گل زیب انجم

محفلین
نظم

جب سے
گنگنانا چهوڑی ہے
غزل تیری
تب سے
یہ سر اپنی
بےسرور لگتی ہے

ملنا
ہوا ہے محال
جب سے
کر لی بلند اس نے
فصیل اپنی
دید کی مشتاق
آنکھوں کی بنیائی
مجبور لگتی ہے

جہاز
ریل کار اور کاریں
سب کچھ تو ماجود
مقدر کے در پہ
بنی منزل
بہت
دور لگتی ہے

بالشت بهر کا سفر
عمر بهر
ہم سے طے
ہو نہ پایا
اس کے شکوے لبوں تک ہی رہے
مگر
گلہ میں بھی اس سے
کر نہ بایا
کہ
میری ہی زندگی
میری قسمت کی طرح
بہت
مجبور لگتی ہے
 
Top