نا آشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مرزا غالب کی زمین میں یہ غزل اگرچہ رواں برس کے مشاعرے میں پیش کر چکا ہوں۔ لیکن یہاں پر پیش کرنے کا مقصد اہلِ سخن دوستوں سے تنقیدی تبصرہ اور باقی دوستوں کی چشم خراشی مقصود ہے😊

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی، عمر بھر اک اک نظر کو میں

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
 

فہد اشرف

محفلین
اچھی غزل ہے عبد الرؤف بھائی، داد قبول فرمائیں۔
شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں
شوریدہ سر کا جس معنی میں آپ نے استعمال کیا ہے اس معنی میں شاید استعمال نہیں ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا آپ کسی شوریدہ سر کی خبر لینے پہنچ گئے ہیں۔

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں
پہلےمصرعے میں تھوڑا دوش اگر آئینہ گر کو بھی دے دیتے تو بات زیادہ بہتر بنتی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھی کاوش ہے عبدالرؤف!
روایتی غزل کے اچھے مضامین باندھے ہیں لیکن ایک آنچ کی کسر ہے تقریباً ہر شعر میں ۔ مضمون اگر روایتی غزل کا ہو تو زبان و بیان بھی فصیح ہونی چاہیے ورنہ تغزل کا رنگ پھیکا ہی رہتا ہے ۔ اصلاحِ سخن میں لاتے تو استادِ محترم بغور دیکھ کر نشاندہی کردیتے ، کچھ اشارے یہاں میں دے دیتا ہوںتاکہ مستقبل میں آپ کے یا کسی اور کے کام آجائیں۔ دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے کہ مثبت انداز میں لیں گے ۔

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

بام و در کو غیر پانا یا محسوس کرنا بہتر ہوتا ۔ بام و در کو غیر دیکھنا اچھی زبان نہیں ۔ غیر دیکھنا مستعمل نہیں ۔ غیر معروف ہے ۔ ایک تجویز: نا آشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

پہلے مصرع میں رہا کا الف بری طرح گر رہا ہے ۔ دونوں مصرعوں کی گرامر باہم مطابق نہیں ۔ پہلے مصرع میں فعل حال استمراری ہے تو دوسرے میں یوں ہونا چاہیے: وہ آزماتا ہے مجھ کو ۔۔۔۔۔۔ ایک تجویز: وہ مجھ کو آزماتا ہے ،اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

منت اٹھانا محاورہ ہے ۔ منت کو اٹھانا درست نہیں ہے ۔

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

واہ! خوب ! ویسے اگر کسی کا خط بھولے سے آپ کے پاس آجائے تو اسے ڈاکیے کو واپس کردینا چاہیے ۔:):):)

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

فغاں کرنا تو ٹھیک ہے لیکن کسی کو فغاں سنانا غیر معروف ہے ۔ غیر فصیح ہے ۔

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی، عمر بھر اک اک نظر کو میں

دوسرے مصرع میں تعقید ہے ۔ تڑپا ہوں اور عمر بھر میں فاصلہ برا لگ رہا ہے ۔" جس کی عمر بھر" اچھی بندش نہیں ۔

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

اس بارے میں فہد بھائی نہایت اچھا تبصرہ کرچکے۔ شوریدہ سر کسی شخصیت کی صفت ہوتی ہے ۔ شوریدہ کو سر کی صفت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ۔

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

اچھا شعر ہے ۔ پری فارسی لفظ ہے اگر ہوسکے تو اس کو اس طرح باندھیے کہ ی کا اسقاط نہ ہو ۔ بصورت دیگر چلے گا ۔ پری کے بجائے مہ وش ، مہ رو ، ماہ رو وغیرہ کا لفظ لائیں تو آئینے سے مربوط ہوجائے گا ۔

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں

اُس ہی متروک اور غیر فصیح ہے ۔ اب اُسی استعمال ہوتا ہے۔ اُس پر ہی وارتا ہوں ۔۔۔ میں کیا قباحت ہے؟ ویسے آہ و فغان اور متاعِ ہنر کا ربط سمجھ میں نہیں آیا ۔ جس کے سبب بنا ہوں سخنور ۔۔۔ جس کے سبب ہوا ہوں میں آمادۂ سخن ۔۔ آمادۂ غزل ۔ ۔۔۔وغیر ہ مربوط ہوجائیں گے ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
پہلےمصرعے میں تھوڑا دوش اگر آئینہ گر کو بھی دے دیتے تو بات زیادہ بہتر بنتی۔
وہ "پری" تو ویسے ہی حسین ہونے کی وجہ سے مغرور ہے ہی اور اس کے غرور میں بڑھاوے کا پورا الزام آئینہ گر پر ہی ڈالا جا رہا ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب! اچھی کاوش ہے عبدالرؤف!
روایتی غزل کے اچھے مضامین باندھے ہیں لیکن ایک آنچ کی کسر ہے تقریباً ہر شعر میں ۔ مضمون اگر روایتی غزل کا ہو تو زبان و بیان بھی فصیح ہونی چاہیے ورنہ تغزل کا رنگ پھیکا ہی رہتا ہے ۔ اصلاحِ سخن میں لاتے تو استادِ محترم بغور دیکھ کر نشاندہی کردیتے ، کچھ اشارے یہاں میں دے دیتا ہوںتاکہ مستقبل میں آپ کے یا کسی اور کے کام آجائیں۔ دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے کہ مثبت انداز میں لیں گے ۔

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

بام و در کو غیر پانا یا محسوس کرنا بہتر ہوتا ۔ بام و در کو غیر دیکھنا اچھی زبان نہیں ۔ غیر دیکھنا مستعمل نہیں ۔ غیر معروف ہے ۔ ایک تجویز: نا آشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

پہلے مصرع میں رہا کا الف بری طرح گر رہا ہے ۔ دونوں مصرعوں کی گرامر باہم مطابق نہیں ۔ پہلے مصرع میں فعل حال استمراری ہے تو دوسرے میں یوں ہونا چاہیے: وہ آزماتا ہے مجھ کو ۔۔۔۔۔۔ ایک تجویز: وہ مجھ کو آزماتا ہے ،اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

منت اٹھانا محاورہ ہے ۔ منت کو اٹھانا درست نہیں ہے ۔

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

واہ! خوب ! ویسے اگر کسی کا خط بھولے سے آپ کے پاس آجائے تو اسے ڈاکیے کو واپس کردینا چاہیے ۔:):):)

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

فغاں کرنا تو ٹھیک ہے لیکن کسی کو فغاں سنانا غیر معروف ہے ۔ غیر فصیح ہے ۔

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی، عمر بھر اک اک نظر کو میں

دوسرے مصرع میں تعقید ہے ۔ تڑپا ہوں اور عمر بھر میں فاصلہ برا لگ رہا ہے ۔" جس کی عمر بھر" اچھی بندش نہیں ۔

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

اس بارے میں فہد بھائی نہایت اچھا تبصرہ کرچکے۔ شوریدہ سر کسی شخصیت کی صفت ہوتی ہے ۔ شوریدہ کو سر کی صفت کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ۔

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

اچھا شعر ہے ۔ پری فارسی لفظ ہے اگر ہوسکے تو اس کو اس طرح باندھیے کہ ی کا اسقاط نہ ہو ۔ بصورت دیگر چلے گا ۔ پری کے بجائے مہ وش ، مہ رو ، ماہ رو وغیرہ کا لفظ لائیں تو آئینے سے مربوط ہوجائے گا ۔

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں

اُس ہی متروک اور غیر فصیح ہے ۔ اب اُسی استعمال ہوتا ہے۔ اُس پر ہی وارتا ہوں ۔۔۔ میں کیا قباحت ہے؟ ویسے آہ و فغان اور متاعِ ہنر کا ربط سمجھ میں نہیں آیا ۔ جس کے سبب بنا ہوں سخنور ۔۔۔ جس کے سبب ہوا ہوں میں آمادۂ سخن ۔۔ آمادۂ غزل ۔ ۔۔۔وغیر ہ مربوط ہوجائیں گے ۔
مشاعرہ منعقد ہونے کے ایک دو دن پہلے یہ غزل مکمل ہوئی تھی اسی لیے استاد صاحب کو زحمت نہیں دے سکا۔ ایک اور دوست کو دکھایا تھا لیکن وقت کی قلت کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔
بہت اچھے طریقے سے آپ نے رہنمائی فرمائی۔ جس پر بے حد شکریہ۔ آپ کے بتائے گئے نکات کی روشنی میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کو درست کروں۔ میرا اس غزل کو پیش کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ جیسے دوستوں کے مشوروں سے فائدہ حاصل کیا جائے۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
خاصی سیر حاصل گفتگو ہو گئی غزل پہ ماشاء اللہ۔بہر حال مشکل زمین پہ ایک اچھی کوشش پہ داد قبول کیجیے۔
جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں
بہت خوب ۔
میں تو اس زمین میں ایک شعر کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا تھا:
یوں عشق_ حق سے آئینہ دل کا ہوا ہے صاف
حب_علی میں پاتا ہوں حب_عمر کو میں
(رضی اللہ تعالیٰ عنھما)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھی غزل ہے عبد الرؤف بھائی، داد قبول فرمائیں۔
بہت شکریہ فہد بھائی، سلامت رہیں
بہت خوب! اچھی کاوش ہے عبدالرؤف!
حوصلہ افزائی اور رہنمائی کا بہت شکریہ، خوش رہیں
بہر حال مشکل زمین پہ ایک اچھی کوشش پہ داد قبول کیجیے۔
بہت شکریہ حوصلہ افزائی کا،یقین مانیے آپ جیسے دوستوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے ہی کچھ کہنے کی ہمت کر لیتا ہوں۔ سلامت رہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
دخل در معقولات کے لیے پیشگی معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے کہ مثبت انداز میں لیں گے ۔
میں نے تو خود آپ جیسے اساتذہ سے تنقیدی تبصرے کی درخواست کی تھی۔ آپ کی توجہ اور مفصل جواب کا بے حد شکریہ، میں کوشش کرتا ہوں جتنے اعتراضات آپ نے اٹھائے ہیں ان کو رفع کروں۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جو بھی مجھ سے بن پڑا اس پر آپ کو دوبارہ زحمت دوں گا۔ شفقت فرمائیے گا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

واہ! خوب ! ویسے اگر کسی کا خط بھولے سے آپ کے پاس آجائے تو اسے ڈاکیے کو واپس کردینا چاہیے ۔:):):)
ایک ماموں زاد بھائی کو یہ غزل سنائی تو اس شعر پر کہنے لگا کہ "نامہ بر" کا کیا قصور تھا بھلا 😂
 

صریر

محفلین
مرزا غالب کی زمین میں یہ غزل اگرچہ رواں برس کے مشاعرے میں پیش کر چکا ہوں۔ لیکن یہاں پر پیش کرنے کا مقصد اہلِ سخن دوستوں سے تنقیدی تبصرہ اور باقی دوستوں کی چشم خراشی مقصود ہے😊

یکلخت غیر دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

اک سلسلہ سا چل رہا ہے عمر بھر سے یوں
وہ آزمائے مجھ کو اور اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا اٹھاؤں منتِ تیغ و سپر کو میں

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

بے داد ہی رہی گو سناتا گیا فغاں
گلشن کے پھول پھول کو ہر اک شجر کو میں

اس کا پڑے نہ پالا تغافل کے قہر سے
تڑپا ہوں جس کی، عمر بھر اک اک نظر کو میں

شاید یوں بزمِ یار تلک اب رسائی ہو
پہنچا ہوں در پہ پھوڑنے شوریدہ سر کو میں

جس نے بڑھایا اُس پری کا اور بھی غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

جس کے سبب ہوا ہوں میں آہ و فغاں میں طاق
اُس ہی پہ وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
ماشاءاللہ محمد عبدالرؤوف بھائی، بہت اچھی غزل ہے۔ مطلع تو بہت ہی خوب ہے!!✨👍
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
استاد صاحب الف عین
ظہیراحمدظہیر بھائی، نظرِ ثانی کی درخواست ہے۔
اور دیگر احباب۔۔۔

نا آشنا سا دیکھتا ہوں بام و در کو میں
پاتا ہوں اجنبی سا ترے بعد گھر کو میں

یوں چل رہا ہے ایک زمانے سے سلسلہ
وہ مجھ کو آزماتا ہے، اپنے جگر کو میں

تیرِ نظر ہی دشمنِ جاں کا اگر ہو پار
پھر کیا کروں اٹھا کے بھی تیغ و سپر کو میں
یا
ہے جس عدو کا تیرِ نظر دل کے آر پار
آگے اُسی کے کیا کروں تیغ و سپر کو میں

بھولے سے اس کا نامہ مرے نام آ گیا
اب خط کو چومتا ہوں کبھی نامہ بر کو میں

بے داد ہی رہی ہے چمن میں ہر اک فغاں
رویا کیا اگرچہ تو ہوں عمر بھر کو میں

واقف نہ ہو وہ آنکھ تغافل کے قہر سے
اک عمر سے تڑپتا ہوں جس کی نظر کو میں

سر خاک خاک کر لیا، خوں میں نہا گیا
در پر جو اس کے پھوڑتا تھا اپنے سر کو میں

اُس ماہ رو کا جس نے فزوں تر کیا غرور
ہر آن کوستا ہوں اُس آئینہ گر کو میں

جس کے سبب ہوا ہوں میں آمادہء سخن
اُس پر ہی وارتا ہوں متاعِ ہنر کو میں
 
آخری تدوین:
Top