مولانا ظفر علی خان

  1. محب علوی

    ٹائپنگ مکمل سیر ظلمات

    سیر ظلمات گفتگو دھاگہ
  2. محمد تابش صدیقی

    نظم: چائے کا ارغوانی دور ٭ مولانا ظفر علی خان

    چائے کا ارغوانی دور ٭ چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے نہ ملے چائے، تو خوننابِ جگر کافی ہے بزم میں دور چلا ہے، تو ابھی اور چلے چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے دیکھتے دیکھتے پنجاب کا نقشہ بدلا آنکھوں آنکھوں میں زمانہ کے بدل...
  3. فہد اشرف

    مولانا ظفر علی خان: ہندوستان

    ہندوستان ناقوس سے غرض ہے نہ مطلب اذاں سے ہے مجھ کو اگر ہے عشق تو ہندوستاں سے ہے تہذیبِ ہند کا نہیں چشمہ اگر ازل یہ موجِ رنگ رنگ پھر آئی کہاں سے ہے ذرے میں گر تڑپ ہے تو اس ارض پاک سے سورج میں روشنی ہے تو اس آسماں سے ہے ہے اس کے دم سے گرمیِ ہنگامۂ جہاں مغرب کی ساری رونق اسی اک دکاں سے ہے...
  4. محمدابوعبداللہ

    ربُ العالمین از مولانا ظفر علی خان

    بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نے دکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نے تری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستی سمویا اپنے ہاتھوں سے مزاجِ جسم و جاں تو نے نہیں موقوف خلّاقی تری اس ایک دنیا پر کئے ہیں ایسے ایسے سینکڑوں پیدا جہاں تو نے ترے ادراک میں ہے عقل حیراں اور سرگرداں ہمیں چکر...
  5. dehelvi

    وہ شمع اجالا جس نے کیا۔۔ (مشہور نعتیہ کلام) از ظفر علی خان مرحوم

    وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں اک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں گر ارض و سما کی محفل میں لولاک لما کا شور نہ ہو یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیّاروں میں جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چنداشاروں میں...
  6. فرحت کیانی

    نظم- توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا۔ مولانا ظفر علی خان

    توحید کے ترانہ کی تانیں اُڑائے جا توحید کے ترانہ کی تانیں اُڑائے جا مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا ایک ایک تیری تال پہ سر جھومنے لگیں ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا ہر زیروبم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ہر گٹکری سے...
  7. فرحت کیانی

    نظم۔ شاعرانہ گفت و شنید۔ مولانا ظفر علی خان

    شاعرانہ گفت و شنید 26 جنوری 1912ء کے “زمیندار“ میں حضرت شفق عماد پوری کی نظم ذیل شائع ہُوئی: اک دن یہ مجھ سے کہنے لگے ایک مہرباں کیا آپ نکتہ سنج نہیں نکتہ داں نہیں کیا آشنا مذاقِ سخن سے نہیں ہیں آپ کیا آپ ذوقِ نظم سے رطب اللساں نہیں صہبائے میر و بادۂ گلرنگِ درد سے دو گھونٹ بھی نصیب...
Top