نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 204
کہا تھا کہ چینی اور ترک تو فاتحانہ یا عقیدت مندانی حرم تک آگئے لیکن مرد حرم نیند کے مزے لے رہا ہے۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں پے ذوق ہے صہبا
نہ ایراں میں رہے باقی نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر وکسریٰ
یہی شیخ حرم ہے ، جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذدرد لق اویس و اچار زہرا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
گرفتہ چینیاں احرام و مکی خفتہ در نطحا
شاعر اس کے بعد مغربی تہذیب اور یورپ کی پیدا کردہ تمدن کا حکیمانہ تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حیات انسانی منقی اور مثبت اور مثبت قدروں کے اجتماع باطل کے افکار اور حق پر اصرار کے بغیر مستحکم اور متوازن نہیں ہو سکتی یہی لاالہ الا اللہ کا رمز ہے جس کا پہلا جز تمام معبودانِ باطل، اور مادی طواغیت کی کلی لفی اور دوسرا خدائے برحق کے یقینی اثبات پر مشتمل ہے ، مگر یورپ کی بدنصیبی ہے کہ اس نے پہلا دور ت وبڑی تیزی سے ختم کر لیا، اس نے قرون وسطیٰ میں کلیسا کی بیخ کنی شروع کر دی اور پوپ کی دینی سخت گیریوں کا خاتمہ کر دیا یہ اقدام یقینا مستحسن تھا۔لیکن وہ زندگی کے دوسرے اثباتی دور میں بالکل ناکام اور محروم رہا حالانکہ انسان معاشرہ اور تہذیب صرف منفی اقدار کے سہارے نہیں چل سکتے اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ پورپ جس نے علم و تنظیم اور قوت تسخیر سے دنیا کو زیر فرمان کر لیا تھا زندگی کے صحرا میں حیران و ہلکان نظر انے لگا ، نہ اس کے پاس ایمان تھا نہ پاک جذبات تھے ، نہ صالح مقاصد و غایات تھیں ، اس لئے لازمی طور پر وہ زوال و فنا کے راستے پر چل پڑا ، اس طرح اقبال نے ان لفظوں کی تاریخٰی وتمدنی تصویر کھینچ کر
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 205
رکھدی ہے ، اور یہ نظم کی بصیرت و حکمت کا نمونہ بن گئی ہے ۔
اقبال یاس و قنوطیت سے بالکل الگ تھے اس لئے مشرق کے مستقبل سے وہ کبھی نا امید نہیں ہوئے بلکہ عمر بھر کی نشاۃ ثانیہ کی آرزو ہی کرتے رہے وہ اس نظم میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مشرق و قوت و صلاحیت کے ذخیرے سے بھرپور ہے ، اور مجھے یقین ہے کہ اس "بجز منجمد" سے وہ تیز دھار ابھی اٹھے گا جو فساد دواستبداد کے سفینے ڈبو دے گا لیکن اس کے باوجود وہ مغربی استعمار کے عزائم کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ، جس نے اسلامی مشرقی کو اپنی سازشوں کا شکار اور اپنا آلہ کار بنارکھا ہے ، جس نے اس کے افکار و خیال تک کو اپنا غلام بنا لیا ہے ، چنانچہ مشرق خوب و ناخوب کے ذوق و تمیز سے بھی محروم ہو گیا ہے اور اس کی رائے بے وزن ہو گئی ہے ، اس لئے غلامی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی اور کور ذوق بنا دیتی ہے، دنیا میں مردان ِ احرار و غیور ہی کی رائے ان کے خیالات و افکار پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ فراست و بصیرت انہی کا حصہ ہوتی ہے ، اور صاحب زمان اور ابوالوقت وہی ہوتا ہے ، جو مستقبل کی جھلک اور گوہر فردا کی چمک پہلے ہی دیکھ لیتا ہے ، اقبال کو انہی کی زبان میں سنئے ۔
لباب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لاسے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ لا
دبا رکھا ہے اسکو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولاں بھی
نہنگوں کے نشمین جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
غلام کیا ہے ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مرادن حرکی آنکھ ہے بیتا
وہی ہے صاحب امروز جسنے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 206
پھر مشرقی دماغوں پر مغربی ثقافت کے سحر و اثر پو روشنی ٍ ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغرب کے شیشہ گر اور چابکدست صناع نے غیور و حسبوں سخت کوس اور خودار قوموں کو بھی نزاکت و نفاست کا پڑھا کو موم کع لیا ہے ، اس کیمیا گر ساحر نے پہاڑوں اور چٹانوں کو بھی اپنی حکمت عملی سے پانی کیطرح سیال اور مٹی کی طرح پامال بنا دیا ہے ، لیکن میں اس ایکسر کا مالک ہو جو شیشہ کو پتھر کی وہ صلابت دیتا ہے کہ اسے سیل تندوتیز بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتا اور نہ اسے پھاڑوں سے ٹھیس لگ سکتی ہے ، میں نے ایمان و استغنا کے ید بیضا سے بڑے بڑے جابر فرعونوں کا غرور توڑا اور مقابلہ کیا ہے میتا شرارہ جو باطل کے خس و خاشاک کو بھسم کرنے کے لئے ہے ، وہ کوڑے کرکٹ کیوں کروب سکتا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ محبت انسان میں عزت و نفس ، غیرت و حمیت اور دنیا اور دنیاداروں سے نفرت سیکھاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پہنچ کر ان کی طبیعیت کھل
اٹھتی ہے اور پیغام رسالت کی ابدیت اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معجزانہ شخصیت کا عشق انھیں مسحور و مخمور بنا دیتا ہے، یہ وہ مقم ہوتا ہے جہاں اقبال اپنے قابو میں نہیں رہتے اور زمام اختیار ان کے ہاتھوں سے نکل جاتی ہے ،وہ عالم سرور حضور میں کہتے ہیں کہ کوئی تعجب نہیں اگر ستارے میری گردراہ اور افلاک و کواکب میرے پاانداز ہوجائیں ، اس لئے کہ میں نے اپنا رشتہ جاں رکاب رسالتمآب سے باندھا ہے جن کا ستارہ کبھی غروب اور جن کا اقبال کبھی مائل بزوال نہیں ہوتا ، جو علم و عرفان ، رسالت و نبوت کا مطلع ، اور سیادت و قیادت کا مرجع ہیں ، جن کے قدموں سے چھو کر غبارراہ میں وادی ایمن کا نور اور مشتِ خاک میں عالم پاک کا ظہور دعوت نگاہ دیتا ہے مسافر شاعر اپنی منزل پر پہنچ کر اپنا سفر ختم کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ سنائی کا ادب
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 207

کچھ اور کہنے سے مانع ہے ۔
فرنگی شیشہ گر کے فن سے پتھر ہو گئے پانی
مری اکسیر نے شیشے کو بخشی سختی خارا
رہے ہیں اور ہیں فرعون میری گھات میں ابتک
مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسے حق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
محبت خونشتن بینی محبت خویشتن داری
محبت آستانِ قیصر و کسریٰ سے بے پروا
عجب کیا گرمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں
کہ برفتر اک صاحب دولتے بستم سر خودرا
وہ دانائے سبل ، ختم الرسل مولائے کل جسنے
غبارراہ کو بخشا فروغ وادی سینا !
نگاہ شوق مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طاہا
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ
ابھی اس کبر میں باقی ہیں لوکھوں لولوئے لالہ
(بال جبرئل )
"مسافر" کی واردات و مشاہدات
اقبال نے اکتوبر 33ء میں مولانا سید سلیمان ندوی رضی اللہ عنہ اور سر راس مسعود کے ساتھ افغانستان کا یہ سفر کیا تھا اور واپسی پر اپنی مثنوی "مسافر" لکھی تھی جو دراصل ملتِ افغان کے نام ایک دعوتی پیغام کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ہم اقبال کے ساتھ اس وادی عزم و شوق میں بھی کچھ دور سیر سفر کرنا چاہتے ہیں ، وہ جب درہ خیبر سے گزرتے ہیں تو یہاں سے گزرنے والے مردان حقاور تاریخ کے سد ہزار افسانے یاد آجاتےہیں ، وہ بے سبزہ کے کہساروں کو دیکھ کر خوش ہوتےہیں کہ ان کے سینوں سے رنگ و بو کی نزاکت نہیں اگتی ، جہاں کا مور بھی شاہی مزاج اور آہو شیراں کا شکار ہوتاہ ے ،
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ84

ان کے ہزاروں معاصرین کی طرح ان کی خودی اور شخصیت کو جلا کر خاک نہیں کیا اور بڑی حد تک انکو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ :
طلسم علم حاضر را شکستم
ربو دم دانہ و دامش گستم
خدا دا ندا کہ مانند ابراہیم
بنا راوچہ بے پروا نشستم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ نمبر 85

اقبال اور عصری نظام تعلیم (1)

مغربی نظام تعلیم کی تنقید

اقبال نے جب اپنی بصیرت سے جدید نظام کا جائزہ لیا تو انہیں چند بہت بڑی کمزوریاں اور خامیاں نظر آئیں ۔ جنہیں انہوں نے اپنی تنقید اور صاف گوئی کا نشانہ بنایا ۔ اور ماہرین تعلیم کو اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ۔ وہ جہاں مدرسہ اور طالب علم کے جرم کا ذکر کرتے ہیں ۔ وہاں اس سے مراد مغربی مدارس اور اس کے طلبہ ہی ہوتے ہیں ۔ ان کے خیال میں اس نظام دانش نے نئی نسل کے حق میں سب سے بڑا جرم کیا ہے ۔ وہ مدرسہ اور خانقاہ دونوں سے بیزار نظر آتے ہیں ۔ جہاں نہ زندگی کی چہل پہل ہے نہ محبت کا جوش و خروش ۔ نہ حکمت و بصیرت ہے نہ فکر و نظر ۔

(1) یہ مقالہ قاہرہ یونیورسٹی )سابقہ جامعہ فواد الاول ( میں 5 رجب سن 1370 مطابق 10 اپریل سن 1951 کو پڑھا گیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ نمبر 86

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
وہ دانشکدوں کی کورنگاہی و بے ذوقی اور خانقاہوں کی کم طلبی و بے توفیقی دونوں سے نالاں اور دونوں سے گریزاں ہیں :
جلوتیان مدرسہ کور نگاہ مردہ ذوق
خلوتیاں میکدہ کم طلب و تہی کدو

عصری دانشگاہوں کا ظلم عظیم
اقبال کی یہ سنجیدہ رائے ہے کہ تعلیم جدید نے نئی نسل کی صرف عقلی اور ظاہری تربیت سے اعتناء اور قلب و روح کی نشونما، روحانی ارتقاء ، اخلاق کی پاکیزگی ، اور تزکیہ نفس سے غفلت کر کے اس پر سب سے بڑا ظلم کیا ہے ۔ جس کے سبب اس کے قوی غیر متوازن ، اس کی اٹھان غیر متناسب ہوئی ہے ۔ اور اس کی زندگی ہم آہنگی کے بجائے بے اعتدالیوں کا نمونہ بن گئی ہے ۔ نئی نسل کے ظاہر و باطن ، عقل و روح ، علم و عقیدہ کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا ہو گئی ہے ۔
اس کی عقل باریک مگر روح تاریک ہے ۔ اور اسکے ذہنی ارتقاء کے ساتھ اس کا روحانی زوال بھی اسی حساب سے ہو رہا ہے ۔ وہ نئی نسل کو بہت قریب سے جانتے تھے ۔ اس لئے جب بھی اس بارے کوئی فیصلہ کرتے یا کوئی بات کہتے ہیں تو وہ واقعہ کی تصویر ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی نسل کا پیمانہ خالی ، اس کی روح پیاسی ، اور تاریک ہے ۔ مگر اس کا چہرہ بہت تازہ ، بارونق اور اس کا ظاہر بہت چاق و چوبند ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صفحہ نمبر 87

اس کی عقل روشن مگر بصیرت اندھی ہے ۔ بے یقینی اور یاس و قنوط ان کی زندگی کا حاصل اور محرومی ان کی قسمت ہے ۔ یہ نوجوان انسان نہیں انسانوں کی لاش ہیں ۔ وہ اپنی ذات کے منکر ہیں ۔ مگر دوسروں پر ایمان لاتے ہیں ۔ اغیار و اجانب ان کے اسلامی خمیرسے دیر و کلیسا کی تعمیر کر رہے ہیں ، ان کی صلاحیتیں " صرف در میکدہ " ہو رہی ہیں ۔ سخت کوشی اور جفا کشی کے بجائے نرمی اور تن آسانی ، لذت طلبی اور عیش کوشی ان کا مسلک بنتی جا رہی ہے ۔
ان کی پست ہمتی کا یہ حال ہے کہ امیدیں اور آرزوئیں پیدا ہی نہیں ہوتیں ۔ یا پیدا ہوتے ہی گھٹ کے مر جاتی ہیں ۔ نئی دانشگاہوں نے ان کی دینی جذبات کو پوری طرح سے سلا دیا اور ان کے وجود کو ہم نفس عدم بنا دیا ۔
اپنی ذات اور شخصیت سے ناواقفیت اور اپنی صلاحیتوں سے بے پروائی ان میں عام ہے مغربی تہذیب کے زیر اثر وہ اپنی روح کا سودا روٹی کے چند ٹکڑوں پر بھی کرتے اور ضمیر فروشی کر سکتے ہیں ۔ ان کے معلم بھی ان کی قیمت اور حیثیت عرفی سے نا آشنا ہیں ۔ اس لئےانہوں نے انکو شرف و عظمت کے راز سے آگاہ نہیں کیا ۔ وہ مومن ہیں لیکن موت کی لذت سے بے خبر اور توحید کی طاقت سے ناواقف وہ فرنگ سے تہذیب کے لات و منات کی درآمد کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے ، فرزند حرم ہو کر بھی ان کا دل " طواف کوئے ملامت " اور " سجدہ پائے صنم " سے متنفر نہیں ، فرنگ نے انہیں بغیر حرب و ضرب اور قتل و غارت کے بھی مار ڈالا ہے ۔ ان کی عقلیں بے جھجک ان کے دل پتھر ۔ اور نگاہ بیباک ہے ۔ ان کے قلوب بڑے سے بڑے حوادث کی چوٹ سے بھی نہیں پگھلتے ۔ ان کے علم و فن ، دین و سیاست ۔ عقل ودل ، سب کا مرکز مادہ ہے ۔ ان کے دلوں میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 208
لیکن لامرکزیت نے ان بہاروں کو آشفتہ روزگار اور بے نظام و ناتمام و نیم سوز بنا دیا ہے اور ان کے پتھروں سے خود ان کے مینارے وجود ہی کو خطرہ لاحق ہے ،
وہ اقوام سرحد کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنی عظمت رفتہ اور اپنی خودی کو بازیافت کرو اسلام میں یہ تجاہل و تغافل حرام ہے ، خود آگاہی دین اور زندگی کا پیام اور خود فراموشی موت کا نام ہے ۔
وہ بڑے سوز کے ساتھ افغانوں سے کہتے ہیں :-
میر خیل از مکر پنہائی تبرس
از ضیاّعِ روحِ افغانی تبرس
وہ افغانوں کو بار بار وحد ومرکزیت کا سبق یاد دلاتے ہیں کہ یہی راز حیات اور برگ و ساز َِ کائنات ہے ، وہ افغانوں کی پستی اور پسماندگی کا سبب ان کے حال پر قناعت اور مستقبل سے غفلت کو قرار دیتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی کے لئے امید و آرزو اور ایک متفقہ نصب العین ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے اس کے بعد نادر شاہ شہید سے ملاقات کی اور انھیں ایک درد مند مسلمان پایا اسلام اور ملت اسلامیہ کے غم میں دونوں دیر تک روتے رہے آخر میں بادشاہ نے اپنی طاقت کو قرآن کی برکت کہا اور اپنے عزائم و افکار کا اظہار کیا اور اقبال نےا ن کی اقتدا میں نماز عصر پڑھی اقبال کہتے ہیں کہ اس نماز شوق کی کیفیت ناقابل بیان تھی :-
راز ہائے آں قیام وآں سجود
جزبہ بزم محرماں نتواں کشود
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
191-192

فتح یاب نہ کرسکیں اور اخیر میں یہ کھلا کہ تمام علم و عرفان لاحاصل اور بے نتیجہ تھے جس طرح یہ سمجھنا نادانی ہے کہہ علم نباتات کا ماہر تازہ پھلوں کا ذائقہ شناس اور ان کا لذت آگاہ ہے۔
مادیت اور روحانیت کی یہ کشمکش ہمیشہ سے جاری اور حق و باطل کا معرکہ شروع سے قائم ہے، تاریخ اسلام بھی اس سے خالی نہیں وہ اس موقع پر پہلے معرکے کو یاد کرتے ہیں جس میں ابو جہل و ابو لہب اور اس کے خلفا مادیت کے علمبردار اور سرور عالمً اور ان کے انصارایت ایمانی کے حامل و جلودار تھے اب عالم عربی اور دنیائے اسلام کا اس میں امتحان ہے کہ وہ ان دونوں مقابل فریقوں میں سے کس کی حمایت و طرفداری کرتا ہے
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
عالمِ آب و خاک میں تیرے حضور کا فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
شوکت سنجر و تیرے جلال کی نمود
فقر و جنید بایزید تیرا جمال بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوہ بے حجاب سے​
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیل بے رطب
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی ، عقل تمام بولہب
گاہ بحیلہ می برد ، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب ، عشق کی انتہا عجب
عالم سوز و ساز میں وصل سے بڑھ کے ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو ، ہجر میں لذت طلب
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی میری نگاہ بے ادب
گرمی آرزو فراق ، شورش ہاے و ہو فراق
موج کی جستجو فراق ، قطرے کی آبرو فراق
(بال جبریل)
ذوق و شوق پر ایک سرسری نظر[1]​
یہ نظم بھی اقبال کی چند ممتاز نظموں میں ہے اور مسجد قرطبہ کا انداز اس میں بھی بڑی حد تک برقرار ہے، تمہید میں مناظر فطرت اور جمالِ قدرت کا بیان اور عربوں کا سادہ اور دلکش زندگی کی داستان بڑی خوبی و خوش اسلوبی سے بیان ہوئی ہے اور پھر سوز و ساز، ذوق و شوق، عقل و عشق، مومن کا جلال و جمال، خدا کی عظمت و رفعت کا کمال اور وصل و فراق کا موازنہ اور ان پر تبصرہ سب کچھ آگیا ہے اور نظموں کی طرح اقبال کی فنی مہارت و چابکدستی اور بلیغ منظر کشی و سماں بندی کہ حالات و واقعات کی تصویر نگاہوں میں پھر جائے اور قال حال اور خبر نظر بن جائے اس نظم میں بھی موجود ہے، اقبال اپنی تہ رسی اور دقیقہ سنجی، دروں بینی اور بالغ نظری سے ملکوں، تہذیبوں، مذہبوں اور قوموں کی روح میں اتر جاتے ہیں اور پھر اپنا ذاتی مشاہدہ اور صداقت کا تجربہ و تجزیہ یہ شعر نغمہ کے پردوں کے آڑ میں ہو بہو سامنے رکھ دیتے ہیں، وہ مغرب کی نبض شناسی کے ساتھ ہی مشرق اور ایشیا کے بھی واقف اسرار و دانائے راز ہیں، وہ جس طرح عجم کی حسنِ طبیعت کے رمز آشنا ہیں اسی طرح عرب کے سوز دروں کے نکتہ شناس بھی ہیں وہ ہندوستان و ایران، عرب و افغانستان اور مشرق و مغرب کے مزاج، مذاق اور طرز و انداز و افتاد طبع اور ان کی فطرت سے پوری طرح آگاہ ہیں، وہ اس نظم میں فلسطین اور عرب کی منظر کشی کے ساتھ اس کے روح و پیام پر بھی​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
[1] اضافہ از مترجم​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 209 ۔۔۔210
"مسافر" کابل اور بابر بادشاہ کے مزار کی زیارت کرتا ہوا غزنی میں حکیم سنائی کے مزار پر حاضر ہوتا ہے اور ملت کی زبوں حالی کا علاج پوچھتا ہے جس پر روح سنائی جواب میں کہتی ہے کہ قوموں کا وجود "فقرہ عشق" سے دوام اور استحکام حاصل کرتا ہے ، اور "دل و دین " ہی ہر قوت کا سر چشمہ ہیں ، اوریہ دین بزرگوں کی نظر اور ایل دل کی صحبت کے فیض و اثر سے پیدا ہوتا ہے ، بو علی سینا عالم آب و گل ہے لیکن خستگی ہائے دل سے بے خبر جسم و تن کا بڑا مرالج ہے ، لیکن قلب و روح کا درماں اس کے پاس نہیں ۔

دل رویں سر چشمہ ہر قوت است
دیں ہمہ از معجزات صحبت است
دیں مجواند رکتب اے بے خبر
علم و حکمت از کتب دیں از نظر
بو علی دانند آب و گل است
بیخراز خستگی ہائے دل است
نیش و نوش بو علی سینا بہل
چارے ساز یہائے دل از اہل دل
"مسافر" غزنی میں سلطان محمود کے مزار پر عقیدت مندانہ حاضر ہوتا ہے اور قندھار میں خرقہ مبارک کی زیارت کرتا ہے ، اور پھر موسس ملتِ افغانیہ احمد شاہ بابا رحمت اللہ علیہ کیطرف سے اعلیٰ حضرت ظاہر شاہ کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جہان شب و روز میں جو صاحب امروز ہے مستقبل بھی اسی کا ہے ، اور جو بیداری سخت کوشی اور کراری سے رہتا ہے ، وہی زندہ رہ سکتا ہے ، یہ کراری حیدر کراہ رضی اللہ عنہ کے مقامات میں سے ہے ، یہ عثمانیوں اور ہندی مسلمانوں میں جب تک باقی رہی ان کا جاہ جلال بھی رہا اور وہ نہ رہی تو ان کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا ، کتاب و سنت ہی اعتبار ملت اور قوت کا ذخیرہ ہیں ، قرآن جہانِ ذوق و شوق کی برکات اور سنت " عالم ِِ تحت وفوق" کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ نمبر 210
فتوحات کی ضامن ہے ، قرآن اگر مومن کا جمال ہے تو سنت اس کا جلال قرآن ہی ثبات و حیات کی بنیاد ہے اور کچھ نہیں :-
برخوداز قرآن اگر خواہی ثبات
در ضمیرش دیدہ ام آب حیات !
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
193 -194

لطیف تبصرے اور اس کی طرف نازک اشارے کرتے گئے ہیں بجھی ہوئی آگ اور ٹوٹی ہوئی طناب کے معمولی واقعہ سے عربوں کی کاروانی زندگی اور ان کے ذوقِ عالم نوردی و جہاں بینی کی طرف لطیف اشارہ کرنا انہی کا کام تھا، مصرع ثانی کی بلاغت و معنی خیزی (SIGNIFICANCE) بھی آپ اپنی مثال ہے۔
کیا خبر اس مقام سے گذرے ہیں کتنے کارواں!
کا تجاہل عارفانہ و تغافل شاعرانہ ہمیں انسانی تاریخ کے اس وسیع پس منظر میں پہنچا دیتا ہے جہاں ہم تاریخ کی صبح طلوع ہوتے اور مختلف قوموں خصوصاََ یہودیوں، عیسائیوں اور پھر مسلمانوں کے قافلوں اور کاروانوں کو اس مقام سے گذرتے اور سفر کرتے دیکھنے لگتے ہیں اور اس طرح عربوں کی عظمت رفتہ کے ساتھ ہی اقوام گذشتہ کی پوری تاریخ نگاہوں کے سامنے دفعتاََ آجاتی ہے شعر کی بلاغت اس وقت اور سامنے اتی ہے جب ہمارے سامنے یہ تاریخی حقیقت بھی ہو کہ فلسطین اور بیت المقدس شروع سے قافلوں اور کاروانوں کا ملک رہا ہے اور اس کی حیثیت قوموں کی گذر گاہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ گویا بین الاقوامی، علاقہ کی رہی ہے اپنی غزل کو آتشِ رفتہ کا سراغ اپنی سرگذشت کو کھوئے ہوؤں کی جستجو اور اپنی موج نفس کو نشوونمائے آرزو کہہ کر اقبال نے اپنی کلاسکیت، رومانویت، اپنی مشرقیت و اسلامیت، اپنے فن کی روحانیت اور فلسفہ خودی کی طرف بھی بلیغ انداز میں اشارہ کردیا اقبال کا کارنامہ ملتِ اسلامیہ اور جمیعت انسانی کے دل میں نشوونمائے آرزو کے سوا اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟
اپنی آتش نوائی کو خونِ دل و جگر کا نتیجہ کہہ کر اقبال نے ایک بار پھر اپنے نظریہ فن اور صداقت اظہار کا اعلان اور اپنے کلام کو اپنے نظریے کے ثبوت میں پیش کیا ہے، پوری نظم پر ذوق و شوق، وجد و سرور، وصل و حضور، عشق کے سوز و ساز اور محبت و عبدیت کے راز و نیاز کی فضا چھائی ہوئی ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
195-196


اقبال اور مسئلہ فلسطین[1]

اقبال کو ذاتی طور پر مسئلہ فلسطین اور عربوں سے نہایت گہری دلچسپی تھی۔ ان کے ذاتی خصوصاََ مس فارقوہرس کے نام خطوط میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں ان کی دلی اضطراب کا پتہ چلتا ہے، وہ مسٹر جناح کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔
"مسئلہ فلسطین نے مسلمانوں کو مضطرب کر رکھا ہے (مسلم لیگ کی بدولت) شاید فلسطین کے عربوں کو کچھ فائدہ پہنچ جائے، ذانی طور پر میں کسی ایسے امر کے لیے جس کا اثر ہندوستان اور اسلام ددنوں پر پڑتا ہو جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ ایشیا کے دروازے پر ایک مغربی چھاؤنی کا مسلط کیا جانا اسلام اور ہندوستان دونوں کے لیے پر خطر ہے[2]۔"
وہ مس فارقوہرسن کو لکھتے ہیں " فلسطین پر یہودیوں کا بھی کوئی حق نہیں یہودیوں نے تو اس ملک کو رضامندانہ طور پر عربوں کے فلسطین پر قبضہ سے بہت پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] از قلم مترجم
[2]اقبال نامہ 27/2


خیر باد کہہ دیا تھا صیہونیت بھی کوئی مذہبی تحریک نہیں، علاوہ اس امر کے کہ مذہبی یہودیوں کو صیہونیت سے کوئی دلچسپی نہیں خود فلسطین رپورٹ نے اس امر کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے[1]۔"
ہندوستان میں جتنی فلسطین کانفرنسیں ہوئیں سب میں اقبال کے مشورے اور ہمدردیاں شامل تھیں، علامہ نے فلسطین رپورٹ کے خلاف مسلمانان لاہور کی کانفرنس کے موقع پر ایک بیان دیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ :۔
"عربوں کے ساتھ جو ناانصافی برتی گئی ہے، مجھے اس کا ایسا ہی شدید احساس ہے جیسا مشرق قریب کی صورت حال سے واقف کسی شخص کو ہوسکتا ہے یہ مسئلہ مسلمانانِ علام کو ایک موقعہ بہم پہنچاتا ہے کہ وہ پوری قوت سے اس امر کا اعلان کردیں کہ وہ مسئلہ جس کا حل برطانوی سیاستدان تلاش کررہے ہیں محض قضیہ فلسطین ہی نہیں بلکہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا شیدید اثر تمام دنیائے اسلام پر ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسئلہ فلسطین کو اگر اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو فلسطین ایک خالص اسلامی مسئلہ ہے، بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو فلسطین میں مسئلہ یہود تو 13 صدیاں ہوئی حضرت عمرؓ کے یروشلم میں داخلہ سے قبل ختم ہوچکا تھا، فلسطین سے یہودیوں کا جبری اخراج کبھی بھی عمل میں نہیں آیا بلکہ بقول پروفیسر ہوکنگ یہود اپنی مرضی اور ارادہ سے اس ملک سے باہر پھیل گئے اور ان کے مقدس صحائف کا غالب حصہ فلسطین سے باہر ہی مرتب و مدون ہوا، مسئلہ فلسطین کبھی بھی عیسائیوں کا مسئلہ نہیں رہا، زمانہ حال کے تاریخی انکشافات نے "پیٹروی ہرمٹ" کی ہستی ہی کو محل اشتباہ قرار دے دیا ہے [2]الخ"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] اقبال نامہ 442/1
[2] ایضاََ 452/1
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
197-198

پہلی جنگ عظیم کا افسوسناک انجام یہ تھا کہ نزلہ عالم اسلام پر گرا، ادھر ترکی کی خلافتِ اسلامیہ کا شیرازہ بکھر گیا اور اتحادیوں نے سیاسی بندر بانٹ اور تقسیم کا پرانہ حربہ آزادی سے استعمال کیا، چنانچہ ترکی کا مشرقی حصہ روس کے ہاتھ لگا اور مغرب کے یورپی صوبے بلقان، ہنگری، بلغاریہ وغیرہ مکمل طور پر خود مختار ہوگئے، ایران اور شام فرانس کے ہاتھ لگا اور مصر اور عراق پر برطانیہ نے قبضہ جمایا، اس طرح سے عالم اسلام کے حصے بخرے ہوگئے۔ فلسطین کا مسئلہ ذرا بین الاقوامی نوعیت کا تھا اس لیے اسے "تہذیب و ترقی" کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے برطانیہ کے زیر انتداب رکھا گیا اقبال اس صورت حال پر روشنی ڈالتے ہیں اور یورپ کی اس سیاسی چال کو سامنے لاتے ہیں کہ وہ پہلے کمزور ممالک کو ظلم کا نشانہ بناتا ہے اور پھر اس کے غم میں مگرمچھ کے آنسو بھی بہاتا اور ہمدردی ظاہر کرتا ہے تاکہ عالمی سیاسیات میں ساکھ بھی قائم رہے اور اپنا مقصد بھی نکل آئے:۔

آفریں بر دلِ نرم تو کہ از بہر ثواب
کشتہ غمزدہ خو درا نہ نماز آمدہ

یورپ اس حکمت عملی کو تہذیب اور اصلاح، انتداب اور نگرانی کا نام دیتا ہے لیکن یہ استحصال کے سوا اور کچھ نہیں۔

اقبال کو شک اسکی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملتِ مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ و شورا
ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
جمعیت اقوام (LEAGUE OF NATION) نے اس زمانے میں بھی عربوں اور ایشیائیوں کے ساتھ موجودہ امتیازی سلوک جاری رکھا تھا اور اس پر یہودی اور مغربی ممالک مسلط تھے، اقبال اسی لیے اسے کہیں " داشتہ پیرک افرنگ کہتے ہیں" کہیں ان کفن چوروں سے تشبیہ دیتے ہیں جو مشرق کو قبرستان بنا کر اسے بھی تقسیم کر لینے کے درپے رہتے ہیں۔
بہر تقسیم قبورا نجمنے ساختہ اند!
اقبال مغربی سیاسیات پر یہودیوں کے بڑھتے ہوئے اثر کو سمجھ گئے تھے ان کا خیال ہے کہ ایک نہ ایک دن یورپ ان کے دام فریب کا شکار ہو کر رہے گا۔

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار
جن کی روباہی کے اگے ہیچ ہے زدِ ملنگ
خودبخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح
دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

اپنی دوسری نظم یورپ اور یہود میں یہی خیال ظاہر فرماتے ہیں۔

ہے نزع کے حالت میں یہ تہذیب جواں مرگ
شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی!

5 جون ؁67 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہودی اور یہود نواز حلقوں کی ایک رائے یہ سننے میں آرہی ہے کہ یہودیوں کو عربوں نے ان کے وطن سے نکالا تھا، اس لیے اگر انہوں نے اپنا وطن دوبارہ زبردستی لے لیا ہے تو اس میں ان کا کیا قصور، یہ سر زمین تو جیسا کہ صیہونی (ZIONISTS) کہتے ہیں ارض موعودہ (PROMISED LAND) ہے جہاں ہر یہودی کا آنا بہت ضروری ہے۔
اقبال نے اپنے خطوط و بیانات میں اس کا جواب دیا تھا کہ یہودی فلسطین سے اپنی مرضی سے نکلے تھے اور یہ "خروج" عربوں کے فتح فلسطین سے پہلے ہی ہوچکا تھا تاہم اقبال نے یہودیوں کے اس دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے ایک چبھتا ہوا سوال
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
199-200

یہ اٹھا دیا کہ اگر فلسطین پر یہودیوں کا حق ہے تو عربوں کا حق اسپین اور سسلی اور دوسرے یورپین مفتوحہ علاقوں پر کیوں نہیں ہوسکتا ہے، یہودیوں کا یہ دعوا ایسا ہی ہے جیسے ریڈ انڈین امریکہ پر اور ہن، گاتھ اور گال قومیں برطانیہ پر دعوا کردیں یا ہندوستان کے آریہ ایران اور روس پر دعوا کردیں کہ ان کا وطن اصلی واپس دیا جائے ________ اقبال کی نظر میں یہ "تایخ ظلم اس کے ساتھ مذاق اور اسے اپنی مرضی سے بدلنے کی مضحک کوشش ہے اگر انہیں وطن دینا ہی ہے تو جرمنی میں دینا چاہیے جہاں سے وہ نکالے گئے، اپنے دعویٰ سے ہزار سالہ دست برداری اور خاموشی کے بعد یہودیوں کا نیا دعویٰ بالکل بے دلیل ہے اور اس کے پیچھے مغرب کا ہاتھ ہے:۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و رطب کا!
وہ فلسطینی عربوں کے مضمرات و امکانات اور ان کی صلاحیتوں سے واقف ہیں اس لیے انہیں خودی کی پرورش اور لذتِ نمود کی خلش کے لیے ابھارنا چاہتے ہیں اور وہ سوز و ساز یاد دلاتے ہیں جس سے زمانہ اب بھی محروم نہیں ہے، اقبال کے پیام خودی میں ظاہر ہے کہ عربی جذبات اور اسلامی احساسات ایمان و یقین کی کیفیات، روحانی امکانات اور عزم و ثبات ہی بنیادی عناصر رکھتے ہیں وہ عربوں کو انہی ہتھیاروں سے مسلح ہوکر جنگِ حریت میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا اور خودی پر بھروسہ کے سوا یورپ یا اقوامِ متحدہ پر اعتماد و خوش فہمی یا خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں:۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوانہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی تجارت
خودی کی پروش و لذتِ نمود میں ہے
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 211​
طارق کی دُعا
(اندلس کے میدان جنگ میں )​
تازہ دم اور جواں سال طارق بن زیاد جب عربی فوجوں کے ساتھ اندلس میں اترا تو اپنی فوج کے ان سفینوں کو جلا ڈالنے کا حکم دیدیا جن کے ذریعے اس کے لشکر نے دریا عبور کیا تھا ، اور یہ اس لئے کیا تھا کہ مسلم فوجوں کو پھر بھاگنے اور واپس ہونے کا خیال بھی نہ رہے ، جلانے کے بعد اس نے اپنے یادگار تاریخی خطبے میں کہا ، ایھا الناس این المفر ، البحر من روائکم ، والعد وامائکم ولیس لکم واللہ الا الضدق وا لصبر ۔ لوگو ٖ! راہ فرار کوئی نہیں ، سمندر تمھارے پیچھے اور دشمن تمھارے سامنے ہے ، اب خدا کی قسم صبر و ثبات ، اور سچے مجاہدانہ ذوق و شوق کے سوا تمھارا کوئی ساتھی نہیں -------- اس شعلہ نوائی نے فوج کو دل و جان سے تیار کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے بعد اپنے بازؤں اور تلواروں پر ان کا بھروسہ پختہ ہو گیا ۔​
طارق نے دشمن کے مقابلے پر صنف بندی کے بعد اپنی فوج کا معائنہ کیا تو​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 212
اسے معلوم ہوا کہ اسپینی فوج عدوی طاقت اور فوجی قوت میں وہ بدر جہاکمتر ہے اور کسی رسد اور کمک کی بھی امید نہیں دشمن اپنے ملک میں ہے ، وہ ہر وقت اپنی طاقت بڑھا سکتا ہے ۔ لیکن اسلامی فوج غریب الدیار اور اپنے مرکز سے سیکڑوں سیل دور ہے، اس لئے کسی بیرونی امداد کا سوال ہی نہیں اٹھتا ، اگر چھیننے ہوئے ہتھیارکچھ کام دے سکیں تو خیر ورنہ اس روح فرسا صورت حال نے طارق کے دل میں قدرتی طور پر تشویش ، اندیشے ، اور اضطرابی کیفیت پیدا کی اور اسے کوئی تدبیر سوچنے پر مجبور کر دیا ، مگر بالا آخر اسے ایک ہی حیلہ سمجھ میں آیا کہ فوج کی روحانی طاقت اور ایمانی صلاحیت کو بڑھا کر وہ مدد الہٰی حاصل کر جائے جو باقابل تسخیر اور غیر مغلوب ہے تائید غیبی پو طارق نے بھروسہ کیا اور یقین کر لیا کہ وہ اس کے ساتھ ہے کیونکہ اسے اپنے موقف کی صداقت اور حقانیت پر پورا اطمینان تھا کہ یہ فوج حزب اللی اور خیود الر حمٰن ہے ، یہ ملک گیری ، جوع الارض کی تسکین اور اپنا اقتدار منوانے کے لئے نہیں نکلی ہے ، بلکہ صرف اعلائے کلمتہ اللہ اور حق و صداقت کو سر بلند کرنے کے لئے آئی ہے ، وہ اس لئے سر ہتھیلی پر لے کر نکلے ہیں ، کہ لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف ، انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی بندگی کی طرف ، دنیا تنگنارے سے وسعتِ آفاق کی جانب اور مذاہب کے ظلم و ستم سے بچا کر اسلام کے عدل و اعتدال کی سمت رہنمائی کرے ، اللہ تعالیٰ نے اس مقصد سے معرکہ آرا ہونے والوں کی فتح و ظفر کا وعدہ کیا ہے ۔ "وان جندنا لھم الغالبون "۔
اس موقع پر مسلمان کمانڈر نے اپنے رب سے دعا کی اور اس کی مدد کا طالب ہوا ، مسلمان قائد اس وقت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر رہا تھا ، جنھوں نے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 221
مجھے دیدہ بے خواب اور ماہئی بے آب بنا رکھا ہے ، میرا سرمایہ یہی خام امیدیں اور ناکام تمنائیں ، جن کے سہارے میں جی رہا ہوں، میری کائنات میری آہیں ہیں، جن سے رات کا سناٹا توڑتا ہوں ، میری کل پونجی وہ چند ساعتیں ہیں ، جب میں تیرے آگے اپنا عجز و نیاز پیش کرتا اور عرض پرواز ہوتا ہوں، یا وہ چند لمحات ہیں ، جب میں انجمن آرزو میں اپنا ذوق و شوق بکھیرتا اور اپنے اشک گوہر رشک بہاتا ہوں۔
اے میرے مولی! تو نے میری فطرت کو ایسا آئینہ بنایا جس میں روح کا عصر کا ہر رخ جھلک اٹھتا ہے، اور جس میں الہام غیبی کی تصویر کھچ جاتی ہے ، اے میرے ملجاو ماوی ! میرا دل ہی رزم گاہ حیات ہے جہاں خیر و شر کے معرکے برپا ہوتے رہتے ہیں، اور ظن و تخمیں ، اور ایمان و یقین کی پیکار جا ری رہتی ہے ، میرے رب ! یہی کل کائنات ہے میں التجا کرتا ہوں کہ اس سرمایہ حقیر اور متاع فقیر کو نو جوانان اسلام میں لٹا دے اس لئے کہ وہی اس کے اہل اور مستحق ہیں:۔
شراب کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا!
خود کو غلامی سے آزار کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ہری شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں تیرے دم سے ہے
تڑپنے ، پھڑکنے کی توفیق دے
دل مرتضے ، سوز صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر !
تمنا کو سینوں میں بیدار کر!
ترے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخشدے
میرا عشق ، میری نظر بخشدے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 222
مری ناؤ گرداب سے پار کر
یہ ثابت ہے تو اس کو سیار کر
بتا مجکو اسرار مرگ و حیات
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
مرے دیدہ ترکی بے ‌خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
مرے نالہ نیم شب کا نیاز
مری خلوت انجمن کا گداز!
امنگیں مری ، آرزوئیں مری
امیدیں مری جستجوئیں مری
مری فطرت ، آئینہ روزگار
غزالان افکار کا مرغزار
مرا دل ، مری رزم گاہ حیات
گمانوں کے لشکر ، یقیں کا ثبات
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر!
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے
اس کے بعد انہوں نے فلسفہ حیات ، کثرت میں وحدت اور زندگی کے مختلف مظاہر میں ظہور ، اس کے تغیر و تبدل ، اس کی قوت و سرعت پر بھر پور روشنی ڈالی ہے ، یہ حصہ ادب و فلسفہ کا شاہکار سمجھا جا سکتا ہے ، خصوصا یہ اشعار اپنی معنویت کا جواب نہیں رکھتے:۔
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے سے پیدا رم زندگی
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرہ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود!
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
سفر زندگی کے لئے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت ، حضر ہے مجاز
آخر میں اس مسلم نوجوان کو نصیحت کرتے ہیں جو مادی ترغیبات کا اسیر ہوتا جا رہا ہے کہ جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اور شریف آدمی اپنی عزت اور حیثیت عرفی
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 223
کھودیتا ہو وہ اس کے لئے سم قاتل ہے ، روزی وہی ہے جس میں آبرو محفوظ ہو اور آدمی سر اٹھا کر چلے ، وہ اسے اپنی شخصیت و خودداری کی قیمت سمجھاتے ہیں اور سجدہ شوق کے اسرار فاش کرتے ہیں ، جو ہر سجدے سے بے نیاز کر دیتا ہے ، پھر اسے وہ نئی فتوحات اور ترقیات نئی پیش قدمیوں اور نئی مہمات کے لئے آمادہ کرتے ہیں کہ وہ اپنی جرات و عزیمت سے ان نئی دنیاؤں کا انکشاف بھی کر لے جو علمائے طبیعات و سائنس کے خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں آتیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ دنیائے رنگ و بو جس پر موت کی حکمرانی ہے ، جو جنت نگاہ اور فردوس گوش ہے ، جس میں بہت سے آدمی صرف اکل و شراب کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ خو دآگاہوں کی نگاہ میں منظر اولیں کی حیثیت رکھتی ہے، منزل آخریں کی نہیں ، یہ ہمارا آشیانہ اور آخری نشانہ نہیں اور روح بیتاب کا مولدو منشایہ خاک پامال نہیں ، انسان سر چشمہ کائنات ہو سکتا ہے ، لیکن یہ کائنات اس کی اصل نہیں ہو سکتی ، وہ مومن کو جرات و جسارت کا پیام دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم ہر لمحہ آگے بڑھتے اور سامان سفر تازہ کرتے رہو اور مادیت کے کہسار کو ٹھوکروں سے توڑتے رہو، جو جادہ زندگی کے ہر موڑ پر حائل ہوتا ہے ، زمان و مکان سے تم بغاوت اور ان کی اطاعت سے نفرت کرو اور ان کے حدود و قیود سے اپنے کو آزارد کر لو ، ان کی سرحدوں سے آگے بڑھ جاؤ۔ اس لئے کہ مومن جب خود کو پہچانتا ہے تو وہ اس دنیا کو اسیر کر لیتا اور ارض و سماء کو اپنا نخچیر بنا لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں ایک دنیا نہیں ہزاروں نادینہ ہیں ، اس لئے کہ دل کائنات کی جھولی ابھی خالی نہیں ہوئي اور اس کی تازہر کاری ابھی ختم پر نہیں آئی ، یہ دنیاتمہارے اقدام کی منتظر اور مشتاق ہے ، وہ تمہارے
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 224
فکر و عمل کے حدود کے اعتبار سے اپنے وجود میں بھی پھیلاؤ پیدا کرتی ہے ، گردش دوراں کا مقصد ہی یہی ہے کہ تم پر تمہارے مضمرات و امکانات کو روشن کر دے اور تمہاری حقیقت تمہارے سامنے لائے ، تم فاتح کائنات اور بے نیاز تعریف و صفات ہو ، فرشتے بھی تمہارے احوال و مقامات کی تمنا کرتے ہیں ، لیکن تم وہ طائر بلند بام ہو جہاں تک ان کی پرواز نہیں۔
یہ موج نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ خدا اس کے پیچھے نہ حد سامنے
خودی کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتی رہے اسکی آب
وہی ناں ہے اس کیلئے ارجمند
رہے جس سے دنیا میں گردن بلند
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
جہاں اور بھی ہیں ابھی بے نمود
کہ خالی نہیں ہے ضمیر وجود!
یہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تیری خودی تجھ یہ ہو آشکار

____________________________________
بال جبریل
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 225
ابو جہل کی نوحہ گری
جاہلیت کا سردار اور عربی قومیت کا علمبردار عمرو بن ہشام (ابو جہل) اسلامی عہد کے مکہ کی عالم خیال میں زیارت کرتا ہے جو ایمان و یقین کا مرکز اور توحید و رسالت کا گہوارہ بن ‌چکا ہے ، اور اب اس کے حرم میں لات و منات کی جگہ ہر طرف طواف کرنے والے عبادت گزار اور زاہدین شب زندہ دار رکوع و سجود ، تسبیح و تہلیل ، تحمید و تمجید اور ذکر و استغفار کے مبارک احوال میں نظر آتے ہیں ، اب نہ یہاں مادیت کے اصنام ہیں ، نہ جاہلیت کے بت ، سب و عزی ، اساف و نائلہ کی بڑائی اور دہائی کی جگہ اب مؤذن بلند آہنگ سے اس کے اونچے مناروں سے توحید و رسالت کی مندی کرتا اور ایک خدا کی کبریائی اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابدی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔
جاہلی فخرو غرور ، نخوت اور پنداد تفوق نسلی برتری اور امتیاز کی جگہ اب انسانی مساوات اور اسلامی اخوت کا دور دورہ ہے اب لوگ بنی نوع انسان کو
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 226
ایک برادری سمجھتے ہیں ، جس میں عرب و عجم سب برابر ہیں ، شرف و عزت کا اگر کوئی حقیقی معیار ہے ، تو وہ صرف تقوی اور اخلاقی برتری ہے۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔
ابو جہل عربوں کی آوازوں پر کان لگاتا ہے تو کسی آنے جانے والے کی زبان سے قوم ، وطن اور خاندان سے متعلق فخریہ کلمات نہیں سنتا ، اس نے لوگوں میں گھوم پھر کر بھی دیکھا ، لیکن اسے ایسا کوئی نہیں مل سکا جو کسی کو کسی پیشہ اور کسی ذاتی یا نسلی عیب کی وجہ سے حقیر جانتا ہو اور اسے چھیڑتا ہو ، یا کالے اور گورے کی تمیز برتتا ہو ، یا عرب کو عجم سے برتر سمجھتا ہو ، وہ محفلوں اور مجلسوں میں جا کر بھی دیکھتا ہے تو عدنان و قحطان ، ربیعہ و مضر، عبد مناف و عبدالدار ، بنی ہاشم اور بنی عبد شمس کے درمیان کوئی خاندانی چشمک اور چپقلش ذرا بھی باقی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ دیکھتا ہے کہ لوگ ایک حبشی غلام کے گرد علم سیکھنے کے لئے ٹوٹے پڑتے ہیں ، اور اس کی شاگردی پر فخر کرتے ہیں، وہ عرب عوام کی ملاقاتوں ، ان کے طور طریق ، عادات و اخلاق ، ان کے فکر و عقیدہ کو بڑے غور سے دیکھتا ہے ، لیکن اس کے باوجود کوئی جاہلی رسم و رواج ، عبری عصبیت اور احساس قومیت اسے نظر نہیں آتا جس سے اس کا جی خوش اور آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔
اسے معلوم ہوا کہ پرانی زندگی کے آثار بالکل مٹا دئیے گئے ہیں ، اور ان کی جگہ عقیدہ و اخلاق ، اور صلاح و تقوی کی بنیادوں پر ایک نیا معاشرہ وجود میں آ گیا ہے ، پرانی قدریں اور پیمانے بالکل بدل گئے ہیں ، اور ان کی جگہ نئے اخلاقی معیاروں نے لے لی ہے ، اس صورت حال سے اسے دکھ ہوتا ہے ، اور وہ حیرت و حسرت کے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top