نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین

خرم صاحب ،بہت بہت شکریہ آپ نے میرے اِشکالات کو درخورِ اعتنا سمجھا اوربکمالِ سُرعت اِن کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے ، جن سے میں متفق ہوں ۔ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔۔۔۔
 
خرم صاحب ،بہت بہت شکریہ آپ نے میرے اِشکالات کو درخورِ اعتنا سمجھا اوربکمالِ سُرعت اِن کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے ، جن سے میں متفق ہوں ۔ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔۔۔۔
بہت شکریہ،جزاک اللہ خیرا۔
 
آخری سواریاں
سیدمحمد اشرف
(خلاصہ)​
مصنف اپنی شریکِ حیات کو اپنی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں جب اقامتی اسکول سے چھٹیاں ملتیں اور وہ گھر آتے تو بجائے کھیل کودسے لطف اندوز ہونے کے وہ الماری سے دادا جان کا لکھا ہوا روزنامچہ نکالتے اوربڑے انہماک سے پڑھنے بیٹھ جاتے ۔اِسے پڑھ کے وہ اِیک گہرے غم سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ وقت کے الٹ پھیر کا یہ قصہ اُن کا دکھ بڑھا کر سخت مضمحل اور نڈھال کردیتاِ۔اُن کا یہ حال دیکھ کر والدین پریشان ہوجاتے ۔ آخر وہ روزنامچہ الماری میں بند کرکے رکھ دیا گیا۔مصنف نانی جان کے گھر کا قصہ سناتے ہیں جو ایک قصبے میں تھا جہاں ہندومسلم گھرانے بڑی محبت اور یگانگت سے مل جُل کر رہتے تھے ۔نانی کے پڑوس میں پنڈت ماما کا گھر تھادونوں کے صحن میں ایک ہی کنواں آدھا اُن کی طرف اور آدھا نانی کے صحن میں کھلتا تھا۔پنڈت ماماکی بیوی اور بیٹیاں شاردااور گومتی نانی اماں سے بڑی محبت کرتی تھیں پھر قریب ہی ایک کچی جھونپڑی میں جمو(جمیلہ) اپنی دوبہنوں اور غریب ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی۔سب بچے نانی اماں کے گھر جمع ہوجاتے اور مل کر کھیلتے۔مصنف کہتے ہیں کہ جب اُن کی دوبہنیں اور ایک بھائی اور پیدا ہوگئے تو اباجان نے اماں کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے جمو کو لانے کی اجازت دیدی ۔ جمو آگئی اور گھر کا ایک فرد بن کر رہنے لگی۔اماں جان اور ابا اُس کا بہت خیال رکھتے تھے وہ اُسے لکھانے پڑھانے کی طرف سے بھی غافل نہ تھے یہاں تک کہ اُسے اُردُو لکھنے پڑھنے کی کچھ کچھ مشق بھی ہوگئی۔ایک دن مصنف نے اماں اور مسالہ پیسنے والی بوا کو طاعون کی وباسے متعلق کچھ کہتے سنامگر کہیں اور نہ تو اِس وبا کو اُنھوں نے دیکھا اور نہ اس کا چرچا کہیں سنا۔ چند سال بعد جمو کے ماں باپ اسے لینے آگئے ۔ اُنھوں نے اس کی شادی پکی کردی تھی ۔ اماں ناراض بھی ہوئیں مگر بادلِ نخواستہ اُسے ماں باپ کے ساتھ بھیجناپڑا اور خود بھی شادی کی تیاریوں میں شرکت کی غرض سے نانی جان کے ہاں پہنچ گئیں ۔ جموں نے نانی اماں کے گھر سے ہی رخصت ہونا تھا اور ایک دن دونوجوان لڑکوں کے ادھیڑعمر کے باپ کے ساتھ بندھ کر جموہمیشہ کے لیے گھر سے رخصت ہوکرکلکتے چلی گئی۔مصنف بیتے دنوں کی یادوں میں بہہ رہے تھے کہ اُن کی بیگم نے آواز دے کر انھیں بالکونی میں بلایاجہاں سے فورٹ ولیم کالج کی عمارت ، غالب کا کلکتے کا سفر، وکٹوریہ میموریل اور اِیڈن گارڈن کی لائٹیں نظر آرہی تھیں۔بیگم نے جمو کے بارے میں کریدا شادی کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی کہ نہیں ؟تو مصنف نے بتایا شادی کے بعد وہ کبھی مائیکے نہیں آئی بلکہ گھر سے قدم بھی نہ نکالا۔ اُس نےایک شفیق ماں کی طرح سوتیلے بیٹوں کی شادیاں کیں اور ایک ذمہ دارساس کی طرح بہوؤں کو رکھا۔اُس کے اپنے بچے نہیں ہوئے تھے۔مصنف قصے کوآگے بڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں ایک بار گاؤں میں ایسا سوکھا پڑا کہ لوگ بارش کو ترس گئے ۔گاؤں والے اباجان کے پاس آئے ۔سب آبادی سے ذرا فاصلے پر واقع ایک جنگل میں جمع ہوئے اور نمازِ استسقیٰ ادا کی گئی ۔ ہندو بڑی عقیدت سے وہیں موجود تھے۔سال کے سال جنم اشٹمی کا میلہ لگتا، اِس موقع پر ماسٹر پیارے لال شرما دنگل کے مقابلوں کا انتظام کرتے اور جو رقم جمع ہوتی اُس سے ایک سال مسلمان کنبے کی غریب بیٹی اور ایک سال ہندوجاتی کے کسی نادارگھرانے کی بچی کی شادی کردی جاتی۔مہینے میں ایک دوبار اماں جان میرا ہاتھ پکڑے، بوا اور شام لال کے ساتھ یکے میں سوار ہوکر خاص گنج کے بازار سے خانہ داری کا سامان خرید لاتیں ایک دفعہ رستے میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ۔ مقدمہ پولیس اور پنچایت میں پہنچا ، چورپکڑے گئے مگر سامان وہ بیچ کر کھاچکے تھے اِس لیے بازیاب نہ ہوا ۔ ایک دن سرپنچ وہ لالٹین لے کر آئے جو اماں نے واقعے کے دن خاص گنج کے بازار سے ایک غریب کی بیٹی کو شادی میں دینے کے لیےخریدی تھی۔منشی شفیع الدین اباجان کے باغ اور کھیت کھلیان کا حساب رکھتے تھے جب بوڑھے ہوگئے تو اباجان نے انھیں ریٹائر کرنے کی خبر سنائی ، وہ آبدیدہ ہوگئے چنانچہ اُنھیں فرائض سے تو آزاد کردیا گیا مگر کھانا پانی اور آنا جانا جیسے پہلے تھا، جاری رکھا۔مصنف یہ کتھا سنا رہے تھے کہ بیگم نے پوچھا آپ نے کہانیاں لکھنا کیوں بند کردیا۔ آپ کہانیاں لکھتے تھے تو گھر ٰمیں عافیت رہتی تھی اور اب جب دیکھو کہیں بیٹھے سوچ رہے ہیں۔ مصنف کو یہ قلق تھا کہ ہندستان بھر میں خاص اُردُو کی محفلوں اور تقریبات میں بھی تقریریں اور نگارشات اُردُو میں پیش کی جاتی ہیں لیکن بینرز اور اعلانات اردو رسم الخط میں نہیں ہوتے ۔مصنف کے دادا شکار کے شوقین تھے ، دسویں جماعت پاس کرنے سے پہلے اِنھیں شکار وغیرہ سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی لیکن دادا بڑے اہتمام سے اُنھیں شکار پر لے جاتےاور خاص خیال رکھتے کہ وہاں جو مندر ہے اُس کے پاس کوئی فائر نہ کرے۔روزنامچہ لکھنے کی رسم گزشتہ بزرگوں سے مصنف کے والد تک ہی قائم رہی ،چنانچہ ایک روزنامچے میں اٹھارہ سو ستاون کے انقلابیوں کا مختصر احوال سناتے ہوئے اباجان نے لکھا تھا کہ وہ فقیروں کے بھیس میں بغاوت کا تذکرہ ڈھکے چھپے الفاظ میں کرتے تھے ۔ پھر مصنف کا دھیان داداجان کے لکھے ہوئے ایک سفر نامے کی روداد کی طرف چلا گیا جو سمرقند کی سیر سے متعلق تھا۔ ایک دن مصنف دادا جان کے پاس گئے تو وہ فرمانے لگے میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو، جاؤکوٹھڑی میں ایک صندوقچی رکھی ہے اُسے اٹھالاؤ۔ مصنف وہ صندوقچی لے آئے۔ دادا جان نے اُسے کھولا اور مصنف سے کہا اِس میں سے جو چاہو لے لو۔ مصنف نے کہا مجھے روزنامچہ چاہیے ۔ دادا جان نے اِنھیں روزنامچہ دیا اور ایک بٹوا بھی بھی دیا جس میں تلوار کے ایک نیام کے چھلکے کا ٹکڑا تھا۔مصنف یہ چیزیں لے کر دالان میں آئے اورروزنامچہ پڑھنا شروع کیا ۔ پہلے صفحے پر جلی الفاظ میں بسم اللہ دوسرے پر داداجان کی اپنی کہی ہوئی حمد اور تیسرے صفحے پر پھر اپنی کہی نعت درج تھی ۔ چوتھے صفحے پر بڑے لفظوں میں ’’سفرِ سمرقند ‘‘ لکھا تھا اور اگلے صفحے پر چندمقامات کی فہرست تھی۔روح آباد، بی بی خانم کی مسجد، گورِ امیر، زندہ پیر اور مدرسہ اُلغ خاں اور پھر اِن مقامات کی زیارت کا ذکر تھا۔گورِ امیر سے واپسی پر امیرتیمور سے تصوراتی ملاقات کا حال درج تھا۔ امیر کے بارے میں دادا جان کی لکھی ہوئی باتیں پڑھتے ہوئے مصنف اپنے ماحول کی طرف متوجہ ہوئے تو بیوی کہہ رہی تھیں:’’آپ کے دادا بہت بہادر تھے کہ اُنھوں نے وہ چیزیں بھی دیکھ لیں جو نہیں دیکھنا چاہیے تھیں۔آپ کے شدتِ غم اور دکھ کا سبب وہی چیزیں ہیں جنھیں دیکھ کر آپ کی حالت غیر ہوجاتی ہے ۔ بچپن سے اب تک اِن ہی کے تماشوں سے آپ نے اپنے آپ کو ہلکان کر رکھا ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی بالکونی سے باہر نظریں جمائے بیٹھے تھے ۔ سواریاں تیزی سے اُن کے سامنے سے گزر رہی تھیں ۔ مصنف قارئین ِ کتاب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ، ان سواریوں میں کیا کیا لدا ہے، آئیے آپ بھی میرے ساتھ اِنھیں دیکھنے کی کوشش کیجیے۔وہ دیکھیے سامنے والی سواری میں ٹوٹی ہوئی محرابیں اور کنگورے ہیں۔ اس کے پیچھے والی سواری میں کٹاؤوالے دروازے اور نقشین دریچے ہیں اور پھر مناروں اور گنبدوں سے لدی سواری ہے پھر سنگھار دانوں ،سرمہ دانیوں اور عطردانوں کا انبار لدا ہے، پھر عمامے اور کلف لگی ٹوپیاں ، خرقے ، جبے ، کرتے ہیں پھر طوطوں اور میناؤں کے پنجرے پھر آلاتِ موسیقی پھر مثنویوں ، قصیدوں ، رباعیوں ، کتھاؤں اور داستانوں کے دفتر اور خطاطی کے بیش قیمت نمونے ہیں ۔مصنف نے روتی ہوئی آنکھیں بیوی کے شانے پر رکھ کر بتایا کہ وہ رخصت ہوتی ہوئی سواریوں سے ڈر جاتے ہیں بچپن سے اب تک جتنی سواریاں رخصت ہوئیں پھر واپس نہ آئیں،کیا یہ سواریاں بھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گی؟ بیوی نے یہ سن کر اپنی ٹھنڈی انگلیوں سے مصنف کے بہتے ہوئے گرم آنسو خشک کیے۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
آخری سواریاں
(خلاصہ)​
مصنف اپنی شریکِ حیات کو اپنی زندگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں جب اقامتی اسکول سے چھٹیاں ملتیں اور وہ گھر آتے تو بجائے کھیل کودسے لطف اندوز ہونے کے وہ الماری سے دادا جان کا لکھا ہوا روزنامچہ نکالتے اوربڑے انہماک سے پڑھنے بیٹھ جاتے ۔اِسے پڑھ کے وہ اِیک گہرے غم سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ وقت کے الٹ پھیر کا یہ قصہ اُن کا دکھ بڑھا کر سخت مضمحل اور نڈھال کردیتاِ۔اُن کا یہ حال دیکھ کر والدین پریشان ہوجاتے ۔ آخر وہ روزنامچہ الماری میں بند کرکے رکھ دیا گیا۔مصنف نانی جان کے گھر کا قصہ سناتے ہیں جو ایک قصبے میں تھا جہاں ہندومسلم گھرانے بڑی محبت اور یگانگت سے مل جُل کر رہتے تھے ۔نانی کے پڑوس میں پنڈت ماما کا گھر تھادونوں کے صحن میں ایک ہی کنواں آدھا اُن کی طرف اور آدھا نانی کے صحن میں کھلتا تھا۔پنڈت ماماکی بیوی اور بیٹیاں شاردااور گومتی نانی اماں سے بڑی محبت کرتی تھیں پھر قریب ہی ایک کچی جھونپڑی میں جمو(جمیلہ) اپنی دوبہنوں اور غریب ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی۔سب بچے نانی اماں کے گھر جمع ہوجاتے اور مل کر کھیلتے۔مصنف کہتے ہیں کہ جب اُن کی دوبہنیں اور ایک بھائی اور پیدا ہوگئے تو اباجان نے اماں کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کے لیے جمو کو لانے کی اجازت دیدی ۔ جمو آگئی اور گھر کا ایک فرد بن کر رہنے لگی۔اماں جان اور ابا اُس کا بہت خیال رکھتے تھے وہ اُسے لکھانے پڑھانے کی طرف سے بھی غافل نہ تھے یہاں تک کہ اُسے اُردُو لکھنے پڑھنے کی کچھ کچھ مشق بھی ہوگئی۔ایک دن مصنف نے اماں اور مسالہ پیسنے والی بوا کو طاعون کی وباسے متعلق کچھ کہتے سنامگر کہیں اور نہ تو اِس وبا کو اُنھوں نے دیکھا اور نہ اس کا چرچا کہیں سنا۔ چند سال بعد جمو کے ماں باپ اسے لینے آگئے ۔ اُنھوں نے اس کی شادی پکی کردی تھی ۔ اماں ناراض بھی ہوئیں مگر بادلِ نخواستہ اُسے ماں باپ کے ساتھ بھیجناپڑا اور خود بھی شادی کی تیاریوں میں شرکت کی غرض سے نانی جان کے ہاں پہنچ گئیں ۔ جموں نے نانی اماں کے گھر سے ہی رخصت ہونا تھا اور ایک دن دونوجوان لڑکوں کے ادھیڑعمر کے باپ کے ساتھ بندھ کر جموہمیشہ کے لیے گھر سے رخصت ہوکرکلکتے چلی گئی۔مصنف بیتے دنوں کی یادوں میں بہہ رہے تھے کہ اُن کی بیگم نے آواز دے کر انھیں بالکونی میں بلایاجہاں سے فورٹ ولیم کالج کی عمارت ، غالب کا کلکتے کا سفر، وکٹوریہ میموریل اور اِیڈن گارڈن کی لائٹیں نظر آرہی تھیں۔بیگم نے جمو کے بارے میں کریدا شادی کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی کہ نہیں ؟تو مصنف نے بتایا شادی کے بعد وہ کبھی مائیکے نہیں آئی بلکہ گھر سے قدم بھی نہ نکالا۔ اُس نےایک شفیق ماں کی طرح سوتیلے بیٹوں کی شادیاں کیں اور ایک ذمہ دارساس کی طرح بہوؤں کو رکھا۔اُس کے اپنے بچے نہیں ہوئے تھے۔مصنف قصے کوآگے بڑھاتے ہوئے بتاتے ہیں ایک بار گاؤں میں ایسا سوکھا پڑا کہ لوگ بارش کو ترس گئے ۔گاؤں والے اباجان کے پاس آئے ۔سب آبادی سے ذرا فاصلے پر واقع ایک جنگل میں جمع ہوئے اور نمازِ استسقیٰ ادا کی گئی ۔ ہندو بڑی عقیدت سے وہیں موجود تھے۔سال کے سال جنم اشٹمی کا میلہ لگتا، اِس موقع پر ماسٹر پیارے لال شرما دنگل کے مقابلوں کا انتظام کرتے اور جو رقم جمع ہوتی اُس سے ایک سال مسلمان کنبے کی غریب بیٹی اور ایک سال ہندوجاتی کے کسی نادارگھرانے کی بچی کی شادی کردی جاتی۔مہینے میں ایک دوبار اماں جان میرا ہاتھ پکڑے، بوا اور شام لال کے ساتھ یکے میں سوار ہوکر خاص گنج کے بازار سے خانہ داری کا سامان خرید لاتیں ایک دفعہ رستے میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ۔ مقدمہ پولیس اور پنچایت میں پہنچا ، چورپکڑے گئے مگر سامان وہ بیچ کر کھاچکے تھے اِس لیے بازیاب نہ ہوا ۔ ایک دن سرپنچ وہ لالٹین لے کر آئے جو اماں نے واقعے کے دن خاص گنج کے بازار سے ایک غریب کی بیٹی کو شادی میں دینے کے لیےخریدی تھی۔منشی شفیع الدین اباجان کے باغ اور کھیت کھلیان کا حساب رکھتے تھے جب بوڑھے ہوگئے تو اباجان نے انھیں ریٹائر کرنے کی خبر سنائی ، وہ آبدیدہ ہوگئے چنانچہ اُنھیں فرائض سے تو آزاد کردیا گیا مگر کھانا پانی اور آنا جانا جیسے پہلے تھا، جاری رکھا۔مصنف یہ کتھا سنا رہے تھے کہ بیگم نے پوچھا آپ نے کہانیاں لکھنا کیوں بند کردیا۔ آپ کہانیاں لکھتے تھے تو گھر ٰمیں عافیت رہتی تھی اور اب جب دیکھو کہیں بیٹھے سوچ رہے ہیں۔ مصنف کو یہ قلق تھا کہ ہندستان بھر میں خاص اُردُو کی محفلوں اور تقریبات میں بھی تقریریں اور نگارشات اُردُو میں پیش کی جاتی ہیں لیکن بینرز اور اعلانات اردو رسم الخط میں نہیں ہوتے ۔مصنف کے دادا شکار کے شوقین تھے ، دسویں جماعت پاس کرنے سے پہلے اِنھیں شکار وغیرہ سے کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی لیکن دادا بڑے اہتمام سے اُنھیں شکار پر لے جاتےاور خاص خیال رکھتے کہ وہاں جو مندر ہے اُس کے پاس کوئی فائر نہ کرے۔روزنامچہ لکھنے کی رسم گزشتہ بزرگوں سے مصنف کے والد تک ہی قائم رہی ،چنانچہ ایک روزنامچے میں اٹھارہ سو ستاون کے انقلابیوں کا مختصر احوال سناتے ہوئے اباجان نے لکھا تھا کہ وہ فقیروں کے بھیس میں بغاوت کا تذکرہ ڈھکے چھپے الفاظ میں کرتے تھے ۔ پھر مصنف کا دھیان داداجان کے لکھے ہوئے ایک سفر نامے کی روداد کی طرف چلا گیا جو سمرقند کی سیر سے متعلق تھا۔ ایک دن مصنف دادا جان کے پاس گئے تو وہ فرمانے لگے میں جانتا ہوں تم کیوں آئے ہو، جاؤکوٹھڑی میں ایک صندوقچی رکھی ہے اُسے اٹھالاؤ۔ مصنف وہ صندوقچی لے آئے۔ دادا جان نے اُسے کھولا اور مصنف سے کہا اِس میں سے جو چاہو لے لو۔ مصنف نے کہا مجھے روزنامچہ چاہیے ۔ دادا جان نے اِنھیں روزنامچہ دیا اور ایک بٹوا بھی بھی دیا جس میں تلوار کے ایک نیام کے چھلکے کا ٹکڑا تھا۔مصنف یہ چیزیں لے کر دالان میں آئے اورروزنامچہ پڑھنا شروع کیا ۔ پہلے صفحے پر جلی الفاظ میں بسم اللہ دوسرے پر داداجان کی اپنی کہی ہوئی حمد اور تیسرے صفحے پر پھر اپنی کہی نعت درج تھی ۔ چوتھے صفحے پر بڑے لفظوں میں ’’سفرِ سمرقند ‘‘ لکھا تھا اور اگلے صفحے پر چندمقامات کی فہرست تھی۔روح آباد، بی بی خانم کی مسجد، گورِ امیر، زندہ پیر اور مدرسہ اُلغ خاں اور پھر اِن مقامات کی زیارت کا ذکر تھا۔گورِ امیر سے واپسی پر امیرتیمور سے تصوراتی ملاقات کا حال درج تھا۔ امیر کے بارے میں دادا جان کی لکھی ہوئی باتیں پڑھتے ہوئے مصنف اپنے ماحول کی طرف متوجہ ہوئے تو بیوی کہہ رہی تھیں:’’آپ کے دادا بہت بہادر تھے کہ اُنھوں نے وہ چیزیں بھی دیکھ لیں جو نہیں دیکھنا چاہیے تھیں۔آپ کے شدتِ غم اور دکھ کا سبب وہی چیزیں ہیں جنھیں دیکھ کر آپ کی حالت غیر ہوجاتی ہے ۔ بچپن سے اب تک اِن ہی کے تماشوں سے آپ نے اپنے آپ کو ہلکان کر رکھا ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی بالکونی سے باہر نظریں جمائے بیٹھے تھے ۔ سواریاں تیزی سے اُن کے سامنے سے گزر رہی تھیں ۔ مصنف قارئین ِ کتاب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں ، ان سواریوں میں کیا کیا لدا ہے، آئیے آپ بھی میرے ساتھ اِنھیں دیکھنے کی کوشش کیجیے۔وہ دیکھیے سامنے والی سواری میں ٹوٹی ہوئی محرابیں اور کنگورے ہیں۔ اس کے پیچھے والی سواری میں کٹاؤوالے دروازے اور نقشین دریچے ہیں اور پھر مناروں اور گنبدوں سے لدی سواری ہے پھر سنگھار دانوں ،سرمہ دانیوں اور عطردانوں کا انبار لدا ہے، پھر عمامے اور کلف لگی ٹوپیاں ، خرقے ، جبے ، کرتے ہیں پھر طوطوں اور میناؤں کے پنجرے پھر آلاتِ موسیقی پھر مثنویوں ، قصیدوں ، رباعیوں ، کتھاؤں اور داستانوں کے دفتر اور خطاطی کے بیش قیمت نمونے ہیں ۔مصنف نے روتی ہوئی آنکھیں بیوی کے شانے پر رکھ کر بتایا کہ وہ رخصت ہوتی ہوئی سواریوں سے ڈر جاتے ہیں بچپن سے اب تک جتنی سواریاں رخصت ہوئیں پھر واپس نہ آئیں،کیا یہ سواریاں بھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گی؟ بیوی نے یہ سن کر اپنی ٹھنڈی انگلیوں سے مصنف کے بہتے ہوئے گرم آنسو خشک کیے۔۔۔۔۔
آپ نے بہترین خلاصہ کیا۔ میں نے بھی اسے مکمل پڑھ چکا ہوں اور اس پر کچھ لکھ رہا ہوں ۔ ان شا اللہ جلد خدمت میں پیش کروں گا۔ میں اس میں تہذیبی نوحہ گری پر لکھنا چاہتا ہوں ۔
 
میں اس میں تہذیبی نوحہ گری پر لکھنا چاہتا ہوں ۔
پسندیدگی کا شکریہ ۔ ناول کی تلخیص عرض کرنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ کہانی کے واقعات ناظرین کی نظر میں رہیں اور جب اِس کتاب پر لکھے گئے مضامین سے اُنھیں ناول پڑھنے کی ترغیب ملے تو وہ اِس کتاب کی اہمیت وافادیت کا صحیح اندازہ کرسکیں۔
اِس طرح کتاب کے طرزِ بیان،زبان کے محاسن و معائب،فنی خوبیوں اور خامیوں ،اِس ناول پر اردوکلاسیکی ناولوں کے اثرات اور اساطیری وقائع کے رنگ، اردو کے عصری ادب میں اِس کے رتبے اور مقام کا تعین اور آج کے قارئین پر اِس کے اثرات اورآیندہ لوگوں پر اِس ناول کے نتائج کا جائزہ لیناآسان ہوجائے گا۔
اِس سلسلے میں میں بھی ایک مضمون قلم بند کررہا ہوں اور اُس میں یہ دکھانا چاہوں گا کہ ایک ایسے دور میں جب لکھنے اور بولنے میں اُردُو کا تیاپانچا کیا جارہا ہو،اُردُو کی کتاب سے تعلق امتحان پاس کرنے کی حد تک رہ گیاہو،کتاب کی زینت جو ہاتھ کی کتابت سے ہوا کرتی تھی کمپیوٹر کی مجبور و محدود طباعت کی نذر ہوگئی ہو اور انٹر نیٹ کی سرگرمیوں میں باوجود اِس کے کہ لکھنے اور پڑھنے کے بہترین مواقع دستیاب ہیں انھیں اُلٹی سیدھی اُردُو لکھ کر ضایع کیا جارہا ہو بلکہ کھیل کھیل میں اُردُو زبان و بیان کی تحقیر و توہین و تذلیل و تضحیک کی جارہی ہو اور اِس قبیح عمل میں وہ بھی شامل ہوں جو ایک طرف ادبی موضوعات پر اپنی نستعلیق اُردُو کا شعبدہ اپنی شاعری اوراپنی ادبی آراء کی صورت میں دکھارہے ہوں اور ایک طرف دیگر موضوعات پر مختصر سے مختصرعبارت حتی ٰ کہ ایک جملہ بھی عین اِسی معیار پرلکھنا اُن کے بس میں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توایسے میں نئی آنیوالی کتابوں، نئی آنیوالی نسلوں اور خود اُردُو زبان و ادب کا کیا حشر ہوگایعنی آنیوالے وقتوں میں کیا لکھا جارہا ہوگا اور کیا بولاجارہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر کی تہلکہ خیز ایجاد اور انقلاب آفریں ترقیوں میں اپنا حصہ ڈالے بغیر اس کی حیرت انگیز آسانیوں اور راحت رساں سہولتوں کی گنگا میں بہتے بہتے ہم جانے کہاں نکل چکے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
پسندیدگی کا شکریہ ۔ ناول کی تلخیص عرض کرنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ کہانی کے واقعات ناظرین کی نظر میں رہیں اور جب اِس کتاب پر لکھے گئے مضامین سے اُنھیں ناول پڑھنے کی ترغیب ملے تو وہ اِس کتاب کی اہمیت وافادیت کا صحیح اندازہ کرسکیں۔
اِس طرح کتاب کے طرزِ بیان،زبان کے محاسن و معائب،فنی خوبیوں اور خامیوں ،اِس ناول پر اردوکلاسیکی ناولوں کے اثرات اور اساطیری وقائع کے رنگ، اردو کے عصری ادب میں اِس کے رتبے اور مقام کا تعین اور آج کے قارئین پر اِس کے اثرات اورآیندہ لوگوں پر اِس ناول کے نتائج کا جائزہ لیناآسان ہوجائے گا۔
اِس سلسلے میں میں بھی ایک مضمون قلم بند کررہا ہوں اور اُس میں یہ دکھانا چاہوں گا کہ ایک ایسے دور میں جب لکھنے اور بولنے میں اُردُو کا تیاپانچا کیا جارہا ہو،اُردُو کی کتاب سے تعلق امتحان پاس کرنے کی حد تک رہ گیاہو،کتاب کی زینت جو ہاتھ کی کتابت سے ہوا کرتی تھی کمپیوٹر کی مجبور و محدود طباعت کی نذر ہوگئی ہو اور انٹر نیٹ کی سرگرمیوں میں باوجود اِس کے کہ لکھنے اور پڑھنے کے بہترین مواقع دستیاب ہیں انھیں اُلٹی سیدھی اُردُو لکھ کر ضایع کیا جارہا ہو بلکہ کھیل کھیل میں اُردُو زبان و بیان کی تحقیر و توہین و تذلیل و تضحیک کی جارہی ہو اور اِس قبیح عمل میں وہ بھی شامل ہوں جو ایک طرف ادبی موضوعات پر اپنی نستعلیق اُردُو کا شعبدہ اپنی شاعری اوراپنی ادبی آراء کی صورت میں دکھارہے ہوں اور ایک طرف دیگر موضوعات پر مختصر سے مختصرعبارت حتی ٰ کہ ایک جملہ بھی عین اِسی معیار پرلکھنا اُن کے بس میں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توایسے میں نئی آنیوالی کتابوں، نئی آنیوالی نسلوں اور خود اُردُو زبان و ادب کا کیا حشر ہوگایعنی آنیوالے وقتوں میں کیا لکھا جارہا ہوگا اور کیا بولاجارہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر کی تہلکہ خیز ایجاد اور انقلاب آفریں ترقیوں میں اپنا حصہ ڈالے بغیر اس کی حیرت انگیز آسانیوں اور راحت رساں سہولتوں کی گنگا میں بہتے بہتے ہم جانے کہاں نکل چکے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بے شک درست فرمایا۔ آپ کے مضمون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔ آپ ضرور لکھیے اور ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیے۔ جزاک اللہ خیرا
 
جی بے شک درست فرمایا۔ آپ کے مضمون کا شدت سے انتظار رہے گا ۔ آپ ضرور لکھیے اور ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیے۔ جزاک اللہ خیرا
مجھے یہ سب کچھ لکھنے کی تحریک و ترغیب ناول ’’آخری سواریاں ‘‘ کے اِس ٹکڑے سے ملی اور خود اُردُو ویب سائیٹس پر اہلِ اُردُو کے رویوں سے ملی اور جدید کتابوں کے طرزِ طباعت سے بھی ملی ،جو اب صرف کمپیوٹر کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہے۔کتابوں کے متن ٹائپ کرنے والے وہی ہیں جو انگریزی اسکولوں سے آئے ہیں اور انگریزی کلچر سے مغلوب ہیں اور اپنی انگریزی اور کمپیوٹر کیhow۔ know پراِس درجہ نازاں ہیں کہ اُردُو کے ساتھ اُن کا رویہ گوراصاحب سے اور کمپیوٹرٹیکنالوجی میں اُن کی تیزی رفتارِ زمانہ سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب کا اِقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’۔دلیپ صاحب نے آپ سے کیا کہا تھا؟بیوی نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپوچھا۔میں نے سر جھکا لیا اور دو دہائی پہلے کی ایک شام یاد کی۔میں نے بمبئی میں نہرو سینٹر کے مشاعرے میں سامنے نشستوں پر دیکھا۔میرے قریب رکھے مائک کے سامنے یوسف خاں خاموش کھڑے تھے ، جیسے الفاظ ڈھوند رہے ہوں ۔ پھر تقریر کو اپنی مخصوص عادت کے مطابق باضابطہ وقفوں سے سجاتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔باذوق سامعین سے بھرے اِس خوبصورت ہال میں لفظوں کے جادوگر اپنا فن دکھا رہے تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ جس زبان کے الفاظ اِس ہال میں گونج رہے تھے اُس زبان کا کوئی لفظ اِس ہال میں کہیں لکھا ہوا نظر نہیں آیا،حتی ٰ کہ بینر پر بھی نہیں،زمین پر اخبار کے ٹکڑے جابجا بکھرےہوئے تھے ،میں نے غور سے دیکھا کاغذ کے کسی ٹکڑے پر اِس زبان کا ایک لفظ بھی نہیں تھا۔۔۔۔آپ کیا سوچنے لگے ؟باہر تو آپ خوب بولتے ہوں گے ، گھر میں آکر چُپی سادھ لیتے ہیں ، میں سب جانتی ہوں۔ کیا صرف لکھاوٹ کا رواج کم ہونے سے آپ اُداس رہنے لگے ہیں؟‘‘
۔۔۔۔۔۔اور اب کتاب کی طباعت کا وہ حال دیکھیں جو کمپیوٹر کی محتاجی سے ہوا:
 
مجھے یہ سب کچھ لکھنے کی تحریک و ترغیب ناول ’’آخری سواریاں ‘‘ کے اِس ٹکڑے سے ملی اور خود اُردُو ویب سائیٹس پر اہلِ اُردُو کے رویوں سے ملی اور جدید کتابوں کے طرزِ طباعت سے بھی ملی ،جو اب صرف کمپیوٹر کی دست نگر ہوکر رہ گئی ہے۔کتابوں کے متن ٹائپ کرنے والے وہی ہیں جو انگریزی اسکولوں سے آئے ہیں اور انگریزی کلچر سے مغلوب ہیں اور اپنی انگریزی اور کمپیوٹر کیhow۔ know پراِس درجہ نازاں ہیں کہ اُردُو کے ساتھ اُن کا رویہ گوراصاحب سے اور کمپیوٹرٹیکنالوجی میں اُن کی تیزی رفتارِ زمانہ سے بھی دوہاتھ آگے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کتاب کا اِقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’۔دلیپ صاحب نے آپ سے کیا کہا تھا؟بیوی نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپوچھا۔میں نے سر جھکا لیا اور دو دہائی پہلے کی ایک شام یاد کی۔میں نے بمبئی میں نہرو سینٹر کے مشاعرے میں سامنے نشستوں پر دیکھا۔میرے قریب رکھے مائک کے سامنے یوسف خاں خاموش کھڑے تھے ، جیسے الفاظ ڈھوند رہے ہوں ۔ پھر تقریر کو اپنی مخصوص عادت کے مطابق باضابطہ وقفوں سے سجاتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔باذوق سامعین سے بھرے اِس خوبصورت ہال میں لفظوں کے جادوگر اپنا فن دکھا رہے تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ جس زبان کے الفاظ اِس ہال میں گونج رہے تھے اُس زبان کا کوئی لفظ اِس ہال میں کہیں لکھا ہوا نظر نہیں آیا،حتی ٰ کہ بینر پر بھی نہیں،زمین پر اخبار کے ٹکڑے جابجا بکھرےہوئے تھے ،میں نے غور سے دیکھا کاغذ کے کسی ٹکڑے پر اِس زبان کا ایک لفظ بھی نہیں تھا۔۔۔۔آپ کیا سوچنے لگے ؟باہر تو آپ خوب بولتے ہوں گے ، گھر میں آکر چُپی سادھ لیتے ہیں ، میں سب جانتی ہوں۔ کیا صرف لکھاوٹ کا رواج کم ہونے سے آپ اُداس رہنے لگے ہیں؟‘‘
۔۔۔۔۔۔اور اب کتاب کی طباعت کا وہ حال دیکھیں جو کمپیوٹر کی محتاجی سے ہوا:
آپ اردو کا درد محسوس کرتے ہیں، یہ تہذیب سے محبت کی علامت ہے۔ سداسلامتی ہو اور ہمیشہ خوش رہیں۔ آمین
 
پسندیدگی کا شکریہ ۔ ناول کی تلخیص عرض کرنے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ کہانی کے واقعات ناظرین کی نظر میں رہیں اور جب اِس کتاب پر لکھے گئے مضامین سے اُنھیں ناول پڑھنے کی ترغیب ملے تو وہ اِس کتاب کی اہمیت وافادیت کا صحیح اندازہ کرسکیں۔
اِس طرح کتاب کے طرزِ بیان،زبان کے محاسن و معائب،فنی خوبیوں اور خامیوں ،اِس ناول پر اردوکلاسیکی ناولوں کے اثرات اور اساطیری وقائع کے رنگ، اردو کے عصری ادب میں اِس کے رتبے اور مقام کا تعین اور آج کے قارئین پر اِس کے اثرات اورآیندہ لوگوں پر اِس ناول کے نتائج کا جائزہ لیناآسان ہوجائے گا۔
اِس سلسلے میں میں بھی ایک مضمون قلم بند کررہا ہوں اور اُس میں یہ دکھانا چاہوں گا کہ ایک ایسے دور میں جب لکھنے اور بولنے میں اُردُو کا تیاپانچا کیا جارہا ہو،اُردُو کی کتاب سے تعلق امتحان پاس کرنے کی حد تک رہ گیاہو،کتاب کی زینت جو ہاتھ کی کتابت سے ہوا کرتی تھی کمپیوٹر کی مجبور و محدود طباعت کی نذر ہوگئی ہو اور انٹر نیٹ کی سرگرمیوں میں باوجود اِس کے کہ لکھنے اور پڑھنے کے بہترین مواقع دستیاب ہیں انھیں اُلٹی سیدھی اُردُو لکھ کر ضایع کیا جارہا ہو بلکہ کھیل کھیل میں اُردُو زبان و بیان کی تحقیر و توہین و تذلیل و تضحیک کی جارہی ہو اور اِس قبیح عمل میں وہ بھی شامل ہوں جو ایک طرف ادبی موضوعات پر اپنی نستعلیق اُردُو کا شعبدہ اپنی شاعری اوراپنی ادبی آراء کی صورت میں دکھارہے ہوں اور ایک طرف دیگر موضوعات پر مختصر سے مختصرعبارت حتی ٰ کہ ایک جملہ بھی عین اِسی معیار پرلکھنا اُن کے بس میں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توایسے میں نئی آنیوالی کتابوں، نئی آنیوالی نسلوں اور خود اُردُو زبان و ادب کا کیا حشر ہوگایعنی آنیوالے وقتوں میں کیا لکھا جارہا ہوگا اور کیا بولاجارہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمپیوٹر کی تہلکہ خیز ایجاد اور انقلاب آفریں ترقیوں میں اپنا حصہ ڈالے بغیر اس کی حیرت انگیز آسانیوں اور راحت رساں سہولتوں کی گنگا میں بہتے بہتے ہم جانے کہاں نکل چکے ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ناول پر میرا مضمون اشاعت کے لیے گیا ہے ۔ ان شا اللہ اشاعت پر اشتراک کروں گا۔ اس ناول پر کسی بھی قسم کی گفتگو کی جاسکتی ہے۔
 
آخری تدوین:
اس ناول پر میرا مضمون اشاعت کے لیے گیا ہے ۔ ان شا اللہ اشاعت پر اشتراک کروں گا۔
بہت خوشی ہوئی ،ضرورشئیر فرمائیں ، انتظار رہے گا۔ اہلِ علم کی کوششوں سے فی الوقت اتنا ہوجائے کہ کمپیوٹر پر اُردُو کا معیار نہیں تو بھرم ہی رہ جائے ۔ایم ایس آفس نے یہ کرم کیا ہے کہ اُردُو مصنفین کے لیے اُردُو تحریرکا آپشن دیدیا ہے ۔ بس ایسےہی پروگرام اور فیچرز سے آراستہ ٹیکسٹ رائٹر اُردُو ویب والے بھی اُردُو کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق تیار کرکے ممبر ز کے استعمال کے لیے دیں تو یقین ہے اُردُو کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور حق تلفیوں کا تدارک ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہ مراسلہ اِس ویب کے جس مراسلہ نگاری پروگرام پر لکھ رہا ہوں آپ جانتے ہی ہیں وہ کس قدر محدود ہے کہ نہ تو شعرلکھ کراُس کے اوپر تلے مصرعوں کو ایک لیول دیا جاسکتا ہے اور نہ نثر میں لکھے پیرے کو جسٹفائی کیا جاسکتا ہے کہ جو اوپر کی سطر ہے نیچے کی تمام سطور اُس کے لیول میں رہیں وگرنہ اچھی سے اچھی تحریر بدنمائی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بہرحال آپ مضمون پوسٹ کریں ، یقیناًآپ کی تحریر اصحابِ ہنر میں پذیرائی پائیگی،ان شاء اللہ۔
 
آخری تدوین:
بہت خوشی ہوئی ،ضرورشئیر فرمائیں ، انتظار رہے گا۔ اہلِ علم کی کوششوں سے فی الوقت اتنا ہوجائے کہ کمپیوٹر پر اُردُو کا معیار نہیں تو بھرم ہی رہ جائے ۔ایم ایس آفس نے یہ کرم کیا ہے کہ اُردُو مصنفین کے لیے اُردُو تحریرکا آپشن دیدیا ہے ۔ بس ایسےہی پروگرام اور فیچرز سے آراستہ ٹیکسٹ رائٹر اُردُو ویب والے بھی اُردُو کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق تیار کرکے ممبر ز کے استعمال کے لیے دیں تو یقین ہے اُردُو کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور حق تلفیوں کا تدارک ہوجائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یہ مراسلہ اِس ویب کے جس مراسلہ نگاری پروگرام پر لکھ رہا ہوں آپ جانتے ہی ہیں وہ کس قدر محدود ہے کہ نہ تو شعرلکھ کراُس کے اوپر تلے مصرعوں کو ایک لیول دیا جاسکتا ہے اور نہ نثر میں لکھے پیرے کو جسٹفائی کیا جاسکتا ہے کہ جو اوپر کی سطر ہے نیچے کی تمام سطور اُس کے لیول میں رہیں وگرنہ اچھی سے اچھی تحریر بدنمائی کا شکار ہوجاتی ہے۔ بہرحال آپ مضمون پوسٹ کریں ، یقیناًآپ کی تحریر اصحابِ ہنر میں پذیرائی پائیگی،ان شاء اللہ۔
شکریہ ۔ جزاک اللہ ۔ مجھے اس ناول میں مصنف کے دادا کا سفر نامہ تو اچھا لگا لیکن اس میں تیمور سے ملاقات کے احوال کی غیر ضروری طوالت کچھ کھٹکی۔
 
شکریہ ۔ جزاک اللہ ۔ مجھے اس ناول میں مصنف کے دادا کا سفر نامہ تو اچھا لگا لیکن اس میں تیمور سے ملاقات کے احوال کی غیر ضروری طوالت کچھ کھٹکی۔
اور میرے نزدیک داداجان کی تیمورسے ملاقات کا احوال دراصل ناول ’’۔آخری سواریاں‘‘ہے ۔کہ ہندُستان 1525ء تا1857ء کا زمانہ تیمور کی ہی بہادری، جفاکشی اور استقامت کی داستان کا ولولہ انگیزآغاز اورحوصلہ شکن وروح فرسا انجام ہے ۔ناول کے اِس حصے اور تیمور کی زبان سے اداکرائے گئے اِس قصے کو توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے :
1۔’’از برائے خدابیان کرو۔یہ لمحات بیحد قیمتی ہیں اور پھر یہ موقع نہیں ملیگا۔‘‘ ناول کے مصنف کے داداجان کی تیمور کے خیالی ہیولے سے درخواست۔
2۔ ’’شہر ِ سبز کا گھوڑا ہندُستانی ہاتھی کی طرح جسیم ہوتا ہے ،خدا نے میری پیدائش کے لیے اِسی شہر کا انتخاب کیا۔‘‘۔۔۔۔۔تیمور کااپنے توطن پر فخرو استکبار
3۔’’مدرسے میں پہلے ہی دن جب میں نے سورۂ شمس ازبر کرلی تو میرا استاددانتوں تلے اُنگلی دابتا تھا‘‘۔۔۔۔۔اِس میں تیمور کی ذہانت و فطانت کا اِشارہ اور غیرمعمولی حافظے کا بیان ہے
4۔’’اسپ سواری کے وقت بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا ۔ مجھے نہیں میرے گھوڑے کو۔کیونکہ میں واقف تھا کہ جب گھوڑے کی پیٹھ پر آجاؤتو اپنے زانوؤں سےگھوڑے کے دونوں پہلوؤں کواتنی طاقت سے دباؤ کہ اُس کی پسلیاں چٹخنے کے قریب آجائیں۔میرا گھوڑا اکثر و بیشتر مطیع ہوجاتا تھابصورتِ دیگرہمیشہ کے لیے اپاہج۔‘‘ یہ اُس کی فاتحانہ خصلت اور سپاہیانہ اوصاف کاادبی کنایہ ہوا۔
5۔’’میں صرف ہفت اقلیم کا شہنشاہ ہی نہیں سپہ سالار بھی تھا۔سپہ سالاراصلاًسپاہی ہوتا ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’شہنشاہ ہی نہیں سپہ سالار بھی تھا‘‘تیمور کے کہے اِس جملے پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت کے دوام و استحکام کی شرطِ اول یہی ہے کہ بادشاہ ٹھاٹھ سے محلوں میں تخت نشیں بھی رہے مگر میدان ِ کارزار کا مستعد اور سرگرم سپاہی بھی ہو تو پھر اُس کا سامان،مالِ غنیمت سواریوں میں لد کر نظروں سے دورلیجانے کی نہ تو وقت میں ہمت ہے اور نہ تاریخ ایساکرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابر، ہمایوں ، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور پھر اورنگ زیب ۔۔۔۔۔۔۔اِن میں اپنے جدِ امجد کے یہ خواص تھے تو ہندُستان مرکزنگاہ تھااور نگ زیب کے بعد سے بہادرشاہ ظفر تک کے بادشاہ اِن اوصاف سے تہی تھے تو سانحہ 1857ءپیش آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اور میرے نزدیک داداجان کی تیمورسے ملاقات کا احوال دراصل ناول ’’۔آخری سواریاں‘‘ہے ۔کہ ہندُستان 1525ء تا1857ء کا زمانہ تیمور کی ہی بہادری، جفاکشی اور استقامت کی داستان کا ولولہ انگیزآغاز اورحوصلہ شکن وروح فرسا انجام ہے ۔ناول کے اِس حصے اور تیمور کی زبان سے اداکرائے گئے اِس قصے کو توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے :
1۔’’از برائے خدابیان کرو۔یہ لمحات بیحد قیمتی ہیں اور پھر یہ موقع نہیں ملیگا۔‘‘ ناول کے مصنف کے داداجان کی تیمور کے خیالی ہیولے سے درخواست۔
2۔ ’’شہر ِ سبز کا گھوڑا ہندُستانی ہاتھی کی طرح جسیم ہوتا ہے ،خدا نے میری پیدائش کے لیے اِسی شہر کا انتخاب کیا۔‘‘۔۔۔۔۔تیمور کااپنے توطن پر فخرو استکبار
3۔’’مدرسے میں پہلے ہی دن جب میں نے سورۂ شمس ازبر کرلی تو میرا استاددانتوں تلے اُنگلی دابتا تھا‘‘۔۔۔۔۔اِس میں تیمور کی ذہانت و فطانت کا اِشارہ اور غیرمعمولی حافظے کا بیان ہے
4۔’’اسپ سواری کے وقت بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا ۔ مجھے نہیں میرے گھوڑے کو۔کیونکہ میں واقف تھا کہ جب گھوڑے کی پیٹھ پر آجاؤتو اپنے زانوؤں سےگھوڑے کے دونوں پہلوؤں کواتنی طاقت سے دباؤ کہ اُس کی پسلیاں چٹخنے کے قریب آجائیں۔میرا گھوڑا اکثر و بیشتر مطیع ہوجاتا تھابصورتِ دیگرہمیشہ کے لیے اپاہج۔‘‘ یہ اُس کی فاتحانہ خصلت اور سپاہیانہ اوصاف کاادبی کنایہ ہوا۔
5۔’’میں صرف ہفت اقلیم کا شہنشاہ ہی نہیں سپہ سالار بھی تھا۔سپہ سالاراصلاًسپاہی ہوتا ہے۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’شہنشاہ ہی نہیں سپہ سالار بھی تھا‘‘تیمور کے کہے اِس جملے پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہت کے دوام و استحکام کی شرطِ اول یہی ہے کہ بادشاہ ٹھاٹھ سے محلوں میں تخت نشیں بھی رہے مگر میدان ِ کارزار کا مستعد اور سرگرم سپاہی بھی ہو تو پھر اُس کا سامان،مالِ غنیمت سواریوں میں لد کر نظروں سے دورلیجانے کی نہ تو وقت میں ہمت ہے اور نہ تاریخ ایساکرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابر، ہمایوں ، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور پھر اورنگ زیب ۔۔۔۔۔۔۔اِن میں اپنے جدِ امجد کے یہ خواص تھے تو ہندُستان مرکزنگاہ تھااور نگ زیب کے بعد سے بہادرشاہ ظفر تک کے بادشاہ اِن اوصاف سے تہی تھے تو سانحہ 1857ءپیش آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشااللہ آپ نے تفصیلی تبصرہ فرمایا۔
یہ حصہ بے جا نہیں، میں نے اس کی طوالت کا ذکر کیا ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جناب خرم صاحب ناول ’’نمبردار کا نِیلا‘‘۔ پرلکھے آپ کے مضمون نے ناول کے دیباچے کا کام کیا جس کے سہارے ناول (اپنی مختصرضخامت کے باعث میرا جی چاہتا ہے میں اِسے ناولٹ ہی سمجھوں اور کہوں)کی کہانی اور اِس کے پیغام کو سمجھنا آسان ہوگیا۔میں عام طور پر کوئی بھی تحریرپڑھتے ہوئے اُس کے طرزِ بیان پر زیادہ توجہ دیتا ہوں اور مجھے وہیں سے بات کہنے کے نئے نئے ڈھنگ،محاوروں اور ضرب الامثال کے صحیح استعمال کے طریقے،لفظوں کو برتنے کے سلیقے ،منظر نامہ پیش کرنے کا ہنر اور محاکات دکھانے کافن سیکھنے کوملتا ہے ۔ایک اچھی تحریر ایک اچھے شعرکو بھی بعض اوقات پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ اُردُو کے نثری ادب میں اِس قول کی تائید میں ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔زیرِ نظر ناولٹ میں بھی یہ خوبی بدرجہ ٔ اُتم موجود ہے:
۱۔۔’’ سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں، جو اُدھار لینے والوں نے ضمانت کے طور پر رکھوائے تھے اور جو سُود ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اورٹھاکر اَووَل سنگھ کی دولت کے سمندر میں اُبھر آئے تھے۔‘‘
۲۔۔’’ ایک دِن ٹھاکر صاحب نے محسوس کیاکہ نِیلا اب اتنا بڑا اور طاقت ور ہوگیا ہے کہ رسی کی بندش کو صرف عادت کے طور پر فرماں برداری میں قبول کرتا ہے، ورنہ چاہے تو ایک ہی زقندمیں رسی اور رسی کے دوسرے سِرے پر کھڑے بھوندو کسان کو لے کر اُڑجائے۔‘‘
۳۔۔’’۔۔اُس پر انکشاف ہوا کہ آج رسی کا تناؤ گردن پر نہیں تھا۔ وہ اگلے دونوں پیر زمین پر مار کر اگلے دھڑے سے اُٹھااور نیم کے تنے پر اپنے سر سے ایک سُبک سی ٹکر ماری۔ یہ آزادی کے رقص کی پہلی تال تھی۔‘‘
۴۔۔’’ ایک طرف تو اُن کا ذہن کہہ رہا تھا کہ نیلے سے چھُٹکارا حاصل کرلو اور دوسری طرف کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
کردار نگاری:
مصنف نے کردار بیان کرنے میں بھی کمال کا ہنر دکھایا ہے ۔ مرکزی کردا ر ٹھاکر ،ٹھاکر کے دونوں لڑکے ،کمہار کی بیٹیاں بڑکی اور چھٹکی،بھیکو کا لڑکا ،ہیڈ ماسٹر صاحب اور سب سے بڑھ کر بے زبان جانور نیلا۔اِن کرداروں کو ڈھالنے اور پیش کرنے میں کہیں بھی غیر فطری رنگ اور ضرورت سے زیادہ روغن مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بڑکی نے منگنی ٹوٹنے اور منگیتر کا چھٹکی کی مِلک میں چلے جانے پر بظاہر کسی سخت اور شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کر کے اپنے کردار کو جس خوبی سے حقیقت کے مطابق رکھا وہ بھی خوب ہے مگر آیندہ کے ایک سین میں اُس کی روح کے زخم اور دل کی دھسک کو مصنف نے جس خوبصورتی سے عین فطری اور موثر انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑکی آہستہ آہستہ رونے لگی۔کیا ہوا؟ بھابھی نے اچنبھے سے پوچھا۔ بڑکی نے اُس کے دونوں پیر ہاتھوں میں تھامے اور اُن پر اپنا سر رکھ کر بولی ،’’میرو یو وَن اونکار بابونے لوٹو اے۔‘‘
مصنف کی دیگر تصانیف ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ بادِ صبا کا انتظار(افسانوں کے مجموعے)اور ناول ’’ْْ۔آخری سواریاں‘‘بھی زیر ِ نظر ناولٹ ’’ نمبر دار کا نِیلا ‘‘ کی طرح اعلیٰ پائے کی ہوں گی مگر اُن کا نام رہتی اُردُو تک زندہ رکھنے کے لیےایک اکیلا ’’نمبردار کا نِِیلا ‘‘ ہی کافی ہے ، واہ!
رہتا سُخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دوپشت ، چار پشت​
ہائے۔۔۔ میں نے آج مضمون پڑھا ہے۔۔۔ اور آپ ناول بھی پڑھ آئے۔۔ ۔ ظالم ہیں آپ ظالم۔۔۔۔۔اور اس پر ظلم یہ کہ ایسا عمدہ تبصرہ بھی فرما دیا۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بوجوہ محفل سے غیر حاضر رہا۔ ان شاء اللہ جلد ہی حاضر ہو کر پڑھتا ہوں۔ آپ کی محبت آپ نے یاد رکھا۔
صرف ایک مہینے کی قلیل مدت میں اپنا کہا کر دکھایا۔۔۔۔
خرم صاحب آپ کے مراسلے پر سیر حاصل گفتگو شکیل بھائی، جاسمن صاحبہ فرما ہی چکے ہیں۔۔۔ ایسے مضامین بالعموم خشک ہوتے ہیں پر آپ کے قلم کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی جس نے اس خشک مضموں کو بھی ایسے نبھایا کہ شروع کیا تو آخر تک پڑھ کر ہی دم لیا۔ ناول پڑھنا باقی ہے۔ وہ بھی شاید کبھی پڑھوں گا۔ سردست اس خوبصورت مقالے کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں۔ خاصے کی چیز ہے۔
 
یہ حصہ بے جا نہیں، میں نے اس کی طوالت کا ذکر کیا ہے۔
اِس مختصرناول جسے ناول سے زیادہ ناولٹ کہنا زیادہ مناسب ہوگا ، کاایک وصف یہ بھی کہ ہر واقعہ پلاٹ کاواقعی اور وقوعی حصہ معلوم ہوتا ہے اور کمیت کے اعتبار سے بھی اِس قدر متناسب ہے کہ مجھے مصنف پر ’’۔ اُمراؤجانِ ادا ‘‘ کے مرزا ہادی رُسوا کی طرح میتھومیٹیشن ہونے کا شبہ گزرتا ہے مگر یہ عملی زندگی میں سول سروس سے وابستہ کمشنر کے عہدے پر فائز ہیں مگر زبان داں ہونے کے ساتھ ساتھ حساب داں بھی خوب ہیں، واہ سید محمد اشر ف صاحب ، شاباش!
 

سیما علی

لائبریرین
یہ ناول 2006 کے شروع میں ہی اشرف نے مجھے دیا تھا، اسی وقت چھپ کر آیا تھا، اشرف ان دنوں علی گڑھ میں ہی انکم ٹیکس کمشنر کے بطور تعینات تھےاور اسی وقت میں نے ایک دھاگہ کھول دیا تھا محفل میں کہ اس کو برقیانے کا ڈول ڈالا جائے ۔
ویسے اسے واقعی ناولٹ کہنا چاہئے تھا لیکن اشرف نے بھی ناول ہی کہا ہے تو ہمیں بھی ناول ہی کہناچاہئے
کوشش کی پر آپکا کھولا ہوا دھاگہ نہ کھل سکا استاد محترم ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
’نیلا‘‘ نامی جانور کو علامتی روپ دے کر انسان کی خود غرضی، مکاری، فریب دہی، ظلم و ستم اور استحصال دیگراں کو بیان کیا گیا ہے۔ پلاٹ کے لحاظ سے ناول کے تمام واقعات ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ناول میں پیش کردہ تمام چیزیں فطری اور حقیقی معلوم ہوتی ہیں اور انسان کی روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ۔۔اس میں ہندوستان کی سیاسی قیادت میں در آئی خامیوں کو ایماندارانہ انداز میں پیش کیا گیاہے۔۔۔بائیس سال قبل لکھے گئے ناول میں بیان کردہ حالات آج کے ہندوستان سے پوری طرح مماثلت رکھتے ہیں۔۔۔(7)
بہت عمدہ انتخاب ۔۔بہت شکریہ آپکی کاوش قابل صد تحسین ۔۔آپکی وجہ سے اتنا بہترین ناول پڑھنے کا موقعہ ملا
جیتے رہیے ۔۔ایک بار پھر بہت سا را اظئار تشکر۔۔۔
اشرف صاحب کا کمال یہ ہے وہ جانوروں کی خصلتوں میں انسانی کردار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اس لیے شاید کچھ لوگوں کوگمان گزرتا ہے کہ اشرف جانوروں کو آدمی کی طرح ٹریٹ کررہے ہیں۔لیکن اشرف صاحب نے فکشن کے ذریعے انسانوں میں بسی ہوئی جانوروں کی جبلتوں کا پردہ فاش کیا ہے۔ناول ”نمبر دار کا نیلا“ ایک ایسا ہی ناول ہے جس میں انسان یعنی ٹھاکر اودل سنگھ اور جانور یعنی نیلا کی جبلتیں ایک دوسرے میں مدغم ہوگئی ہیں۔
نیلا دراصل نیل گائے کا بچہ ہے جسے گاﺅں کے نمبر دار ٹھاکر اودل سنگھ نے پالا ہے۔ نیلا کو پالنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ٹھاکر کے مکان میں چوری ہوجاتی ہے اورٹھاکر کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ مکان کی حفاظت کے لیے کچھ ایسا انتظام کیا جائے کہ جس کی دہشت سے لوگ ٹھاکر کے مکان کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت نہ کرسکیں۔ ٹھاکر نیلے کو بڑی دلجمعی سے پالتا ہے۔
اس کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھتا ہے ۔ اسے چارہ اور سانی کے علاوہ تیل ، بادام اور کھوے کے لڈّو کھلاتا ہے۔اِس کھان پان سے نیلے کی صحت بہت اچھی ہوجاتی ہے ساتھ ہی اس کی روایتی جبلتوں میں تبدیلیاں پیدا ہؤ جاتیں ہیں۔فطری طور پر جانور انسان سے خوف کھاتا ہے لیکن نیلے کے دل میں ٹھاکر اور اس کے اہلِ خانہ ، جن سے وہ مانوس ہے، کے علاوہ انسانوں کا کوئی خوف باقی نہیں رہتا۔آخر گاؤں کے لوگوں کو پریشان کرنا شروع کردیتا ہے ۔۔پہلے لوگوں کی شکایات کو ٹھاکر اپنی مکاری سے غلط ثابت کرتا ہے ۔۔لیکن کی وحیشیانہ حرکتیں بڑھتی ہیں اور آخر ٹھاکر کے بیٹے کو مارے کے بعد ٹھاکر کو مار کر اسکی لاش پر سے گذر کر فرار ہوجاتا ہے ۔۔
یہ ناول آج کے عہد کی سیاست میں وحشت و بربریت کی مثال بھی ہے اور انسان کے اندر موجود ازلی ہوس و خود غرضی اور مکاری و سفاکی پر تازیانہ بھی۔ اس کے علاوہ ناول کی تفہیم باطنی و خارجی دونوں سطحوں پر ممکن اور مکمل ہے۔۔۔۔/
صف اول کے ناقد شمس الرحمن فاروقی نے اس ناول کے تعلق سے کلام کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
”بیشک اتنا عمدہ فکشن اردو تو کیا انگریزی میں بھی میں نے بہت دن سے نہیں دیکھا۔“

(رسالہ ”سوغات“ ۔ شمارہ:۱۱)
نیلا کو سدھانے کے طریقے کا بیان کس عمدگی سے ہوا ہے :
”شروع شروع میں بہت دقتیں پیش آئیں۔ اول تو یہ کہ وہ وحشی تھا۔ کسی طرح بندھنے پر راضی نہیں ہوتا تھا۔ پہلے اسے بھوکا رکھا گیا۔ بھوک نے اس کی وحشت کو کم کیا۔ پھر اسے خوب پیٹ بھر کر ضرورت سے زیادہ غذا دی گئی تب خوش خوری نے اس کی وحشت کو بظاہر ختم کردیا۔“(نمبر دار کا نیلا۔ ص: ۷۱)
 
Top