نظم: سرِشام - مہتاب قدر

کاشفی

محفلین
سرِ شام
از: مہتاب قدر

میں سرِ شام آئینہ بن کر
اپنے دن کا حساب کرتا ہوں

کبھی ہوتا ہوں مطمئن خود سے
کبھی خود پر عتاب کرتا ہوں

لمحہ لمحہ نچوڑ‌ کر اپنا
میں سبق اکتساب کرتا ہوں

سخت لمحوں کو طاقِ نسیاں میں
میں سجا کر گلاب کرتا ہوں

تیرہ و تار شب کے دامن میں
فکر کو ماہتاب کرتا ہوں

ہاں مخاطب بھی میں، خطیب بھی میں
کب کسی سے خطاب کرتا ہوں

اپنی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
خود کو میں لاجواب کرتا ہوں

میں سرِ شام آئینہ بن کر
اپنے دن کا حساب کرتا ہوں
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اپنی آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
خود کو میں لا جواب کرتا ہوں
میں سرِ شام آئینہ بن کر،،
اپنے دن کا حساب کرتا ہوں۔۔
واہ بہت اچھے۔۔۔۔۔۔
 
Top