الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
صابرہ امین
-----------
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
-------------
نفرت تو نہیں تجھ سے محبّت بھی نہیں ہے
ہاں تجھ سے جدا رہنے کی عادت بھی نہیں ہے
-------------
ملتا ہوں میں غیروں سے ، ہے بہتان سراسر
کہتے ہو مگر پاس شہادت بھی نہیں ہے
---------
کیسا یہ تعلّق ہے ذرا سوچ کے کہنا
رہتے تو مرے پاس ہو قربت بھی نہیں ہے
------------
ہوں اس کی ضرورت تو وہ میری ہے ضرورت
دونوں میں جدائی کی تو ہمّت بھی نہیں ہے
----------
حالات بگارے ہیں یہ دولت کی کمی نے
دونوں کی محبّت میں جو شدّت بھی نہیں ہے
----------
شکوہ تو نہیں ان سے زمانے سے گلہ ہے
ہاں ان سے شکایت کی تو ہمّت بھی نہیں ہے
----------یا
پہلی سی مگر ان سے محبّت بھی نہیں ہے
----------
ارشد سے خفا ہو کے ہے جانے کا ارادہ
مضبوط مگر ان کی یہ نیت بھی نہیں ہے
------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
صابرہ امین
-----------
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
-------------
نفرت تو نہیں تجھ سے محبّت بھی نہیں ہے
ہاں تجھ سے جدا رہنے کی عادت بھی نہیں ہے
نفرت تو... تو کس وجہ سے استعمال کیا گیا ہے، سمجھ نہیں سکا، ت۔تو میں تنافر بھی ہے، اور دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی بھی ہے
نفرت بھی نہیں.... ممکن ہے
ملتا ہوں میں غیروں سے ، ہے بہتان سراسر
کہتے ہو مگر پاس شہادت بھی نہیں ہے
---------
شہادت کا محض ہونا تو محاورہ نہیں بطور خاص جب شہادت کے دونوں معنی بھی لیے جا سکتے ہوں
کیسا یہ تعلّق ہے ذرا سوچ کے کہنا
رہتے تو مرے پاس ہو قربت بھی نہیں ہے
------------
رہتے ہو مرے پاس، پہ /گو قربت... بہتر ہو گا جس سے تنافر بھی دور ہو گا اور واضح بھی
ہوں اس کی ضرورت تو وہ میری ہے ضرورت
دونوں میں جدائی کی تو ہمّت بھی نہیں ہے
----------
واضح تر صورت یوں نہیں ہو سکتی؟
میں اس کی ضرورت ہوں، وہ ہے میری ضرورت
اب اپنے جدا ہونے کی ہمت.....
حالات بگارے ہیں یہ دولت کی کمی نے
دونوں کی محبّت میں جو شدّت بھی نہیں ہے
----------
کن دونوں کی؟ اسے واضح کیا جائے
شکوہ تو نہیں ان سے زمانے سے گلہ ہے
ہاں ان سے شکایت کی تو ہمّت بھی نہیں ہے
----------یا
پہلی سی مگر ان سے محبّت بھی نہیں ہے
----------
تینوں مصرعے بے ربط لگ رہے ہیں
ارشد سے خفا ہو کے ہے جانے کا ارادہ
مضبوط مگر ان کی یہ نیت بھی نہیں ہے
------------
ٹھیک ہے
 
Top