نظم ۔ بنام جارج واشنگٹن

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوب! بہترین اور رواں۔
تاہم بحیثیت طالب علم مجھے ذرا یہ سمجھائیے کہ مفاعیلن مفاعیلن کے وزن پر کس طرح تقطیع ہوگی۔ بڑے تو مفا کے وزن پر ہوا اور سردار کا سر عی پر آگیا باقی بچ گیا ر۔ یہاں سے آگے معاملہ کس طرح آگے بڑھے گا؟

بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے

عاجزی سے وارث بھائی اور فاتح بھائی سے رہنمائی کی درخواست ہے۔

حجازی صاحب اس کی تقطیع کچھ یوں ہوگی

بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے
بَ ڑے سر دا - مفاعیلن
ر وا شگ ٹن - مفاعیلن (نون غنہ محسوب نہیں ہوگا)
نِ اپ نی را - مفاعیلن (نے کی یے گرائی گئی)
ج دا نی سے - مفاعیلن (دو چشمی ھ محسوب نہیں ہوتی)
مُ جے سن دے - مفاعیلن
س بے جا ہے - مفاعیلن

والسلام
 

محسن حجازی

محفلین
حجازی صاحب اس کی تقطیع کچھ یوں ہوگی

بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے
بَ ڑے سر دا - مفاعیلن
ر وا شگ ٹن - مفاعیلن (نون غنہ محسوب نہیں ہوگا)
نِ اپ نی را - مفاعیلن (نے کی یے گرائی گئی)
ج دا نی سے - مفاعیلن (دو چشمی ھ محسوب نہیں ہوتی)
مُ جے سن دے - مفاعیلن
س بے جا ہے - مفاعیلن

والسلام

بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
دوسری سطر میں رواشگ ٹن میں ر کے متحرک ہوجانے کی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ کس اصول کے تحت ہے؟
 
انہی باتوں سے ہار کر ہم نے علمِ عروض کی کتاب کو نہایت حسرت و عاجزی سے بوسہ دیکر اشکبار آنکھوں کے ساتھ لاعلمی کے مقدس غلاف میں لپیٹ کر طاقِ نسیاں پر سجا دیا۔ ۔ ۔:)
آج پھر درد و غم کے دھاگے میں
ہم پرو کر ترے خیال کے پھول
ترکِ الفت کے دشت سے چن کر
آشنائی کے ماہ و سال کے پھول
پھر تری یاد پر چڑھا آئے
تری دہلیز پر سجا آئے
باندھ کر آرزو کے پلّے میں
ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول​
 

الف عین

لائبریرین
بھئی یہ اصول نہیں، بلکہ یوں کہو کہ یہی اصول ہے کہ تقطیع میں الفاظ توڑنا پڑتے ہیں۔ اور اس صورت میں کچھ حروف کبھی کبھی متحرک بھی ہو سکتے ہیں۔
 

زیف سید

محفلین
بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
دوسری سطر میں رواشگ ٹن میں ر کے متحرک ہوجانے کی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ کس اصول کے تحت ہے؟

حجازی صاحب: یہ بات تو بہت عام ہے کہ جب کوئی لفظ دو ارکان پر محیط ہو تو اسے توڑ دیتے ہیں اور اس ٹوٹے ہوئے لفظ کے آخری حرف کا اتصال اگلے لفظ کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ مثلاً اسی بحر (ہزج سالم) میں دیکھیئے:

مگر جب یاد آتے ہیں تو برسوں یاد آتے ہیں (حسرت موہانی)
مگر جب یا + د آتے ہے + ت برسو یا + د آتے ہے

کیا مجھ عشق نے ظالم کو آب آہستہ آہستہ (ولی دکنی)
کیا مج عش + ق نے ظالم ۔۔۔

یا پھر

چمن میں آب جو بھی چال پر اس کی دوانی ہے (مصحفی)

چمن مے آ + ب جو بھی چا + ل پر اس کی ۔۔۔

آداب عرض ہے

زیف
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت بہت شکریہ وارث بھائی۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور جزائے خیر عطا فرمائے۔
دوسری سطر میں رواشگ ٹن میں ر کے متحرک ہوجانے کی بات سمجھ نہیں آئی۔ یہ کس اصول کے تحت ہے؟

حجازی صاحب میں اس کی عروضی وجہ لکھتا ہوں۔ دراصل یہ عیب ہے علمِ عروض کا جب وہ عربی سے فارسی اور اردو میں منتقل ہوا۔ عربی میں کسی بھی لفظ کا آخری حرف متحرک ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے، مثلاً اسی لفظ 'سردار' کو لیجیئے ، لفظ تو یہ فارسی کا ہے، لیکن فرض کر لیتے ہیں کہ کسی عربی شاعر نے عربی نظم میں اس کو باندھا ہے، تو ہو سکتا ہے وہ اس کو آخری رے کے اوپر زبر، یا نیچے زیر یا تنوین استعمال کرتا، سردارَ یا سردارِ یا سردارّوغیرہ وغیرہ، جو کہ عربی میں ہوتا ہے تو اسطرح رے متحرک ہوتا اور مفاعیلن کی پہلی متحرک میم کے مقابل ہوتا۔

لیکن فارسی اور اردو میں لفظ کا آخری حرف متحرک نہیں بلکہ ساکن ہوتا ہے تو پھر؟ اسطرح تو عربی عروض استعمال کر کے فارسی اور اردو کے شاعر ایک مصرع بھی نہ کہہ سکتے۔

یہ نقص علمِ عروض کے ماہرین کے سامنے آیا تو انہوں نے اسکا ایک سوچا، اور وہ یہ کہ متحرک اور ساکن کی تعریف پر دوبارہ غور کیا جائے، سو انہوں نے متحرک اور ساکن کی تعریف ہی بدل دی، اب علمِ عروض میں عروضیوں کے نزدیک

۔ ساکن حرف وہ ہے جو کسی متحرک حرف کے ساتھ جڑا ہو اور اس پر حرکت نہ ہو (اور یہ عام تعریف ہے) جیسے سردار میں پہلی رے ساکن ہے کہ سین متحرک کے ساتھ جڑی ہے اور اس پر کوئی حرکت نہیں۔ اسی طرح الف ساکن ہے۔

۔ متحرک حرف وہ حرف ہے جس پر کوئی حرکت ہو یا وہ کسی ساکن کے ساتھ جڑا ہو چاہے اس پر حرکت ہو یا نہ ہو (اور یہاں عروضیوں نے عام تعریف میں تبدیلی کر دی)، مثلاً سردار میں سین متحرک ہے کہ اس پر زبر کی حرکت ہے، دال متحرک ہے کہ اس پر بھی زبر کی حرکت ہے، رہا مسئلہ آخری رے کا تو اس تعریف کے مطابق وہ بھی متحرک ہے کہ ساکن الف کے ساتھ جڑا ہے۔

سو ساری دنیا کو 'سردار' میں آخری رے ساکن نظر آئے گی لیکن عروضیوں اور شاعروں کیلیے یہ متحرک ہے، اور بیچارے کریں بھی کیا، اس کو بھی ساکن مان لیں تو شاعری اور تقطیع کیسے کریں۔

سو اس نقص کو قبول کیا گیا اور یہی عیب ہے متحرک اور ساکن کے نظام کا جو ایک دوسری زبان (عربی) کا نظام بعینہ ہی قبول کرنے سے دو زبانوں (فارسی اور اردو) میں آیا۔

اس کا حل مستشریقین نے سوچا

اور ساکن اور متحرک کی جگہ علامتوں کے قانون بنائے جس میں یہ جھنجھٹ ہی ختم ہو گیا۔

آپ ہجائے کوتاہ یعنی وہ حرف جو اکیلا ہو چاہے متحرک ہو یا ساکن کو مثلاً 1 سمجھیں اور ہجائے بلند یعنی دو حرفوں کو جو کسی حرکت سے آپس میں جڑے ہوں کو 2 سمجھیں اور اس نظام پر تقطیع کریں تو ساکن و متحرک کا مسئلہ ختم ہو جائے گا مثلاً

مفاعیلن کو علامتوں میں (اور یہ کوئی بھی ہو سکتی ہیں مجھے 1 اور 2 پسند ہیں) لکھیں تو یہ اصل میں مَ فا عی لُن ہے یعنی 1 2 2 2 اب اس کے مطابق تقطیع کریں اور یہ پہلے لکھا کہ ہجائے کوتاہ 1 کیلیے ضروری نہیں کہ وہ ساکن ہو یا متحرک بس ایک اکیلا حرف ہو۔



بڑے سردار واشنگٹن نے اپنی راج دھانی سے مجھے سندیس بھیجا ہے

بَ ڑے سر دا - 1 2 2 2 - مفاعیلن
ر وا شگ ٹن - 1 2 2 2 - مفاعیلن (نون غنہ محسوب نہیں ہوگا)
نِ اپ نی را - 1 2 2 2 - مفاعیلن (نے کی یے گرائی گئی)
ج دا نی سے - 1 2 2 2 - مفاعیلن (دو چشمی ھ محسوب نہیں ہوتی)
مُ جے سن دے - 1 2 2 2 - مفاعیلن
س بے جا ہے - 1 2 2 2 - مفاعیلن

سو اس نظام نے متحرک اور ساکن کا مسئلہ پاک کر دیا، یہ آسان بھی ہے اور مشینی تقطیع کی اساس بھی۔

والسلام
 

محمد وارث

لائبریرین
اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ روایتی نظام میں بعض دفعہ متحرک حرف کو ساکن بھی ماننا پڑتا ہے، ایک مثال مختصراً لکھتا ہوں

کئی بحروں کا آخری رکن فاع کی صورت میں آتا ہے، ضروری نہیں کہ یہ فاع ہو بلکہ ایک رکن کا جز ہو سکتا ہے مثلاً فَعِلان کا لان بھی اصل میں فاع ہے (علامتوں میں للھ کر یہ جھگڑا بھی ختم ہو جاتا ہے 2 1 لکھیئے اور بس کہ اصل وزن تو یہی ہے شکل چاہے فاع ہو یا لان)، ایسی بحروں میں اگر آخری لفظ "ہوئے" آئے تو اس کو فاع سمجھنے کیلیے ئے کی یے گرا دیں اور ہوء کو فاع سمجھیں لیکن ہمزہ تو ہمیشہ متحرک ہوتا ہے مگر اس کو فارسی اردو میں ساکن مانا گیا، جب مان لیا تو فاع اور لان اور متحرک و ساکن میں پڑے بغیر کہیئے کہ رکن کے آخر میں 2 1 جائز ہے چاہے ا متحرک ہو یا ساکن، سو مسئلہ ختم۔

واضح کردوں کہ یہ ساری بحث نظریاتی اور روکھی سوکھی ہے ، عملی طور پر کسی شاعر کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا چاہے اسے ان مسائل کا علم ہو یا نہ ہو فقط یہ کہ اسکی شاعری وزن میں ہو، لیکن کسی بھی شاعر کی شاعری وزن کی اغلاط سے صرف اسی وقت پاک ہو سکتی ہے جب اس کو "اس مسئلۂ فیثا غورث" کا علم ہو وگرنہ غلطی کہیں نہ کہیں ضرور ہوگی، اور "لوگ" اسکی نشاندہی کیے بغیر نہیں رہیں گے :) دوسری طرف کسی شاعر کو جب ان "مسائلِ تصوف" پر عبورحاصل ہو جاتا ہے تو اسکے "ڈسپوزل" پر زیادہ الفاظ ہوتے ہیں اور انکی مدد سے نہ صرف وہ اپنا مدعا بہتر اور واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے بلکہ "یہ ترا بیان" کہہ کر فصاحت و بلاغت اور صنائع و بدائع کے ساتھ بھی "بادہ خواری" کرتا ہے :)
 
Top