نبیل بھائی اور ہیلسنکی

قیصرانی

لائبریرین
چند روز قبل جب میں نہا کر نکلا تو دیکھا کہ فون پر ایک مس کال آئی ہوئی تھی۔ نمبر چیک کیا تو بیرون ملک سے کال تھی۔ خیر میں نے ٹیکسٹ کیا کہ اب کال کر لیں میں فون کے پاس موجود ہوں۔ پھر جواب نہ آیا۔ خیر، میں سمجھ گیا کہ نیو ایرا پبلیکیشن والے رے یو کا فون ہوگا۔ پھر ایک دو دن ٹھہر کر جب میں ایک دوست کے گھر سے واپس روانہ ہو رہا تھا کہ کال آئی۔ اس بار ان نون نمبر لکھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ سوچا کہ شاید ایک اور دوست کا فون ہوگا کہ اس کا نمبر ڈسپلے نہیں ہوتا۔ جب فون اٹھایا تو نبیل بھائی کی آواز سنائی دی۔ شکر ہے کہ میں ڈرائیو نہیں کر رہا تھا ورنہ تفصیل سے بات نہ ہو پاتی۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے بتایا کہ فن لینڈ میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں وہ آ رہے ہیں۔شاید ایک ہفتے کا قیام ہو اور کیا میرے پاس ان سے ملاقات کا وقت ہوگا؟ نیکی اور پوچھ پوچھ، اللہ دے اور بندہ لے کے دونوں محاورے اوپر تلے ذہن میں آئے۔ فوراً کہا جی بالکل۔ پھر پوچھا کہ کس شہر پہنچ رہے ہیں؟ بتایا کہ ہیلسنکی میں قیام ہوگا۔ خیر، سلام دعا اور گپ شپ کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ جونہی وہ پہنچتے ہیں، بتائیں گے۔ اور پھر انہوں نے موسم کا حال پوچھا کہ آج کل کیسا ہے موسم تو میں نے تسلی دی کہ درجہ حرارت ابھی تک درجہ یخ نہیں بنا یعنی خزاں چل رہی ہے۔ تاہم بین السطور بتا دیا کہ رات کو ہو سکتا ہے کہ چند گھنٹے کے لئے درجہ یخ ہو جائے۔​
پھر نبیل بھائی نے ای میل میں تفصیل سے اپنی تشریف آوری کے بارے بتایا۔ اب میں ذرا پریشان کہ میرے دفتر سے پانچ بجے چھٹی ہوتی ہے، اس لئے نبیل بھائی کو زیادہ تنگ نہیں کر سکوں گا۔ خیر پھر پیر کے روز نبیل بھائی پہنچے ہیلسنکی۔ تین بجے ان کی فلائٹ تھی اور وہاں سے ہوٹل۔ چونکہ وہ اپنی کمپنی کی طرف سے آ رہے تھے، اس لئے مجھے علم تھا کہ انہیں ائیرپورٹ سے پک کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ خیر تین سے چار، چار سے پانچ بجے اور نبیل بھائی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ سمجھ گیا کہ شاید کافی تھکے ہوئے ہوں گے اس لئے ریسٹ کر رہے ہوں گے۔ دفتر میرے گھر سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ گھر پہنچا اور گاڑی سے اترا ہی تھا کہ نبیل بھائی کا فون آیا کہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور جب میرے لئے ممکن ہو، آ سکتا ہوں (ہوٹل کے بارے وہ پہلے سے بتا چکے تھے)۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اگر ابھی روانہ ہو جاؤں تو؟ انہوں نے پوچھا کہ کتنی دیر لگے گی؟ میں نے کہا کہ ابھی نکلوں تو ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں ہیلسنکی ہوں گا (موٹر وے میرے گھر سے نصف کلومیٹر سے گذرتی ہے اور سیدھی ہیلسنکی اور الٹی تمپرے شہر کو جاتی ہے۔ خیر، انہوں نے اجازت دے دی۔ میں نے گھر کا دروازہ کھولا، کپڑے بدلے اور پھر باہر۔ سوا پانچ بجے سیدھا موٹر وے کا رخ کیا۔ راستے میں جہاں ایک بہت بڑی شیشہ فیکٹری آتی ہے، وہاں میں نے پیٹرول ڈالا اور سیدھا ہیلسنکی۔ اب مسئلہ یہ کہ میرے فون میں نیویگیٹر ہے تو، لیکن اس کے لئے سٹینڈ نہیں استعمال کرتا۔ خیر، ہیلسنکی میں دو موڑ ہی تھے، جس کے بعد ہوٹل آ گیا (یہ دو موڑ ملا کر ہیلسنکی میں دس بارہ کلومیٹر کا سفر تھا شہر کے اندر اندر، اس فاصلے میں میں نے ایک موڑ غلط کاٹا کہ لین غلط تھی، پر اس کے بارے بتاؤں گا نہیں۔ دو سو میٹر کا چکر کاٹ کر پھر اصل لین میں)۔ سات بجے ہوٹل کے پاس موجود پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔ اب مزے کی با ت یہ ہے کہ ہیلسنکی میں کسی بھی جگہ پارکنگ تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ خیر اس جگہ دیکھا کہ پارکنگ کا ریٹ تین منٹ فی یورو تھا۔ سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔ پھر سانس اتھل پتھل ہوئے کہ دیکھا کہ سات بجے سے پارکنگ فری ہو گئی ہے۔ خیر میرے پاس بصورت دیگر ایک فری پارکنگ کارڈ موجود تھا کہ میں چاہتا تو ہفتے کے لئے بھی گاڑی کھڑی کر سکتا تھا۔​
ہوٹل پہنچا تو ریسپشن کی محترمہ نے اپنی انگریزی جھاڑی کہ گڈ ایوننگ سر، مے آئی ہیلپ یو۔ میں نے سیدھا سیدھا فننش میں جواب دیا کہ میرے دوست تشریف لائے ہیں آج تین بجے کے بعد۔ ان کے کمرے میں کال کر کے انہیں میرے بارے بتا دیں کہ پہنچ گیا ہوں۔ محترمہ نے جواب دیا کہ فون پر خود بتانا پسند کروں گا کیا؟ میں نے کہا کہ نہیں آپ خود اطلاع کر دیں۔ پھر وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کے دوست کا سر نیم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ بی بی یہ نام ہے، یہ سر نام ہے اور یہ ان کی شہریت ہے اور یہ ان کا کمرہ نمبر ہے اور یہ ان کے کمرے کا فون نمبر۔ پھر بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ایک سڑی سی سمائیل بھی دی میں نے۔ خاطر خواہ اثر ہوا (شاید سڑی ہوئی سمائیل کا یا پھر شاید تفصیل کا)، اس نے فون اٹھایااور نبیل بھائی کو بتانے لگی کہ ایک شریف انسان ملنے آیا ہوا ہے جس کانام یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ نبیل بھائی نے حکم صادر کیا کہ درجات بلند کر دو اس کے۔ محترمہ نے میرے لئے بطور خاص لفٹ کا دروازہ کھولا اور کارڈ کی مدد سے لفٹ کو مطلوبہ درجات کی بلندی تک لے جانے کا بٹن دبا کر چل دی۔ اوپر پہنچا تو پہلے ہی موڑ سے ایک انتہائی خوش شکل اور انتہائی ہنستے مسکراتے چہرے والے دیسی بندے نے بالکل لاہوری انداز میں جپھی ڈال دی۔ میں حیرت سے منہ کھولے شاید سلام بھی کرنا بھول گیا کہ نبیل بھائی اتنے ینگ اور اتنے سمارٹ اور ہینڈ سم ہیں؟ پھر سوچا کہ آخر بھائی کس کے ہیں (یہاں میں اپنی طرف اشارہ کر رہا ہوں)۔ خیر سلام دعا کے بعد کمرے کا رخ کیا۔ بار بار میں نبیل بھائی کے سر کی طرف دیکھوں کہ کمپیوٹر سائنس کیوں ان پر اتنی مہربان ہے۔ میرا تو سر خالی (باہر سے) ہو رہا ہے۔ خیر، کچھ دیر تک تو ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے تخیلاتی شخصی خاکوں کو ناکامی سے جانچتے رہے۔ میں حیران کہ نبیل بھائی اتنے دھیمے، اتنے میٹھے لہجے کے مالک اور اتنے دوست ہیں کہ انہیں بڑا بھائی کہتے ہوئے جھجھک ہو رہی تھی کہ یار تو بالکل ہی بڑے بھائی سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔​
چلیں جناب، پھر گپ شپ شروع ہوئی تو پتہ نہیں کہاں کہاں کی باتیں کرتے کرتے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ پھر نبیل بھائی نے پوچھا کہ چلو کہیں چہل قدمی کرتے ہیں۔ میں تو ٹھہرا چھوٹا بھائی، اس لئے سر تسلیم خم۔ ہم باہر نکلنے لگے تو نبیل بھائی نے باقاعدہ جیکٹ نما کوٹ بھی پہنچا اور میں سوچ رہا تھا کہ ٹی شرٹ پہن کر نکلنے کا ارادہ شکر ہے کہ ملتوی کر دیا تھا، ورنہ نبیل بھائی بہت ناراض ہوتے کہ میرا مذاق اڑانے کے چکر میں ہو۔ خیر ہم نے دو تین سو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ ایک جگہ کباب یعنی ٹرکش شوارما ریستوران دکھائی دیا۔ اب غلطی سے میں نبیل بھائی سے سچ بول بیٹھا تھا کہ کھانا کھانے کے وقت میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے از راہ شفقت کہا کہ بھائی، آج تم مہمان اور میں میزبان۔ میں بے چارہ غلطی کر بیٹھا، مان لی بات۔ ریستوران گھسے اور میں نے شوارما منگوایا اور نبیل بھائی نے چائے لی۔​
کھانے سے فارغ ہو کر (نبیل بھائی پہلے ہی کھانا کھا چکے تھے) ہم لوگ پھر تھوڑی سی واک کر کے واپس ہوٹل لوٹے۔ ادھر پھر ہم نے کافی لمبی گپ شپ کی۔ ادھر ادھر کی باتیں، محفل کے حوالے سے کافی گپ شپ رہی۔ لائبریری کے حوالے سے انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ کتب مجھے پوسٹ کر دیں گے۔ میرے دفتر میں بڑا سکینر موجود ہے جس میں کتاب کے صفحے الگ الگ کر کے ڈال دیں تو پوری کتاب تھوڑی دیر میں سکین کر کے ای میل یا پھر یو ایس بی پر ڈال دیتا ہے۔ اس سے میں ان کتب کو سکین کر کے لائبریری کے لئے مہیا کر دوں گا۔​
پھر جناب رات کے پونے دس بجے میں نے خود تھوڑی سی بے شرمی کا مظاہرہ کیا اور نبیل بھائی سے اجازت مانگی کہ یہ دن تو انہوں نے سفر میں گذارا (جس کی داستان وہ الگ سے شئیر کرنا چاہیں تو ان کی مرضی) اور اگلے چار دن ان کے کافی مصروف گذرنے تھے۔ انہوں نے کافی کہا کہ جلدی کیا ہے، آرام سے بیٹھو، لیکن ان کے آرام کی مجھے کافی فکر تھی۔ اس لئے اجازت لی اور گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ دس بجے نکلا اور ساڑھے گیارہ بجے گھر کیونکہ رات کو اتنا رش نہیں ہوتا سڑکوں پر اور نہ ہی موٹر وے پر۔ فن لینڈ میں موٹر وے دو لین کی ہوتی ہے۔ یعنی دو لین آنے والی اور دو لین جانے والی۔​
باقی تفصیل یاد آنے پر مہیا کی جاتی رہے گی :)
 

ساجد

محفلین
اراکین محفل کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ کل ہی نبیل بھائی سے ہماری بھی ملاقات ہوئی جو کی نبیل بھائی کی مصروفیت کی وجہ سے صرف15 منٹ جاری رہ سکی ۔ بس فرصت ملتے ہی اس کا احوال لکھتے ہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہ
کیا خوب منظر مجسم کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر پہنچا تو پہلے ہی موڑ سے ایک انتہائی خوش شکل اور انتہائی ہنستے مسکراتے چہرے والے دیسی بندے نے بالکل لاہوری انداز میں جپھی ڈال دی۔
گویا " ہم بھی موجود تھے اور دیکھا کئے "
بہت خوب روداد محترم قیصرانی بھائی






 

فہیم

لائبریرین
قیصرانی بھائی ذرا اپنے نبیل بھائی کی صحت اور ڈیل ڈول پر تو تھوڑی روشنی ڈالیں۔
تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نبیل بھائی نے اپنے بارے میں جو باتیں بتا رکھی ہیں وہ درست ہیں یا ہوائیاں:)
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی ذرا اپنے نبیل بھائی کی صحت اور ڈیل ڈول پر تو تھوڑی روشنی ڈالیں۔
تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ نبیل بھائی نے اپنے بارے میں جو باتیں بتا رکھی ہیں وہ درست ہیں یا ہوائیاں:)
پہلے تو آپ بتائیں کہ وہ باتیں کیا ہیں، تاکہ تصدیق یا تردید کر سکوں :)
 

فہیم

لائبریرین
ہاہاہا، یہی تو مسئلہ ہے کہ تصویر ہی تو نہیں ہے۔ اس لئے زبانی شہادت پر اعتبار کریں :)
یہ مسئلہ نہیں
بلکہ زیادتی ہے آپ کی اردو محفل کی عوام کے ساتھ۔

چلیں یہ بتائیں نبیل بھائی کی قد و قامت کیا ہے۔
آپ کے مقابلے کے تو مشکل سے ہی ہوں۔

اور چہرہ کیسا ہے بھلا۔
کلین شیو ہے یا مونچھیں ڈاڑھی وغیرہ رکھتے ہیں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ مسئلہ نہیں
بلکہ زیادتی ہے آپ کی اردو محفل کی عوام کے ساتھ۔

چلیں یہ بتائیں نبیل بھائی کی قد و قامت کیا ہے۔
آپ کے مقابلے کے تو مشکل سے ہی ہوں۔

اور چہرہ کیسا ہے بھلا۔
کلین شیو ہے یا مونچھیں ڈاڑھی وغیرہ رکھتے ہیں :)
ہممم۔۔۔

قد و قامت میں ان سے ذرا سا زیادہ لمبا ہوں

چاند چہرہ

کلین شیو ہیں یا کم از کم مجھے یاد اس طرح ہے کہ کلین شیوڈ ہیں :)
 

فہیم

لائبریرین
ہممم ۔۔۔

قد و قامت میں ان سے ذرا سا زیادہ لمبا ہوں

چاند چہرہ

کلین شیو ہیں یا کم از کم مجھے یاد اس طرح ہے کہ کلین شیوڈ ہیں :)
بالوں کا اسٹائل کیسا ہے۔
لانگ ہیئر ہے یا میڈیم یا شارٹ
کس کلر کے ہیں۔
نیچرل ہیں یا خضاب لگائے جانے کا شبہ کیا جاسکتا تھا :)
 

قیصرانی

لائبریرین
بالوں کا اسٹائل کیسا ہے۔
لانگ ہیئر ہے یا میڈیم یا شارٹ
کس کلر کے ہیں۔
نیچرل ہیں یا خضاب لگائے جانے کا شبہ کیا جاسکتا تھا :)
بالوں کا سٹائل کافی مناسب ہے
مناسب حد تک لمبے ہیں بال
کالے شیاہ، ماشاء اللہ۔ کونے کھدرے میں کچھ سفید بال چھپے تھے، لیکن بہت غور کر کے دیکھنا پڑا
نیچرل ہیں۔ خضاب نہیں دکھائی دیا :)
 

فہیم

لائبریرین
بالوں کا سٹائل کافی مناسب ہے
مناسب حد تک لمبے ہیں بال
کالے شیاہ، ماشاء اللہ۔ کونے کھدرے میں کچھ سفید بال چھپے تھے، لیکن بہت غور کر کے دیکھنا پڑا
نیچرل ہیں۔ خضاب نہیں دکھائی دیا :)
رنگت تو ہم امید کرتے ہیں کہ جرمنی میں رہتے گوری چٹی سفید ہوچلی ہوگی۔
تبھی شاید آپ بھی چاند چہرہ کا نعرہ لگائے جارے ہیں :)

اور ڈیل ڈول میں ہمارے نبیل بھائی پنجاب کے معلوم ہوتے ہیں کہ نہیں :)
 

محمد امین

لائبریرین
چند روز قبل جب میں نہا کر نکلا تو دیکھا کہ فون پر ایک مس کال آئی ہوئی تھی۔ نمبر چیک کیا تو بیرون ملک سے کال تھی۔ خیر میں نے ٹیکسٹ کیا کہ اب کال کر لیں میں فون کے پاس موجود ہوں۔ پھر جواب نہ آیا۔ خیر، میں سمجھ گیا کہ نیو ایرا پبلیکیشن والے رے یو کا فون ہوگا۔ پھر ایک دو دن ٹھہر کر جب میں ایک دوست کے گھر سے واپس روانہ ہو رہا تھا کہ کال آئی۔ اس بار ان نون نمبر لکھا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ سوچا کہ شاید ایک اور دوست کا فون ہوگا کہ اس کا نمبر ڈسپلے نہیں ہوتا۔ جب فون اٹھایا تو نبیل بھائی کی آواز سنائی دی۔ شکر ہے کہ میں ڈرائیو نہیں کر رہا تھا ورنہ تفصیل سے بات نہ ہو پاتی۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے بتایا کہ فن لینڈ میں ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں وہ آ رہے ہیں۔شاید ایک ہفتے کا قیام ہو اور کیا میرے پاس ان سے ملاقات کا وقت ہوگا؟ نیکی اور پوچھ پوچھ، اللہ دے اور بندہ لے کے دونوں محاورے اوپر تلے ذہن میں آئے۔ فوراً کہا جی بالکل۔ پھر پوچھا کہ کس شہر پہنچ رہے ہیں؟ بتایا کہ ہیلسنکی میں قیام ہوگا۔ خیر، سلام دعا اور گپ شپ کے بعد انہوں نے وعدہ کیا کہ جونہی وہ پہنچتے ہیں، بتائیں گے۔ اور پھر انہوں نے موسم کا حال پوچھا کہ آج کل کیسا ہے موسم تو میں نے تسلی دی کہ درجہ حرارت ابھی تک درجہ یخ نہیں بنا یعنی خزاں چل رہی ہے۔ تاہم بین السطور بتا دیا کہ رات کو ہو سکتا ہے کہ چند گھنٹے کے لئے درجہ یخ ہو جائے۔​
پھر نبیل بھائی نے ای میل میں تفصیل سے اپنی تشریف آوری کے بارے بتایا۔ اب میں ذرا پریشان کہ میرے دفتر سے پانچ بجے چھٹی ہوتی ہے، اس لئے نبیل بھائی کو زیادہ تنگ نہیں کر سکوں گا۔ خیر پھر پیر کے روز نبیل بھائی پہنچے ہیلسنکی۔ تین بجے ان کی فلائٹ تھی اور وہاں سے ہوٹل۔ چونکہ وہ اپنی کمپنی کی طرف سے آ رہے تھے، اس لئے مجھے علم تھا کہ انہیں ائیرپورٹ سے پک کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ خیر تین سے چار، چار سے پانچ بجے اور نبیل بھائی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ سمجھ گیا کہ شاید کافی تھکے ہوئے ہوں گے اس لئے ریسٹ کر رہے ہوں گے۔ دفتر میرے گھر سے دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ گھر پہنچا اور گاڑی سے اترا ہی تھا کہ نبیل بھائی کا فون آیا کہ خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور جب میرے لئے ممکن ہو، آ سکتا ہوں (ہوٹل کے بارے وہ پہلے سے بتا چکے تھے)۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ اگر ابھی روانہ ہو جاؤں تو؟ انہوں نے پوچھا کہ کتنی دیر لگے گی؟ میں نے کہا کہ ابھی نکلوں تو ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں ہیلسنکی ہوں گا (موٹر وے میرے گھر سے نصف کلومیٹر سے گذرتی ہے اور سیدھی ہیلسنکی اور الٹی تمپرے شہر کو جاتی ہے۔ خیر، انہوں نے اجازت دے دی۔ میں نے گھر کا دروازہ کھولا، کپڑے بدلے اور پھر باہر۔ سوا پانچ بجے سیدھا موٹر وے کا رخ کیا۔ راستے میں جہاں ایک بہت بڑی شیشہ فیکٹری آتی ہے، وہاں میں نے پیٹرول ڈالا اور سیدھا ہیلسنکی۔ اب مسئلہ یہ کہ میرے فون میں نیویگیٹر ہے تو، لیکن اس کے لئے سٹینڈ نہیں استعمال کرتا۔ خیر، ہیلسنکی میں دو موڑ ہی تھے، جس کے بعد ہوٹل آ گیا (یہ دو موڑ ملا کر ہیلسنکی میں دس بارہ کلومیٹر کا سفر تھا شہر کے اندر اندر، اس فاصلے میں میں نے ایک موڑ غلط کاٹا کہ لین غلط تھی، پر اس کے بارے بتاؤں گا نہیں۔ دو سو میٹر کا چکر کاٹ کر پھر اصل لین میں)۔ سات بجے ہوٹل کے پاس موجود پارکنگ میں گاڑی کھڑی کی۔ اب مزے کی با ت یہ ہے کہ ہیلسنکی میں کسی بھی جگہ پارکنگ تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ خیر اس جگہ دیکھا کہ پارکنگ کا ریٹ تین منٹ فی یورو تھا۔ سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے۔ پھر سانس اتھل پتھل ہوئے کہ دیکھا کہ سات بجے سے پارکنگ فری ہو گئی ہے۔ خیر میرے پاس بصورت دیگر ایک فری پارکنگ کارڈ موجود تھا کہ میں چاہتا تو ہفتے کے لئے بھی گاڑی کھڑی کر سکتا تھا۔​
ہوٹل پہنچا تو ریسپشن کی محترمہ نے اپنی انگریزی جھاڑی کہ گڈ ایوننگ سر، مے آئی ہیلپ یو۔ میں نے سیدھا سیدھا فننش میں جواب دیا کہ میرے دوست تشریف لائے ہیں آج تین بجے کے بعد۔ ان کے کمرے میں کال کر کے انہیں میرے بارے بتا دیں کہ پہنچ گیا ہوں۔ محترمہ نے جواب دیا کہ فون پر خود بتانا پسند کروں گا کیا؟ میں نے کہا کہ نہیں آپ خود اطلاع کر دیں۔ پھر وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کے دوست کا سر نیم کیا ہے۔ میں نے کہا کہ بی بی یہ نام ہے، یہ سر نام ہے اور یہ ان کی شہریت ہے اور یہ ان کا کمرہ نمبر ہے اور یہ ان کے کمرے کا فون نمبر۔ پھر بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ایک سڑی سی سمائیل بھی دی میں نے۔ خاطر خواہ اثر ہوا (شاید سڑی ہوئی سمائیل کا یا پھر شاید تفصیل کا)، اس نے فون اٹھایااور نبیل بھائی کو بتانے لگی کہ ایک شریف انسان ملنے آیا ہوا ہے جس کانام یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ نبیل بھائی نے حکم صادر کیا کہ درجات بلند کر دو اس کے۔ محترمہ نے میرے لئے بطور خاص لفٹ کا دروازہ کھولا اور کارڈ کی مدد سے لفٹ کو مطلوبہ درجات کی بلندی تک لے جانے کا بٹن دبا کر چل دی۔ اوپر پہنچا تو پہلے ہی موڑ سے ایک انتہائی خوش شکل اور انتہائی ہنستے مسکراتے چہرے والے دیسی بندے نے بالکل لاہوری انداز میں جپھی ڈال دی۔ میں حیرت سے منہ کھولے شاید سلام بھی کرنا بھول گیا کہ نبیل بھائی اتنے ینگ اور اتنے سمارٹ اور ہینڈ سم ہیں؟ پھر سوچا کہ آخر بھائی کس کے ہیں (یہاں میں اپنی طرف اشارہ کر رہا ہوں)۔ خیر سلام دعا کے بعد کمرے کا رخ کیا۔ بار بار میں نبیل بھائی کے سر کی طرف دیکھوں کہ کمپیوٹر سائنس کیوں ان پر اتنی مہربان ہے۔ میرا تو سر خالی (باہر سے) ہو رہا ہے۔ خیر، کچھ دیر تک تو ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے تخیلاتی شخصی خاکوں کو ناکامی سے جانچتے رہے۔ میں حیران کہ نبیل بھائی اتنے دھیمے، اتنے میٹھے لہجے کے مالک اور اتنے دوست ہیں کہ انہیں بڑا بھائی کہتے ہوئے جھجھک ہو رہی تھی کہ یار تو بالکل ہی بڑے بھائی سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔​
چلیں جناب، پھر گپ شپ شروع ہوئی تو پتہ نہیں کہاں کہاں کی باتیں کرتے کرتے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ پھر نبیل بھائی نے پوچھا کہ چلو کہیں چہل قدمی کرتے ہیں۔ میں تو ٹھہرا چھوٹا بھائی، اس لئے سر تسلیم خم۔ ہم باہر نکلنے لگے تو نبیل بھائی نے باقاعدہ جیکٹ نما کوٹ بھی پہنچا اور میں سوچ رہا تھا کہ ٹی شرٹ پہن کر نکلنے کا ارادہ شکر ہے کہ ملتوی کر دیا تھا، ورنہ نبیل بھائی بہت ناراض ہوتے کہ میرا مذاق اڑانے کے چکر میں ہو۔ خیر ہم نے دو تین سو میٹر کا فاصلہ طے کیا۔ ایک جگہ کباب یعنی ٹرکش شوارما ریستوران دکھائی دیا۔ اب غلطی سے میں نبیل بھائی سے سچ بول بیٹھا تھا کہ کھانا کھانے کے وقت میں نکل کھڑا ہوا تھا۔ انہوں نے از راہ شفقت کہا کہ بھائی، آج تم مہمان اور میں میزبان۔ میں بے چارہ غلطی کر بیٹھا، مان لی بات۔ ریستوران گھسے اور میں نے شوارما منگوایا اور نبیل بھائی نے چائے لی۔​
کھانے سے فارغ ہو کر (نبیل بھائی پہلے ہی کھانا کھا چکے تھے) ہم لوگ پھر تھوڑی سی واک کر کے واپس ہوٹل لوٹے۔ ادھر پھر ہم نے کافی لمبی گپ شپ کی۔ ادھر ادھر کی باتیں، محفل کے حوالے سے کافی گپ شپ رہی۔ لائبریری کے حوالے سے انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ کتب مجھے پوسٹ کر دیں گے۔ میرے دفتر میں بڑا سکینر موجود ہے جس میں کتاب کے صفحے الگ الگ کر کے ڈال دیں تو پوری کتاب تھوڑی دیر میں سکین کر کے ای میل یا پھر یو ایس بی پر ڈال دیتا ہے۔ اس سے میں ان کتب کو سکین کر کے لائبریری کے لئے مہیا کر دوں گا۔​
پھر جناب رات کے پونے دس بجے میں نے خود تھوڑی سی بے شرمی کا مظاہرہ کیا اور نبیل بھائی سے اجازت مانگی کہ یہ دن تو انہوں نے سفر میں گذارا (جس کی داستان وہ الگ سے شئیر کرنا چاہیں تو ان کی مرضی) اور اگلے چار دن ان کے کافی مصروف گذرنے تھے۔ انہوں نے کافی کہا کہ جلدی کیا ہے، آرام سے بیٹھو، لیکن ان کے آرام کی مجھے کافی فکر تھی۔ اس لئے اجازت لی اور گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ دس بجے نکلا اور ساڑھے گیارہ بجے گھر کیونکہ رات کو اتنا رش نہیں ہوتا سڑکوں پر اور نہ ہی موٹر وے پر۔ فن لینڈ میں موٹر وے دو لین کی ہوتی ہے۔ یعنی دو لین آنے والی اور دو لین جانے والی۔​
باقی تفصیل یاد آنے پر مہیا کی جاتی رہے گی :)


بہت بہت بہت ہی زبردست۔۔۔۔۔۔۔ کیا خوب اطلاع ہے۔۔ اور آپ نے لکھا بھی بہت پیارا ہے :) :) ۔۔۔ منصور بھائی تصویریں کہاں ہیں؟؟؟؟؟ میں ناراض ہوگیا بس :nottalking:
 
Top