محمد تابش صدیقی
منتظم
کالی میاوں
(1)
ارے "زینو"! ارے "چھمو"! ارے "جادی" خاموش
تم نے اودھم یہ قیامت کا مچا رکھا ہے
کہیں "ریں ریں" کہیں "دھپ دھپ" ہے کہیں "بک جھک" ہے
گھر کا گھر تم نے تو بس سر پہ اٹھا رکھا ہے
کبھی مکا، کبھی تھپڑ، کبھی دھکم دھکا
تم نے قالیں پہ اکھاڑہ سا بنا رکھا ہے
کوئی اس حال میں کیا سوئے کہ تم لوگوں نے
مغز کھا کھا کے یہاں چین اڑا رکھا ہے
گھر کے دروازے پہ بیٹھی ہے وہ "کالی میاؤں"
جس نے اس پورے محلے کو ستا رکھا ہے
شور کرتے ہوئے بچوں کو اٹھا لیتی ہے
تم کو پہلے بھی کئی بار بتا رکھا ہے
٭
بچے چپ چاپ لحافوں میں دبک جاتے ہیں
اب تو کمرے میں تنفس کی بھی آواز نہیں
چین سے سوتی ہیں اب "مادرِ مشفق" ڈٹ کر
کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی تگ و تاز نہیں
٭
"کالی میاؤں" ہے کہ ہو جاتی ہے ذہنوں پہ سوار
عمر بھر ہمت و جرٲت کو کچلنے کے لیے
کتنے نغمے ہیں خودی کے جو رہیں گے بیتاب
عزم کے ساز کے تاروں سے نکلنے کے لیے
آہ یہ ماں! کہ ہے بچوں کے لیے ایک چڑیل
-----
2
کون یہ لوگ ہیں جو مدِ مقابل بن کر
اپنے ہر فعل کی تردید کیے جاتے ہیں
ہم غلط کار سہی، لاکھ خطاوار سہی
ان کو حق کیا ہے، یہ تنقید کیے جاتے ہیں
٭
وقت نازک ہے کہ سرحد پر کھڑا ہے دشمن
آج نوخیز حکومت کے لیے خطرہ ہے
ابھی اصلاح کی ہر سعی ہے وجہِ تخریب
اس میں آزادیِ ملت کے لیے خطرہ ہے
٭
قوم کو لاکھ اکابر سے شکایات سہی
لفظ "خطرہ" کو وہ سنتے ہی دبک جاتی ہے
کسی خطرے کے تصور کی یہ "بیماریِ دل"
بن کے اک پھانس ہی سینے میں اٹک جاتی ہے
٭
قوم ہر موڑ پر گھبرا کے کسی خطرے سے
"غولِ صحرا" کے اشاروں پہ بھٹک جاتی ہے
ڈر کی یہ عادتِ بد ایسی چمٹتی ہے کہ بس
بن کے اک طوق یہ گردن میں لٹک جاتی ہے
٭
قوم پر کچھ بھی بنے، اس کے دبک جانے پر
اس کے "خدام" کا ہر عیش تو محفوظ ہوا
قوم کی روح کو گو خوف کا گھن لگ ہی گیا
ذوق، اربابِ قیادت کا تو محفوظ ہوا
"عزمِ جمہور" کے نتھنے میں ہے "خطرے" کی نکیل
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ
(1)
ارے "زینو"! ارے "چھمو"! ارے "جادی" خاموش
تم نے اودھم یہ قیامت کا مچا رکھا ہے
کہیں "ریں ریں" کہیں "دھپ دھپ" ہے کہیں "بک جھک" ہے
گھر کا گھر تم نے تو بس سر پہ اٹھا رکھا ہے
کبھی مکا، کبھی تھپڑ، کبھی دھکم دھکا
تم نے قالیں پہ اکھاڑہ سا بنا رکھا ہے
کوئی اس حال میں کیا سوئے کہ تم لوگوں نے
مغز کھا کھا کے یہاں چین اڑا رکھا ہے
گھر کے دروازے پہ بیٹھی ہے وہ "کالی میاؤں"
جس نے اس پورے محلے کو ستا رکھا ہے
شور کرتے ہوئے بچوں کو اٹھا لیتی ہے
تم کو پہلے بھی کئی بار بتا رکھا ہے
٭
بچے چپ چاپ لحافوں میں دبک جاتے ہیں
اب تو کمرے میں تنفس کی بھی آواز نہیں
چین سے سوتی ہیں اب "مادرِ مشفق" ڈٹ کر
کوئی ہنگامہ نہیں، کوئی تگ و تاز نہیں
٭
"کالی میاؤں" ہے کہ ہو جاتی ہے ذہنوں پہ سوار
عمر بھر ہمت و جرٲت کو کچلنے کے لیے
کتنے نغمے ہیں خودی کے جو رہیں گے بیتاب
عزم کے ساز کے تاروں سے نکلنے کے لیے
آہ یہ ماں! کہ ہے بچوں کے لیے ایک چڑیل
-----
2
کون یہ لوگ ہیں جو مدِ مقابل بن کر
اپنے ہر فعل کی تردید کیے جاتے ہیں
ہم غلط کار سہی، لاکھ خطاوار سہی
ان کو حق کیا ہے، یہ تنقید کیے جاتے ہیں
٭
وقت نازک ہے کہ سرحد پر کھڑا ہے دشمن
آج نوخیز حکومت کے لیے خطرہ ہے
ابھی اصلاح کی ہر سعی ہے وجہِ تخریب
اس میں آزادیِ ملت کے لیے خطرہ ہے
٭
قوم کو لاکھ اکابر سے شکایات سہی
لفظ "خطرہ" کو وہ سنتے ہی دبک جاتی ہے
کسی خطرے کے تصور کی یہ "بیماریِ دل"
بن کے اک پھانس ہی سینے میں اٹک جاتی ہے
٭
قوم ہر موڑ پر گھبرا کے کسی خطرے سے
"غولِ صحرا" کے اشاروں پہ بھٹک جاتی ہے
ڈر کی یہ عادتِ بد ایسی چمٹتی ہے کہ بس
بن کے اک طوق یہ گردن میں لٹک جاتی ہے
٭
قوم پر کچھ بھی بنے، اس کے دبک جانے پر
اس کے "خدام" کا ہر عیش تو محفوظ ہوا
قوم کی روح کو گو خوف کا گھن لگ ہی گیا
ذوق، اربابِ قیادت کا تو محفوظ ہوا
"عزمِ جمہور" کے نتھنے میں ہے "خطرے" کی نکیل
٭٭٭
نعیم صدیقیؒ