نئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟

ساقی۔

محفلین
نئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
جب آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو کونسی زبان بولتے تھے؟ اور بعد میں نئی زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟
 
میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
 

عثمان

محفلین
میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا ؟ :eek:
مذہبی جذباتیت اپنی جگہ لیکن کچھ لسانیات کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیتے۔
 

عثمان

محفلین
ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔
 

زیک

مسافر
میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
پھر عربی ہمیں پرانی لکھی کیوں نہیں ملتی؟
 

زیک

مسافر
نئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
جب آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو کونسی زبان بولتے تھے؟ اور بعد میں نئی زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟
بولنے والی زبان کا پتا لگانا ناممکن ہے۔ ہاں لکھی زبانوں کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں
 

عثمان

محفلین

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ "نین ڈرتھلز" سمیت انسانوں کی صفحہ ہستی سے معدوم ہوجانے والی دیگر ابتدائی نسلوں کے افراد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھے اور ان کے ہاں زبان کا استعمال رائج تھا۔

"نین ڈرتھلز" کو موجودہ انسانی نسل کا جدِ امجد تصور کیا جاتا ہے۔ یورپ اور مغربی و وسطی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی یہ ابتدائی نسل ہزاروں برس قبل معدوم ہوگئی تھی۔

سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ آیا انسانوں کی ابتدائی نسلیں زبان کے استعمال کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کی حامل تھی یا نہیں۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس سے منسلک انسانی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ فریئر کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم "نین ڈرتھلز" اور ان سے بھی پہلے کی انسانی نسل کے افراد کے دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی نسل میں زبان و بیان کا استعمال پانچ لاکھ برس سے رائج ہے۔

محققین کی اس ٹیم نے "نین ڈرتھلز" کے دانتوں پر موجود ان نشانات کا مطالعہ کیا ہے جو سائنسدانوں کے بقول پتھروں کے بنے ہوئے تیز دھار اوزاروں کی وجہ سے نقش ہوئے جو یہ لوگ شکار کیے گئے جانوروں کی کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کیلیے استعمال کیا کرتے تھے۔

سائنسدانوں کے بقول ابتدائی دور کے یہ لوگ شکار کردہ جانوروں کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا کرتے تھے جس کیلیے بعض اوقات انہیں تیز دھار اوزاروں کی مدد بھی لینا پڑتی تھی۔

سائنسدانوں کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود انسانی دانتوں کے تمام فوسلز پر ان اوزاروں کے جو نشانات پائے گئے ہیں ان کے زاویوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اوزار تھامنے کیلیے اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس انکشاف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" کا دماغ بھی موجودہ دور کے انسانوں کی طرح دو حصوں میں منقسم تھا جس کا بایاں حصہ ان کے ہاتھوں کے استعمال اور حرکات کو کنٹرول کرتا تھا۔

محققین کی ٹیم کے بقول چونکہ موجودہ انسانی دماغ کا بایاں حصہ ہی زبان کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے، لہذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" بھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔

موجودہ تحقیق کے سامنے آنے سے قبل کئی سائنسدان یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ "نین ڈرتھلز" کے منہ کی اندرونی ساخت کچھ ایسی تھی کہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل نہیں تھے۔

تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ فریئر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی نسل میں گفتگو اور زبان کے فہم کی صلاحیت خاصی قدیم ہے۔

فریئر کی ٹیم نے جن انسانی دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کی انہیں اسپین کے علاقے برگس کے ایک قدیمی غار سے برآمد کیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مذکورہ فوسلز پانچ لاکھ سال قدیم ہیں اور ان کا تعلق "یورپی نین ڈرتھلز" کی ابتدائی نسلوں سے ہے۔

تحقیق کیلیے فریئر کی ٹیم نے کروشیا اور فرانس سے ملنے والے انسانی دانتوں کے قدیم فوسلز کا مطالعہ بھی کیا۔ مذکورہ تحقیق برطانوی جریدے "لیٹریلیٹی" میں شائع ہوئی ہے۔

 

زیک

مسافر
محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ "نین ڈرتھلز" سمیت انسانوں کی صفحہ ہستی سے معدوم ہوجانے والی دیگر ابتدائی نسلوں کے افراد سیدھے ہاتھ سے کام کرنے کا عادی تھے اور ان کے ہاں زبان کا استعمال رائج تھا۔

"نین ڈرتھلز" کو موجودہ انسانی نسل کا جدِ امجد تصور کیا جاتا ہے۔ یورپ اور مغربی و وسطی ایشیاء میں بسنے والے انسانوں کی یہ ابتدائی نسل ہزاروں برس قبل معدوم ہوگئی تھی۔

سائنسدانوں کے درمیان یہ بحث طویل عرصے سے چلی آرہی ہے کہ آیا انسانوں کی ابتدائی نسلیں زبان کے استعمال کی ذہنی وجسمانی صلاحیت کی حامل تھی یا نہیں۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف کینساس سے منسلک انسانی تاریخ کے ماہر ڈیوڈ فریئر کی سربراہی میں کام کرنے والی ماہرین کی ایک ٹیم "نین ڈرتھلز" اور ان سے بھی پہلے کی انسانی نسل کے افراد کے دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسانی نسل میں زبان و بیان کا استعمال پانچ لاکھ برس سے رائج ہے۔

محققین کی اس ٹیم نے "نین ڈرتھلز" کے دانتوں پر موجود ان نشانات کا مطالعہ کیا ہے جو سائنسدانوں کے بقول پتھروں کے بنے ہوئے تیز دھار اوزاروں کی وجہ سے نقش ہوئے جو یہ لوگ شکار کیے گئے جانوروں کی کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے کیلیے استعمال کیا کرتے تھے۔

سائنسدانوں کے بقول ابتدائی دور کے یہ لوگ شکار کردہ جانوروں کا گوشت دانتوں سے نوچ کر کھایا کرتے تھے جس کیلیے بعض اوقات انہیں تیز دھار اوزاروں کی مدد بھی لینا پڑتی تھی۔

سائنسدانوں کا کہناہے کہ ان کے پاس موجود انسانی دانتوں کے تمام فوسلز پر ان اوزاروں کے جو نشانات پائے گئے ہیں ان کے زاویوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ اوزار تھامنے کیلیے اپنے دائیں ہاتھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔

سائنسدانوں کے مطابق اس انکشاف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" کا دماغ بھی موجودہ دور کے انسانوں کی طرح دو حصوں میں منقسم تھا جس کا بایاں حصہ ان کے ہاتھوں کے استعمال اور حرکات کو کنٹرول کرتا تھا۔

محققین کی ٹیم کے بقول چونکہ موجودہ انسانی دماغ کا بایاں حصہ ہی زبان کو سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے، لہذا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ "نین ڈرتھلز" بھی گفتگو کی صلاحیت رکھتے تھے۔

موجودہ تحقیق کے سامنے آنے سے قبل کئی سائنسدان یہ اصرار کرتے آئے تھے کہ "نین ڈرتھلز" کے منہ کی اندرونی ساخت کچھ ایسی تھی کہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے قابل نہیں تھے۔

تحقیق کے سربراہ ڈیوڈ فریئر کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی نسل میں گفتگو اور زبان کے فہم کی صلاحیت خاصی قدیم ہے۔

فریئر کی ٹیم نے جن انسانی دانتوں کے فوسلز پر تحقیق کی انہیں اسپین کے علاقے برگس کے ایک قدیمی غار سے برآمد کیا گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق مذکورہ فوسلز پانچ لاکھ سال قدیم ہیں اور ان کا تعلق "یورپی نین ڈرتھلز" کی ابتدائی نسلوں سے ہے۔

تحقیق کیلیے فریئر کی ٹیم نے کروشیا اور فرانس سے ملنے والے انسانی دانتوں کے قدیم فوسلز کا مطالعہ بھی کیا۔ مذکورہ تحقیق برطانوی جریدے "لیٹریلیٹی" میں شائع ہوئی ہے۔

نیندرتال انسانوں کا جد امجد نہیں البتہ نان افریقی انسانوں میں کچھ معمولی اینسسٹری نیندرتال سے ہے

نیندرتال میں بھی لینگویج جین فاکس پی ٹو پائی جاتی ہے
 

دوست

محفلین
عموماً یہی خیال ہے کہ عبرانی عربی کی ماں ہے. قرآن سے قبل کے آسمانی صحائف خصوصاً تورات زبور انجیل عبرانی میں ہی اتریں.
لسانی تاریخ پر تو تحقیق جاری رہے گی. مجھے خوشی ہے کہ قرآن ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ عربی زبانوں کی ماں ہے، الحمدللہ. ایک الہامی کتاب کبھی فروعات میں نہیں پڑتی. نہ ہی قرآن کوئی مبہم سائنسی دعوے کرتا ہے. ہاں حق کی طرف بلانے کے لیے دلائل میں برسبیل تذکرہ کوئی بات آ جائے تو الگ بات ہے.
باقی مسلمانوں کا ایمان جو مرضی کہتا رہے. ایسے ایمان کے پیچھے دلیل کم اور مذہبی تفاخر زیادہ کارفرما نظر آتا ہے. ایسا مذہبی تفاخر بت پرستوں سے لے کر اہل کتاب اور وحشی جنگلیوں تک سب میں کسی نہ کسی انداز میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور آج بھی ہے.
 

ساقی۔

محفلین
ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔

مذہب میں مجھے دلچسپی ضرور ہے مگر یہاں اصل مقصد یہ جاننا ہے کہ زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں اسی تناظر میں حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر آ گیا کیونکہ وہی تمام انسانوں کے جد امجد ہیں ۔
 

arifkarim

معطل
نئی زبانیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟
جب آدم علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے تو کونسی زبان بولتے تھے؟ اور بعد میں نئی زبانیں کیسے وجود میں آئیں؟
پہلے سوال کا جواب: نئی بولی بولنے سے
دوسرے سوال کا جواب: زبان آدم
http://en.wikipedia.org/wiki/Adamic_language

میرا ایمان ہے کہ صرف عربی زبان ہی ’’اُمّ الالسنۃ‘‘ یعنی زبانوں کی ماں ہے، کچھ لوگ عبرانی کو کہتے ہیں ۔ عربی ہی دنیا کی پہلی زبان تھی، دنیا کی دوسری زبانوں کی پیدائش عربی کے بعد ہوئی ہے اسی لئے عربی کے الفاظ دنیا کی ہر زبان میں ملتے ہیں
یہ دھاگہ نئی زبانوں کی تاریخ اور حقائق سے متعلق ہے۔ آپکے جذبہ ایمانی سے نہیں۔ :)

یہ آپ سے کس نے کہہ دیا ؟ :eek:
مذہبی جذباتیت اپنی جگہ لیکن کچھ لسانیات کی تاریخ پر ہی نظر ڈال لیتے۔
مولوی نے، اور کس نے؟ :D

ویسے اس دھاگے کو مذہبی زمرہ میں منتقل ہونا چاہیے کہ صاحب دھاگہ کی دلچسپی تاریخ لسانیات کی بجائے مذہبی تاریخ میں ہے۔
غلط! حضرت آدم علیہلسلم کا وجود اگر انسانی ہے تو انکا ایک خاص علاقائی زبان بولنا فطری عمل ہے۔ اگر ہمیں جدید سائنس سے یہ معلوم ہو جائے کہ حضرت آدم علیہلسلم کس علاقہ اور زمانہ تاریخ سے تعلق رکھتےتھے تو ہم اس وقت کی تہذیب کے مطابق انکی بولی کا تعین کر سکتے ہیں۔



بولنے والی زبان کا پتا لگانا ناممکن ہے۔ ہاں لکھی زبانوں کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں

غلط! جو زبان بولی جا تی ہے وہ اکثر لکھی بھی جاتی ہے۔

ہماری لاپروائی سے۔
یہ لاپرواہی صرف عربی کیساتھ ہی کیوں؟ :)
The first recorded text in the Arabic alphabet was written in 512. It is a trilingual dedication in Greek, Syriac and Arabic found at Zabad in Syria. The version of the Arabic alphabet used includes only 22 letters, of which only 15 are different, being used to note 28 phonemes
http://en.wikipedia.org/wiki/History_of_the_Arabic_alphabet#Pre-Islamic_Arabic_inscriptions


ہم نے عربی زبان کے قدیم آثار کو جمع کرنے کی کوشش جس طرح کرنا چاہیے تھا نہیں کی۔

غلط۔ اوپر پوسٹ دیکھیں۔ جذبہ ایمانی ہی سب کچھ نہیں ہوتا!

کیسے ملے گا جب حفاظت کا اہتمام ہی نہیں ہوا۔
ویسے فارسٹر کا جغرافیہ دیکھیں، اس میں چھٹی صدی سے قبل کے بھی کتبات کی نشاندہی کی گئی ہے۔
یعنی آپکی منطق کے مطابق اگر کسی زبان کی حفاظت کا خاص اہتمام نہ کیا جائے تو وہ تاریخ کیساتھ معدوم ہو جاتی ہے۔ تو پھر عربی آج تک معدوم کیوں نہیں ہوئی؟ :)
نیز اسی خطے کی دیگر سامی زبانیں آج تک موجود ہیں:
http://ur.wikipedia.org/wiki/سامی_زبانیں
 
Top