احسن انداز سے پیش کرنا ایک فن ہے اور آپ اس فن میں ماہر ہیں۔ آپ بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ یہ کاپی اور چسپاں کرنا نہیں ہے بلکہ آپ نے جگہ جگہ اپنی منطقی رائے بھی دی ہے۔
اس مضمون کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ناول کو پڑھنا ہی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے ساتھ ناول نگار کی طرزِ تحریر سے
میرے خیال میں سب ہی خاص کرداروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور ترتیب کا دھیان بھی خوب رکھا ہے۔ کرداروں کے ساتھ ساتھ موضوع اور ناول جن معاملات و مسائل کا احاطہ کرتا ہے، انھیں بہت خوبی سے جامع اور مختصر طور پہ اجاگر کیا گیا ہے۔
کہیں کہیں املا کی کچھ غلطیاں ہیں جو کہ جرنل میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایک تحقیقاتی مضامین شائع کرنے والے جرنل میں املا کی اغلاط نظر آنا عجیب لگتا ہے۔



یہ پیراگراف دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔ مضمون لکھنے کے بعد مضمون نگاروں کو تنقیدی نگاہ سے اسے دیکھنا چاہیے تھا۔
بہرحال مجھے بہت اچھا لگا۔ اسے پڑھنے سے پہلے ناول پڑھنا پڑا اور ناول واقعی ایسا تھا کہ جب تک مکمل نہیں کیا، رکھ نہیں سکی۔
رومانوی رنگ کے بغیر ناول لکھنا اور ایسا ناول کہ جس کا موضوع اور کہانی قاری کو اپنی مکمل گرفت میں لے لے، کمال ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرد و عورت کے رومانس کے بغیر بھی ناول لکھے جا سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر تحقیقی مضمون میں اس پہلو کو بھی شامل کیا جاتا تو بہتر تھا۔
آپ نے کافی تفصیل سے مضمون دیکھا اور احسن انداز میں تبصرہ پیش کیا۔ مجھے از حد خوشی ہوئی۔ مزید کہ آپ نے املا کی غلطیوں کی طرف اشارہ کر کے اردو کے تحقیق اور لسانیات سے وابستہ جرائد کی کمزوریوں کی نشاندہی کی۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ کم از کم ایسے جرائد میں ایسی غلطیاں ہرگز نہیں ہونی چاہئیں۔ زیر نظر مضمون میں کھکلم کھلا، موسلادار، بازور، ہربہ جیسے الفاظ پڑھنے کو ملے۔ انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر درست کر لینا چاہیے تھا۔

زلفِ خمِ جاناں مجھے تو درست ترکیب لگتی ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
زلفِ خمِ جاناں مجھے تو درست ترکیب لگتی ہے۔
بھئی ہم نے تو پہلے بھی کئی بار اقرار کیا ہے کہ ہم اردو کے طلبہ میں شمار نہیں ہوتے،اردو محفل نے ہمیں زبردستی بنا ہی لیا ہے تو ہم چھوٹی باتوں پہ زیادہ غور کرتے ہیں۔
اب ہم نے "ٹیڑھی جاناں کی زلفیں " ترجمہ کیا ہے اس ترکیب کا۔ حق ہا!!! :D
خدارا ہمیں اس ترکیب کا درست ترجمہ بتائیں۔ :):):)
 
عمدہ آرٹیکل ہے، اردو محفل میں شراکت کا شکریہ۔ عنوان میں ورداستعماری کے درمیان کوئی اسپیس موجود نہیں ہے حالانکہ تکنیکی طور پر یہ تین الفاظ ہیں اور ان کے درمیان اسپیس بنتی ہیں۔ بہتر ہوتا کہ اسپیس بھی دی جاتی اور ر پر زبر لگا دی جاتی تو ٰ رَد استعماری ٰ کے الفاظ پڑھنے میں آسانی رہتی۔ ہم جیسے اسے بڑی سہولت سے وِرد پڑھتے رہے مگر جب پورے عنوان پر توجہ کی تو معاملہ کھُلا۔ :)

اس کے علاوہ یہ بھی فرمائیے کہ کیا اس عنوان کا یہ انگریزی ترجمہ دُرست ہے؟

///نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ
"Numberdar ka Neela: A Study of Postcolonial Context and Anti-Colonialism"
///
میری ناقص رائے میں، اس کا ترجمہ تو بنتا ہے
"Numberdar ka Neela: Post-Colonial Context and Anti-Colonial Study"

آپ نے کافی تفصیل سے مضمون دیکھا اور احسن انداز میں تبصرہ پیش کیا۔ مجھے از حد خوشی ہوئی۔ مزید کہ آپ نے املا کی غلطیوں کی طرف اشارہ کر کے اردو کے تحقیق اور لسانیات سے وابستہ جرائد کی کمزوریوں کی نشاندہی کی۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ کم از کم ایسے جرائد میں ایسی غلطیاں ہرگز نہیں ہونی چاہئیں۔ زیر نظر مضمون میں کھکلم کھلا، موسلادار، بازور، ہربہ جیسے الفاظ پڑھنے کو ملے۔ انہیں کسی نہ کسی مرحلے پر درست کر لینا چاہیے تھا۔


زلفِ خمِ جاناں مجھے تو درست ترکیب لگتی ہے۔
و رد استعماری مطالعہ
السلام علیکم! لیجیے میں نے دوبارہ یہاں یہ لکھا ہے لیکن نتیجہ جوں کا توں ہے۔ مطلب یہ کہ شاید یہاں فارمیٹنگ کا مسئلہ ہے۔ ان الفاظ میں سپیس بالکل موجود ہے لیکن شاید آپ زیادہ سپیس کی بات کر رہے ہیں جودرست بھی ہے۔ مضمون کاقبل ازاشاعت مسودہ یہاں شامل کیا گیا ہے، شایع شدہ پی ڈ ی ایف میں ہے۔ یقینا ً اس میں فارمیٹنگ کی اغلاط کم ہوں گی۔ پڑھنے کا شکریہ۔ جزاک اللہ
 
ماشاءاللہ۔
ناول کا گہرائی میں جا کے مطالعہ کرنا،اس تجزیاتی مطالعہ سے معانی اخذ کرنا اور پھر اسے احسن انداز سے پیش کرنا ایک فن ہے اور آپ اس فن میں ماہر ہیں۔ آپ بات کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں۔ یہ کاپی اور چسپاں کرنا نہیں ہے بلکہ آپ نے جگہ جگہ اپنی منطقی رائے بھی دی ہے۔
اس مضمون کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ صرف ناول کو پڑھنا ہی کافی نہیں سمجھا گیا بلکہ نوآبادیات اور مابعد نوآبادیات کے ساتھ ناول نگار کی طرزِ تحریر سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
میرے خیال میں سب ہی خاص کرداروں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اور ترتیب کا دھیان بھی خوب رکھا ہے۔ کرداروں کے ساتھ ساتھ موضوع اور ناول جن معاملات و مسائل کا احاطہ کرتا ہے، انھیں بہت خوبی سے جامع اور مختصر طور پہ اجاگر کیا گیا ہے۔
کہیں کہیں املا کی کچھ غلطیاں ہیں جو کہ جرنل میں بھی نظر آ رہی ہیں۔ میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تحقیقاتی مضامین شائع کرنے والے ایک جرنل میں املا کی اغلاط نظر آنا عجیب لگتا ہے۔



یہ پیراگراف دو مرتبہ لکھا گیا ہے۔ اور شاید جرنل میں بھی ایسا ہی ہے۔ مضمون لکھنے کے بعد مضمون نگاروں کو تنقیدی نگاہ سے اسے دیکھنا چاہیے تھا۔
بہرحال مجھے بہت اچھا لگا۔ اسے پڑھنے سے پہلے ناول پڑھنا پڑا اور ناول واقعی ایسا تھا کہ جب تک مکمل نہیں کیا، رکھ نہیں سکی۔
مردوں عورت کے ازلی رومانوی رنگ کے بغیر ناول لکھنا اور ایسا ناول کہ جس کا موضوع اور کہانی قاری کو اپنی مکمل گرفت میں لے لے، کمال ہے۔ سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ مرد و عورت کے رومانس کے بغیر بھی ناول لکھے جا سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں۔
اگر تحقیقی مضمون میں اس پہلو کو بھی شامل کیا جاتا تو بہتر تھا۔
ہیڈ ماسٹر کا کردار مختصر تھا اور وہی امید کی واحد کرن بھی تھا۔ لگتا ہے ناول نگار نے اسے مختصر اس لیے رکھا کہ مکمل اجالا آنے سے پہلے کرن بھی چھوٹی سی ہوتی ہے۔
ناول اور مضمون کے مطالعے کا بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیرا۔ املا یا فارمیٹنگ کی اغلاط کومیں دیکھتا ہوں، ان شا اللہ۔
ناول میں بتایا یہ گیا ہے کہ نو آبادیات میں تعلیم بھی محض حکومتی ٹول کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس کا مقصود محض یہ بتانا ہوتا ہے کہ نظام چل رہا ہےاور سب اچھا ہے جب کہ اس نظام میں ہیڈ ماسٹر ایسے پڑھے لکھے کرداروں کو پنپنے ہی کا موقع نہیں دیا جاتا۔ ٹھاکر تو یہ سکول ہی ختم کردینا چاہتا تھا لیکن سیاسی دباؤ کے تحت بمشکل تمام ہی اس کام سے باز رہا البتہ اس نے کبھی بھی سکول کی اہمیت جا نا اور نہ ہی ہیڈ ماسٹر کو پڑھا لکھا ہونے کے ناطے عزت دی۔یہ اس نظام کی سیاہی کی علامت کے طورپر دکھایا گیا ہے۔
 
جناب خرم صاحب ناول ’’نمبردار کا نِیلا‘‘۔ پرلکھے آپ کے مضمون نے ناول کے دیباچے کا کام کیا جس کے سہارے ناول (اپنی مختصرضخامت کے باعث میرا جی چاہتا ہے میں اِسے ناولٹ ہی سمجھوں اور کہوں)کی کہانی اور اِس کے پیغام کو سمجھنا آسان ہوگیا۔میں عام طور پر کوئی بھی تحریرپڑھتے ہوئے اُس کے طرزِ بیان پر زیادہ توجہ دیتا ہوں اور مجھے وہیں سے بات کہنے کے نئے نئے ڈھنگ،محاوروں اور ضرب الامثال کے صحیح استعمال کے طریقے،لفظوں کو برتنے کے سلیقے ،منظر نامہ پیش کرنے کا ہنر اور محاکات دکھانے کافن سیکھنے کوملتا ہے ۔ایک اچھی تحریر ایک اچھے شعرکو بھی بعض اوقات پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ اُردُو کے نثری ادب میں اِس قول کی تائید میں ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔زیرِ نظر ناولٹ میں بھی یہ خوبی بدرجہ ٔ اُتم موجود ہے:
۱۔۔’’ سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں، جو اُدھار لینے والوں نے ضمانت کے طور پر رکھوائے تھے اور جو سُود ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اورٹھاکر اَووَل سنگھ کی دولت کے سمندر میں اُبھر آئے تھے۔‘‘
۲۔۔’’ ایک دِن ٹھاکر صاحب نے محسوس کیاکہ نِیلا اب اتنا بڑا اور طاقت ور ہوگیا ہے کہ رسی کی بندش کو صرف عادت کے طور پر فرماں برداری میں قبول کرتا ہے، ورنہ چاہے تو ایک ہی زقندمیں رسی اور رسی کے دوسرے سِرے پر کھڑے بھوندو کسان کو لے کر اُڑجائے۔‘‘
۳۔۔’’۔۔اُس پر انکشاف ہوا کہ آج رسی کا تناؤ گردن پر نہیں تھا۔ وہ اگلے دونوں پیر زمین پر مار کر اگلے دھڑے سے اُٹھااور نیم کے تنے پر اپنے سر سے ایک سُبک سی ٹکر ماری۔ یہ آزادی کے رقص کی پہلی تال تھی۔‘‘
۴۔۔’’ ایک طرف تو اُن کا ذہن کہہ رہا تھا کہ نیلے سے چھُٹکارا حاصل کرلو اور دوسری طرف کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
کردار نگاری:
مصنف نے کردار بیان کرنے میں بھی کمال کا ہنر دکھایا ہے ۔ مرکزی کردا ر ٹھاکر ،ٹھاکر کے دونوں لڑکے ،کمہار کی بیٹیاں بڑکی اور چھٹکی،بھیکو کا لڑکا ،ہیڈ ماسٹر صاحب اور سب سے بڑھ کر بے زبان جانور نیلا۔اِن کرداروں کو ڈھالنے اور پیش کرنے میں کہیں بھی غیر فطری رنگ اور ضرورت سے زیادہ روغن مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بڑکی نے منگنی ٹوٹنے اور منگیتر کا چھٹکی کی مِلک میں چلے جانے پر بظاہر کسی سخت اور شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کر کے اپنے کردار کو جس خوبی سے حقیقت کے مطابق رکھا وہ بھی خوب ہے مگر آیندہ کے ایک سین میں اُس کی روح کے زخم اور دل کی دھسک کو مصنف نے جس خوبصورتی سے عین فطری اور موثر انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑکی آہستہ آہستہ رونے لگی۔کیا ہوا؟ بھابھی نے اچنبھے سے پوچھا۔ بڑکی نے اُس کے دونوں پیر ہاتھوں میں تھامے اور اُن پر اپنا سر رکھ کر بولی ،’’میرو یو وَن اونکار بابونے لوٹو اے۔‘‘
مصنف کی دیگر تصانیف ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ بادِ صبا کا انتظار(افسانوں کے مجموعے)اور ناول ’’ْْ۔آخری سواریاں‘‘بھی زیر ِ نظر ناولٹ ’’ نمبر دار کا نِیلا ‘‘ کی طرح اعلیٰ پائے کی ہوں گی مگر اُن کا نام رہتی اُردُو تک زندہ رکھنے کے لیےایک اکیلا ’’نمبردار کا نِِیلا ‘‘ ہی کافی ہے ، واہ!
رہتا سُخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دوپشت ، چار پشت​
 
آخری تدوین:
Top