ناصر کاظمی ناصر کاظمی

پاکستانی

محفلین
کون اس راہ سے گزرت ہے

دل يونہي انتظار کرتا ہے

ديکھ کر بھي نہ ديکھنے والے

دل تجھے ديکھ ديکھ ڈرتا ہے

شہر گل ميں کٹي ہے ساري رات

ديکھيے دن کہاں گزرتا ہے

دھيان کي سڑھيوں پہ پچھلے پہر

کوئي چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

دل تو ميرا اداس ہے ناصر

شہر کيوں سائيں سائيں کرتا ہے
 

پاکستانی

محفلین
دل دھڑکنے کا سبب ياد آيا

دل دھڑکنے کا سبب ياد آيا

وہ تيري ياد تھي اب ياد آيا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست

تو مصيبت ميں عجب ياد آيا

دن گزارا تھا بڑي مشکل سے

پھر ترا وعدہ شب ياد آيا

تيرا بھولا ہوا پيمان وفا

مر رہيں گے اگر اب ياد آيا

پھر کئي لوگ نظر سے گزرے

پھر کوئي شہر طرب ياد آيا

حال دل ہم بھي سناتے ليکن

جب وہ رخصت ہوا تب ياد آيا

بيٹھ کر سايہ گل ميں ناصر

ہم بہت روئے وہ جب ياد آيا
 

پاکستانی

محفلین
گلي گي آباد تھي جن سے کہاں گئے وہ لوگ

گلي گي آباد تھي جن سے کہاں گئے وہ لوگ

بستی اب کے ايسي اجڑي گھر گھر پھيلا سوگ

سارا سارا دن گليوں ميں پھرتے ہيں بے کار

راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہيں اس نگري کے لوگ

سہمے سہمے سے بيٹھے ہيں راگي اور فنکار

بھور بھئے اب ان گليوں ميں کون سنائے جوگ

جب تک ہم مصروف رہے يہ دنيا تھي سنسان

دن ڈھلتے ہي دھيان ميں آئے کيسے کيسے لوگ

ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس

وہي پراني باتيں اس کي وہي پرانا روگ
 
Top