نشانہ آزمایا جا رہا ہے

السلام علیکم و رحمۃ اللہ احباب۔ چند اشعار پیشِ خدمت ہیں، اِس درخواست کے ساتھ کہ جہاں کہیں کمی بیشی نظر آئے ضرور نشاندہی فرمائیں تاکہ بہتری کی کوشش کی جا سکے۔ جزاکم اللہ خیر :)۔


نشانہ آزمایا جا رہا ہے
ہمیں ناحق ستایا جا رہا ہے

جلا کر چل دیے جو آشیاں کو
اُنہیں پھر سے بلایا جا رہا ہے

چراغِ راہ تو بجھ ہی چکے تھے
چراغِ جاں بجھایا جا رہا ہے

جسے لکھا ہمارے دشمنوں نے
وہ نغمہ گنگنایا جا رہا ہے

نوالہ چھین کر محنت کشوں سے
نوابوں کو کھِلایا جا رہا ہے

خدا کے نام پر کر کے تجارت
' سکونِ قلب' پایا جا رہا ہے

زباں بندی کی قیمت لگ رہی ہے
قلم سولی چڑھایا جا رہا ہے

عجب کھانے کی عادت ہو گئی ہے
کہ اِک دوجے کو کھایا جا رہا ہے

"خلیفہ" نرم دل ہیں رو پڑیں گے
غریبوں کو بھگایا جا رہا ہے

ہے دنیا رہگزر، منزل نہیں ہے
رُکا نہ اِک، جو آیا، جا رہا ہے

(نوید رزاق بٹ)
 

الف عین

لائبریرین
خوب، آخری مصرع کی روانی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ویسے اس بحر میں بہت اچھے اشعار بھی نکل سکتے ہیں۔ لیکن اتنی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔
 
Top