نظر آئے جو آئینہ، عزاداری میں رہتے ہیں

نمرہ

محفلین
استاد محترم جناب الف عین کی زمین میں۔


نظر آئے جو آئینہ، عزاداری میں رہتے ہیں
وگرنہ یوں تو ہم ہونے کی سرشاری میں رہتے ہیں
اگر سچ پوچھیے تو خود بھی کم کم علم ہوتا ہے
درون خواب رہتے ہیں کہ بیداری میں رہتے ہیں
ہمارے خواب نازک رو ہیں اور دنیا ہے پتھر خو
سو ہر لمحہ فقط ان کی نگہداری میں رہتے ہیں
فریب و وہم کہلاتی ہے اتنی سادگی، یعنی
نہایت سہل ہو جانے کی دشواری میں رہتے ہیں
کہیں کار جہاں بانی ملے تو کچھ کریں ہم بھی
ابھی تو آخری درجے کی بے کاری میں رہتے ہیں
ہمیں وقت و مکاں کی بندشیں کیا روک پائیں گی
جہاں رہتے ہیں اس دل کی عملداری میں رہتے ہیں
ٹھہر سکتا نہیں بار محبت سر پہ، ثابت ہے
مگر ہم ہیں کہ اب تک اس جگر کاری میں رہتے ہیں
یہ قصر خواب اپنی زندگی کا کل اثاثہ ہے
اسے تعمیر کر کے آپ مسماری میں رہتے ہیں
بظاہر مختصر ساعت تھی اک ترک تعلق کی
مگر ہم اب تلک اس لمحہ جاری میں رہتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
واہ بٹیا، شاگردی کا حق ادا کر دیا، مجھے اپنی غزل سے بہتر لگ رہی ہے یہ غزل!
سمت میں شامل کروں گا ہی اس کو تو
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب نمرہ! کئی اچھے اشعار ہیں ! مقطع پسند آیا !

بظاہر مختصر ساعت تھی اک ترکِ تعلق کی
مگر ہم اب تلک اُس لمحہء جاری میں رہتے ہیں
واہ!

پتھر خو کی ترکیب کچھ نامناسب سی لگی ۔ میری رائے میں ہندی اور فارسی عربی الفاظ کی تراکیب بنانا درست ہے اور زبان کو وسعت دینے کی خاطراِن تراکیب کو فروغ دینا چاہئے ۔ لیکن ان تراکیب میں مخصوص ہندی حروف ٹ، ڈ،ڑ ، تھ، ٹھ، چھ وغیرہ سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ ترکیب کی ہم آہنگی اور صوتی خوبصورتی برقرا رہے ۔لبِ سڑک اور سختیء پتھر وغیرہ کی تراکیب کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑیں گی اور نہ ہی قبولِ عام پا سکیں گی ۔ :):):)
 

یاسر شاہ

محفلین
محترمہ آپ کی غزل کے متعلق میں نے بھی کچھ لکھنا تھا مگر آپ تبصروں کا جواب نہیں دیتیں جوکہ میرے خیال سے خلاف تہذیب ہے لہٰذا فی الحال کچھ نہیں لکھتا -
 
Top