نقوش اقبال از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( مکمل صفحات)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 63​
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج​
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن​
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات​
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا، نہ تن​
ان کے کلام میں معنوی بلندی کے ساتھ ساتھ، لفظوں کی بندش، ہم آہنگی، اتار چڑھاؤ، روانی و تسلسل اور موسیقیت اس قدر زیادہ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔​
علامہ اقبال کو خودی کی تربیت اور عرفانِ نفس پر بڑا اعتماد تھا، ان کے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشاہی سکھلاتے ہیں، عطار ہوں یا رومی، رازی ہوں یا غزالی، بغیر عرفانِ نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسی عرفانِ نفس کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پرواز میں کوتاہی آتی ہو اور دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کی خوُ بوُ اور ان کا اسوہ ہو، اور حق تو یہ ہے کہ عرفانِ نفس اور عرفانِ ذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرأت سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ :۔​
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی​
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی​
اقبال کا تصور خودی خود اقبال میں اس قدر رچ بس گیا کہ ان کی زندگی عرفانِ نفس کا زندہ نمونہ تھی، ان کی زندگی کے اوراق میں ان کی خودی، خود داری، خود اعتمادی کے نقوش بہت ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں، عرفانِ نفس ہی کے لیے دوسروں کو مخاطب کرکے وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 64​
اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک​
اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و عجم​
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت​
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے ،دل یا شکم​
بلاشبہ اقبال نے شکم کے مقابلے میں دل کو ترجیح دی اور دل ہی کو اختیار کیا۔​
یہ عرفانِ نفس ہی کا کرشمہ تھا جس نے اقبال کو ہر قسم کی فکری گمراہی اور ادبی بے راہ روی سے محفوظ رکھا، حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے عام ادبا و شعراء اور مصنفین کو ہر چراگاہ میں منہ مار لینے، ہر وادی میں بھٹکنے اور ہر موضوع پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں، خواہ وہ ان کے عقیدہ و خیال کے موافق ہو یا نہ ہو، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک نہ اپنی شخصیت کو پہچانتے ہیں، اور نہ اپنے پیغام سے واقف ہوتے ہیں، لیکن اقبال نے اول ہی دن سے اپنی ذات اور شخصیت کو اچھی طرح پہچانا، اپنی وہبی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کیا، اور پھر اپنی فکری صلاحیتوں، شعری قوتوں کو مسلمانوں کی زندگی کے ابھارنے، ان میں روح و زندگی پیدا کرنے اور یقین و ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکانے میں صرف کیا اور ان میں قوت و حریت اور سیادت و قیادت کا احساس دلایا، اقبال ایک فطری اور وہبی شاعر تھے، اگر وہ شاعر نہ بننے کی کوشش کرتے تو کامیاب نہ ہوتے، شعر کہنے پر وہ مجبور تھے، ان کی شاعری رستے ہوئے قلب، پرجوش و پرسوز دل، معانی کی معنویت اور الفاظ کی شوکت کی آئینہ دار تھی، وہ ایک قادر الکلام ماہر فن شاعر تھے، ان کے ہم عصر شعرأ نہ صرف یہ کہ ان کی امامت اور کلام میں اعجاز کے قائل تھے، بلکہ زبان، تراکیب، معانی افکار، جدت تشبیہ ہر چیز سے متاثر تھے۔ ان کی شاعری کو عظیم بنانے میں انگریزی اور جرمن شعر و ادب اور فارسی شاعری کا بھی بڑا دخل ہے، لیکن ان سب باتوں کے عرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقبال کے ہم عصروں میں کوئی اچھا اور اونچا شاعر ہی نہ تھا، بلکہ​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 65​
اچھے سے اچھے اور اونچے سے اونچے ادیب و شاعر موجود تھے، جو اپنے الفاظ کی فصاحت ، معنی کی بلاغت، استعارہ و تشبیہ کی جدت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے لیکن جو چیز کہ اقبال کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کر دیتی ہے، وہ ہے ان کی شاعرانہ عظمت، ادبی قوت، فنی ذہانت، جبلی عبقریت اور ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام۔ اقبال نہ قومی شاعر تھے، نہ وطنی، اور نہ عام رومانی شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی شراب و شاہد کی مرہونِ منت تھی، اور نہ ان کی شاعری نری حکمت و فلسفہ کی شاعری تھی۔ ان کے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا۔ جس طرح ہوا کے جھونکے پھولوں کی خوشبو پھیلاتے ہیں، اور جس طرح اس زمانے میں برقی لہروں سے پیغامات کے پہنچانے کا کام لیا جاتا ہے، اسی طرح اقبال بھی اپنے اس پیغام کو شعر کی زبان میں کہتے تھے تاکہ ان کے پیغام کے لیے شعر، برقی لہروں کا کام دے۔ بلاشبہ اقبال کی شاعری نے خوابِ ٖغفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین کی چنگاری پیدا کر دی، تو یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اقبال نے اپنے آپ کو پہچانا، اپنی وہبی شخصیت و قوت کا صحیح اندازہ کیا، اور ان کو اصل مقام پر استعمال کیا۔​
وہ چوتھا عنصر جس نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، پران چڑھایا، اور اس کی شاعری کو نت نئے معانی و افکار کی جولانی اور قوتِ تاثیر عطا کی، ان میں کتابوں کی درس و تدریس اور مطالعہ کے شوق و انہماک کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ اقبال کی آہِ سحر گاہی اس کا اصل سرچشمہ ہے۔ جب سارا عالم خواب غفلت میں پڑا سوتا رہتا، اس اخیر شب میں اقبال کا اٹھنا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہو جانا، پھر گڑ گڑانا اور رونا، یہی چیز تھی جو اس کی روح کو ایک نئی نشاط، اس کے قلب کو ایک نئی روشنی اور اس کو ایک نئی فکری غذا عطا کرتی۔ پھر وہ ہر دن اپنے دوستوں اور پڑھنے والوں کے سامنے ایک نیا شعر پیش کرتا، جو انسانوں کو​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 66​
ایک نئی قوت، ایک نئی روشنی، اور ایک نئی زندگی عطا کرتا۔​
اقبال کے نزدیک آہ سحر گاہی زندگی کا بہت ہی عزیز سرمایہ ہے، بڑے سے بڑے عالم و زاہد اور حکیم و مفکر اس سے مستغنیٰ نہیں، چنانچہ فرماتے ہیں:۔​
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو​
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی​
اقبال علی الصباح اٹھنے کا بہت ہی اہتمام رکھتے تھے، سفر و حضر ہر مقام اور ہر جگہ ان کے لیے سحر خیزی ضروری تھی:۔​
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی​
نہ چھُوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی​
اور صرف یہیں تک نہیں بلکہ اس کی تمنا بھی کرتے تھے کہ خداوندا مجھ سے تو جو چاہے چھین لے لیکن لذت آہِ سحر گاہی سے مجھے محروم نہ کر:۔​
نہ چھین لذتِ آہ سحر گہی مجھے سے​
نہ کر نگہ سے تٖغافل کو التفات آمیز​
یہی وجہ تھی کہ وہ جوانوں میں اپنی اس آہ و سوز اور درد و تپش کو دیکھنے کی تمنا کرتے تھے، اور دعائیں کرتے کہ خداوندا یہ میرا سوز جگر اور میرا عشق و نظر آج کل کے مسلم نوجوانوں کو بخش دے:۔​
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے​
مرا عشق، میری نظر بخش دے​
اسی بات کو ایک دوسری نظم میں اس طرح فرماتے ہیں:۔​
جوانوں کو مری آہِ سحر دے​
تو ان شاہین بچوں کو بال و پر دے​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 67​
خدایا آرزو میری یہی ہے​
مرا نورِ بصیرت عام کردے​
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اقبال کے دل سے نکلی ہوئی یہ دعائیں بے اثر نہیں گئیں اور آج سارے عالم اسلام میں خالص اسلامی فکر و نظر لیے، نوجوانوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے:۔​
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا​
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا​
آخری موثر عنصر جس نے اقبال کی شخصیت کی تخلیق میں اہم حصہ لیا ہے، وہ مولانا جلال الدین رومی کی "مثنوی معنوی" ہے، یہ کتاب مولانا رومی کی مشہور مثنوی ہے جو فارسی زبان میں وجدانی تاثر اور اندرونی شدت کی بنا پر لکھی گئی ہے، دراصل یونانی فلسفہ عقلیات مولانا رومی کے دور میں جس طرح چھا چکا تھا اور کلامی مباحث، خشک فلسفیانہ موشگافیاں مسلمانوں کے ذہنوں، دینی مدرسوں اور علمی اداروں میں جس طرح سرایت کر چکی تھیں، اس سے ہٹ کر کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس صورتِ حال سے متاثر ہو کر مولانا رومی نے مثنوی لکھنی شروع کی جو اپنے اندر قوتِ حیات کے ساتھ ساتھ ادبی بلندی، معانی کی جدت، حکیمانہ مثالوں اور نکتوں کے بیش بہا خزینے سمیٹے ہوئے ہیں۔ اس کتاب نے اس دور سے لے کر آج تک ہزاروں انسانوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کے قلب و نظر میں تبدیلی کی ہے۔ اسلامی کتب خانے میں اپنے انداز پر یہ ایک بے نظیر و بے مثال کتاب ہے۔ اس دور جدید میں، جبکہ اقبال کو یورپ کے مادی و عقلی، بے روح و بے خدا افکار و خیالات سے سابقہ پڑا، اور مادہ و روح کی کشمکش اپنے پورے عروج کے ساتھ سامنے آئی تو اس قلبی اضطراب اور فکری انتشار کے موقع پر اقبال نے مولانا روم کی مثنوی سے مدد لی۔ اس کشمکش میں مولانا روم​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ68​
نے ان کو بہت کچھ سہارا دیا۔ یہاں تک کہ اقبال نے پیر روم کو اپنا کامل رہنما تسلیم کر لیا اور صاف صاف اعلان کر دیا کہ عقل و خرد کی ساری گتھیاں جسے یورپ کی مادیت نے اور الجھا دیا تھا، ان کا حل صرف آتشِ رومی کے سوز میں پنہاں ہے اور میری نگاہِ فکر اسی کے فیض سے روشن ہے اور آج یہ اسی کا احسان ہے کہ میرے چھوٹے سے سبو میں فکر و نظر کا ایک بحرِ ذخار پوشیدہ ہے:۔​
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے تیرا​
تری خودی پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں​
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن​
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیوں​
مولانا روم سے اپنی اس محبت و عقیدت کا اظہار اقبال نے بار بار کیا ہے اور انہیں ہمیشہ "پیر روم" کے نام سے یاد کرتے ہیں:۔​
صحبتِ پیر روم نے مجھ پہ کیا یہ راز فاش​
لاکھ حکیم سر بجیت، ایک کلیم سر بکف​
اقبال اس بیسویں صدی کے خالص صنعتی و مادی دور میں پھر کسی "رومی" کے منتظر ہیں، ان کے نزدیک مادیت کا زنگ عشق کی بھٹی ہی میں صاف ہو سکتا ہے اور اس کے لیے آتشِ رومی کی ضرورت ہے:۔​
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے​
وہی آب و گل ایراں، وہی تبریز ہے ساقی​
----------------------​
1۔ پیر رومی مرشد روشن ضمیر​
کاروان عشق دستی را امیر۔ اقبال​
2۔ یعنی مطالعہ مثنوی​
----------------------​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ69​
لیکن اقبال مایوس نہیں ہیں بلکہ اپنے کشتِ ویراں سے بہت ہی پر امید ہے:۔​
نہیں ہے نا امید اقبال اپنے کشتِ ویراں سے​
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی​
یہی وہ پانچ عناصر ہیں جنہوں نے اقبال کی شخصیت کی تخلیق کی اور یہ عناصر دراصل اسی دوسرے مدرسہ کے فیض و تربیت کے نتائج ہیں، جس نے اقبال کو مضبوط عقیدہ، قومی ایمان، سلیم فکر اور بلند پیغام عطا کیا اور جس نے اقبال کو "اقبال" بنایا۔​
 

نایاب

لائبریرین
صفحہ 82

ترک را آہنگ نو در چنگ نیست​
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست​
سینہ اورادے دیگر نبود​
در ضمیرش عالمے دیگر نبود​
لا جرم با عالم موجود ساخت​
مثل موم از سوز عالم گداخت​

مغربی تعلیم اور اس کے اثرات

مغربی نظام تعلیم در حقیقت مشرق اور اسلامی ممالک میں ایک گہرے قسم کی لیکن خاموش نسل کشی (GENOCIDE) کے مرادف تھا ۔ عقلاء مغرب نے ایک پوری نسل کوجسمانی طور پر ہلاک کرنے کے فرسودہ اور بدنام طریقہ کو چھوڑ کر اس کو اپنے سانچے میں ڈھال لینے کا فیصلہ کیا ۔ اور اس کام کے لیئے جا بجا مراکز قائم کیئے جنکو تعلیم گاہوں اور کالجوں کے نام سے موسوم کیا ۔ اکبر نے اس سنجیدہ تاریخی حقیقت کو اپنے مخصوص ظریفانہ انداز میں بڑی خوبی سے ادا کیا ہے ۔ان کا مشہور شعر ہے ۔ کہ
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا​
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی​
اک دوسرے شعر میں انہوں نے مشرقی اور مغربی حکمرانوں کا فرق اس طرح بیان کیا ہے :

مشرقی تو سر دشمن کا کچل دیتےہیں​
مغربی اس کی طبیعت کو بدل دیتے ہیں​
اس سے کئی برس بعد اقبال نے (جنہوں نے اس نظام تعلیم کا خود زخم کھایا تھا )


صفحہ 83

اس حقیقت کو زیادہ سنجیدہ انداز میں پیش کیا :
مباش ایمن ازاں علمے کہ خوانی​
کہ از دے روح قومے می تواں کشت​
تعلیم جو تجلب ؟ ماہیت کرتی ہے اور جس طرح ایک سانچہ توڑ کر دوسرا سانچہ بناتی ہے اس کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اسکی خودی کو​
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر​
تاثیر میں اکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب​
سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر​
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم​
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف​
اقبال ان معدود چند خوش قسمت افراد میں سے ہیں ۔ جو مغربی تعلیم کے سمندر میں غوط لگا کر ابھر آئے اور نہ صرف یہ کہ صحیح سلامت ساحل تک پہنچے بلکہ اپنے ساتھ بہت سے موتی تہ سے نکال کر لائے ۔ اور ان کی خوداعتمادی ،اسلام کی ابدیت ۔ اور اس کے وسیع مضمرات پر ان کا یقین اور زیادہ مستحکم ہو گیا ۔ اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے مغربی تعلیم اور فلسفہ کا اثر نہیں قبول کیا ۔ اور ان کا دینی فہم کتاب و سنت اور سلف امت کے بالکل مطابق ہے ۔ (1)
لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اس آتش نمرود نے

(1) اس کا اندازہ ان کے ان خطبات سے ہو سکتا ہے ، جو انہوں نے مدراس میں دیئے تھے ۔ جس میں کہیں کہیں حقائق غیبی کی فلسفیانہ تعبیر اور تاویل کا شدید رنگ صاف جھلکتا ہے ۔۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 55

کثرت سے ملتا ہے۔
وہ تخلیقی عناصر جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو بنایا ، بڑھایا اور پروان چڑھایا اور دراصل اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں حاصل ہو رہے یہ پانچ تخلیقی عناصر جہنوں نے اقبال کو زندہ جاوید بنا دیا ۔
ان میں پہلا عنصر جو اقبال کو اپنے داخلئ مدرسہ میں داخلہ کے بعد اول ہی دن حاصل ہوا وہ اس کا "ایمان و یقین" ہے ۔ یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے اور یہی اسکی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سر چشمہ ہے لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں ہے ، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے ، بلکہ اقبال کا "یقین" عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اسکے قلب و وجدان ، اس کی عقل و فکر اس کے ارادہ و تصرف اس کی دوستی و دشمنی غرصکہ اس کی ساری زندگی پر چھایا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت واسخ الایمان تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انکی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجہ کا تھا ، اس لئےان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور نبی صلے اللہ علیہ وسلم رشد و ہدایت کے آخری مینار ، نبوت و رسالت کے خاتم اور مولائے کل ہیں:-
وہ دانائے سبل، ختم الرسل ، مولائے کل جس نے​
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا​
اس دورِ مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک دمک سے اقبال کی​
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
صفحہ نمبر 56
آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گزارے اس کی وجہ سے رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اقبال کی وہی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی ، اور بلاشرہ ایک حسبَ صادق اور عشق حقیقی ہی قلب و نظر کے لئے ایک اچھا محافظ اور پاسبان بن سکتا ہے :-
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشَ فزنگ ---------------سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و تجف
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں ------------- کہ میں اس آگ میں ٍ ڈالا کیا ہوں مثلِ خلیلٌ
رہے ہیں ، اور ہیں فرعون میری گھاٹ میں اب تک -------- مگر کیا غم کہ میری آستین میں ہے یدبیضا
عجب کیا گرمہ و پرویں مرے نخچیر ہو جائیں ----------- کہ برفتر اک صاحب دولتے بستم سرَخودرا
علامہ اقبال کے اہنی کتاب "اسرار خودی" میں ملت اسلامیہ کہ زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلہ میں جس پر حیات ملت اسلامیہ موقوف ہے بنی صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق دائمی وابستگی اور اپنی فدا کارانہ محبت کا ذکر کیا ہے ، جب وہ نبی صلے اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش کرنے لگتا ہے ، اور نعتیہ اشعار ابلنے لگتے ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں ، اس کا سلسلہ میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہوگا :-
در ول مسلم مقام مصطفے است​
آبروئے ماز نام مصطفے است​
بوریا ممنون خواب راحتش​
تاج کسری زیر پائے اننش​
در شبستانِ حرِا خلوت گزید​
قوم و آئین و حکومت آفرید​
ماند شہبا چشم او محروم نوم​
تابہ تخت خسروی خوابید قوم​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
135-136

بے اعتمادی، ناامیدی، افسردگی اور شکستہ دلی پائی جاتی تھی اور انسان کبھی کبھی حیوانات اور جمادات پر رشک کرنے لگتا تھا وہ جوہر انسانیت سے ناواقف اور اپنی وسعتوں اور ترقیات سے غافل تھا، مولانا نے اپنے مخصوص انداز میں اس پہلو کو ابھارا اور انسان کی بلندی کا ترانہ اس جوش سے بلند کیا کہ اس کی سوئی ہوئی خودی بیدار ہوگئی اور وہ اپنے مقام سے آگاہ ہوگیا، مولانا کی اس رجز خوانی کا پوری اسلامی ادبیات پر اثر پڑا اور اس نے شعر و شاعری اور تصوف میں ایک نیا رحجان پیدا کردیا[1]۔
اس کے بعد مغربی فلسفہ اور یورپ کی سیاسی و ثقافتی قیادت کا دور آیا جسے نصرانی کلیسا سے رہبانیت کی میراث ملی تھی اور اس کے ساتھ ہی انسان کے بنیادی طور پر گناہ گار ہونے اور مسیح کا اس طرف سے کفارہ بننے کا عقیدہ بھی اس کے حصے میں آیا تھا۔ علاوہ ازیں مغربی معاشرے میں مادی تصور حیات کے تحت انسان کو پیداوار کا ایک کار ایک بے جان مشین اور ایک ترقی یافتہ حیوان سمجھا گیا جوصرف اپنے بہیمی تقاضوں کو پورا کرنا اور بازار کے لیے نفع بخش مال تیار کرنا جانتا تھا۔
اس تصور میں انسان کی خیر پسندی اور تمام مخلصانہ جذبات، روحانی اقدار اور باطنی کائنات سے قطع نظر کرکے اسے اندھی فطرت کے آگے ایک بیچاری اور بے حقیقت مخلوق سمجھا گیا تھا۔
اس تصور کے نتیجے میں مشرقی مسلمانوں میں یاس و بدشگونی، انکار ذات، اپنی قدر و قیمت اور عظمت و شرافت سے وہ جہالت پیدا ہوئی جس کے بعد ان کے ہاتھوں سے قیادت کی باگ نکل گئی اور وہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی استعمارے کے سائے میں آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] تاریخ دعوت و عزیمت۔۔/470


ان حالات نے مغربی تہذیب سے انہیں اس طرح مرعوب و متاثر کیا جیسے موم ذرا سی گرمی سے پگھل جاتا ہے، مشرق کے مسلمان سے اپنی ذات اور اپنے مستقبل پر اعتماد ختم ہو کر رہ گیا اور اسے اپنے تمام امکانات پیچ نظر آنے لگے، وہ مغرب کے مقابلہ میں مادی اور معنوی ہر طرح کے پسماندہ ہوتا گیا ایک طرف اپنی ملت اور اپنے دین پر سے اس کا اعتماد اٹھا اور دوسری طرف ترقی یافتہ معاشرہ قابلِ فخر تہذیب اور مضبوط حکومتوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
ان مجموعی حالات و حوادث نے مشرق کے مسلمان کو وہ "مرد بیمار" بنا کر رکھ دیا جو خود اپنی ہی نگاہوں میں بے حیثیت اور اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر رہ گیا انہیں حالات میں ایشیاء اور افریقہ میں نئے سیاسی نظام، اقتصادی فلسفے، نئے ادبی رحجانات اور نئے شعر و ادب اور تنقید و صحافت نے جنم لیا اور جنہوں نے ایک ساتھ مل کر ایک ہی راگ الاپنا شروع کیا۔
ان سب ہی میں انسان کے ایمان و یقین اور فرد کی قیمت و حیثیت سے انکار موجود تھا، ان سب نے صاحب ضمیر اور صاحب ایمان انسان کے ابدی پیغام غیر مختتم امکانات و مضمرات اور اس کے اندر حالات کو بدلنے کی معجزانہ قوت سے صرف نظر کیا اس پورے نظام حیات میں مرد مومن چھپی ہوئی ان طاقتوں اور مخفی صلاحیتوں سے چشم پوشی کی گئی تھی جن سے عجائب کا ظہور اور خارق عادت اوصاف کا صدور ہوتا اور جن کے ذریعہ وہ تجربات و مسلمات کو بھی باطل کر دکھاتا ہے۔
مرد مومن کی اولو العزمی، مہم جوئی، خلوص و بے غرضی اس کی نزاہت و پاکیزگی مصنوعی معیاروں اور غیر حقیقی قدروں سے گریز اور غیر فطری خوف و دہشت سے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
137-138

پرہیز کی قدر کسی سے نہ پہچانی جاسکی۔
مشرقی ممالک کا یہ پورا نظام مغرب کے آگے ہر معاملے میں ہاتھ پھیلاتا دکھائی دیتا تھا اور اس کی حیثیت ایک طفیلی سے زیادہ نہ تھی، اس میں مغرب کے بوسیدہ نظام و پیام اور فکر و فلسفہ کو جوں کا توں لے لیا گیا تھا اور اسی عموم میں شخصی اور جمہوری اشتراکی اور اشتمالی کسی نظام حکومت میں کوئی فرق نہ تھا۔ ان سب میں انسان اور مسلمان دونوں کے بارے میں نقطہ نظر کا اتحاد موجود تھا، جن سے یہ نظام قائم ہوتے تھے۔
اس جامد اور یخ بستہ ماحول میں اقبال کھڑے ہوئے اور مومن انسان کے گیت گاتے اور اس کا کلمہ پڑھتے ہیں اور اس کے اندر نخوت اور احساس عظمت، ذات کی معرفت اور خود اعتمادی کی قوت بیدار کردیتے ہیں اسے کائنات اور عالم انسانی میں اپنے مقام سے آگاہ کرکے اور مایوسی اور ناامیدی سے نکال کر امید و آرزو، جہد و عمل مہم جوئی اور دشوار طلبی، سیادت و قیادت، پیش بندی اور خودبینی، اعزاز و استزاز اور بلند کرداری و ناورہ کاری کی دنیا میں لا کھڑا کرتے ہیں۔
وہ اپنی فارسی غزل میں "مومن" سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
"تجھ پر مجھے کمال حیرت ہے کہ آفاق تو تجھ سے روشن ہیں لیکن تیری ذات ہی درمیان سے غائب ہے تم کب تک غفلت و بطالت، گمنامی و جہالت کی زندگی گذراتے رہو گے، تمہاری آستین میں ہمیشہ "ید بیضا" موجود رہا تم آج گھروندوں میں گھوم رہے ہو، لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ تم انہیں پھلانگ بھی سکتے ہو تم تو اس وقت بھی تھے جب یہ کائنات نہ تھی اور اس وقت بھی رہو گے جب یہ نہ ہوگی، اے مرد جادواں! تو موت سے ڈرتا ہے حالانکہ موت کو تجھ سے ڈرنا چاہیےموت نہیں بلکہ تم اس کی گھات میں ہو تمہیں جاننا چاہیے کہ آدمی کی موت روح کی جدائی سے نہیں ہوتی بلکہ ایمان کی کمی اور یقین سے محرومی سے ہوتی ہے۔

بینی جہاں را خود را نہ بینی!
تاچند ناداں غافل نشینی!
نور قدیمی، شب رابرا فروز
دستِ کلیمی ور آستینی!
بیروں قدم نہ آز دورِ آفاق
تو پیش ازینی تو بیش ازینی
از مرگ ترسی اے زندہ جاوید
مرگ است صیدے تو درکمینی
جانے کہ بخشند دیگر نگیز ند
آدم بمیر داز بے یقینی!
صورت گری رازمن بیاموز
شاید کہ خودرا باز آفرینی[1]
اپنی ایک دوسری نظم میں جو موسیقی کا زیروبم لیے ہوئے ہے اور جو مسلم نوجوانوں کے لیے بیداری کا ایک نغمہ ہے اس میں وہ اس "مرد مومن" کو آواز دیتے ہیں جو مایوس و نومید ہوکر زندگی کے کارواں اور قیادت و امامت کے منصب سے بچھڑ گیا ہے وہ کہتے ہیں۔
اے خوابیدہ کلی تو اس نرگس بیدار کی طرح آنکھ کھول جس کی آنکھیں کبھی نہیں جھپکتیں اور جسے کبھی نیند نہیں آتی، دشمنوں نے ہمارے مستقر پر حملہ کیا ہے اور ہمیں خانماں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بلبل کی نغمہ سنجی، اذان کی للکار اور قلب و روح کی پکار بھی تمہیں بیدار نہیں کرسکتی۔
آفتاب نے پھر از سر نو رخت سفر باندھا اور ظلمت کے سمندر میں صبحِ روشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] زبور عجم 164
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
139-140`


کے پتوار حرکت میں آگئے، کاروانوں نے وادئ و صحرا میں اپنے اسباب اٹھائےاور کوچ کا نقارہ بج گیا لیکن اے چشم بیدار! جو انسانیت کی نگراں اور کمزروں کی پاسباں تھی، تو ابھی تک سو رہی ہے اور ذرا نہیں دیکھتی کہ حالات و حوادث میں کیا انقلاب آگیا؟
تیرا سمندر صحرا کی طرح ساکن ہوگیا ہے اور جوش و طغیانی کی جگہ اس میں جمود پیدا ہوکر رہ گیا ہے، اس میں کوئی مددجزر نہیں، اس کی موجوں میں کوئی تلاطم نہیں، یہ کیسا سمندر ہے جس میں نہ کوئی نہنگ حوصلہ مند ہے نہ کوئی موج بلند تمہارے پر شور سمندر کو تو اپنے ساحل سے نکل کر دشت و جبل میں پھیل جانا تھا! اے مرد مومن! وطن مٹی کا جسم ہے لیکن روح کا وجود دین و مذہب سے ہے، اس لیے تمہیں ایک ہاتھ میں "خدا کا کلام" اور دوسرے میں "تیغ بے نیام" لے کر اٹھنا چاہیے اس لیے کہ ان دونوں کا اجتماع ہی بشریت کی سعادت ہے اور تہذیب کے لیے برکت۔
اے مرد مسلماں! تو ناموس ازل کا امین و پاسباں اور خدائے لم یزل کا راز داں ہے تیرا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے، تیری اٹھان مٹی سے ہے لیکن تجھی سے اس عالم کا وجود و بقا متعلق ہے، میخانہ یقین سے پی اور ظن و تخمیں کی پستیوں سے بلند ہوجا، فرنگ کی دلآویزی کی نہ داد ہے نہ فریاد، جس نے عقل و دل دونوں مسحور و مخمور اور ناکارہ بنادیا ہے فریاد ان بازیگروں سے جو کبھی نازدا انداز سے پکڑتے اور کبھی بیڑیوں میں جکڑتے ہیں کبھی شیریں کا پارٹ ادا کرتے اور کبھی "پرویز" کا روپ بھرتے ہیں، دنیا ان کی تباہ کاریوں سے ویرانہ ہوگئی ہے، اے بانی حرم! اے معمارکعبہ! اور اے فرزندِ ابراہیم ایک بار پھر دنیا کی تعمیر کے لیے اٹھ اور اپنی گہری نیند سے بیدار ہو":۔
اے غنچہ خوابیدہ چو نرگس نگراں خیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاشانہ مارفت بتاراجِ غماں خیز
از نالہ مرغ چمن از بانگِ اذاں خیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از گرمی ہنگامہ آتش نفساں خیز!

خورشید کہ پیرایہ بسیمائے سحر بست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آویزہ بگوش سحر از خونِ جگر بست
از دشت و جبل قافلہ ہارخت سفر بست۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے چشم جہاں میں بہ تماشائے جہاں خیز!

خادرہمہ مانند غبار اسرر ہے است ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یک نالہ خاموش و اثر باختہ آہے است
ہر ذرہ ایں خاک گرہ خود رہ نگاہے است ۔۔۔۔۔۔۔ از ہندو سمرقند و عراق و ہمداں خیز!

دریائے تو دریا ست کہ آسودہ چہ صحراست ۔۔۔۔۔۔ دریا کے تو دریا است کہ افزوں نشدوکاست
بیگانہ آشوب و نہنگ ست چہ دریاست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ از مینہ چاکش صفتِ موج رواں خیز!

ایں نکتہ کشایندہ اسرارِ نہان ست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک است تنِ خاکی و دیں روج روان ست
تن زندہ و جاں زندہ زربط تن و جاں است ۔۔۔۔۔۔ باخرقہ و سجادہ و شمشیر و سناں خیز!
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز!
(از خواب گراں خیز الخ)
وہ اپنی ایک اردو غزل میں کہتے ہیں جو رقت و حلاوت میں اپنی مثال آپ ہے:۔
یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی
تری زندگی اسی سے تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو روسیاہی
مرے حلقہ سخن میں ابھی زیر تربیت ہیں
وہ گدا کہ جانتے ہیں، رہ و رسم کج کلاہی
تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ دماہی
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا
نعتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
وہ اپنی ایک دوسری نظم میں کہتے ہیں جو سہل ممتنع کی ایک مثال ہے۔
اے مرد مومن! اس کائنات کے تمام مناظر و مظاہر، تمام اجرام فلکی اور اجسامِ ارضی زوال آمادہ اور فنا پذیر ہیں لیکن تو ان کے درمیان جادواں ہے، تمہارے ارد گرد کی ہر شے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
141-142

تمہارے تابع اور ماتحت ہے لیکن تم نے اپنے کو نہیں پہچانا تم دنیا کےپیچھے کب تک چلتے رہو گے؟ یا تو اسے ٹھکرا دو یا پھر اسے اپنے آگے جھکا دو، درمیان کی راہ کوئی نہیں۔"
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
تو مردِ میداں تو میر لشکر
نوری حضوری تیرے سپاہی
کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی!
دنیائے دوں کی کب تک غلامی
یا راہبی کر یا پادشاہی[1]
یہ ایک ہلکا سا نمونہ تھا ورنہ اقبال کا پورا کلام ہی ان نمونوں کا حامل ہے جس میں مرد مومن اور مسلم نوجوانوں کو اس تہذیب کے خلاف ہوشیار کیا گیا ہے جس کی نگاہ میں یہ دنیا قلب و روح اور بشری امکانات کی دنیا ہیں بلکہ تجارت کی منڈی، شراب کی بھٹی اور قمار خانہ، عہدوں کی کشمکش کا اکھاڑا اور قیادت و سیادت کی رزم گاہ ہے۔


ابلیس کی مجلسِ شوریٰ

اقبال کے آخری مجموعہ کلام "ارمغانِ حجاز" میں ایک نادر الاسلوب نظم مذکورہ بالا عنون سے ملتی ہے جس میں اقبال نے ایک شیطانی پارلیمنٹ کا نقشہ کھینچا اور دکھایا ہے کہ اس میں دنیا کے ابلیسی نظام کے ممتاز نمائندے شریک ہوتے ہیں اور ان رحجانات، تحریکات اور سیاسی نظریات کا جائزہ لیتے ہیں جو ان کی مہم کی راہ میں رکاوٹ اور ان کے مساعی و مقاصد کے لیے سنگ گراں ہیں، اس میں ابلیس کے مشیر اپنی اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں اور پھر صدر جلسہ ابلیس ان سب رایوں کو دیکھ کر ان پر تبصرہ کرتا اور اپنے وسیع تجربات اور جہاں بینی کی روشنی میں اپنی آخری رائے دیتا ہے، وہ رائے ایسی ہے جس تک اس کے کسی شاگرد کی نظر نہیں پہنچتی اور سب اس پر صاد کرتے ہیں۔
اس کی رائے کا حاصل یہ ہے کہ " دنیا میں مسلمان ہی اس کا واحد مقابل اور جانی دشمن ہے جو اس کے شیطانی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، مسلمان ہی وہ چنگاری ہے جو کسی وقت بھی بھڑک کر آتش شعلہ نشاں بن سکتی ہے۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
143-144

اس لیے مصلحت اور دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنی تمام طاقتیں اسی دشمن نمبر ایک کے مقابلے پر لگا دی جائیں اور اگر اسے ختم نہ کیا جاسکے تب بھی اس کا زور توڑ دیا جائے یا اس پر غفلت کی نیند ہی طاری کر دی جائے۔
اس نظم میں مسلمان کی تصویر اس کے نازک خط و خال کے ساتھ کھچ گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی دوسرے افکار و مذاہب و نظریات اور ان کے قائدین پر بھی روشنی پڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ :۔
شیطان اور اس کے مشیر ایک مجلس شوریٰ میں جمع ہوکر عالمی مسائل اور مستقبل کے خطرات کا جائزہ لیتے ہیں جو ابلیسی نظام اور شیطانی پروگرام کی راہ میں آنے والے ہیں اور ان کے لیے سب سے بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیطان کے مشیر اسلام نظام سے پہلے دوسرے نظام ہائے فکر کا نام لیتے ہیں، سب سے پہلے ابلیس حاضرین کو خطاب کرتا ہے:۔
یہ عناصر کا پرانا کھیل یہ دنیا ئے دوں
ساکنانِ عرشِ اعظم کی تمناؤں کا خوں
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کرسکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کرسکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں
اس تقریر کے بعد پہلا مشیر کہتا ہے کہ ابلیسی نظام کے استحکام میں کیا شک ہوسکتا ہے، اس نے تو شاہ گدا سب کو جکڑ ہی رکھا ہے عوام غلامی پر راضی ہیں اور اپنی پستی پر خوش و خرم ان کے دل بے ذوق ہیں، جن میں کوئی آرزو سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو تمنائے خام بن کر رہ جاتی ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ ہماری مسلسل تگ و دو اور سعی پیہم کا نتیجہ ہے کہ صوفی و ملا جنہیں مسلم عوام کی قیادت حاصل ہے ان کی اکثریت ملوکیت پر راضی ہوگئی ہے، روحانیت، تزکیہ نفس، صفائی باطن تصوف و عرفان اور تقوی و احسان کو اب صوفی صرف قوالی، رقص و وجد، سرور و سماع اور "حال" آنے تک محدود سمجھتا ہے اور اس کے احوال و مقامات کی دنیا اس سے آگے نہیں اسی طرح ملا یا عالمِ دین کا سارا علم و نظر کلامی بحثوں، الہٰیات کے مسائل، مناظروں اور الٹی سیدھی تقریروں تک محدود ہے جن لوگوں کو عام کی دینی اور پھر ساسی رہنمائی کرنا تھی، وہ خود ملوکیت اور باطل حکومتوں کے غلام اور بندہ بےدام بن کر رہ گئے ہیں، مذہب کے ظاہری رسوم کسی حد تک باقی ہیں۔ حج و طواف کی نوبت بھی سیر و تفریح کے ساتھ کبھی آجاتی ہے لیکن وہ جہاں بانی اور حکمرانی کے تمام آداب بھلا بیٹھے ہیں اور ان کی تیغِ بے نیام کند ہو کر رہ گئی ہے اور ان کی نومیدی جاوید کا یہ حال ہے کہ اب گویا حرمتِ جہاد پر اجماع ہوگیا ہے۔
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نمازِ بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں،
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج!
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام!
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علمِ کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی ہے تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغِ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید
ہے جہاں اس دور میں مردِ مسلماں پر حرام
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
145-146

دوسرا مشیر جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ بتاتا ہے۔
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر!
اس پر پہلا مشیر کہتا ہے کہ مجھے تو جمہوریت سے کوئی خطرہ نہیں محسوس ہوتا، میں تو اسے ملوکیت ہی کا ایک دلآویز پردہ سمجھتا ہوں جس میں اس کا مکروہ چہرہ چھپا ہوا ہے آخر ہمیں نے تو شاہی کو جمہوری لباس پہنایا ہے اس طرھ وہ ہمارا ہی پروردہ ہے۔
جب انسان ملوکیت کے جبر سے اکتا کر متنبہ اور بیدار ہونے لگتا اور اپنی عزت و خوداری سمجھنے لگتا ہے اور ہمیں اپنے نظام کے لیے جب کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے تو ہم اسے جمہوریت کا کھلونا دے کر بہلانے کی کوشش کرتے ہیں، میر و وزیر ہی صرف بادشاہی کے نمائندے نہیں بلکہ اس کی بے شمار صورتیں ہیں، ملوکیت کسی فرد اور شخص ہی پر منحصر نہیں ہوتی ملوکیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان دوسروں کی محنت کا استحصال کرے اور جور و جبر یا حیلہ و مکر سے دوسروں کے مال و متاع پر غاصبانہ نظر ڈالے، اس میں فرد و جماعت کسی کی تخصیص نہیں، مغرب کا جمہوری نظام بھی اس سے بری نہیں اس کا چہرہ ضرور روشن ہے لیکن اس کا باطن چیگیز و ہلاکو سے زیادہ تاریک اور بھیانک ہے۔
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
اس وضاحت اور تسلی کے بعد تیسرا مشیر اطمینان کے سانس لیتا ہے اور کہتا ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ملوکیت کی روح باقی رہنے سے بھی کوئی حرج نہیں لیکن اس فتنہ عظیم کا کیا جواب ہے جو اس فتنہ پرواز اور خانہ براند یہودی "کارل مارکس" کی ایجاد ہے جو نبی نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے کامریڈوں کے نزدیک نبی سے کم نہیں، اس کی ذات انقلابی ضرور تھی لیکن وہ آسمانی ہدایتوں سے محرومی کے باعث کلیم بے تجلی اور مسیح بے صلیب بن کر رہ گیا اور دنیا کو کوئی صحیح راہ عمل (way of life) نہیں دے سکا وہ ہر مذہب کا منکر اور ہر کتاب ہدایت سے باغی ہے لیکن اس کی CAPITAL کمیونسٹوں کی نظر میں کسی آسمانی صحیفہ سے فرو تر نہیں اور کمیونزم سارے مذاہب کا انکار کرتے ہوئے بھی خود ایک مذہب بن بیٹھا ہے اور دنیا میں ایک تہلکہ مچا رکھا ہے طبقاتی کشمکش پیدا کرکے امیر و غریب بوژوروا اور پرولتارین کو ایک دوسرے سے لڑا دیا اور قوموں کے درمیان نفرت و عداوت کا بیج بو دیا ہے۔

روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!
پانچواں مشیر ابلیس کو مخاطب کرکے کہتا ہے ساحرانِ فرنگ اگرچہ آپ ہی کے چیلے اور عقیدت مند مرید ہیں لیکن اب مجھے ان کی فراست پر کچھ زیادہ بھروسہ نہیں، وہ سامری یہودی (کارل مارکس جو ایرانی اشتراکی لیڈر مزدک کی روح کا ظہور ہے) دنیا کو تہ و بالا کئے دے رہا ہے، اس نے وہ سحر کیا ہے کہ ہر چھوٹا اپنے بڑے کی پگڑی اچھالنے پر تلا ہوا ہے اور
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
147-148

چور اچکے بھی بادشاہوں کی برابری اور ہمسری کا دعوا کر رہے ہیں، ہم نے شروع میں تو اس فتنہ کو چھوٹا سمجھ کر اس کی خبر نہ لی لیکن اب اس کا خطرہ بڑھتا ہی جاتا ہے اور مستقبل کے اندیشوں سے زمین کانپ رہی ہے۔ آپ کی سیادت و قیادت کی بساط ہی الٹی جارہی ہے اور وہ دنیا ہی اس قیامت کی نذر ہو رہی ہے جس پر آپ کی حکمرانی قائم ہے۔
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
آخر میں ابلیس اپنے مشیروں کو مخاطب کرکے اپنی آخری رائے دیتا ہے اور اپنا قطعی فیصلہ اور اور پروگرام سب سے سامنے رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ان تحریکات اور نظریات سے کچھ نہیں ہوسکتا اصل عالمی اقتدار اب بھی مرے پنجہ اختیار میں ہے دنیا کے ہر اتار چڑھاؤ اور سیاسی اتھل پتھل میں میرا ہاتھ ضرور رہتا ہے، جہاں میں نے قوموں اور ملکوں کو آپس میں لڑا دیا اور خصوصاََ اقوام یورپ کا لہو گرمایا تو دنیا میری طاقت کا اندازہ لگائے گی، انسان حیوانوں کی طرح ایک دوسرے پر غرائیں گے اور بھڑیوں کی طرح ایک دوسرے کو پھاڑ کھائیں گے میں ذرا کان بھردوں تو یورپ کے امامانِ سیاست کلیسا کے مقدس پوپ کی روحانیت اور ذہانت دھری رہ جائے اور دیوانگی اور مخبوط الحواسی کی وحشت ان پر طاری ہوجائے۔ اور غصہ میں اندھے ہوکر مجنونانہ حرکتیں کرنے لگیں:۔
اشتراکیت سے مجھے اس لیے خطرہ نہیں محسوس ہوتا کہ وہ فطرت کے خلاف جنگ کرتی ہے، اور انسانوں کے درمیان جو طبعی فرق ہے اسے منطق کے زور سے مٹانا چاہتی ہے، یہ سر پھرے اور لاخیرے مجھے کب ڈرا سکتے ہیں:۔
ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
کار گاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ابلیس سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر واقعی مجھے کسی سے خطرہ ہے تو امت مسلمہ اور ملت محمدیہ سے ہے جس کی خاکستر میں نئی زندگی کے شرارے اور عزم و ہمت کے انگارے چھپے اور دبے ہوئے ہیں جس کی رسی جل گئی ہے مگر اس کے بل نہیں گئے یہ امت اگرچہ جماعتی حیثیت سے پسماندہ ہوگئی ہے، لیکن اس میں باشعور و باصلاحیت افراد اور عبقری شخصیتوں کی کمی نہیں، اس کا ملی شیرازہ برہم ضرور ہے لیکن رجالی کار اور مردانِ غیب کی اس میں اب بھی کمی نہیں جو شکست کو فتح سے بدلنے، ہاری ہوئی بازی کو جیتنے اور ڈوبی ہوئی کشتی کو ترانے کی اہلیت اور ہمت رکھتے ہیں، اس قوم میں ایسے اصحاب ِ عزیمت و استقامت اب بھی موجود ہیں جن کی سحر خیزی و شب بیداری ہنوز برقرار ہے، ان کی راتیں سوز و گداز، عرض و نیاز میں بسر ہوتی ہیں، جو اشکِ سحر گاہی سے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
149-150

وضو کرتے ہیں اور دعا سے نیم شبی اور نالہ سحر گاہی جن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، اس لیے زمانہ شناس جانتا ہے کہ اسلام ہی کل کا فتنہ اور مستقبل کا خطرہ ہے، اشتراکیت نہیں۔
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!
ابلیس اپنے خیالات اور خدشات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ یہ امت قرآنی پروگرام کی حامل اور اس پر عامل نہیں، مال کی محبت، ذخیرہ اندوزی اور نفع رسانی کی بجائے نفع طلبی اور سرمایہ داری اس کا بھی مذہب بنتی جارہی ہے، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ مشرق کی رات اور اس کا مستقبل بہت تاریک ہے اور علمائے اسلام اور رہنماؤں کے پاس وہ روشنی نہیں جس سے تاریکیاں دور اور اندھیاریاں کافور ہو جاتی ہیں، ان کی آستیں "ید بیضا" سے خالی اور ان کی جماعت کسی مسیحا نفس سے محروم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن زمانے کے انقلابات سے اور مقتضیات سے مجھے خطرہ ہے کہ وہ کہیں اس امت کی بیداری کا سامان نہ بن جائیں اور وہ پھر سے دینِ محمدی کی طرف بازگشت نہ کرنے لگے، "دین محمدی" اور شرع اسلامی کی ہمہ گیری اور کار سازی کا تمہیں اندازہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ "آتشیں شریعت" خاندانی نظام، مرد و زن کے حقوق کی حفاظت و صیانت اور صالح معاشرہ کی تعمیر کرتی ہے، یہ دین عزت و حرمت، امانت و عفت، مروت و شجاعت، کرم و سخاوت اور تقویٰ و طہارت کا دین ہے، یہ دنیا سے باطل کی ہر غلامی اور انسانوں کے ساتھ ہر ناانصافی کو مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ اس میں شاہ و گدا، وزیر و فقیر اور اونچ نیچ کا کوئی امتیاز نہیں اس کا نظامِ زکوۃ مال کے بارے میں متوازن نظریہ رکھتا ہے اور سرمایہ داروں کے مال کو بھی اللہ کی امانت اور غریبوں کا حق کہتا ہے، اور فکر و عمل کی دنیا میں اس نے اپنے اس نظریے سے انقلاب پیدا کردیا ہے کہ زمین اللہ کی ہے، بادشاہ و سلاطین کی نہیں، اس لیے پوری کوشش ہونی چاہیے کہ یہ دین نگاہوں سے پوشیدہ رہے اور اس کی خوبیاں چھپی رہیں ہمارے لیے یہ امید افزا علامت ہے کہ مومن خود ایمان سے محروم ہے اور الہٰیات و تاویلات میں الجھا ہوا ہے، اس امت کو تھپکیاں دے دے کر سلائے رہو کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جاگ اٹھے اور اپنی تکبیروں سے فسانہ و افسوں اور شیطانی سحر و طلسم کے تار و پود بکھیر دے، اس پر پورا زور لگنا چاہیے کہ شامِ زندگی شب زندگی میں بدلے لیکن صبح کا اجالا نہ پھیل سکے، مومن کو جہد و عمل کی رزمگاہ سے الگ تھلگ ہی رکھو تاکہ زندگی کے ہر محاذ پر وہ ناکام ہی ہوتا رہے، اور بساطِ عالم پر اپنا رول نہ ادا کرسکے ، عالمِ اسلام کی غلامی استعمار کے لیے ضروری ہے اور اس کی بہترین ترکیب یہ ہے کہ شعر و تصوف توکل اور ترک دنیا کا افیون اسے دیتے رہا جائے، خانقاہی مزاج، اوہام و خرافات اور رسم و رواج کا یہ جس قدر پابند اور رہبانیت پر جتنا کاربند ہوگا اتنا ہی عالم کردار سے دور رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر سن لو کہ اس امت سے اور اس کی بیداری سے میں اس لیے ڈرتا ہوں کہ اس کی بیداری کا مطلب ایک قوم کی بیداری نہیں بلکہ دنیا کی بیداری کے ہیں۔ اس قوم میں ذات و کائنات دونوں کا رشتہ جڑا ہوا ہے اور جہاں اس میں احتساب نفس ہے وہیں احتسابِ کائنات بھی!
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں!
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 151
عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکار اشرع پیغمبر کہیں
الحذر آئیں پیغمبر سے سو بار الحذر
حا‌فظ ناموس زن ، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلام کیلئے
نے کوئی مغفور و خاقاں نے فقیررہ نشیں!
کرتا ہے دولت کر ہر آلودگی سےپاک صاف
منعمول کو مال و دولت کا بناتا ہے ، میں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکرو عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تایک رات
تم اسے بیگانہ نہ رکھو عالم کردار سے
تابساط زندگی پہ اسکے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اسکے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اسکی آنکھوں سے تماشا ئے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جسکے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے!
(ارمغان حجاز)
شرار بولبی در پے چراغ مصطفوی
بالفرض اگر دنیا کی شیطانی تحریکات اور ابلیسی نظریات کامیاب ہو جاتے ہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ کوئی پروگرام بنانا چاہیں ، تو ان کے مقاصد میں سر فہرست یہی ہو گا کہ ایمان کی اس چنگاری بو بھی بجھا دیا جائے جو خاکستر ہونے کے قریب پہنچ چلی ہے ۔ ان کی سب سے پہلی کوشش یہی ہو گی کہ عرب و عجم کے دلوں سے دینی حمیت اور اسلامی غیرت کو
 

اشتیاق علی

لائبریرین
صفحہ نمبر 152
نکال باہر کیا جائے جن کے سبب ان میں قربانی اور جہاد کا جذبہ کبھی بیدا ر ہو اٹھتا ہے، جس سے وہ باطل سے بغاوت کر کے خدا طلبی کی راہ پر چل پڑتے ہیں ، اقبال نے اپنی نظم "ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام"میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں شیطان کہتا ہے ، جو مجاہد فقر و فاقہ سے بھی نہیں ڈرتا اور نہ موت سے خوف کھاتا ہے ، اسے مصائب سے ڈرانے اور موت سے دھمکانے کے لئے ضروری ہے کہ روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے قلب و قالب سے نکال دو اور عربوں کی مرکزیت اور ان کی سادہ فطرت و عربیت ختم کرنے کے لئے ان میں لادینی افکار و فلسفہ کی اشاعت کرو، اہل حرم سے ان کی دینی میراث غصب کر لو جس کے ذریعہ تم اسلام کو گہوارہ اسلام ۔۔۔ حجاز و یمن ۔۔۔ سے بھی نکال سکتے ہو، اور دیکھو ان شورہ پشت اور سخت جان افغانوں میں دینی غیرت اب تک چلی آ رہی ہے، اس کے لئے تمہیں وہاں کے علما اور دیندار طبقہ سے نمٹنا ہو گا۔
لاکر برہمنوں کو سیاست کے بیچ میں
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو!
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو اسکے کوہ دومن سے نکال دو
اہل حرم سے انکی روایات چھین لو
آہو کر مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ تعلیم ہی ہو سکتی تھی جو مسلم کو اسلامی فکر و روح اور دینی جذبات سے خالی کر کے اس میں نفع اندوزی دلذتیب ، دنیا پرستی اور سطحیت ، مسرت کی ہوس اور دولت کی حرص ، مادہ اور مادہ پرستوں کی عظمت ، اخلاقی انحطاط ، بے اعتمادی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top