نظم: چائے کا ارغوانی دور ٭ مولانا ظفر علی خان

اور ایک میں ہوں کہ میرے بچپن میں والدہ صاحبہ باورچی خانے میں چینی کا ڈبہ میری پہنچ سے بہت دور سب سے اوپر والے کارنس پر رکھا کرتی تھیں ۔ لیکن دوپہر میں جب سب لوگ سو جاتے تھے تو میں باورچی خانے کی کھڑکی پر چڑھ کر کسی نہ کسی طرح ڈبے تک پہنچ جاتا اور ایک دو مٹھی شکر پھانکا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ ڈبہ نیچے گرگیا ۔ اس کے بعد کا واقعہ کچھ زیادہ میٹھا نہیں ہے ۔
بیلن جیسا تو نہیں لیکن دست پنہ بھی اچھا خاصا بھاری ہوتا ہے ۔:):):)
کہانی گھر گھر کی!!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اردو محفل پہ چائے کے چرچے:)
بارش کو موسم میں پانی تو سردی کے موسم میں چائے ۔
ہمارے گھر میں بچپن میں ہمیں صبح کی چائے الاؤ تھی ۔ شام کی چائے محض بڑوں کے لیے مختص کی ہوئی مراعات میں شامل تھی سو ہمیں اپنے بڑے ہونے کا انتظار جس شدت سے تھا اس کا بیان ہماری زبان دانی پر خاصا بوجھل ہے ۔ گھر کے کچھ بڑوں کا تو یہ کہنا تھا کہ سردیوں میں تو ہر گھنٹے بعد ایک چائے ہونی چاہیئے ۔ وہ تو کچھ اقوال فیصل اور دیگر وسائل کی رلاوٹیں حائل تھیں ورنہ شاید عمل بھی ہوجاتا۔
 
اردو محفل پہ چائے کے چرچے:)
دراصل آج مولانا ظفر علی خان کی برسی ہے، اسی وجہ سے یہ نظم پوسٹ کی۔ نظم میں چائے کا کردار محض استعارے کا ہے۔ البتہ محفلین کی چائے سے محبت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہاں تو بات چائے سے ہوتی ہوئی لبِ شیریں تک پہنچ گئی ہے۔ :)
 

الف نظامی

لائبریرین
میں کبھی کبھار ایک دوست کے ریستوران میں جا کر چائے پیتا ہوں
وہاں ایک حضرت تشریف لاتے ہیں جو چائے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ:
چاہ ہووے تے چاہ ہووے
دو گھٹ پانڑی باقی دودھ دریا ہووے
چاہ: چائے
چاہ: چاہت
 
مولانا ایک اور جگہ چائے کی مدح خوانی میں کہتے ہیں
چائے پیتا ہوں تو ہو جاتا ہے ایماں تازہ
چائے نوشی مری دیرینہ روایات سے ہے

علامہ ہوتے تو کچھ یوں کہتے

حیف شاہیں چائے بھی پینے لگا
اور اختر شیرانی یوں کہتے
بدنام ہورہا ہوں
بستی میں چائے پی کر
لیلیٰ سے دل لگاکر​
اور فراز حسبِ معمول
تم تو چائے کو اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتا نہیں ہر چائے پالنے ولا​
 

الف نظامی

لائبریرین
علامہ ہوتے تو کچھ یوں کہتے

حیف شاہیں چائے بھی پینے لگا
اور اختر شیرانی یوں کہتے
بدنام ہورہا ہوں
بستی میں چائے پی کر
لیلیٰ سے دل لگاکر​
اور فراز حسبِ معمول
تم تو چائے کو اخلاص سمجھتے ہوفراز
دوست ہوتا نہیں ہر چائے پالنے ولا​
موجودہ حالات کے تناظر میں:

حیف شاہیں بھی بھنگ پینے لگا

بدنام ہو رہا ہوں
بستی میں بھنگ پی کر
لیلیٰ سے دل لگا کر

تم تو بھنگ کو اخلاص سمجھتے ہو فراز
فوجی ہوتا نہیں ہر بھنگ پلانے والا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اور چائے بھی کیسی؟ ارغوانی!!!
کلجگ ہے صاحب!!!
خلیل بھائی ، یہ ارغوانی کا اشارہ میری بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کشمیری چائے کی بات ہے کہ وہ گلابی رنگت کی ہوتی ہے ۔ لیکن پھر دیکھا کہ چائے کو ارغوانی نہیں کہا بلکہ ارغوانی دور کی بات کی ہے ۔ گمان کہتا ہے کہ ۱۹۳۴ ۔ ۱۹۳۵ کے بعد جب تحریکِ پاکستان میں شدت آئی اور جلسے جلوس متواترہونے لگے تو شاید لاہور میں ہونے والی کسی کانفرنس وغیرہ کی طرف اشارہ ہے اس نظم میں ۔ اور لگتا ہے کہ مزاحمتی ادب کے دورِ ناؤ ونوش کے مقابل مولانا نے چائے کے ارغوانی دور کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
 
آخری تدوین:
خلیل بھائی ، یہ ارغوانی کا اشارہ میری بھی سمجھ میں نہیں آیا ۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید کشمیری چائے کی بات ہے کہ وہ گلابی رنگت کی ہوتی ہے ۔ لیکن پھر دیکھا کہ چائے کو ارغوانی نہیں کہا بلکہ ارغوانی دور کی بات کی ہے ۔ گمان کہتا ہے کہ ۱۹۳۴ ۔ ۱۹۳۵ کے بعد جب تحریکِ پاکستان میں شدت آئی اور جلسے جلوس متواترہونے لگے تو شاید لاہور میں ہونے والی کسی کانفرنس وغیرہ کی طرف اشارہ ہے اس نظم میں ۔ اور لگتا ہے کہ مزاحمتی ادب کے دورِ ناؤ ونوش کے مقابل مولانا نے چائے کے ارغوانی دور کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
یہ نظم 23 ستمبر 1936ء کو لکھی۔
 

سیما علی

لائبریرین
مضطرب ہیں کہ شہادت کا ملے جلد ثواب
تیغ گردن پہ جو چلنی ہے تو فی الفور چلے
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
یہ تو چائے کے شوقین ہماری طرح کے ہیں ۔۔۔ہمارا بس چلے تو چوبیس گھنٹے چائے کا دور چلے۔۔۔
مولانا ظفر علی خان
حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔
تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔
اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔
چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے
 

سیما علی

لائبریرین
اہل کراچی کے چائے پینے کے بھی مختلف انداز ہیں۔ کاریگروں میں رواج ہے کہ پٹھان کی چائے کی دکان سے دو پیالہ چائے پارسل اس کی چھوٹی کیتلی میں منگوائی جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی قہوے کی پیالیوں میں چار پانچ افراد نبٹائے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں پلاسٹک کی تھیلیوں میں بھی چائے، گنے کا جوس وغیرہ پارسل کرتے ہیں۔

کبھی مقامی لوگ سلیمانی چائے بھی پیا کرتے تھے، لیکن آج ایرانی "ہوٹلوں" میں بھی علیحدہ چائے تک میں دودھ شامل ہوتا ہے۔

گھروں میں کبھی چائے پینے کے لیے کٹورے استعمال ہوتے تھے، اب مگ کا رواج ہے جن میں خدا جھوٹ نہ بلوائے تو تین کپ چائے تو آہی جاتی ہے۔

ِ
کراچی کی راتیں جاگتی ہیں یہاں کے لوگ اپنا ایک منفرد مزاج رکھتے ہیں۔ مزاج میں چائے کی طرح گرم، اخلاق میں چائے کی طرح خوش ذائقہ اور خلوص و محبت میں چائے کی طرح خوشبو دار ہوتے ہیں۔ اب شہر کراچی میں جدید چائے خانوں کا فیشن بھی چل پڑا ہے۔۔۔بھیا جب تک ہم دفتر گئیے لا کھ ہمارا ٹی بوائے بہترین۔ چائے بنا کے لاتا مگر جب تک ہمیں ایک سے دو مرتبہ کوئٹہ والے کی چائے نہ ملتی دن نہ گذرتا ۔ہم اکثر مذاق میں چائے والے لڑکے سے کہتے کہ بیٹا جلدی سے اپنی نسوار والی چائے لاؤ ۔کیونکہ ہمارا کام اُسکی نسواری چائے کے بغیر نہیں چلتا :):)
 
آخری تدوین:
Top