بنانے والے کے بنانے پہ صدقے جس نے عالم کے گوشے گوشے میں ایک عجیب ہی توازن قائم کر رکھا ہے۔ شر خیر پہ غالب ہے۔ تیرگی کائنات کے رگ و ریشے میں دوڑ رہی ہے اور روشنی ہے کہ کہیں کہیں جھلملا کے رہ جاتی ہے۔ احمق بڑی تعداد میں پیدا ہوتے ہیں اور داناؤں کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیتے ہیں۔ قہر کی اندھی بجلیاں کڑکتی ہیں تو ارمانوں سے بنے ہوئے نشیمنوں کا حال آنکھوں والوں سے دیکھا نہیں جاتا۔ سچ جتنی دیر میں جوتے کے تسمے باندھتا ہے جھوٹ دنیا کا چکر لگا آتا ہے۔ مگر خیر کے سالک، روشنی کے پروانے، دانائی کے جویندگان، ارمانوں کے دلدادگان اور سچ کے خبطی مرتے نہیں۔ بھلا مر جائیں تو کائنات کی نبض نہ رک جائے؟ یہ پیچ و خم نکل جائے تو ظالم کی درازئِ قامت کا بھرم نہ کھل جائے؟
آج ایک بزعمِ خویش اردو دان شخص کے تنقید کی بابت خیالات نظر سے گزرے تو حالیؔ مرحوم سے لے کر تنویر صاغر تک کئی 'نقاد' یاد آ کے رہ گئے۔ آلِ احمد سرور نے جو دیباچہ محشرِ خیال کا لکھا تھا وہ بھی یاد آیا اور حال ہی میں ایک مقامی شاعر کی کتاب پر ناقدوں کی آرا بھی تصور میں ناچ ناچ گئیں۔ کسی قوم کے ابھرنے سے پہلے ہمیشہ اس کا فن ابھرتا ہے۔ فن کے زوال کے بعد نقد و نظر عروج پاتے ہیں۔ پھر قوم ڈوبتی ہے اور پھر نقد و نظر کی موت واقع ہوتی ہے۔ ہم بحمد اللہ اپنی تاریخ کی اس منزل پہ پہنچ چکے ہیں جس سے آگے کوئی منزل نہیں۔ کوئی کارواں نہیں۔ کوئی سالار نہیں۔ بس ایک دھول اڑ رہی ہے جو راہروؤں کو عبرت دلاتی رہتی ہے کہ
گزرا تھا کبھی میں بھی اسی راہ گزر سے​
مگر گرد کو بیٹھتے کتنی دیر لگتی ہے؟ ہائے۔
حالیؔ کے معترفین کو یاد ہی نہ رہا کہ حالیؔ کون تھا۔ اس نے مقدمہ کیوں لکھا؟ اس کا مقصود کیا تھا؟
کوئی سنے گا اگر میں کہوں کہ حالیؔ علومِ مشرقیہ کے آفتاب کی وہ آخری کرن تھا جو زوالِ مشرق کے اندھیرے میں بھٹک بھٹک گئی؟ کوئی یاد کرے گا اگر میں یاد دلاؤں کہ حالیؔ اس غالبؔ کا شاگرد تھا جو فرنگیوں کے قصیدے لکھنے پر مجبور ہو گیا تھا اور اس سرسید کا معتقد تھا جس کی آنکھیں انگریزی قمقموں میں چندھیا گئی تھیں؟ کوئی جھٹلائے گا اگر میں دعویٰ کروں کہ حالیؔ کا فکر ایک ہاری ہوئی قوم کو غنیم سے اور زیادہ مرعوب کر گیا؟
میں خودفریب نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ غالبؔ کا مقصود اپنی ذاتِ والا صفات کی بقا تھا اور سرسید کا قوم کی بقا۔ حالیؔ کی نیت پہ بھی مجھے رتی بھر شبہ نہیں۔ انھیں ملت کی فلاح اسی میں معلوم ہوئی جو کسی قدر تھی بھی۔ گویا اقتضائے وقت کے لحاظ سے ان بزرگوں کو معذور قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر بعد میں آنے والے اکثر ناقدین کی عقل پر گریہ کرنے سے مجھے کون روکے؟ یہ وہ دیسی مشاطائیں تھیں جنھوں نے حمام ہائےمغرب سے اکتسابِ ہنر کیا تھا۔ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ گیسوئے اردو کی بے بی کٹ پر کائنات کا ضمیر انھیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔
مغربی تنقید کی یہ روایت ایسی چلی، ایسی چلی کہ مشرقی جمالیات اور طرزِ احساس کی بنیادیں ہل گئیں۔ ہماری شاعری کا مہتم بالشان محل دھڑام سے نیچے آ رہا اور مشینی ذہنوں کے غوغے میں اس قیامت کا شور بھی گھٹ کر رہ گیا۔
صاحبو، مشرق اور مغرب کا فرق جانتے ہیں آپ؟ ایک یہودی ربی نے یہ گرہ بڑی سادگی سے کھول کے رکھ دی ہے۔ کہتا ہے کہ علم کی بنیاد شک پر نہیں بلکہ حیرت پر ہے۔ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب کے علم کی بنیاد شک پر ہے اور مشرق کا علم حیرت سے کسبِ فیض کرتا ہے۔ مغرب کا فن عقلی ہے اور مشرق کا وجدانی۔ مغرب کا معیار منطق ہے اور مشرق کا جذبہ۔
برا ہو مرورِ زمانہ کا کہ ہماری روایات ہم سے چھن گئیں۔ ہماری اقدار پامال ہو گئیں۔ ہمارے مقلد ہمارے مجتہدوں سے جیت گئے۔ ہمارے احمق ہمارے صاحبانِ فہم و ذکا پر غالب آ گئے۔ ہم بھول گئے کہ ہم مشرقی ہیں۔ ہم نے مغرب کے آلاتِ تنقید سے اپنے ادب کی ایسی جراحی فرمائی کہ مثلہ کرنے والے بھی شرما جائیں۔
غیرت کا لفظ سنا ہو گا آپ نے۔ مللِ اسلامیہ میں کون کافر ہے جو اس لفظ کا مطلب نہ جانتا ہو؟ اس سے متعلق جذبے سے آشنا نہ ہو؟ کیا وجہ ہے کہ انگریزی میں اس لفظ کا ترجمہ موجود نہیں۔ کبھی غور فرمایا آپ نے اس قسم کی باتوں پر؟
یہ حقیقت جھٹلانی مشکل ہے کہ زبان اور ادب معاشرے اور ثقافت کے زیر بار ہوتے ہیں۔ معاشرے میں جو روایات، اقدار اور رسوم پائی جاتی ہیں وہ لغت کی بھی تشکیل کرتی ہیں اور ادب میں بھی معنویت پیدا کرتی ہیں۔ انگریزی میں، اور غالباً تمام یورپی زبانوں میں، غیرت کا مقابل لفظ اس لیے موجود نہیں کہ وہاں یہ مخصوص طرزِ احساس مفقود ہے۔ طرزِ احساس ہی نہ ہو گا تو اس کا اظہار کہاں ہو گا؟
یہ ایک مثال نہیں۔ دنیا کی ہر زبان میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں نظائر اس قسم کے مل جائیں گے۔ قوم جس طرزِ معاشرت پر قائم ہوتی ہے اور جن اقدار کو استوار کرتی ہے وہی اس کی زبان پیدا کرتی ہیں اور وہی اس کے ادب کو جنم دیتی ہیں۔ انھی سے اس کے جذبات کی نیرنگیاں متشکل ہوتی ہیں اور انھی سے اس کی فکر کے زاویے متعین ہوتے ہیں۔
میں جب یہ دیکھتا ہوں تو ہمارے ہاں مغربی طرزِ تنقید کے استیلا کا جواز میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے اسالیبِ ادب جدا، رنگِ احساس جدا، موضوعات جدا، طرزِ فکر جدا، ہئیتِ ابلاغ جدا، زبان جدا، ثقافت جدا، معاشرت جدا، جغرافیہ جدا، ترجیحات جدا، تاریخِ ادب جدا، ادب پرور جدا، قاری جدا۔ کیا قہر ہے کہ ہئیت پسندی، ساختیات، حقیقت پسندی، پس ساختیات، جدیدیت وغیرہ جیسی الا بلا ہمارے سر منڈھی جا رہی ہے!
میں یہ نہیں کہتا کہ یہ پیمانے غلط ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ پیمانے مشرقی فن کو نہیں ماپ سکتے۔ ناقدینِ غرب کا کمال یہ نہیں کہ انھوں نے یہ معیارات وضع کر ڈالے بلکہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ضرورت کے لحاظ سے انھیں بالکل صحیح طور پر وضع کیا۔ مگر ہماری ضروریات ایسی نہیں ہیں۔ ہمارے مسائل ایسے نہیں ہیں۔ ہمارا ادب ایسا نہیں ہے کہ ان پیمانوں پر ماپا جا سکے۔
دور کیوں جائیے؟ اردو اور فارسی شاعری میں ردیف مروج ہے جو زیادہ تر ادبیاتِ عالم میں شاذ ہے۔ ہم اس کا لطف لیتے ہیں۔ کوئی غزل ردیف کے بغیر ہو تو ویسا لطف نہیں دیتی۔ بلکہ ردیف اگر طویل ہو اور نبھا دی گئی ہو تو ایسی شاعری ہمیں وجد میں لے آتی ہے۔ ہمارے ہاں علمِ قافیہ اس کے حسن و قبح سے بحث کرتا ہے۔ مگر مغربی تنقید اس بارے میں کیا کہتی ہے؟ کمبخت کہہ ہی کیا سکتی ہے؟
دیکھا جائے تو ردیف ہماری چوٹی کی شاعری کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سے جو جمالیات وابستہ ہے وہ ہمی جانتے ہیں۔ ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے۔ مگر یہ کیا ہے کہ ہم اتنے دیوانے ہو گئے ہیں کہ ایک ایسے نظامِ محاکمہ، ایسے طرزِ تنقید پر جان دینے لگیں جو ردیف کی اہمیت، اثرات، ہنر وغیرہ سے بحث ہی نہیں کرتا؟ بحث کر ہی نہیں سکتا کہ یہ اس کے مزاج کے ناموافق ہے؟
اگر آپ بیٹھ کر تھوڑی دیر تدبر فرمائیں تو یہ نکتہ آپ کو ایسا لایعنی معلوم نہیں ہو گا جیسا یہ بادی النظر میں لگتا ہے۔ ورنہ آگے آئیے۔ غزل کو دیکھیے۔ داستان کو لیجیے۔ ہماری یہ اصناف ردی تھیں کیا؟ کیا انھوں نے اخلاق کا درس نہیں دیا؟ کیا انھوں نے ہمیں اور ہمارے اسلاف کو مسحور نہیں کیا؟ کیا انھوں نے ہماری جمالیاتی اور روحانی تشفی نہیں کی؟ سب کچھ کیا۔ پھر یہ بتلائیے کہ غزل کو نقدِ مغرب کس نظر سے دیکھتی ہے؟ اسی نظر سے نا جس سے حالیؔ دیکھتا تھا؟ ابھی ہم نے داستان کی داستان نہیں چھیڑی۔ اس بیچاری کو تو مغربی تنقید سرے سے جہالت کا مرقع خیال کرتی ہے اور موجودہ زمانے میں اس کا جواز کالعدم قرار دیتی ہے۔
مغرب کی تنقیدی روایت میں ہئیت نہایت اہم رہی ہے۔ مغرب کا کلاسیک ادب تو ایک طرف رہا، اس کے رومانی شہکار بھی کسی نہ کسی ہئیت کے کسی نہ کسی طور پر اسیر رہے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اکثر صنف کا اعتبار بھی اٹھا دیا گیا ہے۔ قصائد میں غزل کا بار پانا اس کی ایک بڑی اور موٹی مثال ہے۔
مغربی کلاسیک پاروں میں چند اصول محکمات کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے بالکل الٹ واقعہ ہوا ہے۔ عروض جیسے مقتدر اور وقیع علم میں زحافات کا پورا شعبہ بلغائے عرب کی بے راہرویوں سے نمو پذیر ہوا ہے جس سے ایسی اور بےراہرویوں کا جواز نکالا جاتا رہا ہے۔ ہمارے کلاسیک ادب کو مغرب کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ چوٹی کا رومانی ادب معلوم ہوتا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے۔ اور ہم ہیں کہ پھر بھی مشرق کے ادب کو مغرب کی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔ افسوس!
قصور مغرب کی تنقیدی روایت کا نہیں۔ قصور ہمارے ان گاؤدی اور نیم خواندہ ناقدین کا ہے جو مغربی تنقید کو پڑھتے ہوئے اور پڑھ کر نہ سمجھتے ہوئے ہمارے ادب پر مسلط کر دیتے ہیں۔ ان اندھے مقلدین سے کون الجھے؟ ان کے پاس ڈگریاں ہیں۔ انھوں نے پڑھنے کی سند لے رکھی ہے۔ انھوں نے مغرب سے استناد فرمایا ہے۔ یہ ارسطو سے لے کر ایلیٹ تک اور لانجائنس سے لے کر دریدا تک ان گنت نام گنوا سکتے ہیں۔ آپ ایسا کر سکتے ہیں؟
پھر بھیڑ چال کے ماہرین کی ایک اور جماعت ہے جو مغربی تنقید سے مرعوب تو ہے مگر پورے طور پر مستفید نہیں ہو سکی۔ انھوں نے بھڑاس یوں نکالی ہے کہ ادب کو نصاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ ایک محدود سا ذخیرۂِ الفاظ ہے جس کو جا و بیجا اظہارِ خیال میں بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اس ذخیرۂِ الفاظ کی مثالیں آپ کو عصرِ حاصر کی گھٹیا سے گھٹیا اور عمدہ سے عمدہ کتب کے مقدموں اور تبصروں میں یکساں طور پر مل جائیں گی۔ "اچھوتا رنگِ سخن، منفرد طرزِ احساس، معاشرتی ناہمواریوں کی تلخی، جدید لب و لہجہ" وغیرہ وغیرہ۔
اس قحط الرجال اور لاطائل تگاپو نے ادب فہمی کے میدان میں ایک بدبودار قسم کی تکرار اور جمود کو جنم دیا ہے۔ تنقید کی مغلق اور کریہہ لفظیات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو مردگئِ افکار اور مقلدانہ کورذوقی کا علاج کون کرے؟ ہمارے ہاں ابھی تک میرؔ کے بہتر نشتروں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ ہر ناقد آپ کو اس بات کا مدعی ملے گا کہ وہ غالبؔ کی عظمت کے رازوں کا امین ہے۔ اس ریا اور تصنع کے پردے جنھیں چاک کرنے چاہئیں تھے وہ آپ سب سے بڑھ کر ایسی خودفریبیوں کے قتیل ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میرؔ اور میرؔ کی زبان کا زمانہ گزر چکا۔ میرؔ کی جمالیات اور فہمِ شعر کا دور بھی لد گیا۔ معدودے چند افراد کے سوا، جو ادبی محافل اور جرائد وغیرہ میں اپنی دقیانوسیت کے سبب راندگانِ درگاہ کی حیثیت رکھتے ہیں، آج کوئی شخص بربنائے اخلاص میرؔ کو پسند نہیں کر سکتا۔ ہم میں اور میرؔ میں بہت کم چیزیں مشترک ہیں۔ ہم نہ اس کی زبان بولتے ہیں، نہ اس کے معاشرے میں رہتے ہیں، نہ اس کی نزاکتوں کو نزاکتیں سمجھتے ہیں، نہ اس کی ثقافت کی باریکیوں کے محرم ہیں اور نہ اس کے طرزِ اظہار سے آشنائی رکھتے ہیں۔ پھر یہ کیا حماقت ہے کہ میرؔ میرؔ میرؔ ہوتی رہے۔ وہ بڑا شاعر تھا۔ ہے نہیں۔ اب اس کی تعریف کرنے کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے پیرس کا کوئی باشندہ جس نے کبھی ملتان نہ دیکھا ہو، وہاں گلگشت کی گولی والی بوتل کی مدح میں رطب اللسان ہو جائے۔
مجھے علم ہے کہ میں کتنی سخت باتیں کر رہا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ مجھی پر کوتاہ علمی کا الزام لگنے والا ہے۔ مگر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا؟ میرؔ کا دیوان اٹھائیے۔ گلی میں جا کر اردو کے کسی عام سے قاری کو میرؔ کا ذکر کیے بغیر کچھ اشعار سنائیے۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ میں نے جب میرؔ کا یہ شعر پڑھا تھا
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا؟​
تو میں قہقہے مار کے ہنسا تھا۔ بعد کو معلوم ہوا کہ یہ بھی منجملہ بہتر نشتروں کے شمار ہوتا ہے۔ اس کی المناکی کی تاثیر پر حجتیں موصول ہوئیں تو خود پر ادبیت طاری کرنے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ ادراک ہوا کہ یہ سعی لاحاصل ہے۔ کس کس پر ادبیت طاری کرواؤ گے؟ کس کس کو زمانے کا پہیہ الٹا گھما کے میرؔ کے زمانے میں دھکیلو گے؟ حذر بکنید۔
یہی معاملہ غالبؔ کا بھی ہے۔ ان کے ہاں جو نکتہ آفرینی اور نازک خیالی ہے اس سے لطف اندوز ہونے کا مذاق مدتوں پہلے اٹھ چکا ہے۔ ہمیں اب غالبؔ کے قصیدے یاد آئے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ ہماری زبان کی موجودہ کیفیت اور ہمارے آج کے ذوق سے جو کلاسیکی شاعر سب سے زیادہ قریب ہے وہ داغؔ ہے۔ اس کا کلام ہمارے لیے زودفہم بھی ہے اور دلچسپ و دلنشین بھی۔ اس کی زبان ہماری جیسی ہے۔ اس کا طرزِ احساس اور اسلوبِ اظہار ہمارے جیسا ہے۔ اس نے اپنے بعد کے تمام اردو شاعروں کو شعوری یا غیرشعوری طور پر راہ دکھلائی ہے۔ اس کے زمانے میں اور ہمارے زمانے میں مغرب کا غلبہ مشترک ہے۔ مگر اس کو تو کوئی تب پوچھے جب میرؔ و غالبؔ سے فرصت ملے۔ اور فرصت کیوں ملے جب مکھی پہ مکھی مارنا دستارِ فضیلت حاصل کرنے کے لیے لازم ہو؟
یہ غالبؔ کا عمرانیاتی مطالعہ، میرؔ کی شاعری کی نفسیات، سوداؔ کی ساختیات وغیرہ جیسی بیہودگیاں کب ختم ہوں گی؟ اردو شاعری کو اس کے ماضی اور مغرب کی تنقید سے ماورا ہو کر کب دیکھا جائے گا؟ اردو ادب پر آج کے معاشرے اور آج کی اقدار کی روشنی میں کب نظرِ التفات ڈالی جائے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو سنپولیوں کی طرح میری آستینوں سے لپک لپک کر میرے سینے پر ڈستے رہتے ہیں۔ مگر ان کا جواب میرے پاس نہیں۔ میرے بس میں نہیں!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
خوبصورت تحریر ہے راحیل صاحب اور خوب نشاندہی کی ہے آپ نے۔

سچ پوچھیے تو کافی عرصے سے میں نے تنقید پڑھنی چھوڑ رکھی ہے وجہ اُس کی وہ بھاری بھر کم مغربی اصطلاحات اور ان کا بے جا استعمال ہے جو ہمارے ناقد زبردستی ہمارے سروں پر تھوپ دیتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
بہت اعلیٰ تحریر! یہ درست ہے کہ مغرب میں ان تنقیدی تصورات کی ضرورت بہرصورت موجود تھی تاہم یہ بھی درست ہے کہ انہیں ہمارے یہاں زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں تک میر و غالب کی زبان اور اس کے زندہ نہ ہونے کا معاملہ ہے، اس پر شاید بعضوں کو تحفظات ہوں۔ غالب کا معاملہ تو خیر کافی حد تک واضح ہے۔ آپ پچھلے تین چار ماہ کے اخبارات ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ غالب کے اشعار کتنے ہی کالموں کی زینت بنتے ہیں اور غالب کے کئی مصرعے اخباری کالموں کا عنوان بنتے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا معاملہ ہے، اس کا ادب سے تعلق ایسا گہرا نہیں ہوا کرتا۔ تاہم شاعر کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اک ذرا زیادہ پڑھے لکھے طبقے میں مقبول رہے، باقیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں تاہم غالب اب بھی زندہ ہے اور شاید سب سے زیادہ مقبول بھی۔ البتہ، آپ سے اختلاف کرنا ایسا آسان نہیں اور بہت ممکن ہے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، ان مفاہیم تک میری رسائی نہ ہوئی ہو۔ اسے میری نالائقی خیال کیجیے گا، شکریہ!
 

نمرہ

محفلین
عقل اوروجدان کو اتناصاف صاف مشرق ومغرب میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا میرے خیال میں۔ آ پ کے اس نکتے سے متفق ہوں کہ جمالیات کے واضح فرق کے باعث مغربی اصولوں کو من و عن ہمارے ادب پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اردو شاعری بالخصوص غزل کا انگریزی ترجمہ کرنا تو میرے نزدیک پارس پتھر ڈھونڈنے کی طرح کی مہم ہے، اگر ہم معنی الفاظ اکٹھے کر بھی لیے کسی نے تو وہ بے جان اور روح سے خالی ہوں گے۔ اردو ادب کی تنقید سے مجھے کچھ خاص واسطہ نہیں لیکن اگر آپ کی شکایت درست ہے تو اس میں نئی بات کون سی ہے؟ ہم سب کچھ امپورٹ ہی تو کیا کرتے ہیں۔ لگتا ہے اب مٹی جھاڑ کر ارسطو سے ایلیٹ تک سبھوں سے ملاقات کرنا پڑے گی۔
میر کے ساتھ صیغہ ماضی استعمال کرنے پر تو اچھا خاصا فساد کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن آزادی رائے کا نظریہ آڑے آ جاتا ہے۔ اور میر کی زبان آج کل کے حساب سے کچھ ٹیڑھی میڑھی سہی لیکن غالب تو بھئی بہت لوگ سمجھتے ہیں۔
آج کے معاشرے اور آج کی اقدار میں جب روشنی ڈالی جائے تو پہلا حق آج کل کے ادب کا نہیں بنتا؟
 
اس تحریر میں مزید بات کرنے کو بہت کچھ ہے لیکن ایک تو خرابی صحت اور دوسرا کمپیوٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے فی الحال بہت کچھ لکهنے سے معذور و قاصر ہوں۔
لیکن بہت خوب مقدمہ لکها۔ اعلیٰ(y)
۔۔۔۔۔
اس لڑی میں تهوڑی سی گفتگو کے بعد آپ کی خاموشی سے مجهے اندازہ تها کہ اگلے ایک دو روز میں ایسی کوئی تحریر آپ کی طرف سے آنے والی ہے لیکن آپ نے تو جهٹ وساہ نہیں کهایا، دستی مکے او:p
 

نور وجدان

لائبریرین
بہت اعلیٰ تحریر! یہ درست ہے کہ مغرب میں ان تنقیدی تصورات کی ضرورت بہرصورت موجود تھی تاہم یہ بھی درست ہے کہ انہیں ہمارے یہاں زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاں تک میر و غالب کی زبان اور اس کے زندہ نہ ہونے کا معاملہ ہے، اس پر شاید بعضوں کو تحفظات ہوں۔ غالب کا معاملہ تو خیر کافی حد تک واضح ہے۔ آپ پچھلے تین چار ماہ کے اخبارات ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ غالب کے اشعار کتنے ہی کالموں کی زینت بنتے ہیں اور غالب کے کئی مصرعے اخباری کالموں کا عنوان بنتے ہیں۔ جہاں تک عام آدمی کا معاملہ ہے، اس کا ادب سے تعلق ایسا گہرا نہیں ہوا کرتا۔ تاہم شاعر کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اک ذرا زیادہ پڑھے لکھے طبقے میں مقبول رہے، باقیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں تاہم غالب اب بھی زندہ ہے اور شاید سب سے زیادہ مقبول بھی۔ البتہ، آپ سے اختلاف کرنا ایسا آسان نہیں اور بہت ممکن ہے کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، ان مفاہیم تک میری رسائی نہ ہوئی ہو۔ اسے میری نالائقی خیال کیجیے گا، شکریہ!

اس لمبی چوڑی سی تحریر کا مفہوم اتنا سا ہے مغرب کی بات نہ کر ! مغرب کا فن عقل سے اور مشرق کا جذبے سے چلتا ہے ۔ مغرب میں قابلیت وجدانی صلاحیت کو براوئے کار نہیں لاتی ہے جبکہ غالب و میر کے ہوتے ہوئے نیا طرز بنانے کی ضرورت نہیں ہے ایسا کیا تو ذوق کا حال دیکھئے !
 

فلک شیر

محفلین
تنقید میرا موضوع نہیں ، دلچسپی واجبی سی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی وجہ بھی غالباً یہی ہے، کہ زندہ کام اس میں ہو ہی نہیں رہا، جو فکری سرمایہ کا درجہ پا سکے ۔ وہی تاریخ وفاتوً ں کی تحقیق اور چچڑی ہڈیوں کی ری ایگزیبشن
عمدہ تحریر۔
 
تمام احباب کا پسندیدگی اور آرا پر بےحد شکریہ۔ :redheart::redheart:
میں آپ ہی کے لیے لکھتا ہوں اور آپ ہی کی وجہ سے لکھتا ہوں۔ میری ممنونیت صرف برائے شعر گفتن نہیں! :inlove:
آپ پچھلے تین چار ماہ کے اخبارات ہی اٹھا کر دیکھ لیں۔ غالب کے اشعار کتنے ہی کالموں کی زینت بنتے ہیں اور غالب کے کئی مصرعے اخباری کالموں کا عنوان بنتے ہیں۔
بندہ پرور، یہی تو میرا نکتہ ہے کہ یہ ستائش بےمعنی ہے جب تک شعر آپ کے حواس پر طاری نہ ہو جائے۔ اور شعر کی اس قوت سے اثرپذیر ہونے کے لیے لازم ہے کہ آپ شعر کے ماحول میں زندہ ہوں جو ہم نہیں ہیں۔:noxxx:
پس ثابت ہوا کہ غالب کا زمانہ ابھی باقی ہے:LOL:
:laughing::laughing::laughing:
مجھے غالبؔ سے کوئی کد تو نہیں۔ میں نے تو اردو شاعری کا مطالعہ اقبالؒ سے شروع کیا اور دوسرا شاعر غالبؔ پڑھا۔ والد غالبؔ کے معتقد تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ غالبؔ پرستی مجھے ورثے میں ملی ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ میری رائے میں غالبؔ کے دور اور ہمارے دور کے درمیان بے شمار سماجی، ثقافتی، لسانی وغیرہ خلیجوں کے حائل ہو جانے کے باعث حقیقی غالبؔ فہمی اب ممکن نہیں رہی۔
عقل اوروجدان کو اتناصاف صاف مشرق ومغرب میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا میرے خیال میں۔
:notworthy: تعمیم بھی کوئی شے ہوتی ہے!
میر کے ساتھ صیغہ ماضی استعمال کرنے پر تو اچھا خاصا فساد کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن آزادی رائے کا نظریہ آڑے آ جاتا ہے۔
آپ کی عنایت ہے
وگرنہ ہم تو توقع زیادہ رکھتے ہیں​
میرا تبصرہ ادھار ہے۔
ادھار محبت کی قینچی ہے۔:love-over:
سند رہی! :in-love:
جدت اور روایت پسندی کے دور میں روایت پسندی کی جانب اکساتی تحریر
ٹھپا!;)
سچ پوچھیے تو کافی عرصے سے میں نے تنقید پڑھنی چھوڑ رکھی ہے وجہ اُس کی وہ بھاری بھر کم مغربی اصطلاحات اور ان کا بے جا استعمال ہے جو ہمارے ناقد زبردستی ہمارے سروں پر تھوپ دیتے ہیں۔
تنقید میرا موضوع نہیں ، دلچسپی واجبی سی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی وجہ بھی غالباً یہی ہے، کہ زندہ کام اس میں ہو ہی نہیں رہا، جو فکری سرمایہ کا درجہ پا سکے ۔ وہی تاریخ وفاتوً ں کی تحقیق اور چچڑی ہڈیوں کی ری ایگزیبشن
زیادہ تر یوں ہے کہ تنقید کو ہمارے ہاں نہ ادیب پڑھتے ہیں نہ قاری۔ تنقید نگار خود بھی نہیں پڑھتے جیسا کہ ان کے مبلغ علم سے معلوم ہوتا ہے۔ رہے پروف ریڈر تو انھیں ان کے بال بچوں کی خاطر معاف کر دینا چاہیے۔ آخری گروہ ہم جیسے سوختہ دلوں کا ہے جنھیں دل جلانے کے لیے ہر دم نئی چنگاری درکار ہوتی ہے، وہ بھلے تنقید ہو یا صالح ظافر! :rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:

محمد امین

لائبریرین
راحیل بھائی، آپ کی نظم کی طرح نثر بھی لاجواب ہوتی ہے، بہت خوبصورت لکھتے ہیں آپ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ اس تحریر سے رشید احمد صدیقی کی یاد آگئی نہ جانے کیوں۔

ویسے کہیں کہیں آپ کی باتوں سے تھوڑا اختلاف بھی محسوس ہوا لیکن میں خود کو تنقید اور ادب کے میدان میں بے زبان پاتا ہوں اس لیے کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ بس صرف اتنا کہوں گا کہ کسی بھی ادب یا کسی بھی میدان کی قدآور شخصیات کا زمانہ کبھی نہیں گذرتا۔ میر و غالب اردو شاعری کے بلند ترین ناموں کی فہرست کے بھی اولین نام ہیں۔ جس طرح انگریزی ادب میں شیکسپئیر، ورڈزورتھ وغیرہ کے حوالے روزمرہ کا حصہ بن گئے ہیں تو میر و غالب بھی زندہ رہیں گے، لوگ جا بجا، جائز و ناجائز طور پر میر و غالب کے نام کی روزی روٹی بھی کھاتے رہیں گے کہ دنیا کا یہی انداز ہے۔

اسی طرح تو ہمارے یہاں اقبال کا منجن سونے کے بھاؤ بکتا ہے۔ اقبال کا یہ مطالعہ اقبال کا وہ مطالعہ، اقبال کی فکر، نوجوانوں کے لیے ، بچوں کے لیے، شاہین کے لیے، کرگس کے لیے۔۔ اقبال کو بھی صرف لہو گرم رکھنے کے لیے "پینے" لگے ہیں ہم لوگ۔۔۔

رہی بات مغرب کی، تو مغربی فلسفے، تنقید وغیرہ سے استفادہ اچھی بات ہے۔ میں تو غیر ملکی ادب کا اچھا ترجمہ کرنے کے حق میں ہوں کہ ہمارے اکثر عوام انگریزی نہیں پڑھ سکتے، بشمول میرے۔ اور پھر ہمارے بڑوں نے بھی غیر ملکی نقد و نظر اور ادب سے استفادہ کیا ہوگا تو اثرات یقیناََ منتقل ہونگے۔ جیسے کہ اقبال نے بھی کافی منظومات کے تراجم کیے، فیض نے روسی ادب سے اکتساب کیا، وغیرہ۔ اس سے اردو دانوں کو خاصی بھانت بھانت کی چیزیں پڑھنے کو ملیں کو کہ تجربے میں اضافے کا ضامن بنتا ہے۔ اور پھر یہ کہ دوسرے ملکوں کے علم و ادب سے روابط رکھنے میں اپنا بھی فائدہ ہے کہ آپ اپنا کام دوسری مارکٹوں میں ترجمہ کر کے پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن میں آپ کی اس بات سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں کہ ادب، زبان سے اور زبان ثقافت سے جڑی ہوتی ہے۔ اور آپکے ہی مطابق ہم نے کوے کی مانند ہنس کی چال چل کر اپنا بیڑا غرق کرلیا ہے۔ یا شاید ہم دوسروں سے مرعوب ہوجاتے ہیں، دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں اور پھر ہم اپنی روایات و ثقافت کو بھول جاتے ہیں، پھر ملغوبہ تیار ہوتا ہے۔

بہرحال بہت عرصے بعد کوئی بہت ہی اچھی تحریر پڑھنے کو ملی، اس کے لیے آپکا شکریہ۔ اور مزید لکھتے رہیں اور ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر گرد جھاڑتے رہیں۔۔۔ جزاک اللہ۔
 

فرقان احمد

محفلین
بندہ پرور، یہی تو میرا نکتہ ہے کہ یہ ستائش بےمعنی ہے جب تک شعر آپ کے حواس پر طاری نہ ہو جائے۔ اور شعر کی اس قوت سے اثرپذیر ہونے کے لیے لازم ہے کہ آپ شعر کے ماحول میں زندہ ہوں جو ہم نہیں ہیں۔:noxxx:

صاحب! آپ درست فرماتے ہوں گے۔ فقیر کی گزارش فقط یہ ہے کہ گو ہم غالب کے عہد میں زندہ نہیں ہیں تاہم غالب ہمارے عہد میں بھی زندہ ہے۔ سلامت رہیں محترم!
 

arifkarim

معطل
اس لمبی چوڑی سی تحریر کا مفہوم اتنا سا ہے مغرب کی بات نہ کر ! مغرب کا فن عقل سے اور مشرق کا جذبے سے چلتا ہے ۔ مغرب میں قابلیت وجدانی صلاحیت کو براوئے کار نہیں لاتی ہے جبکہ غالب و میر کے ہوتے ہوئے نیا طرز بنانے کی ضرورت نہیں ہے ایسا کیا تو ذوق کا حال دیکھئے !
:bee::bee::bee:
 
بہت خوب مقدمہ لکها۔ اعلیٰ(y)
بہت شکریہ۔ خدا جانے کیسے آپ کے مراسلے کا جواب لکھنے سے چوک گیا۔ آپ سے معافی اور اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں!
ایک تو خرابی صحت اور دوسرا کمپیوٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے فی الحال بہت کچھ لکهنے سے معذور و قاصر ہوں۔
اللہ شفا عطا فرمائے۔ صحت روزوں کی وجہ سے خراب ہے یا افطاریوں کی وجہ سے؟
اس لڑی میں تهوڑی سی گفتگو کے بعد آپ کی خاموشی سے مجهے اندازہ تها کہ اگلے ایک دو روز میں ایسی کوئی تحریر آپ کی طرف سے آنے والی ہے لیکن آپ نے تو جهٹ وساہ نہیں کهایا، دستی مکے او:p
یہ تحریر اسی وقت شائع کر دی جاتی اگر کچھ رکاوٹیں پیدا نہ ہو جاتیں۔ لیکن ایک طرح سے اچھا ہو گیا کہ میری توجہ بٹ گئی اور جذبات کچھ سرد پڑ گئے۔ دوبارہ لکھنے بیٹھا تو شعلوں کی جگہ چنگاریوں نے لے لی تھی۔ :LOL::LOL:
بہرحال بہت عرصے بعد کوئی بہت ہی اچھی تحریر پڑھنے کو ملی، اس کے لیے آپکا شکریہ۔ اور مزید لکھتے رہیں اور ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر گرد جھاڑتے رہیں۔۔۔ جزاک اللہ۔
بہت محبت، امین بھائی!
جس طرح انگریزی ادب میں شیکسپئیر، ورڈزورتھ وغیرہ کے حوالے روزمرہ کا حصہ بن گئے ہیں تو میر و غالب بھی زندہ رہیں گے
روزمرہ سے انھیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ مگر ان کی تفہیم اب محال ہو گئی ہے۔ عصرِ حاضر کے زیادہ تر ناقدین جب میرؔ و غالبؔ کی ستائش کرتے ہیں تو اس سے ان کے کلام کی عظمت ثابت کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک طرح سے اپنی لیاقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہمیں کلاسیک ادب کا فہم حاصل ہے۔ حالانکہ کلاسیک تو ایک طرف رہا، کسی بھی زمانے کا ادب یا فن کسی دوسرے زمانے میں پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔
ان شعرا کو میں اس لیے عظیم کہتا ہوں کہ ان کی عظمت کی گواہی وہ لوگ دیتے ہیں جو انھیں سمجھ سکتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ مثلاً چھوٹا غالب ان کے کلام کی سائنسی سے لے کر روحانی تک شرحیں لکھا کرتے ہیں۔ :)
فقیر کی گزارش فقط یہ ہے کہ گو ہم غالب کے عہد میں زندہ نہیں ہیں تاہم غالب ہمارے عہد میں بھی زندہ ہے۔
خوب صورت جملہ ہے۔ مگر خوب صورت عورتوں کی طرح کسی منطق کا پابند نہیں معلوم ہوتا!
مجھے آپ کے احساسات کا پاس ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ میں غالبؔ کا دشمن نہیں۔ مجھ میں یگانہؔ کا سا علم اور تبحر نہیں اور ذوقؔ کی سی کورذوقی بھی نہیں کہ مجھے شہنشاہِ سخن سے پرخاش کا خیال ہو۔
تکرار کے لیے معذرت مگر میرا نکتہ فقط اس قدر ہے کہ ادب کی معنویت زمان و مکان کی قیود سے آزاد نہیں ہوتی۔ خاص طور پر مشرقی ادب اور اس کی غزل جیسی اصناف کی۔ ہم شروح سے ان کے معانی تک تو رسائی حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ غزل کے ترجمے کے مترادف بات ہے۔ شاعری صرف معنیٰ تو نہیں ہوتی نا؟ ہاں مغرب چونکہ ادب کو دل کی بجائے دماغ سے پڑھتا ہے سو وہاں معانی کو اہمیت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے وہ تراجم کو بھی کچھ ایسا برا نہیں خیال کرتے۔
مثلاً دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر ایک ایرانی رسم کو جانے بغیر پلے نہیں پڑتا۔ اب فرض کیجیے کہ کسی شارح نے آپ کو وہ رسم بھی بتلا دی۔ مگر کیا آپ اس شعر سے ویسا لطف اٹھا سکتے ہیں جیسا وہ لوگ اٹھائیں گے جو اس رسم کا حصہ رہے ہوں؟ جو اس رسم کے تمام پہلوؤں سے ذاتی طور پر واقف رہے ہوں؟ قطعاً نہیں۔ اور صرف خوبیوں کے لطف ہی پر موقوف نہیں بلکہ اگر غالبؔ نے اس رسم کے بیان میں کوئی خطا کھائی ہے تو آپ تو وہ خطا پکڑ بھی نہیں سکیں گے!
یہ ہے وہ رکاوٹ جس کے باعث میں آج کے تقریباً تمام مداحینِ غالبؔ کو خودفریب یا پھر ریاکار خیال کرتا ہوں۔ :sneaky::sneaky:
---
وارث بھائی کو تو اطلاع ہے اس بحث کی۔ فاتح بھائی کی رائے بھی مطلوب ہے کہ غالبؔ کے معاملے میں شاید وہ فرقان بھائی سے بھی زیادہ حساس ہیں! :):):)
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
وارث بھائی کو تو اطلاع ہے اس بحث کی۔ فاتح بھائی کی رائے بھی مطلوب ہے کہ غالبؔ کے معاملے میں شاید وہ فرقان بھائی سے بھی زیادہ حساس ہیں! :):):)
غالب سے محبت اپنی جگہ لیکن آپ نے جس رنگ میں بات کی ہے اس سے بھی اتفاق ہے۔
ہم سخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرف دار نہیں
 

محمد امین

لائبریرین
روزمرہ سے انھیں کوئی نہیں نکال سکتا۔ مگر ان کی تفہیم اب محال ہو گئی ہے۔ عصرِ حاضر کے زیادہ تر ناقدین جب میرؔ و غالبؔ کی ستائش کرتے ہیں تو اس سے ان کے کلام کی عظمت ثابت کرنا مقصود نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک طرح سے اپنی لیاقت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہمیں کلاسیک ادب کا فہم حاصل ہے۔ حالانکہ کلاسیک تو ایک طرف رہا، کسی بھی زمانے کا ادب یا فن کسی دوسرے زمانے میں پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔
ان شعرا کو میں اس لیے عظیم کہتا ہوں کہ ان کی عظمت کی گواہی وہ لوگ دیتے ہیں جو انھیں سمجھ سکتے تھے۔ اس لیے نہیں کہ مثلاً چھوٹا غالب ان کے کلام کی سائنسی سے لے کر روحانی تک شرحیں لکھا کرتے ہیں۔ :)

ہاہا۔۔۔ چھوٹا غالب کی سائنسی اور روحانی شروح سے کیا اختلاف ہے آپ کو؟

اور یہ بات بالکل درست ہے کہ کچھ بونے لوگ قدآور لوگوں کے کندھوں پر کھڑے ہو کر اپنا قد بڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی مثالیں آپ کو سائنس سے لے کر قدیم شاعری تک مل جائیں گی۔ آجکل تو جگہ جگہ یار لوگ رعب جھاڑنے کو قدمائے عرب کے نام ایسے لیتے ہیں جیسے گھر کے لونڈی غلام ہوں۔ لیکن ان سے کچھ مختلف حقیقی طالبِ علم اور محقق بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے عزیز دوست حسان خان فارسی کے عاشق ہیں اور جو بھی فرماتے ہیں مستند فرماتے ہیں۔

کسی اگلے زمانے کے بزرگوں کے کلام یا شرحِ صدر کے تذکروں سے ان کیفیات کا احاطہ تو واقعی شاید ممکن نہ ہو لیکن اس سے کلی طور پر احتراز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ مشاہیر پر ایک وقت تک جتنا لکھا جا چکا ہوتا ہے، اس سے زیادہ لکھنے میں صرف تصنع اور زبردستی و بھرتی کی تنقید و شروح ہی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر غالب کے بارے میں جتنا کچھ کالی داس گپتا، حالی اور مولانا مہر وغیرہ لکھ چکے ہیں، اس سے زیادہ اور کوئی نئی بات اگر محمد امین لکھے تو اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہ ہوگا۔ میں یہاں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
مجھے آپ کے احساسات کا پاس ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ میں غالبؔ کا دشمن نہیں۔ مجھ میں یگانہؔ کا سا علم اور تبحر نہیں اور ذوقؔ کی سی کورذوقی بھی نہیں کہ مجھے شہنشاہِ سخن سے پرخاش کا خیال ہو۔
تکرار کے لیے معذرت مگر میرا نکتہ فقط اس قدر ہے کہ ادب کی معنویت زمان و مکان کی قیود سے آزاد نہیں ہوتی۔ خاص طور پر مشرقی ادب اور اس کی غزل جیسی اصناف کی۔ ہم شروح سے ان کے معانی تک تو رسائی حاصل کر سکتے ہیں مگر یہ غزل کے ترجمے کے مترادف بات ہے۔ شاعری صرف معنیٰ تو نہیں ہوتی نا؟ ہاں مغرب چونکہ ادب کو دل کی بجائے دماغ سے پڑھتا ہے سو وہاں معانی کو اہمیت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے وہ تراجم کو بھی کچھ ایسا برا نہیں خیال کرتے۔
مثلاؔ دیوانِ غالبؔ کا پہلا شعر ایک ایرانی رسم کو جانے بغیر پلے نہیں پڑتا۔ اب فرض کیجیے کہ کسی شارح نے آپ کو وہ رسم بھی بتلا دی۔ مگر کیا آپ اس شعر سے ویسا لطف اٹھا سکتے ہیں جیسا وہ لوگ اٹھائیں گے جو اس رسم کا حصہ رہے ہوں؟ جو اس رسم کے تمام پہلوؤں سے ذاتی طور پر واقف رہے ہوں؟ قطعاً نہیں۔ اور صرف خوبیوں کے لطف ہی پر موقوف نہیں بلکہ اگر غالبؔ نے اس رسم کے بیان میں کوئی خطا کھائی ہے تو آپ تو وہ خطا پکڑ بھی نہیں سکیں گے!
یہ ہے وہ رکاوٹ جس کے باعث میں آج کے تقریباً تمام مداحینِ غالبؔ کو خودفریب یا پھر ریاکار خیال کرتا ہوں۔
اکیسویں صدی میں لکھنے والوں کے سامنے نئے نئے مضامین ہیں اور یہ بات سچ ہے کہ جس عہد میں ہم زندہ ہوتے ہیں، ہمیں زیادہ تر اسی عہد سے متعلقہ مسائل پر توجہ مرکوز رکھنا ہوتی ہے۔ ظاہری بات ہے، شاعر بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور مروجہ علوم و فنون سے وہ بھی فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے کلام پر اپنے زمانے کے اثرات بہرصورت موجود رہتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ایک بڑا شاعر، اسی لیے بڑائی کی مسند پر فائز ہوتا ہے یا اسے یہ اعزاز بخشا جاتا ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں اپنی معنویت برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ کیا غالب آج کے عہد میں زندہ نہیں ہے؟ اگر غالب آج بھی زندہ ہے تو نقادوں کی وجہ سے نہیں، اپنے لازوال کلام کے باعث۔ بہرصورت، آپ اختلاف کا حق رکھتے ہیں۔ شاید آپ بھی اس بات کوتسلیم کرتے ہیں تاہم آپ کے سوچنے کا انداز اک ذرا مختلف ہے۔ شاید میں آپ کی بات پوری طرح سمجھ نہ پایا۔ اگر ایسا ہوا ہے تو معذرت قبول فرمائیے گا۔
 
ہم سخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرف دار نہیں
تعجب خیز اور خوش گوار ردِعمل۔ شکریہ، فاتح بھائی!
ہاہا۔۔۔ چھوٹا غالب کی سائنسی اور روحانی شروح سے کیا اختلاف ہے آپ کو؟
چھوٹا غالبؔ بہت اچھے انسان ہیں۔ ان سے کچھ ایسا اختلاف نہیں ہمیں۔ بس وہ غالبؔ کی پرستش میں حد سے گزر جانے کے قائل ہیں جبکہ ہم جیسے آزادوں سے تو خدا کی پرستش بھی کماحقہ نہیں ہوتی!
کچھ مختلف حقیقی طالبِ علم اور محقق بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ہمارے عزیز دوست حسان خان فارسی کے عاشق ہیں اور جو بھی فرماتے ہیں مستند فرماتے ہیں۔
بے شک!
میر کے ساتھ صیغہ ماضی استعمال کرنے پر تو اچھا خاصا فساد کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن آزادی رائے کا نظریہ آڑے آ جاتا ہے۔ اور میر کی زبان آج کل کے حساب سے کچھ ٹیڑھی میڑھی سہی لیکن غالب تو بھئی بہت لوگ سمجھتے ہیں۔
اس تحریر میں مزید بات کرنے کو بہت کچھ ہے
اس لمبی چوڑی سی تحریر کا مفہوم اتنا سا ہے مغرب کی بات نہ کر !
ظاہری بات ہے، شاعر بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور مروجہ علوم و فنون سے وہ بھی فیض حاصل کرتا ہے اور اس کے کلام پر اپنے زمانے کے اثرات بہرصورت موجود رہتے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ایک بڑا شاعر، اسی لیے بڑائی کی مسند پر فائز ہوتا ہے یا اسے یہ اعزاز بخشا جاتا ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں اپنی معنویت برقرار رکھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ کیا غالب آج کے عہد میں زندہ نہیں ہے؟ اگر غالب آج بھی زندہ ہے تو نقادوں کی وجہ سے نہیں، اپنے لازوال کلام کے باعث۔
میرا خیال ہے مجھے کھل کر بات کر لینی چاہیے۔ ورنہ ابہام رہے گا۔
یہ خیال کہ ادب کی معنویت زمان و مکان سے آزاد نہیں، میرے ہاں ایک حادثے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا جو رفتہ رفتہ مشاہدات و مطالعات کی روشنی میں ترقی پاتا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ دو تین سال ادھر ایک صاحب سے آشنائی ہوئی۔ موصوف بلا کے ذہین، پڑھے لکھے اور لائق شخص تھے۔ وہ ہندوپاک کے چوٹی کے علمائے دین کے شاگرد رہے تھے اور عربی اور فارسی پر غیرمعمولی دستگاہ کے حامل تھے۔ کسی ذہنی و قلبی انقلاب کے نتیجے میں دہریے ہو گئے اور غالباً تاحال سنبھل نہیں پائے۔
صاحبِ مذکور نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تم لوگ قرآن کی فصاحت و بلاغت کو معجزہ خیال کرتے ہو۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت لکھ لاؤ۔ لو، میں سورت لکھ لایا ہوں۔ نظرِ انصاف سے اس کا جائزہ لو اور بتاؤ کہ قرآن بہتر ہے یا میرا کلام؟
پھر وہ تادیر قرآن اور اپنے کلام کا موازنہ و محاکمہ کرتے رہے، اپنی سورت کے محاسن اور قرآن کے معائب گنوایا کیے اور میں چپکا بیٹھا سنا کیا۔
جب خاموش ہوئے تو میں نے کہا کہ بھائی، کچھ عقل کو ہاتھ مارو۔ کچھ ہوش کے ناخن لو۔تم تمام عمر زبان و ادب کے طالبِ علم رہے۔ تمھیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ادب کے موازنے کے پیمانے کیا ہوتے ہیں؟ قرآن جس زمانے میں نازل ہوا وہ ادبیاتِ عرب کا زریں ترین دور تھا۔ ابوجہل جیسے لوگ گھوڑے کو کعبے کے گرد دوڑاتے ہوئے ادبا کے شہ پاروں پر فقط ایک نظر ڈال کر فیصلہ کر دیتے تھے کہ امسال کون فاتح رہا۔ اسی ابوجہل جیسے لوگ گو قرآن کے پیغام کے منکر تھے مگر زبان کے چٹخارے کے لیے اسے چھپ چھپ کر سننے پر مجبور ہو گئے اور یہاں تک عاجز آئے کہ ہمارے نبیﷺ کو جادوگر پکارنے لگے۔ گویا زبان کے ساحروں نے ایک امی کو ساحر قرار دے دیا۔ ایک ایسے شخص کو معجز بیان کہنے کے سوا ان کے پاس چارہ نہ رہا جو بعض روایات کے مطابق اشعار کو صحیح وزن میں پڑھنے پر قادر نہ تھا۔
ہر قوم کا ایک فن ایسا ہوتا ہے جو اسے دیگر اقوامِ عالم سے ممتاز کرتا ہے۔ عربوں کا طرۂِ امتیاز ان کے زبان و ادب تھے۔ پھر اس زبان و ادب کے اکابر زیادہ تر وہ بلغا تھے جو ظہورِ اسلام کے وقت موجود تھے۔ گویا اسلام نے عربوں کو انھی کے فن میں اس کے عروج کے زمانے میں عاجز کیا۔ اب اگر تم کوئی سورت لکھ لائے ہو تو یاد رکھو کہ نہ لسانِ عرب اب ویسی خالص اور فصیح رہی ہے اور نہ وہ اس کے وہ مقتدر بلغا رہ گئے ہیں جو تمھارے کلام کا موازنہ ازروئے انصاف قرآن سے کر سکیں۔ کیا میرے لیے یہ کافی نہیں کہ جب یہ دونوں عوامل موجود تھے تو قرآن ان پر غالب آ گیا تھا؟
تم کیسی بات کر رہے ہو؟ میں عربی کا عالم نہیں۔ معاصر علمائے عرب کو ابوالحکم معروف بہ ابوجہل کی ہمسری کا دعوی نہیں۔ موجودہ عربی عالمگیریت اور تہذیبی نفوذ کے عوامل کے باعث عربِ عاربہ کی زبان کی گرد کو بھی نہیں پا سکتی۔ اور تم آج چلے ہو قرآن کا مقابلہ کرنے؟ باز آ جاؤ۔ اگر بالفرضِ محال تم نے واقعی بہتر کلام کہا بھی ہے تو پھر بھی قرآن معجزہ ہی رہے گا کیونکہ اس نے اپنی فتح ان لوگوں سے منوائی جو خود فاتحِ بلاغت تھے اور ایسے وقت میں منوائی جب اس فن کا طوطی بولتا تھا اور تمھارا کلام جنگل میں ناچنے والے مور سے زیادہ قدر نہ پائے گا کہ تم نے اپنے زمانے اور حالات کے اقتضا کے بالکل خلاف کام کیا۔
---
اسی خیال سے بعد میں میں نے ادبیات کے مطالعے میں عموماً کام لینا شروع کیا۔ مجھے امید ہے اس نظریے کے نشیب و فراز اور مضمرات اب آپ لوگوں پر پوری طرح کھل گئے ہوں گے۔ :):)
 
آخری تدوین:
Top