نظم ۔ بنام جارج واشنگٹن

زیف سید

محفلین
بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے کہ میں اپنے قبیلے کی زمینیں بیچنا چاہوں تو وہ اس کا بڑا معقول ہدیہ دینے کو تیار ہیں۔

لیکن میں بیٹھا سوچ میں گم ہوں۔ سفید انساں بڑا ہشیار ہے لیکن، زمانے میں زمیں بھی بیچی جاتی ہے؟ بھلا دھرتی کا بھی بیوپار ہوتا ہے؟ زمیں میں نے خریدی ہی نہیں، میرا قبیلہ اس پہ صدیوں سے بسیرا کرتا آیا ہے، اسی کی خاک میں میرے سبھی اجداد کی بوسیدہ خستہ ہڈیاں محفوظ ہیں، میں کس طرح سے سودا کر لوں اس زمیں، اس خاک کا، ان ہڈیوں کا؟

اور ان کو بیچنا چاہوں بھی تو، بتلاؤ اس دھرتی پہ اٹھلاتی ہوا کا دام کیا دو گے؟ جو نٹ کھٹ ندیاں اس پر مچلتی، کھیلتی، اک دوسری کو چھیڑتی، دریا کی چاہت میں برہ کے گیت گاتی بہہ رہی ہیں، اور اس کے گل بنوں میں یہ جو الھڑ ہرنیوں کی ڈاریں مستی میں کلانچیں مارتی پھرتی ہیں، جن کو دیکھ کو اوپر سے کونجوں کی تکون اک ثانیے کو اپنی منزل سے بھٹک جاتی ہے ، اور کلکاریاں بھر کر کسیلے کالے کوسوں کے سفر پر پھر سے جٹ جاتی ہے۔۔۔ ان کا دام کیا ہو گا؟
یہاں کےسبزہ زاروں کی ہری مٹیالی چادر پر سنہری، ارغوانی تتلیاں قوسِ قزح اپنے پروں سے کاڑھتی ہیں اور سلونا جھٹ پٹا جب رات کے کاجل میں گھلتا ہے تو جگنو مشعلیں تھامے ہوئے خوشبو سے بوجھل جھاڑیوں کے بیچ میں چُھپن چھپائی کھیلتے ہیں، آخر ان کا بھی تو اس دھرتی پر کچھ حق ہے۔ یہ سب میری طرح، میرے قبیلے کی طرح اس سرزمیں کے باسی ہیں، پھر ان کا عوضانہ بھلا کیا ہے؟

سفید انساں بڑا ہشیار ہے، لیکن مجھے لگتا ہے وہ دن آنے والا ہے جب اس دھرتی کے سب سے آخری کنج میں بھی آدم باس بس جائے گی، جب ہر اک پرندے کو، چرندے کو، درندے کو سدھایا جا چکا ہوگا، فضا جب بولتی لہروں کے لچھوں میں الجھ کر سسکیاں لے گی، مہا ساگر کا سینہ کشتیوں کے خنجروں سے چھلنی ہو جائے گا۔

تب تم عافیت کے ایک لمحے کو بھی ترسو گے، اور اس لمحے کو پانے کے لیے سب جمع پونچی داؤ پر رکھ دو گے

لیکن

وقت کا کیا مول آنکو گے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ کیا خاصے کی چیز کہی ہے آپ نے زیف سیّد صاحب۔ اسطرح کی ایک منظوم کہانی یا تو عالی کی "دو مغموم آنکھیں" نظر سے گزری تھی یا آج آپ کی یہ نظم۔

خیال بھی خوب ہے۔

لاجواب!
 

فاتح

لائبریرین
بہت خوب زیف سید صاحب۔ نہایت عمدہ۔
عالی کے علاوہ سلیم کوثر نے بھی اپنی ایک کتاب کا ایسا ہی منظوم دیباچہ لکھا ہے۔
 

arifkarim

معطل
سفید انسان ہشیار نہیں ہے۔ لیکن دوسروں کو بیوقوف بنانے میں ماہر ہے۔ اپنے قدرتی سفید رنگ کی بدولت۔
 

زیف سید

محفلین
نظم پسند کرنے والے تمام احباب کا شکریہ۔ خاکسار نے اسی ’زمین‘ میں کئی اور نظمیں بھی لکھی ہیں، وہ بھی پیش کر دوں گا۔

اعجاز صاحب: یہ نظم نئی نہیں ہے، بلکہ بقولِ شخصے، کل پرانی پوستین جھاڑی تو اس کی آستین میں سے کچھ اوراقِ کرم خوردہ گر پڑے جن میں یہ نظم بھی شامل تھی، جو اتفاق سے ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔

آدھی رات کا سورج واقعی بہت لمبا کھنچ گیا ہے۔ بیچ میں بہت سی دوسری چیزیں آ گئیں۔پاکستان کے ایک پرچے میں قسط وار چھپ رہا تھا لیکن وہ پرچہ ہی سال میں ایک آدھ بار آنا شروع ہو گیا، اس لیے بھی دیر ہو گئی۔ لیکن اب پکا ارادہ ہے کہ اگست ہی میں اس سے گلوخلاصی حاصل کر لی جائے۔

آداب عرض ہے

زیف
 

زیف سید

محفلین
واہ کیا خاصے کی چیز کہی ہے آپ نے زیف سیّد صاحب۔ اسطرح کی ایک منظوم کہانی یا تو عالی کی "دو مغموم آنکھیں" نظر سے گزری تھی یا آج آپ کی یہ نظم۔

جناب وارث صاحب: کیا عالی کی ’دو مغموم آنکھیں‘ نیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟
 

arifkarim

معطل
تو گویا آپ یہ مانتے ہیں کہ دوسروں کو بیوقوف بنانے میں ہوشیار ہے؟

میرے ماننے سے کیا ہوگا؟ تاریخ کی کتب جھوٹ بولتی ہیں؟
کولونائیزیشن کے عذاب سے لیکر گلوبلائیزیشن کی بلا تک سب عجائبات انہی کی قوم کا کیا دھرا ہے۔ ہمارا کام بس انکے بنائے ہوئے ’’سسٹم‘‘ پر ناچنا اور دم ہلانا ہے۔ انفرادیت اور اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے دوسری تہذیبوں کا مغربیوں کے نیچے دب جانے ایک فطری عمل تھا۔ جسکا توڑ آج مشرقی ممالک میں معاشی ترقی اور برتری کیساتھ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب وارث صاحب: کیا عالی کی ’دو مغموم آنکھیں‘ نیٹ پر کہیں دستیاب ہے؟

یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا لیکن شاید نہیں ہے، میرے پاس اس ان کا ایک مجموعہ ہے اس میں شامل ہے لیکن کافی لمبی کہانی ہے، دس بارہ صفحات کی، اگر کبھی ٹائپ کر سکا تو یہاں ضرور شیئر کرونگا۔
 

فاتح

لائبریرین
یہی تو اسکا کمال ہے غزنوی صاحب، یہ نظم باقاعدہ وزن میں ہے۔ مفاعیلن مفاعیلن کے وزن پر تقطیع ہوگی۔
کمال اس نظم کا گویا یہی ہے غزنوی صاحب کہ یہ باقاعدہ اک وزن میں ہے اور مفاعیلن مفاعیلن میں ہی تقطیع کیجیے گا۔:)
 

محسن حجازی

محفلین
بہت خوب! بہترین اور رواں۔
تاہم بحیثیت طالب علم مجھے ذرا یہ سمجھائیے کہ مفاعیلن مفاعیلن کے وزن پر کس طرح تقطیع ہوگی۔ بڑے تو مفا کے وزن پر ہوا اور سردار کا سر عی پر آگیا باقی بچ گیا ر۔ یہاں سے آگے معاملہ کس طرح آگے بڑھے گا؟
بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے
عاجزی سے وارث بھائی اور فاتح بھائی سے رہنمائی کی درخواست ہے۔
 
Top