نظم: والد کی وفات پر - - - ندا فاضلی

تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مَر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر
جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے.
کوئی سوکھا ہُوا پتا
ہوا سے ہِل کے ٹُوٹا تھا
میری آنکھیں
تمہارے منظروں میں
قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھا ہوں
سوچتا ہوں ، وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی
اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ
میری انگلیوں میں
سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کیلئے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہُوا میں
اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے
جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری لغزشوں
ناکامیوں کے ساتھ رہتا ہے
میری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
میری بیماریوں میں تم
میری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر
جس نے تمہارا نام لکھا تھا
وہ جھوٹا تھا
تمہاری قبر میں تو
میں دفن ہوں
تم ، مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو
فاتحہ پڑھنے چلے آنا.

ندا فاضلی
 
آخری تدوین:
Top