نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر ۔ ارشاد عرشی ملک

رانا

محفلین
ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک خوبصورت نعت عالمی اخبار پر دیکھی تھی۔ نعت تو بہت لمبی ہے۔ کچھ اشعار شئیر کرنے کے لئے منتخب کئے ہیں لیکن پھر بھی کافی زیادہ ہوگئےہیں۔​

نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
ہے تری مرتبہ دانی میں پوشیدہ خدادانی
تو مظہر ہے خدا کا، نور وحدت ختم ہے تجھ پر
ترے ہی دم سے بزم ِ انبیاء کی رونق و زینت
تو صدرِ انجمن، شانِ صدارت ختم ہے تجھ پر

تری خاطر ہوئے تخلیق یہ ارض و سماء سارے
یہی وجہء ضرورت تھی ضرورت ختم ہے تجھ پر

خدا خود نعت لکھتا ہے تری قران کی صورت
عجب ہے شانِ محبوبی، وجاہت ختم ہے تجھ پر

مزمل بھی، مدثر بھی ہے تو، یاسین و طٰہٰ بھی
انوکھے نام ہیں تیرے، یہ ندرت ختم ہے تجھ پر

شریعت کے محل کا آخری پتھر ہے تو پیارے
ادھورے کو کیا پورا یہ سنت ختم ہے تجھ پر

ترے ہی ہاتھ سے تکمیلِ دیں اللہ نے فرمائی
ہوا اتمام نعمت کا یہ نعمت ختم ہے تجھ پر

نہیں ہے باپ گرچہ تو کسی بھی مرد کا لیکن
تو مُہرِ انبیاء شانِ رسالت ختم ہے تجھ پر

نہیں حاجت کسی دستور کی اب بعد قرآں کے
یہی دستورِ کامل، کاملیت ختم ہے تجھ پر

کیا وہ کام تنہا جو نبی مل کر نہ کر پائیں
فہم انمول تیرا، قابلیت ختم ہے تجھ پر

تو آکر بعد میں بھی سب پہ بازی لے گیا پیارے
یہ ہمت ختم ہے تجھ پر، یہ سبقت ختم ہے تجھ پر

خدا میں جذب ہو کر تو ابد تک ہو گیا زندہ
فنا ہو کر بقا پائی، سعادت ختم ہے تجھ پر

تری ہی ذات میں آکر ہوئی اکمل ہر اک خوبی
مروت ہو، متانت ہو کہ الفت ختم ہے تجھ پر

خدا کے نام گر سو ہیں تو تیرے ایک کم سو ہیں
صفاتِ ذاتِ باری سے شباہت ختم ہے تجھ پر

کہا جبرئیل نے “اقراء” کہا میں پڑھ نہیں سکتا
کمالِ عاجزی کی یہ علامت ختم ہے تجھ پر

شبِ معراج تو نے بام ِ عرفاں کو چھوا جا کر
یہی حدِ فضیلت تھی، فضیلت ختم ہے تجھ پر

افلاک کو اک جست میں طے کر گیا پیارے
یہ شوکت یہ، سعادت، یہ امامت ختم ہے تجھ پر

جہاں جبرئیل کے جلتے تھے پر تو اس جگہ پہنچا​
تو منزل ہے رہءِ حق کی مسافت ختم ہے تجھ پر​
خدا سے عشق ایسا تھا ملائک ہو گئے حیراں​
لگے سرگوشیاں کرنے محبت ختم ہے تجھ پر​
ہزاروں سال میں جو راہِ الفت طے نہ ہوتی تھی​
دنوں میں طے کرادی وہ، قیادت ختم ہے تجھ پر​
قیامت تک تیرے ہی فیض کا جاری ہے اب دریا​
تری بخشش نرالی ہے، سخاوت ختم ہے تجھ پر

ہے دستور العمل قرآن، سچا رہنما تو ہے
یہی رازِ حقیقت ہے، حقیقت ختم ہے تجھ پر

ترے آوازہِ حق نے بپا محشرکیا جگ میں
تری بعثت قیامت تھی، قیامت ختم ہے تجھ پر

کمالاتِ رسالت، حق نے تجھ پر وار کر سارے
کہا پھر پیار سے پیارے، رسالت ختم ہے تجھ پر

صادق بھی امیں بھی تھا یہ دشمن تک پکار اُٹھے
صداقت ختم ہے تجھ پر، امانت ختم ہے تجھ پر

غفلت کے، جہالت کے حجابوں سے چھڑاتا ہے
یہ علم و معرفت، فہم و فراست ختم ہے تجھ پر

عجب تھا حوصلہ ہر جاں کے دشمن کو اماں دے دی
تو اعلٰی ظرف تھا ترکِ شکایت ختم ہے تجھ پر

زمین و آسماں پر شور اک صل علیٰ کا ہے
تو طاہر تھا، مطہر تھا، طہارت ختم ہے تجھ پر

ترے در کی گدائی میں ہے پوشیدہ شہنشاہی
تو شاہِ دو جہاں ہے بادشاہت ختم ہے تجھ پر

محبت وہ خدا سے کی کہ دشمن تک پکار اُٹھے
تو اپنے رب پہ عاشق ہے یہ جدت ختم ہے تجھ پر

تری ذات و صفات، افعال، سب لاریب، پاکیزہ
تقدس خود پکار اُٹھا کہ عفت ختم ہے تجھ پر

جو اربابِ تدبر ہیں وہ بے کھٹکے یہ کہتے ہیں
ترا ہی ذکر اب جاری، حکایت ختم ہے تجھ پر

نہیں ہم جانتے، تو عشق کی کس راہ سے گزرا
بس اتنا جانتے ہیں دردِ فرقت ختم ہے تجھ پر

سلگتا تھا ترا سینہ اُبلتی دیگ کی مانند
عجب تھی عشق کی حدت، یہ حدت ختم ہے تجھ پر
 

نایاب

لائبریرین
سبحان اللہ
کیا شان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کی ہے ۔
محترمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ نے
جزاک اللہ خیراء محترم بھائی رانا
 

سید زبیر

محفلین
خدا خود نعت لکھتا ہے تری قران کی صورت​
عجب ہے شانِ محبوبی، وجاہت ختم ہے تجھ پر​
سبحان اللہ ۔ ۔ رانا صاحب ! بہت خوب ۔۔ جزاک اللہ​
 

یوسف-2

محفلین
ہے دستور العمل قرآن، سچا رہنما تو ہے
یہی رازِ حقیقت ہے، حقیقت ختم ہے تجھ پر

سبحان اللہ
 

انتہا

محفلین
نبوت ختم ہے تجھ پر، رسالت ختم ہے تجھ پر
ترا دیں ارفع و اعلی، شریعت ختم ہے تجھ پر
ترے ہی دم سے بزم ِ انبیاء کی رونق و زینت
تو صدرِ انجمن، شانِ صدارت ختم ہے تجھ پر

خاتم النبیین، خاتم الانبیا
اللہ تعالیٰ اس کا سچا یقین نصیب فرمائے۔ اٰمیں
 

رانا

محفلین
قادر علی صاحب کی خواہش کے مطابق اسی نعت کے مزید اشعار:​
گدازِ غم نے چہرے کو انوکھا نور بخشا تھا
سکینت خود یہ کہتی تھی، سکینت ختم ہے تجھ پر
ہر عُسر و یُسر میں راضی رہا تو اپنے مولا سے
اے عالی مرتبت، صبر و قناعت ختم ہے تجھ پر
ترے سر کے لیے پتھر تھے، پیروں کے لیے کانٹے
مگر لب پر دُعا تھی، جوشِ رحمت ختم ہے تجھ پر
سفر طائف کا، زخمی تھا بدن ، لب پر دُعائیں تھیں
اے کوہِ استقامت، عزم و ہمت ختم ہے تجھ پر
جو پیاسے خون کے تھے، ان کی بخشش کی دُعائیں کیں
مرے محبوب، لطفِ بے نہایت ختم ہے تجھ پر
ترا مکے سے وہ چھپ کر نکلنا یاد آتا ہے
تھا ٹھنڈی آہ میں جو دردِ ہجرت ختم ہے تجھ پر
قیامِ شب میں سوجے پاؤں اور آنکھیں ہوئیں جل تھل
عبادت میں یہ بے پایاں مشقت ختم ہے تجھ پر
خدا کے واسطے تا عمر تو نے سختیاں جھیلیں
عجب تھی صبر کی طاقت یہ قوت ختم ہے تجھ پر
گواہی لا الہ کی دی جہاں کو کر لیا دشمن
عجب تھا حوصلہ، جراءت، جسارت ختم ہے تجھ پر
رہِ حق میں جو تو نے دکھ سہے تیرا ہی حصہ تھے
اذیت ختم ہے تجھ پر، صعوبت ختم ہے تجھ پر
ترا حامی خدا تھا، اور مخالف اک خدائی تھی
غضب تھی شانِ استغنا، متانت ختم ہے تجھ پر
پرائے تھے کہ اپنے، سب کے سب دشمن ہوئے تیرے
یہ دردِ بے کسی، حدِ مصیبت ختم ہے تجھ پر
وہ تیرا نرغہء دشمن میں بڑھتے ہی چلے جانا
عزیمت ختم ہے تجھ پر، شجاعت ختم ہے تجھ پر
تو میدانِ وفا میں ایسا بے خوف و خطر آیا
ہر اک دل نے کہا شوقِ شہادت ختم ہے تجھ پر
تری نرمی حلیمی بھی علامت تھی نبوت کی
صباحت ختم ہے تجھ پر، ملاحت ختم ہے تجھ پر
جو آئے قتل کرنے کو ہوئے شامل غلاموں میں
دلوں کو جیت لینے کی مہارت ختم ہے تجھ پر
ستم سہنے کی لذت سے ہمیں واقف کیا تو نے
تری اس جورِ بے پایاں سے رغبت ختم ہے تجھ پر
تو مسکینوں، یتیموں کے لیے اک گھنا سایہ
غریبوں، بے کسوں پر خاص شفقت ختم ہے تجھ پر
رہا فاقے سے خود، مہماں کو لیکن سیر کر ڈالا
یہ استغنا، یہ اندازِ ضیافت ختم ہے تجھ پر
مسلسل پیٹ کو بھر کر کبھی کھانا نہیں کھایا
یہ مسکینوں سے یک جہتی کی عادت ختم ہے تجھ پر
من و سلوٰی بھی مل سکتا تھا پر تو نے نہیں چاہا
تجھے نانِ جویں بھایا، یہ غربت ختم ہے تجھ پر
کبھی لذّاتِ دنیا سے کوئی حصہ نہیں چاہا
خدا کے ہاتھ سب بیچا، یہ بیعت ختم ہے تجھ پر
وہ زہد و پارسائی کی کہ شاہی میں گدائی کی
سرِ تسلیم خم ایسا، اطاعت ختم ہے تجھ پر
غلاظت سے بھرے بستر کو اپنے ہاتھ سے دھویا
کسی مہماں کی یہ خاطر مدارت ختم ہے تجھ پر
نہ آلودہ تجھے کر پائی اس دنیا کی آلائش
گواہی روز و شب نے دی، نفاست ختم ہے تجھ پر
نہ مال اسباب کی پرواہ، نہ جاہ و حشم پر تکیہ
فقر تھا تیرا سرمایہ، یہ دولت ختم ہے تجھ پر
ترے دربار میں شاہ و گدا اک تھے مراتب میں
مرے منصف ! یہ اندازِ عدالت ختم ہے تجھ پر
تو اس دنیا کی عز و جاہ کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا
فقر کو تو نے عظمت دی قناعت ختم ہے تجھ پر
عجب تھا تیرا ستر بار استغفار کرنا بھی
خدا کے سامنے عجز و ندامت ختم ہے تجھ پر
عمل کر کے دِکھایا تو نے خود احکامِ قرآں پر
نصیحت خوب کی، طرزِ نصیحت ختم ہے تجھ پر
تجھے دیکھا سُنا جس نے، وہ تیرا ہو گیا شیدا
سراپا تھا ترا قرآں، تلاوت ختم ہے تجھ پر
جو خط شاہوں کو لکھوائے بہت نایاب ہیں سارے
گواہ تحریر ہے، خط و کتابت ختم ہے تجھ پر
ترا ہر مختصر فقرہ، خزینہ معرفت کا ہے
ترے حرفوں میں جو تھی معنویت ختم ہے تجھ پر
بدن مصروف تھا اور دل خدا کے واسطے فارغ
ترے قربان یہ رنگِ فراغت ختم ہے تجھ پر
خدا کے در پہ تو دھونی رما کر عمر بھر بیٹھا
یہ استقلال یہ شوقِ ارادت ختم ہے تجھ پر
تری خلوت میں رونق تھی، تری جلوت میں تنہائی
یہ خلوت ختم ہے تجھ پر، یہ جلوت ختم ہے تجھ پر
مبشر بھی تو منذر بھی، ترا منصب تھا ہادی کا
بہت تلقین کی اتمامِ حجت ختم ہے تجھ پر
مقام عالٰی، کلام عالٰی، پیام عالٰی، دوام عالٰی
تو عالٰی مرتبت ہے شرف و عزت ختم ہے تجھ پر
سرِ محفل خدائے پاک سے سرگوشیاں جاری
یہ عشق و عاشقی، یہ شوق و شدت ختم ہے تجھ پر
ترا رتبہ تھا کیا، اس راز کو سمجھی نہیں دنیا
ہے قصہ مختصر، اللہ سے قربت ختم ہے تجھ پر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جی سر میں بھی اسی نعت کی بات کر رہا تھا۔ میرے پاس بھی یہی لکھی پڑی تھی۔ آپ سبقت لے گئے:a6: ورنہ میں تو شائد ابھی سال اور نہ لکھتا اتنا لمبی نعت کو:)
 

رانا

محفلین
جی سر میں بھی اسی نعت کی بات کر رہا تھا۔ میرے پاس بھی یہی لکھی پڑی تھی۔ آپ سبقت لے گئے:a6: ورنہ میں تو شائد ابھی سال اور نہ لکھتا اتنا لمبی نعت کو:)
میں نے بھی صرف شروع کے کچھ شعر لکھے تھے کہ پھر مجھے احساس ہوا کہ لکھنے میں تو بہت وقت لگ جائےگا اور پھر اتنی لمبی نعت لکھنے میں غلطیوں کا بھی بہت امکان ہے۔کیونکہ شروع کے اشعار میں اعراب نہیں لگ رہے تھے مجھ سے۔ اس لئے پھر باقی کے تمام اشعار میں نے عالمی اخبار سے کاپی کیے تھے جس کا حوالہ شروع میں ہی دے دیا تھا۔ یہاں ان کا تازہ کلام بھی چھپتا رہتا ہے۔
 

Saadullah Husami

محفلین
ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی یہ طویل نعت نبی اگر اور طویل ہوجائے تو مضائقہ نہیں ۔
رانا صاحب ، ماشاء اللہ۔
کہا جبرئیل نے “اقراء” کہا میں پڑھ نہیں سکتا
کمالِ عاجزی کی یہ علامت ختم ہے تجھ پر
بڑاے ہی جملہ پرمعنی اشعار میں سے ایک ہے۔
 
Top