نصر من اللہ

نبیِ کریم ﷺ پر غارِ حرا میں جب پہلی وحی نازل ہوئی تو بشری حدود آپ کی راہ کی رکاوٹ بن گئیں اور آپﷺ کی حالت غیر ہو گئی۔ آپﷺ کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ خداوندِ جل جلالہ کے ایک فرستادے سے براہِ راست مکالمہ و مخاطبہ کا اتفاق ہوا تھا اور اس تجربے کی شدت اور جبروت نے آپ کے اعصاب کو گویا شل کر دیا تھا۔ آپ کانپتے دل کے ساتھ اپنے گھر داخل ہوئے اور بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو۔ اس واقعے کی ہیبت و جلال اس قدر تھی کہ کمبل میں دبک جانے کے کچھ دیر بعد جب آپ کا فوری خوف کسی حد تک رفع ہو گیا تب آپ نے بی بی طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تمام تر روئداد سنائی اور فرمایا کہ اب تو مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔
بی بی خدیجہؓ کا مقام اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ وہ ایک نہایت پاکباز، جہاں دیدہ، دانائے راز اور عالی فطرت خاتون تھیں۔ آپ کی بابت نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہےکہ جیسے مریم بنت عمران اپنے زمانے میں سب عورتوں سے افضل تھیں، ویسے خدیجہ اِس زمانے کی سب عورتوں سے افضل ہیں۔ اللہ رب العزت نے انھیں ظاہری محاسن از قسم دولت، حسن اور نجابت وغیرہ میں جہاں ممتاز کیا تھا، وہیں حکمتِ اولیٰ اور عرفانِ حق جیسے باطنی انعامات سے بھی سرفراز فرمایا تھا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے جب حضرت محمدﷺ کو اس حال میں دیکھا تو ان کی دل جوئی فرمائی اور ایسے ارفع و جلیل الفاظ میں انھیں تسلی دی جو کلام الملوک ملک الکلام کے مصداق تاقیامت علم و حکمت کے ماتھے کا جھومر بن کر دمکتے رہیں گے۔ آپ نے نبیِ کریمﷺ کے اس خوف کی کیفیت کو دیکھ کر فرمایا:
"خدا کی قسم، ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے، محتاجوں کے لیے کماتے، مہمان کی ضیافت کرتے اور راہِ حق میں مصائب برداشت کرتے ہیں۔"
صاحبو، بی بی طاہرہؓ کے ان الفاظ میں راست بازوں کے لیے مژدے ہی مژدے ہیں۔ نویدیں ہی نویدیں ہیں۔ بشارتوں کی بھرمار ہے۔ خوشخبریاں ہیں۔ تسلیاں ہیں۔ مصائب کے تپتے صحراؤں میں جھلستے خدا کے بندوں کے لیے یہ الفاظ وہ گھنگھورگھٹائیں ہیں جو کچھ ہی دیر میں ان کے چہرے کی دھول بہا لے جانے والی ہیں۔ ان کی تڑپتی روحوں کو نہال کر دینے والی ہیں۔ ان کی ترستی آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینے والی ہیں۔ ان کے چور چور وجود کو پھر سے زندہ کر دینے والی ہیں۔ ان کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر لازوال شیریں بوسے ثبت کرنے والی ہیں۔ اور ان کی آبلہ پائیوں کے لیے ایک سرمدی اکسیر بننے والی ہیں۔
حضرت خدیجہؓ کا یہ کلام ہمیں اللہ پاک کی ایک نہایت منزہ صفت کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اور وہ یہ دوستو، کہ ہمارا آپ کا خالق و مالک، ہمارا رب، ہمارا پالنہار بڑا ہی غیور ہے۔ غیرت مندی کے سبھی شرار اسی چراغ سے پھوٹتے اور اسی کے نور کو ہویدا کرتے ہیں۔ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کہنا چاہتی ہیں کہ اللہ پاک کی غیرت یہ ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ کوئی شخص اس کی راہ میں مصائب برداشت کرے، اس کی رضا کی سچی جستجو کرے، اس کی مخلوق سے پیار کرے، اس کے بندوں کی غمگساری اور دلنوازی کرے اور وہ اس شخص کی نصرت و حمایت اس کی توقع سے بڑھ کر نہ کرے!
یہ ایک اصول ہے صاحبو۔ ایک قانون ہے۔ کہ اگر آپ خود کو اچھائی کے لیے وقف کر دیں، اور آپ پر کوئی کڑا وقت آ جائے تو فتح آخر آپ کی ہے۔ لیکن انسان بڑا بے صبر ہے۔ جلدی تھک جاتا ہے۔ کمزور پڑ جاتا ہے۔ شکوک اور وساوس کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہ کیا ہو گیا؟ میں تو سب اچھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ رنگ میں یہ بھنگ کیسے پڑ گئی؟ کیا مجھے دھوکا لگا؟ کیا میں اپنی کسی غلطی کے سبب مارا گیا؟ یہ ابتلا کیوں میرے گلے پڑا؟ کیا میں اسی کا حقدار تھا؟ نہیں، نہیں۔ نہیں، میاں۔ یہ تو صرف قانونی کارروائی ہے۔ جس مالک نے اس عالم کو نپے تلے اصولوں پر رواں کیا ہے، اسے اپنے اصول بڑے پیارے ہیں۔ اصول پورے ہو رہے ہیں۔ تم پہ مشکلات پڑ رہی ہیں۔ تا تم پہ اور دیکھنے والوں پہ حجت قائم ہو جائے کہ تم درست تھے اور بدترین حالات میں بھی تم نے حق کا دامن نہیں چھوڑا۔ چلتے رہو۔ قائم رہو۔ تسلی رکھو۔ جیت تمھاری ہی ہے!

ماخذ: دل دریا
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
بہت اعلیٰ۔
ایسی تحریروں کی اشد ضرورت ہے جو مایوسیوں کے اِن اندھیروں میں روشنی کے لئے چراغ بن جائیں۔جو ہمیں اچھے کاموں کے لئے مہمیز کریں۔
جزاک اللہ۔ جزاک اللہ۔ جزاک اللہ۔۔۔۔۔
 

اکمل زیدی

محفلین
بیِ کریم ﷺ پر غارِ حرا میں جب پہلی وحی نازل ہوئی تو بشری حدود آپ کے راہ کی رکاوٹ بن گئیں اور آپﷺ کی حالت غیر ہو گئی۔ آپﷺ کو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ خداوندِ جل جلالہ کے ایک فرستادے سے براہِ راست مکالمہ و مخاطبہ کا اتفاق ہوا تھا اور اس تجربے کی شدت اور جبروت نے آپ کے اعصاب کو گویا شل کر دیا تھا۔ آپ کانپتے دل کے ساتھ اپنے گھر داخل ہوئے اور بی بی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو۔ اس واقعے کی ہیبت و جلال اس قدر تھی کہ کمبل میں دبک جانے کے کچھ دیر بعد جب آپ کا فوری خوف کسی حد تک رفع ہو گیا تب آپ نے بی بی طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کو تمام تر روئداد سنائی اور فرمایا کہ اب تو مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔
یہ کیفیات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وارد ہوئ ہونگی ...دل نہیں مانتا....کیونکے جس کی ہیبت سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہا تھا اس کلام کے اترنے کی جگہ تو اس سے بھی مضبوط تھی ....
 

نایاب

لائبریرین
اللہ پاک کی غیرت یہ ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ کوئی شخص اس کی راہ میں مصائب برداشت کرے، اس کی رضا کی سچی جستجو کرے، اس کی مخلوق سے پیار کرے، اس کے بندوں کی غمگساری اور دلنوازی کرے اور وہ اس شخص کی نصرت و حمایت اس کی توقع سے بڑھ کر نہ کرے!
حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ کہا ۔۔۔
آگہی بکھیرتی خوبصورت تحریر
کاش کہ ہم اس تحریر میں چھپے پیغام کو پا جائیں ۔
بہت دعائیں
 

bilal260

محفلین
یہ کیفیات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وارد ہوئ ہونگی ...دل نہیں مانتا....کیونکے جس کی ہیبت سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہا تھا اس کلام کے اترنے کی جگہ تو اس سے بھی مضبوط تھی ....
دل مانے یا نہ مانے حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اس واقعہ پر سب کا اتفاق ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
یہ کیفیات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وارد ہوئ ہونگی ...دل نہیں مانتا....کیونکے جس کی ہیبت سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہا تھا اس کلام کے اترنے کی جگہ تو اس سے بھی مضبوط تھی ....
بے شک مضبوط تھی ، ہے اور مزید ہوتی رہے گی کہ وللآخرۃ خیرً لک من الاولٰی۔۔۔ لیکن ان کیفیات کا وقوع پذیر ہونا شائد اس لئے بھی ضروری تھا کہ امت کو اس عظیم کلام کی عظمت و جلالت کا تھوڑا سا اندازہ ہو ۔۔۔ اس قلب مبارک کی ابتدائی حالت کا موازنہ ذرا جبل طور سے کریں کہ جو ایک ہی تجلی سے ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اور قرآن مجید کے بارے میں تو خود اللہ عزوجل فرما رہا ہے کہ
لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۔ کہ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے جھک جاتا اور پھٹ کر پاش پاش ہو جاتا۔۔۔ اور پھر فرمایا کہ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۔ یعنی کہ یہ بھی مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے تا کہ لوگ سمجھ سکیں ورنہ کلام اللہ کی عظمت و جلالت پہچاننے سے عقلیں قاصر ہیں۔۔۔
تو اللہ عزوجل نے اپنا عظیم الشان کلام جس قلب مبارک پر نازل کرنے کا ارادہ فرمایا ، اس قلب مبارک کی وسعت ، عظمت و شان کا اظہار اپنی طرف نسبت لگا کر یوں کیا کہ

أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَOوَوَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَOالَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَOوَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ۔۔۔

دیتے ہیں بادہ ، ظرفِ قدح خوار دیکھ کر ۔۔۔
مے خوار کو مے اس کے ظرف کے مطابق ہی دی جاتی ہے ۔۔۔:)
 

مزمل حسین

محفلین
صاحبو، بی بی طاہرہؓ کے ان الفاظ میں راست بازوں کے لیے مژدے ہی مژدے ہیں۔ نویدیں ہی نویدیں ہیں۔ بشارتوں کی بھرمار ہے۔ خوشخبریاں ہیں۔ تسلیاں ہیں۔ مصائب کے تپتے صحراؤں میں جھلستے خدا کے بندوں کے لیے یہ الفاظ وہ گھنگھورگھٹائیں ہیں جو کچھ ہی دیر میں ان کے چہرے کی دھول بہا لے جانے والی ہیں۔ ان کی تڑپتی روحوں کو نہال کر دینے والی ہیں۔ ان کی ترستی آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینے والی ہیں۔ ان کے چور چور وجود کو پھر سے زندہ کر دینے والی ہیں۔ ان کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر لازوال شیریں بوسے ثبت کرنے والی ہیں۔ اور ان کی آبلہ پائیوں کے لیے ایک سرمدی اکسیر بننے والی ہیں۔
ما شاء اللہ سبحان اللہ، کیا تعلم ہے، کیا ولولہ ہے، کیا فصاحت ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا:
فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَآؤُمُ اقْرَؤُوا كِتَابِيَهْ
إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلاقٍ حِسَابِيَهْ
فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ
فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ
قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ
كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الأَيَّامِ الْخَالِيَةِ
(الحآقہ)

إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا ﴿٣١ حَدَائِقَ وَأَعْنَابًا ﴿٣٢ وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا ﴿٣٣ وَكَأْسًا دِهَاقًا ﴿٣٤ لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا كِذَّابًا ﴿٣٥جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿٣٦ رَّبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَ۔ٰنِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خِطَابًا ﴿٣٧ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَ۔ٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ﴿٣٨ ذَٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۖ فَمَن شَاءَ اتَّخَذَ إِلَىٰ رَبِّهِ مَآبًا ﴿٣٩إِنَّا أَنذَرْنَاكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَاهُ وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا ﴿٤٠
(النبا)
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
صاحبو، بی بی طاہرہؓ کے ان الفاظ میں راست بازوں کے لیے مژدے ہی مژدے ہیں۔ نویدیں ہی نویدیں ہیں۔ بشارتوں کی بھرمار ہے۔ خوشخبریاں ہیں۔ تسلیاں ہیں۔ مصائب کے تپتے صحراؤں میں جھلستے خدا کے بندوں کے لیے یہ الفاظ وہ گھنگھورگھٹائیں ہیں جو کچھ ہی دیر میں ان کے چہرے کی دھول بہا لے جانے والی ہیں۔ ان کی تڑپتی روحوں کو نہال کر دینے والی ہیں۔ ان کی ترستی آنکھوں کو ٹھنڈا کر دینے والی ہیں۔ ان کے چور چور وجود کو پھر سے زندہ کر دینے والی ہیں۔ ان کے جلتے ہوئے ہونٹوں پر لازوال شیریں بوسے ثبت کرنے والی ہیں۔ اور ان کی آبلہ پائیوں کے لیے ایک سرمدی اکسیر بننے والی ہیں۔
مجھے آج اس تحریر کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ہے۔
ہمارا آپ کا خالق و مالک، ہمارا رب، ہمارا پالنہار بڑا ہی غیور ہے۔ غیرت مندی کے سبھی شرار اسی چراغ سے پھوٹتے اور اسی کے نور کو ہویدا کرتے ہیں۔ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنہا کہنا چاہتی ہیں کہ اللہ پاک کی غیرت یہ ہرگز گوارا نہیں کرتی کہ کوئی شخص اس کی راہ میں مصائب برداشت کرے، اس کی رضا کی سچی جستجو کرے، اس کی مخلوق سے پیار کرے، اس کے بندوں کی غمگساری اور دلنوازی کرے اور وہ اس شخص کی نصرت و حمایت اس کی توقع سے بڑھ کر نہ کرے!
بے شک۔ بے شک۔بے شک۔اللہ بہت غیور ہے۔ بے شک اس کی تدابیر ہماری تدابیر سے کہیں زیادہ ،کہیں زیادہ ،کہیں زیادہ۔۔۔۔۔کارگر ہیں۔

یہ ایک اصول ہے صاحبو۔ ایک قانون ہے۔ کہ اگر آپ خود کو اچھائی کے لیے وقف کر دیں، اور آپ پر کوئی کڑا وقت آ جائے تو فتح آخر آپ کی ہے۔ لیکن انسان بڑا بے صبر ہے۔ جلدی تھک جاتا ہے۔ کمزور پڑ جاتا ہے۔ شکوک اور وساوس کا شکار ہونے لگتا ہے۔ یہ کیا ہو گیا؟ میں تو سب اچھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ رنگ میں یہ بھنگ کیسے پڑ گئی؟ کیا مجھے دھوکا لگا؟ کیا میں اپنی کسی غلطی کے سبب مارا گیا؟ یہ ابتلا کیوں میرے گلے پڑا؟ کیا میں اسی کا حقدار تھا؟ نہیں، نہیں۔ نہیں، میاں۔ یہ تو صرف قانونی کارروائی ہے۔ جس مالک نے اس عالم کو نپے تلے اصولوں پر رواں کیا ہے، اسے اپنے اصول بڑے پیارے ہیں۔ اصول پورے ہو رہے ہیں۔ تم پہ مشکلات پڑ رہی ہیں۔ تا تم پہ اور دیکھنے والوں پہ حجت قائم ہو جائے کہ تم درست تھے اور بدترین حالات میں بھی تم نے حق کا دامن نہیں چھوڑا۔ چلتے رہو۔ قائم رہو۔ تسلی رکھو۔ جیت تمھاری ہی ہے!
۔کچھ عرصے کے لئے شاید بظاہر ناکامی ہوتی نظر آرہی ہو لیکن۔۔۔۔۔بے شک جیت حق کی ہے۔ سچ کی ہے۔انتظار کرو اللہ کی طرف سے ملنے والی نصرت کا۔
 
مجھے آج اس تحریر کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔ہے۔
آپا، حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ابھی ابھی ایک دوست کو رخصت کر کے کمپیوٹر پر آیا ہوں۔ ان سے اسی روایت کے حوالے سے باری تعالیٰ کی غیرت پر یہی گفتگو ہو رہی تھی! :):)
اللہ ہم سب کے ساتھ رحم اور لطف و کرم کا معاملہ فرمائے۔ ہماری اچھی باتوں کو قبول فرمائے اور خامیوں سے چشم پوشی فرمائے۔ اپنے نیک بندوں کے صدقے اور خاتم النبیینﷺ کے امتی ہونے کے صدقے ہماے دنیوی اور اخروی معاملات درست فرمائے۔
آمین۔
 

جاسمن

لائبریرین
آپا، حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ابھی ابھی ایک دوست کو رخصت کر کے کمپیوٹر پر آیا ہوں۔ ان سے اسی روایت کے حوالے سے باری تعالیٰ کی غیرت پر یہی گفتگو ہو رہی تھی! :):)
اللہ ہم سب کے ساتھ رحم اور لطف و کرم کا معاملہ فرمائے۔ ہماری اچھی باتوں کو قبول فرمائے اور خامیوں سے چشم پوشی فرمائے۔ اپنے نیک بندوں کے صدقے اور خاتم النبیینﷺ کے امتی ہونے کے صدقے ہماے دنیوی اور اخروی معاملات درست فرمائے۔
آمین۔
آمین.ثم آمین!
 
Top