نظر لکھنوی نظم: سرکش بیل (عیدِ قرباں 1986ء) ٭ نظرؔ لکھنوی

یہ نظم اصلی واقعہ پر لکھی گئی ہے جو کہ دادا کے ساتھ عید الاضحی 1986ء کے موقع پر پیش آیا۔ عید الاضحی کے موقع پر احبابِ محفل کی دلچسپی کی نذر:

ساتھ میرے عیدِ قرباں پر جو گزرا سانحہ
میں سناتا ہوں ذرا تفصیل سے وہ واقعہ

تھی جو نیت گاؤ نر میں عید پر قرباں کروں
تاکہ حاصل اس طرح خوشنودیِ یزداں کروں

جا کے پنڈی میں خریدا جانور اک فربہ تن
جلد کو چمکا رہی تھی جس کے سورج کی کرن

جانور تھے سینکڑوں وہ سینکڑوں میں ایک تھا
خورد سال و خوبصورت اور بظاہر نیک تھا

الغرض اس کو خریدا صرف کر کے دو ہزار
باغِ سرداراں سے گھر تک وہ نہ بدکا ایک بار

لان میں باندھا گیا وہ گھاس چرنے کے لیے
بالٹی پانی کی رکھی تاکہ وہ پانی پیے

منہ لگایا گھاس کو اس نے نہ پانی ہی پیا
دوپہر سے شام تک بھوکا پیاسا وہ رہا

قیدِ تنہائی پہ اپنی تھا وہ بے حد بد حواس
سلبِ آزادی پہ اپنے تھا اسے خوف و ہراس

آہنی پھاٹک کی جانب دیکھتا تھا بار بار
مضطرب تھا وہ کسی عنواں ملے راہِ فرار

بعد کچھ وقفہ کے دیکھا دھوپ کی زد میں اسے
میں نے سوچا باندھ دوں اب سایہ کی حد میں اسے

پاس سے گزرا تو بڑھ کر میری جانب 'فُوں' کیا
میں یہ سمجھا جانور ہے عادتاً ہی یوں کیا

کھول دی رسّی تو پھر منظر ہوا نادیدنی
تل گیا وہ کام کرنے جو کہ تھا ناکردنی

جارحانہ، وحشیانہ، جنگ جویانہ بڑھا
جان کر مجھ کو حریف اپنا حریفانہ بڑھا

نیک خو سمجھے تھے ہم پر وہ تو نکلا بدنہاد
ڈھیل پا کر ہو گیا آمادۂ شر نامراد

اس کی ٹکر سے گرا چت بے دھڑک میں لان پر
ہوش پرّاں تھے مرے اور بن گئی تھی جان پر

پھر بڑھا وہ دوسری ٹکر لگانے کے لیے
دستِ غیبی آ گیا آڑے بچانے کے لیے

سینگ دونوں رک گئے آ کر مری پسلی کے پاس
میں کہ تھا در عالمِ بے چارگی و حزن و یاس

پوری قوت مجتمع کر کے ہوا اٹھ کر کھڑا
تیسری ٹکر لگانے مجھ کو ظالم پھر بڑھا

ہو گیا مجھ کو یقیں ہرگز نہ چھوڑے گا مجھے
روند ڈالے گا یہ ظالم آج زیرِ پا مجھے

شور پوتے نے مچایا آ گیا بیٹا مرا
آتے ہی اس کو رسید اک زور کا ڈنڈا کیا

میری جانب سے مڑا اور اس کی جانب منہ کیا
اس کو اک ٹکر لگانے کے لیے آگے بڑھا

مل گیا موقع غنیمت اٹھ کے بھاگا بے تکاں
گھس گیا گھر میں گلے آ کر ملی عمرِ رواں

آ گئی تھی سر پہ لیکن ٹل گئی میری قضا
دو نفل میں نے پڑھے اور بعدہٗ صدقہ دیا

بچ گیا کیسے مگر مجھ پر کھلا یہ بعد میں
گیارھویں آیت پڑھی جب سورۂ الرعد میں

کچھ فرشتے ہیں مقرر پیش و پس انسان کے
جو محافظ حکمِ رب سے ہیں ہر اک کی جان کے

جانور سرکش اگر ہو موت کا پروانہ ہے
یہ نصیحت سن لے میری جو کوئی فرزانہ ہے

دل میں ٹھانی ہے نظرؔ میں نے گر آئندہ جیوں
عیدِ قرباں پر میں قرباں جانور چھوٹا کروں
٭٭٭


محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

محمد وارث

لائبریرین
کلام تو خوب ہے ہی۔

لیکن اسے میں جو افراطِ زر کا قصہ ہے وہ بھی خوب ہے، 1986ء میں بچھڑا دو ہزار کا آیا اور اب ایسے جانور کی قیمت ساٹھ ستر ہزار سے کم نہیں ہوتی۔ تیس سال میں تیس گنا قیمت بھی بڑھ گئی :)
 

ربیع م

محفلین
مزہ آ گیا!
ایک اور سبق
جانوروں کے ساتھ سیلفی بنانے کے شوقین حضرات کے لیے بھی کہ وہ حفاظتی تدابیر اختیار کر لیں ورنہ ۔۔۔۔۔!
 
کلام تو خوب ہے ہی۔

لیکن اسے میں جو افراطِ زر کا قصہ ہے وہ بھی خوب ہے، 1986ء میں بچھڑا دو ہزار کا آیا اور اب ایسے جانور کی قیمت ساٹھ ستر ہزار سے کم نہیں ہوتی۔ تیس سال میں تیس گنا قیمت بھی بڑھ گئی :)
بہت شکریہ وارث بھائی.
جی بالکل ایسا ہی ہے.
ایک اور دلچسپ بات یہ کہ واقعی اس واقعہ کے بعد ہمارے گھر بیل نہیں آیا. ایک بکرا لیتے تھے اور باقی مسجد میں حصے. اس سے اگلے سال جو بکرا لیا گیا وہ 600 کا تھا. :)
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ۔۔۔۔!

کس چابک دستی سے اس واقعے کو نظم کیا ہے آپ کے دادا محترم نے۔ واہ واہ!

بہت شکریہ اس شئرنگ کا۔
 

نایاب

لائبریرین
کیا بیل تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت خوب نصیحت کا سبب بنا ۔
شراکت پر بہت شکریہ
ڈھیروں دعائیں
 
Top